شین وارن کی کہانی ان کی اپنی زبانی
میں بہت زیادہ کامیابیوں سے لطف اندوز ہوا ہوں جبکہ شکست کا مزہ کم ہی چکھا ہے، سابق اسپنر
2000ء میں وزڈن کرکٹ المینک نے گزشتہ صدی کے پانچ بہترین کرکٹرز کا انتخاب سو ماہرین کے ذریعے کیا۔
ڈان بریڈمین، گیری سوبرز، جیک ہابز اور ویو رچررڈز کے ساتھ پانچواں نام شین وارن کا تھا، جنہیں اس وقت بین الاقوامی کرکٹ کھیلتے ہوئے صرف آٹھ برس ہوئے تھے۔ آسٹریلوی کرکٹر رچی بینو کے بقول، شین وارن نے مختصر عرصے میں لیگ اسپن بالنگ کی افادیت ثابت کر کے دنیائے کرکٹ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں، ''1940ء کے بعد ہر لیگ اسپن بالر کو دیکھا لیکن شین وارن ان سب سے عظیم تھے۔
ان کو کھیلتے ہوئے دیکھنا مسرت اور اعزاز کی بات تھی۔'' عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر نے ایک انٹرویو کے دوران ہمیں بتایا، ''شین وارن نے ٹیسٹ کرکٹ میں سات سو وکٹیں لیں، وہ تاریخ کا سب سے بڑا اسپنر ہے۔ میرے لیے تو یہی بڑا اعزاز ہے کہ اس کے ساتھ میرا موازنہ کیا جاتا ہے۔''
شین وارن نے 2005ء میں اپنا آخری ون ڈے کھیلا، دو سال بعد جنوری 2007ء میں ٹیسٹ کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کی کتاب "Shane Warne: My illustrated Career" 2006ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے آغاز میں انہوں نے ''تعارف'' کے عنوان سے اپنی ابتدائی زندگی اور کرکٹ کیرئیر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہرشخص میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے پہچان نہیں پاتے۔ ہو سکتا ہے آپ ایک عظیم لکھاری بننے کی پوری قابلیت رکھتے ہوں، لیکن آپ نے خریداری کی فہرست لکھنے کے سوا کبھی قلم نہ تھاما ہو۔ یا ایک مثالی استاد بننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود آپ نے ساری زندگی دفتری فائلیں پڑھنے میں کھپا دی ہو۔ میرا شمار خوش قسمت افراد میں ہوتا ہے۔ مجھ میں کرکٹ بال کو اسپن کرنے کی صلاحیت کہاں سے آئی؟ سچ یہ ہے کہ میں نہیں جانتا۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے یہ قابلیت دے کر ہی اس دنیا میں بھیجا گیا۔ میں ایک کرکٹر بن سکتا تھا اور خوش قسمتی سے اس کھیل کا حصہ بن بھی گیا۔
پندرہ برس سے زیادہ آسٹریلین ٹیم کا حصہ رہا اور خوش قسمتی سے یہ ہماری ٹیم کا کامیاب ترین دور تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ سب کیسے شروع ہوا، اور کیسے اب صرف اپنی کھیل کی سمجھ بوجھ کے بدولت آسانی سے مختلف ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں اپنی سکول ٹیم اور مقامی کلب کے لیے کھیلا، لیکن لڑکپن میں کرکٹ میرے لیے محض ایک مشغلہ تھی۔ ایشز رولز (آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ایک کھیل) میری پہلی اور ٹینس دوسری محبت تھی۔ کرکٹ تیسرے نمبر پر آتی تھی۔
1989ء میں جب ایشز رولز کے میرے محبوب کلب سینٹ کیلڈا (st kilda) نے مجھے اپنی ٹیم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، میرے لیے سب کچھ بدل گیا۔ میں اس کھیل میں سست اور قد کے معاملے میں بھی دوسروں سے کم تر تھا۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ اب میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں نے ایک دوست رک گوگ کے ساتھ برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ برسٹول میں کلب کرکٹ کھیل سکوں۔ اس کے بعد سے کرکٹ کی دھن مجھ پر سوار ہو گئی۔ پروفیشنل کرکٹ کھیلنے کی کسی منصوبہ بندی کے بغیر میں سارا سارا دن اس کھیل میں مگن رہتا۔ کلب لیول پہ میری کارکردگی میں کچھ نکھار آیا، آسٹریلیا میں وکٹوریا ٹیم سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور جلد ہی سڈنی میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہا تھا۔ یہ 1991/92ء کا ذکر ہے اور یہ سب بہت جلدی سے ہو گیا۔
اس وقت سے آج تک میرے ساتھ بہت کچھ بیت چکا ہے، لیکن میرے لیے سب سے زیادہ قابل فخر لمحہ وہی ہے جب میں نے اس دن برقی اسکور بورڈ پر یہ الفاظ پڑھے: ''مبارکباد، شین وارن۔ آپ آسٹریلیا کے 350 ویں ٹیسٹ کھلاڑی ہیں۔'' تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ ٹیسٹ کرکٹ کو 110 سے زیادہ برس ہو چکے تھے اور اس عرصے میں صرف 350 کھلاڑیوں نے ہمارے عظیم ملک کی نمائندگی کی تھی۔ ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک اعلیٰ طبقے کا حصہ بن گیا ہوں۔ کسی حقیقی کوشش یا استحقاق کے بغیر ٹیم میں جگہ مل گئی تھی۔
مجھے اردگرد کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگا۔ لیکن کرکٹ جلد ہی میرا جنون بن گئی۔ آغاز میں لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، اگرچہ ہم سب بڑے سپنے اور خواہشات رکھتے ہیں۔ پہلے میچ میں میری کارکردگی خاصی بری رہی، انڈیا نے 483 رنز کے انبار تلے ہمیں دبا دیا اور میرے اعداد و شمار کچھ یوں تھے: 45-7-150-1 ۔ مردوں کی ٹیم میں شامل ایک لڑکے کے بارے میں کچھ مزید باتیں یہ ہیں: جلد ہی میں نے ٹیم کی جیت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک پھنسے ہوئے میچ میں تین وکٹیں حاصل کر کے سری لنکا کو ہرانے میں اپنی ٹیم کی مدد کی، پھر 1992ء کے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 52 رنز کے عوض سات وکٹیں حاصل کیں۔ اور جب میں نے اپنے ایشز کریئر کی ابتدا ایک ایسی گیند سے کی جو مائیک گیٹنگ کو حیران کرتے ہوئے تیزی سے گھومتی ہوئی وکٹوں کو جا لگی، ایک بالکل نئی شروعات کا آغاز ہوا۔
میں نے کرکٹ کی تاریخ اور روایات کو سمجھنا شروع کیا۔ ماضی کے کھلاڑیوں اور ان کے کارناموں کے بارے میں پڑھا۔ سب سے بہترین بات تجربہ کار کھلاڑیوں سے طویل گفتگو تھی، ان میں ایلن بارڈر، آئن چیپل اور روڈ مارش جیسے عظیم نام شامل ہیں۔ ایسے کرکٹر جو کھیل کی باریکیوں سے واقف ہیں، ان کی باتیں سننا شاندار تجربہ تھا۔ پھر میری ملاقات سابق آسڑیلوی لیگ اسپنر ٹیری جینر سے ہوئی، جو ایک آزاد خیال اور غیر روایتی انسان تھے۔ وہ میرے بہت اچھے دوست بن گئے، جب مجھ سے کوئی چیز نہ ہو رہی ہوتی تو رہنمائی کے لیے ان سے رجوع کرتا۔ میں خود کو ایک باقاعدہ اسپن بالر محسوس کرنے لگا، جو ہر بار گیند کو زیادہ سے زیادہ گھمانے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ بلے بازوں کے ذہنوں کو پڑھتے ہوئے وکٹ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ منصوبہ بندی سے گیندبازی کرنا عام بالنگ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کب/ کیوں / کون سی بال کریں گے، یعنی آپ بلے باز کے غلطی کرنے کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ اپنے دماغ سے اسے شکست دیتے ہیں۔
کرکٹ میرے لیے بہترین چیز رہی ہے، لیکن مجھے اس راہ میں بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ گھر سے دور زیادہ وقت گزارنا کسی بھی رشتے کو شدید دبائو کا شکار کر دیتا ہے۔ مطلب میں ایک والد کے طور پر اپنے خاندان کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزار سکا جتنا ایک 'نارمل کام' کرتے ہوئے گزارتا۔ ان دنوں کھیل میں کامیاب ہونے کی خاطر خود کو اس کے لیے وقف کرنا پڑتا ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ کرکٹ کی وجہ سے میں نے اپنی ذاتی زندگی میں بہت زیادہ قیمت چکائی ہے، علاوہ ازیں کچھ غلط فیصلے بھی مجھ سے ہوئے۔ بدقسمتی سے آپ صرف مختصر مدت کے لیے بطور کرکٹر آسٹریلیا کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ میرا کیریئر زیادہ تر کھلاڑیوں سے طویل رہا ہے لیکن، اگر قسمت مہربان رہی، یہ میری زندگی کا صرف 20 فیصد حصہ ہو گا۔
آپ نے اس مختصر عرصے میں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنی ہوتی ہیں۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت زیادہ کوالٹی وقت گزارنا چاہتا ہوں، میرے بچے میری زندگی کی خوشی اور امنگ ہیں۔ میں ان سے بہت پیار کرتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنا سارا وقت گزارنے کے لیے بے تاب ہوں۔ تاکہ انہیں بڑا ہوتے دیکھ کر لطف اندوز ہوں اور ان کے ساتھ رہوں۔
کرکٹ اعداد و شمار سے بھرپور کھیل ہے، دیگر کھلاڑیوں اور ادوار سے موازنہ بھی عام ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ایک مخصوص دور کے اچھے کھلاڑی تھے، تو آپ دوسرے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے کھیل میں تبدیلی لانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایک سو، دو سو، تین سو ٹیسٹ وکٹوں سے چھے سو ٹیسٹ وکٹوں تک، جب بھی کوئی سنگ میل عبور کیا، مجھے خود پر ناقابل بیان فخر محسوس ہوا۔ (ایک وقت میں) سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کرنا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، جس پر مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔
میں یاد کر سکتا ہوں جب مجھے کچھ کامیابی ملنا شروع ہوئی تو لوگوں نے میری مجموعی وکٹوں کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگانا شروع کر دیئے۔ 600 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنا مجھے مضحکہ خیز اور ناقابل یقین لگتا تھا۔ ریکارڈ ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ اوپر کی کوئی حد قائم کر سکتے ہیں۔ اہداف طے کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ میرا کام ہی یہی ہے کہ جب بھی فیلڈ میں جائوں زیادہ سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کی کوشش کروں۔
میرے خیال میں کرکٹ کی تاریخ میں، میں نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ چاہے میں جتنے ٹیسٹ کھیلوں اور وکٹیں حاصل کروں، میں یہ سوچنا پسند کرتا ہوں کہ میری سب سے بڑی کنٹری بیوشن یہ ہے کہ میں نے اسپن بالنگ کو دلچسپ اور مقبول بنا دیا ہے، اور نوجوانوں کو اس عظیم کھیل کی طرف مائل کیا ہے۔ ان دنوں کپتان اسپن بالنگ کو جارحانہ حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں، ماسوائے شاید برطانیہ کے، جہاں ابھی بھی کچھ زیادہ توقع رکھنے کے بجائے یہ سوچ ہوتی ہے کہ رنز کی رفتار کم کی جائے۔
80ء کی دہائی کے اختتام اور 90ء کی دہائی کے آغاز میں اسپنر اسی وقت آتے تھے جب کوئی ٹیم دفاع کرنا چاہتی تھی۔ اگر کوئی کپتان وکٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتا تو اس کے انتخاب کی فہرست میں اسپنر کہیں آخر پہ ہوتا۔ ایک اسپل شروع کرنے سے پہلے اگر یہ وقفے کے وقت سے کچھ دیر پہلے ہو، میری بہترین نصیحت یہی ہوتی ہے: قائم رہو۔ تمھیں مختلف چیزیں آزمانے کی ضرورت نہیں ہے، صرف ردھم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ تماشائی اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے آتے ہیں لیکن وہ جوش و جذبہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ برطانیہ میں بہت مقبول ہے اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیل رہی ہے۔میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کھیل میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے اور ہر میچ میں حریف کا بھرپور مقابلہ کیا ہے، چاہے یہ سینٹ کیلڈا، وکٹوریا، ہمشائر یا آسٹریلیا کی ٹیم ہو۔ میں نے بہترین کھلاڑی بننے کی کوشش کی ہے، جتنا میں بن سکتا تھا۔
جی ہاں، میدان میں اور میدان سے باہر مجھ سے کچھ حماقتیں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ کچھ احباب ایسے ہیں جو مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں، اور میں اعتراف کرتا ہوں، کبھی کبھار وہ درست بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ مجھے پسند کریں یا ناپسند، وہ پھر بھی مجھ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اور آپ باقی سب باتوں کو نظرانداز کریں تو میرے خیال میں اس کی وجہ میرے کھیلنے کا انداز ہے۔
ان دنوں کرکٹ کو صرف دوسرے کھیلوں سے ہی نہیں، بلکہ کمپیوٹر اور ٹی وی چینلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی مسابقت کا سامنا ہے۔ بچوں کے لیے بہت زیادہ آپشنز موجود ہیں اور ایک کرکٹر کے طور پر ہمیں اپنی یہ ذمہ داری نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم اپنے کھیل کو پرکشش رکھنا یقینی بنائیں۔ اسپن بالنگ میں آپ اکیلے ہو سکتے ہیں۔ کئی دفعہ آپ ٹیم میں اکیلے اسپنر ہوتے ہیں، فلیٹ پچ پر جب کھیل کے شروع میں گیند زیادہ نہیں گھومتا اور بلے باز حاوی ہوتے ہیں، ایسی صورت میں گیندبازی کرنے میں بہت زیادہ حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس میں آپ بائونسر کر کے بلے باز کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اگرچہ میں نے کچھ موقعوں پر اس کی بھی کوشش کی ہے۔ آپ کو صرف یہ پرانا کلیشے یاد رکھنا پڑتا ہے: وکٹ حاصل کرنے کے لیے صرف ایک گیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس کی کبھی فکر نہیں کرتا جب ایک بلے باز مجھے بائونڈری لگانے کے لیے کریز سے باہر نکلتا ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں بالآخر اس کی قسمت اس کا ساتھ دینا چھوڑ دے گی۔
بلکہ لوگ جانتے ہیں کہ میں ایسا کرنے کے لیے بلے باز کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تاکہ مجھے (وکٹ حاصل کرنے کا) موقع مل سکے۔ میں چاہتا ہوں کہ گیند کو صرف روکنے یا کھیلنے کے بجائے کوئی مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔ اگر بلے باز مجھے نشانہ بنائیں گے، میں سمجھتا ہوں میرے پاس وکٹ حاصل کرنے کا موقع زیادہ ہو گا۔ مجھے اذیت ہوتی ہے جب بلے باز سکور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
تیز گیندبازوں کو جارح مزاج سمجھا جاتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں تھوڑی بہت یہ خصوصیت میرے اندر بھی ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب ایک بلے باز گیند کھیلنے کی کوشش میں ایج ہوتے ہوتے بچتا ہے اور وہ حیرت زدہ نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسے مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جب وہ ایک زوردار شاٹ کھیل کر گیند کو تماشائیوں کے پاس بھیجتا ہے، تو میںکیوں اس کی پروا کروں جب صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
یقیناً، میدان سے باہر ایسا نہیں ہے اور میں نے حریف ٹیموں میں کچھ اچھے دوست بنائے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ دوستیاں باقی رہ جائیں گی، اور آخر میں دوستی، وفاداری اور خاندان ہی زندگی میں سب سے اہم چیزیں ہوتی ہیں، جب کہ وکٹیں حاصل کرنا ایک تفریح کی طرح ہے۔
میں اپنے کیریئرکو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ جن کو میں ابتدائی سال شمار کرتا ہوں وہ 1998ء کے آس پاس ختم ہوتے ہیں۔ یہ وہ برس تھے جب میں اس ہنر کے بارے میں فی الواقع سیکھ رہا تھا اور ایک انٹرنیشنل کھلاڑی کی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔ زیادہ تر آسٹریلیا کی خواہش پہلے بیٹنگ کرنا ہوتی، اس کا مطلب ہے کہ چوتھی اننگز میں جب پچ اسپن بالنگ کے لیے سازگار ہوتی مجھے بالنگ کرنے کا زیادہ موقع ملا۔ 1998ء کے وسط سے چیزیں بدلنے لگیں اور 2001ء میں انڈیا میں ہونے والی سیریز، جس میں ہندوستان نے کلکتہ میں فالو آن کر کے ہمیں شکست دی۔
اس عرصے کے دوران مجھے کچھ سنجیدہ انجریز ہو گئی تھیں۔ لیگ اسپن بالنگ کرنا جسم پر بہت زیادہ دبائو ڈالتا ہے کیونکہ یہ انداز غیرفطری ہے۔ زیادہ کھیلنے کے سبب جو معمول کے مسائل ہوتے ہیں ان کے ساتھ مجھے کندھے اور اسپن کرنے والی انگلی میں تکلیف کا بھی سامنا تھا۔ میں نے ٹیسٹ میچوں میں بہت زیادہ اوور کیے اور میں دوسری فرسٹ کلاس کرکٹ بھی کھیل رہا تھا، اس کے ساتھ ون ڈے کرکٹ بھی شامل کر دیں اور نتیجہ یہی نکلا کہ میرے کئی آپریشن ہوئے۔
اس کے بعد میرے ایکشن میں کچھ مسائل نمودار ہونے لگے، اور اگرچہ میں اس کا اعتراف کرنا پسند نہیں کرتا کہ اس وقت شاید میں زیادہ موثر نہیں رہا تھا۔ میں بہانے بازی بالکل بھی نہیں کر رہا۔ یہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ میری انگلی، کندھے اور گھٹنے کا آپریشن ہوا۔ اس میں یہ بھی اضافہ کر لیں کہ انڈیا اور کچھ دوسری ٹیمیں مجھے بہتر طریقے سے کھیل رہی تھیں، چنانچہ ایسے نتائج سامنے آئے۔
اس وقت سے اور 2003ء میں جب مجھے زبردستی آرام دیا گیا تب سے، میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ سے بہتر بالنگ کی ہے۔ گزشتہ دو سال زبردست رہے ہیں، بالخصوص 2005ء جب میں نے پانچ ایشز ٹیسٹ میچوں میں 40 وکٹیں حاصل کیں، جو برطانیہ کے خلاف کسی آسٹریلوی اسپنر کا بہترین ریکارڈ ہے۔ اور اسی برس مجموعی طور پر 96 وکٹیں میرے نام ہوئیں، جو کہ عظیم ڈینس للی کے ایک کیلنڈر سال میں 85 وکٹوں کے ریکارڈ سے زیادہ ہے۔
اس کے مقابلے میں، 1993ء کے دوران، اس سے ایک زیادہ میچ کھیل کر میں نے 72 وکٹیں حاصل کی۔ ایک سال جب میں کرکٹ سے باہر رہا، اگرچہ میں یہ چاہتا نہیں تھا، اس میں میرے جسم کو بالکل ٹھیک ہونے کے لیے ضروری وقت مل گیا۔ جب میں لگاتار کئی میچ کھیل لوں، میری کمر اور گھٹنوں میں ہلکا سا کھچائو پیدا ہوتا ہے، لیکن احتیاط سے اس مسئلے سے نمٹتے ہوئے میں اب بھی موثر ثابت ہو سکتا ہوں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے کریئر کے دوسرے نصف میں ٹیسٹ کرکٹ تبدیل ہو گئی۔ اس کی جزوی وجہ ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ اس کے انداز اور حربوں کا اثر ٹیسٹ کرکٹ پر بھی پڑا۔ اس طرز کا آغاز آسٹریلیا نے کیا، آپ غالباً ایڈم گلگرسٹ کی شمولیت کو ٹرننگ پوائنٹ کہہ سکتے ہیں، اور دوسرے ممالک نے ہماری پیروی کی۔
اب رنز بنانے کی شرح خاصی زیادہ ہے کیونکہ بلے باز خطرات مول لینے کے لیے تیار ہیں لیکن، جیسے میں نے پہلے کہا، بیٹسمین جتنا جارحانہ انداز اپناتا ہے ، اتنا ہی میرے وکٹ لینے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے مجھے آج کل کچھ زیادہ رنز پڑتے ہوں، لیکن میرا اسٹرائیک ریٹ پہلے سے کم ہے۔ یہ سب کرکٹ کے عظیم کھیل کے لیے بہت اچھا ہے۔ اب دیکھیں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، مطلب 400 رنز بھی دسترس میں ہیں۔
اگر میرے جسم کے لیے اب بھی ہر گیند کو زیادہ سے زیادہ لیگ بریک کرنا ممکن ہو، میں یہ راہ اختیار نہیں کروں گا۔ میں آج پہلے سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا ہوں۔ یہ چیز صرف تجربے سے آتی ہے۔ راز یہ ہے کہ آپ ایک پراسرار فضا قائم رکھیں اور ثابت قدم رہیں۔ اگر بلے باز گیند کے بہت زیادہ گھومنے کی توقع کر رہا ہے تو ایک سادہ، سیدھی بال بھی تباہ کن ہو سکتی ہے۔
سکوربک میں سب گیندیں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ان دنوں میں بہت سی ویری ایشنز آزماتا ہوں۔ جب میں کہتا ہوں کہ میں ایک نئی بال پر کام کر رہا ہوں، لوگ اس پر نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ ایک سادہ لیگ بریک میں بھی بہت سی فنی باریکیاں ہوتی ہیں۔ آپ مختلف درجوں کی اسپن آزما سکتے ہیں اور کریز کے مختلف حصوں، وکٹوں کے قریب یا دور سے گیند پھینک سکتے ہیں۔
میں پہلے کی طرح اب بھی بال کو زیادہ سے زیادہ گھما سکتا ہوں، اگرچہ پہلے جیسے تسلسل کے ساتھ نہیں۔ اوول میں 2005ء میں، مارکوس ٹریسکاتھک کو کی گئی ایک بال دور سے گھومتی ہوئی وکٹوں کی طرف آئی۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم دونوں میں سے کون زیادہ چکرا کر رہ گیا، لیکن اپنی باقی ماندہ اننگز میں وہ پہلے جیسا پراعتماد کھلاڑی نہیں تھا۔ میں کچھ وقت صرف کر کے بیٹسمین پر کام کرتا ہوں اور عموماً اس طرح وکٹیں حاصل کرتا ہوں۔
اس کی ایک اچھی مثال لارڈز کی ہے جہاں میں نے آئن بیل کو اس امید سے کچھ زیادہ لیگ اسپن ہونے والی گیندیں کیں کہ میں ایک سیدھی بال سے اسے ایل بی ڈبلیو یا بولڈ کر سکتا ہوں۔ حکمت عملی عین اسی طرح کامیاب رہی۔ اور بسا اوقات میں بالنگ اینڈ پر کھڑے بلے باز کے لیے گیندبازی کرتا ہوں۔ عجیب لگتا ہے؟ بات یہ ہے کہ اگر وہ کافی عرصے سے فارم میں نہیں یا اسپن کو کھیلنے میں اچھا نہیں ہے تو میں کوئی خلاف معمول چیز کر کے شک کا بیج اس وقت کے لیے تیار رکھتا ہوں جب وہ گیند کا سامنا کرنے آئے۔
سب سے بڑھ کر میں خوش قسمت ہوں کہ ایسے دور میں آسٹریلیا کے لیے کھیلا جو ملکی کرکٹ تاریخ میں بہترین وقت تھا۔ میں تمام عرصہ اعلیٰ درجے کی ٹیم کی طرف سے کھیلا اور بہت سے کھلاڑی میرے بہت قریبی دوست بن چکے ہیں اور میرے لیے کھیل کا مطلب یہی ہے۔ امید کرتا ہوں یہ کہہ کر کہ اس کامیابی میں میں نے بھی حصہ ڈالا ہے، میں مغرور نہیں سمجھا جائوں گا۔
کرکٹ کا بہت سے دوسرے کھیلوں کے ساتھ موازنہ عجیب ہے، کیونکہ اس میں بہت سے انفرادی اعداد و شمار ہوتے ہیں جبکہ یہ فی الواقع ٹیم گیم ہے۔ سب سے اہم اعداد و شمار جیت اور شکستیں ہیں۔ میں بہت زیادہ کامیابیوں سے لطف اندوز ہوا ہوں جبکہ شکست کا مزہ کم ہی چکھا ہے۔
اچھا اس کا اختتام کب ہو گا؟ مجھ سے یہ سوال آٹھ سال سے پوچھا جا رہا ہے، جب کندھے میں تکلیف کی وجہ سے مجھے کچھ مسائل کا سامنا تھا۔ اوول میں، جب میں گلین میگراتھ کے ساتھ میدان سے باہر آیا، میں ایمانداری سے سمجھتا تھا کہ بطور ایک آسٹریلوی کھلاڑی میں برطانیہ میں اپنی آخری گیند کر چکا ہوں۔ اگر ہم نے وہ میچ جیت کر ایشز ٹرافی برقرار رکھی ہوتی، تو شاید میں ریٹائر ہونے کا فیصلہ بھی کر لیتا۔ اب میں پہلے سے زیادہ گومگو کا شکار ہوں۔
آپ صرف ایک بار ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ جب آپ چلے جاتے ہیں تو پھر بس اختتام! جب مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی نوجوان کھلاڑی کا راستہ روک رہا ہوں یا میں اپنے ساتھیوں کی توقعات پہ پورا نہیں اتر رہا، تو وہ جانے کے فیصلے کا وقت ہو گا۔
ڈان بریڈمین، گیری سوبرز، جیک ہابز اور ویو رچررڈز کے ساتھ پانچواں نام شین وارن کا تھا، جنہیں اس وقت بین الاقوامی کرکٹ کھیلتے ہوئے صرف آٹھ برس ہوئے تھے۔ آسٹریلوی کرکٹر رچی بینو کے بقول، شین وارن نے مختصر عرصے میں لیگ اسپن بالنگ کی افادیت ثابت کر کے دنیائے کرکٹ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں، ''1940ء کے بعد ہر لیگ اسپن بالر کو دیکھا لیکن شین وارن ان سب سے عظیم تھے۔
ان کو کھیلتے ہوئے دیکھنا مسرت اور اعزاز کی بات تھی۔'' عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر نے ایک انٹرویو کے دوران ہمیں بتایا، ''شین وارن نے ٹیسٹ کرکٹ میں سات سو وکٹیں لیں، وہ تاریخ کا سب سے بڑا اسپنر ہے۔ میرے لیے تو یہی بڑا اعزاز ہے کہ اس کے ساتھ میرا موازنہ کیا جاتا ہے۔''
شین وارن نے 2005ء میں اپنا آخری ون ڈے کھیلا، دو سال بعد جنوری 2007ء میں ٹیسٹ کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کی کتاب "Shane Warne: My illustrated Career" 2006ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے آغاز میں انہوں نے ''تعارف'' کے عنوان سے اپنی ابتدائی زندگی اور کرکٹ کیرئیر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہرشخص میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے پہچان نہیں پاتے۔ ہو سکتا ہے آپ ایک عظیم لکھاری بننے کی پوری قابلیت رکھتے ہوں، لیکن آپ نے خریداری کی فہرست لکھنے کے سوا کبھی قلم نہ تھاما ہو۔ یا ایک مثالی استاد بننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود آپ نے ساری زندگی دفتری فائلیں پڑھنے میں کھپا دی ہو۔ میرا شمار خوش قسمت افراد میں ہوتا ہے۔ مجھ میں کرکٹ بال کو اسپن کرنے کی صلاحیت کہاں سے آئی؟ سچ یہ ہے کہ میں نہیں جانتا۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے یہ قابلیت دے کر ہی اس دنیا میں بھیجا گیا۔ میں ایک کرکٹر بن سکتا تھا اور خوش قسمتی سے اس کھیل کا حصہ بن بھی گیا۔
پندرہ برس سے زیادہ آسٹریلین ٹیم کا حصہ رہا اور خوش قسمتی سے یہ ہماری ٹیم کا کامیاب ترین دور تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ سب کیسے شروع ہوا، اور کیسے اب صرف اپنی کھیل کی سمجھ بوجھ کے بدولت آسانی سے مختلف ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں اپنی سکول ٹیم اور مقامی کلب کے لیے کھیلا، لیکن لڑکپن میں کرکٹ میرے لیے محض ایک مشغلہ تھی۔ ایشز رولز (آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ایک کھیل) میری پہلی اور ٹینس دوسری محبت تھی۔ کرکٹ تیسرے نمبر پر آتی تھی۔
1989ء میں جب ایشز رولز کے میرے محبوب کلب سینٹ کیلڈا (st kilda) نے مجھے اپنی ٹیم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، میرے لیے سب کچھ بدل گیا۔ میں اس کھیل میں سست اور قد کے معاملے میں بھی دوسروں سے کم تر تھا۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ اب میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں نے ایک دوست رک گوگ کے ساتھ برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ برسٹول میں کلب کرکٹ کھیل سکوں۔ اس کے بعد سے کرکٹ کی دھن مجھ پر سوار ہو گئی۔ پروفیشنل کرکٹ کھیلنے کی کسی منصوبہ بندی کے بغیر میں سارا سارا دن اس کھیل میں مگن رہتا۔ کلب لیول پہ میری کارکردگی میں کچھ نکھار آیا، آسٹریلیا میں وکٹوریا ٹیم سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور جلد ہی سڈنی میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہا تھا۔ یہ 1991/92ء کا ذکر ہے اور یہ سب بہت جلدی سے ہو گیا۔
اس وقت سے آج تک میرے ساتھ بہت کچھ بیت چکا ہے، لیکن میرے لیے سب سے زیادہ قابل فخر لمحہ وہی ہے جب میں نے اس دن برقی اسکور بورڈ پر یہ الفاظ پڑھے: ''مبارکباد، شین وارن۔ آپ آسٹریلیا کے 350 ویں ٹیسٹ کھلاڑی ہیں۔'' تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ ٹیسٹ کرکٹ کو 110 سے زیادہ برس ہو چکے تھے اور اس عرصے میں صرف 350 کھلاڑیوں نے ہمارے عظیم ملک کی نمائندگی کی تھی۔ ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک اعلیٰ طبقے کا حصہ بن گیا ہوں۔ کسی حقیقی کوشش یا استحقاق کے بغیر ٹیم میں جگہ مل گئی تھی۔
مجھے اردگرد کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگا۔ لیکن کرکٹ جلد ہی میرا جنون بن گئی۔ آغاز میں لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، اگرچہ ہم سب بڑے سپنے اور خواہشات رکھتے ہیں۔ پہلے میچ میں میری کارکردگی خاصی بری رہی، انڈیا نے 483 رنز کے انبار تلے ہمیں دبا دیا اور میرے اعداد و شمار کچھ یوں تھے: 45-7-150-1 ۔ مردوں کی ٹیم میں شامل ایک لڑکے کے بارے میں کچھ مزید باتیں یہ ہیں: جلد ہی میں نے ٹیم کی جیت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک پھنسے ہوئے میچ میں تین وکٹیں حاصل کر کے سری لنکا کو ہرانے میں اپنی ٹیم کی مدد کی، پھر 1992ء کے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 52 رنز کے عوض سات وکٹیں حاصل کیں۔ اور جب میں نے اپنے ایشز کریئر کی ابتدا ایک ایسی گیند سے کی جو مائیک گیٹنگ کو حیران کرتے ہوئے تیزی سے گھومتی ہوئی وکٹوں کو جا لگی، ایک بالکل نئی شروعات کا آغاز ہوا۔
میں نے کرکٹ کی تاریخ اور روایات کو سمجھنا شروع کیا۔ ماضی کے کھلاڑیوں اور ان کے کارناموں کے بارے میں پڑھا۔ سب سے بہترین بات تجربہ کار کھلاڑیوں سے طویل گفتگو تھی، ان میں ایلن بارڈر، آئن چیپل اور روڈ مارش جیسے عظیم نام شامل ہیں۔ ایسے کرکٹر جو کھیل کی باریکیوں سے واقف ہیں، ان کی باتیں سننا شاندار تجربہ تھا۔ پھر میری ملاقات سابق آسڑیلوی لیگ اسپنر ٹیری جینر سے ہوئی، جو ایک آزاد خیال اور غیر روایتی انسان تھے۔ وہ میرے بہت اچھے دوست بن گئے، جب مجھ سے کوئی چیز نہ ہو رہی ہوتی تو رہنمائی کے لیے ان سے رجوع کرتا۔ میں خود کو ایک باقاعدہ اسپن بالر محسوس کرنے لگا، جو ہر بار گیند کو زیادہ سے زیادہ گھمانے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ بلے بازوں کے ذہنوں کو پڑھتے ہوئے وکٹ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ منصوبہ بندی سے گیندبازی کرنا عام بالنگ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کب/ کیوں / کون سی بال کریں گے، یعنی آپ بلے باز کے غلطی کرنے کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ اپنے دماغ سے اسے شکست دیتے ہیں۔
کرکٹ میرے لیے بہترین چیز رہی ہے، لیکن مجھے اس راہ میں بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ گھر سے دور زیادہ وقت گزارنا کسی بھی رشتے کو شدید دبائو کا شکار کر دیتا ہے۔ مطلب میں ایک والد کے طور پر اپنے خاندان کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزار سکا جتنا ایک 'نارمل کام' کرتے ہوئے گزارتا۔ ان دنوں کھیل میں کامیاب ہونے کی خاطر خود کو اس کے لیے وقف کرنا پڑتا ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ کرکٹ کی وجہ سے میں نے اپنی ذاتی زندگی میں بہت زیادہ قیمت چکائی ہے، علاوہ ازیں کچھ غلط فیصلے بھی مجھ سے ہوئے۔ بدقسمتی سے آپ صرف مختصر مدت کے لیے بطور کرکٹر آسٹریلیا کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ میرا کیریئر زیادہ تر کھلاڑیوں سے طویل رہا ہے لیکن، اگر قسمت مہربان رہی، یہ میری زندگی کا صرف 20 فیصد حصہ ہو گا۔
آپ نے اس مختصر عرصے میں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنی ہوتی ہیں۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت زیادہ کوالٹی وقت گزارنا چاہتا ہوں، میرے بچے میری زندگی کی خوشی اور امنگ ہیں۔ میں ان سے بہت پیار کرتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنا سارا وقت گزارنے کے لیے بے تاب ہوں۔ تاکہ انہیں بڑا ہوتے دیکھ کر لطف اندوز ہوں اور ان کے ساتھ رہوں۔
کرکٹ اعداد و شمار سے بھرپور کھیل ہے، دیگر کھلاڑیوں اور ادوار سے موازنہ بھی عام ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ایک مخصوص دور کے اچھے کھلاڑی تھے، تو آپ دوسرے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے کھیل میں تبدیلی لانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایک سو، دو سو، تین سو ٹیسٹ وکٹوں سے چھے سو ٹیسٹ وکٹوں تک، جب بھی کوئی سنگ میل عبور کیا، مجھے خود پر ناقابل بیان فخر محسوس ہوا۔ (ایک وقت میں) سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کرنا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، جس پر مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔
میں یاد کر سکتا ہوں جب مجھے کچھ کامیابی ملنا شروع ہوئی تو لوگوں نے میری مجموعی وکٹوں کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگانا شروع کر دیئے۔ 600 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنا مجھے مضحکہ خیز اور ناقابل یقین لگتا تھا۔ ریکارڈ ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ اوپر کی کوئی حد قائم کر سکتے ہیں۔ اہداف طے کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ میرا کام ہی یہی ہے کہ جب بھی فیلڈ میں جائوں زیادہ سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کی کوشش کروں۔
میرے خیال میں کرکٹ کی تاریخ میں، میں نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ چاہے میں جتنے ٹیسٹ کھیلوں اور وکٹیں حاصل کروں، میں یہ سوچنا پسند کرتا ہوں کہ میری سب سے بڑی کنٹری بیوشن یہ ہے کہ میں نے اسپن بالنگ کو دلچسپ اور مقبول بنا دیا ہے، اور نوجوانوں کو اس عظیم کھیل کی طرف مائل کیا ہے۔ ان دنوں کپتان اسپن بالنگ کو جارحانہ حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں، ماسوائے شاید برطانیہ کے، جہاں ابھی بھی کچھ زیادہ توقع رکھنے کے بجائے یہ سوچ ہوتی ہے کہ رنز کی رفتار کم کی جائے۔
80ء کی دہائی کے اختتام اور 90ء کی دہائی کے آغاز میں اسپنر اسی وقت آتے تھے جب کوئی ٹیم دفاع کرنا چاہتی تھی۔ اگر کوئی کپتان وکٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتا تو اس کے انتخاب کی فہرست میں اسپنر کہیں آخر پہ ہوتا۔ ایک اسپل شروع کرنے سے پہلے اگر یہ وقفے کے وقت سے کچھ دیر پہلے ہو، میری بہترین نصیحت یہی ہوتی ہے: قائم رہو۔ تمھیں مختلف چیزیں آزمانے کی ضرورت نہیں ہے، صرف ردھم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ تماشائی اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے آتے ہیں لیکن وہ جوش و جذبہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ برطانیہ میں بہت مقبول ہے اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیل رہی ہے۔میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کھیل میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے اور ہر میچ میں حریف کا بھرپور مقابلہ کیا ہے، چاہے یہ سینٹ کیلڈا، وکٹوریا، ہمشائر یا آسٹریلیا کی ٹیم ہو۔ میں نے بہترین کھلاڑی بننے کی کوشش کی ہے، جتنا میں بن سکتا تھا۔
جی ہاں، میدان میں اور میدان سے باہر مجھ سے کچھ حماقتیں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ کچھ احباب ایسے ہیں جو مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں، اور میں اعتراف کرتا ہوں، کبھی کبھار وہ درست بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ مجھے پسند کریں یا ناپسند، وہ پھر بھی مجھ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اور آپ باقی سب باتوں کو نظرانداز کریں تو میرے خیال میں اس کی وجہ میرے کھیلنے کا انداز ہے۔
ان دنوں کرکٹ کو صرف دوسرے کھیلوں سے ہی نہیں، بلکہ کمپیوٹر اور ٹی وی چینلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی مسابقت کا سامنا ہے۔ بچوں کے لیے بہت زیادہ آپشنز موجود ہیں اور ایک کرکٹر کے طور پر ہمیں اپنی یہ ذمہ داری نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم اپنے کھیل کو پرکشش رکھنا یقینی بنائیں۔ اسپن بالنگ میں آپ اکیلے ہو سکتے ہیں۔ کئی دفعہ آپ ٹیم میں اکیلے اسپنر ہوتے ہیں، فلیٹ پچ پر جب کھیل کے شروع میں گیند زیادہ نہیں گھومتا اور بلے باز حاوی ہوتے ہیں، ایسی صورت میں گیندبازی کرنے میں بہت زیادہ حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس میں آپ بائونسر کر کے بلے باز کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اگرچہ میں نے کچھ موقعوں پر اس کی بھی کوشش کی ہے۔ آپ کو صرف یہ پرانا کلیشے یاد رکھنا پڑتا ہے: وکٹ حاصل کرنے کے لیے صرف ایک گیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس کی کبھی فکر نہیں کرتا جب ایک بلے باز مجھے بائونڈری لگانے کے لیے کریز سے باہر نکلتا ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں بالآخر اس کی قسمت اس کا ساتھ دینا چھوڑ دے گی۔
بلکہ لوگ جانتے ہیں کہ میں ایسا کرنے کے لیے بلے باز کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تاکہ مجھے (وکٹ حاصل کرنے کا) موقع مل سکے۔ میں چاہتا ہوں کہ گیند کو صرف روکنے یا کھیلنے کے بجائے کوئی مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔ اگر بلے باز مجھے نشانہ بنائیں گے، میں سمجھتا ہوں میرے پاس وکٹ حاصل کرنے کا موقع زیادہ ہو گا۔ مجھے اذیت ہوتی ہے جب بلے باز سکور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
تیز گیندبازوں کو جارح مزاج سمجھا جاتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں تھوڑی بہت یہ خصوصیت میرے اندر بھی ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب ایک بلے باز گیند کھیلنے کی کوشش میں ایج ہوتے ہوتے بچتا ہے اور وہ حیرت زدہ نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسے مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جب وہ ایک زوردار شاٹ کھیل کر گیند کو تماشائیوں کے پاس بھیجتا ہے، تو میںکیوں اس کی پروا کروں جب صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
یقیناً، میدان سے باہر ایسا نہیں ہے اور میں نے حریف ٹیموں میں کچھ اچھے دوست بنائے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ دوستیاں باقی رہ جائیں گی، اور آخر میں دوستی، وفاداری اور خاندان ہی زندگی میں سب سے اہم چیزیں ہوتی ہیں، جب کہ وکٹیں حاصل کرنا ایک تفریح کی طرح ہے۔
میں اپنے کیریئرکو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ جن کو میں ابتدائی سال شمار کرتا ہوں وہ 1998ء کے آس پاس ختم ہوتے ہیں۔ یہ وہ برس تھے جب میں اس ہنر کے بارے میں فی الواقع سیکھ رہا تھا اور ایک انٹرنیشنل کھلاڑی کی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔ زیادہ تر آسٹریلیا کی خواہش پہلے بیٹنگ کرنا ہوتی، اس کا مطلب ہے کہ چوتھی اننگز میں جب پچ اسپن بالنگ کے لیے سازگار ہوتی مجھے بالنگ کرنے کا زیادہ موقع ملا۔ 1998ء کے وسط سے چیزیں بدلنے لگیں اور 2001ء میں انڈیا میں ہونے والی سیریز، جس میں ہندوستان نے کلکتہ میں فالو آن کر کے ہمیں شکست دی۔
اس عرصے کے دوران مجھے کچھ سنجیدہ انجریز ہو گئی تھیں۔ لیگ اسپن بالنگ کرنا جسم پر بہت زیادہ دبائو ڈالتا ہے کیونکہ یہ انداز غیرفطری ہے۔ زیادہ کھیلنے کے سبب جو معمول کے مسائل ہوتے ہیں ان کے ساتھ مجھے کندھے اور اسپن کرنے والی انگلی میں تکلیف کا بھی سامنا تھا۔ میں نے ٹیسٹ میچوں میں بہت زیادہ اوور کیے اور میں دوسری فرسٹ کلاس کرکٹ بھی کھیل رہا تھا، اس کے ساتھ ون ڈے کرکٹ بھی شامل کر دیں اور نتیجہ یہی نکلا کہ میرے کئی آپریشن ہوئے۔
اس کے بعد میرے ایکشن میں کچھ مسائل نمودار ہونے لگے، اور اگرچہ میں اس کا اعتراف کرنا پسند نہیں کرتا کہ اس وقت شاید میں زیادہ موثر نہیں رہا تھا۔ میں بہانے بازی بالکل بھی نہیں کر رہا۔ یہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ میری انگلی، کندھے اور گھٹنے کا آپریشن ہوا۔ اس میں یہ بھی اضافہ کر لیں کہ انڈیا اور کچھ دوسری ٹیمیں مجھے بہتر طریقے سے کھیل رہی تھیں، چنانچہ ایسے نتائج سامنے آئے۔
اس وقت سے اور 2003ء میں جب مجھے زبردستی آرام دیا گیا تب سے، میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ سے بہتر بالنگ کی ہے۔ گزشتہ دو سال زبردست رہے ہیں، بالخصوص 2005ء جب میں نے پانچ ایشز ٹیسٹ میچوں میں 40 وکٹیں حاصل کیں، جو برطانیہ کے خلاف کسی آسٹریلوی اسپنر کا بہترین ریکارڈ ہے۔ اور اسی برس مجموعی طور پر 96 وکٹیں میرے نام ہوئیں، جو کہ عظیم ڈینس للی کے ایک کیلنڈر سال میں 85 وکٹوں کے ریکارڈ سے زیادہ ہے۔
اس کے مقابلے میں، 1993ء کے دوران، اس سے ایک زیادہ میچ کھیل کر میں نے 72 وکٹیں حاصل کی۔ ایک سال جب میں کرکٹ سے باہر رہا، اگرچہ میں یہ چاہتا نہیں تھا، اس میں میرے جسم کو بالکل ٹھیک ہونے کے لیے ضروری وقت مل گیا۔ جب میں لگاتار کئی میچ کھیل لوں، میری کمر اور گھٹنوں میں ہلکا سا کھچائو پیدا ہوتا ہے، لیکن احتیاط سے اس مسئلے سے نمٹتے ہوئے میں اب بھی موثر ثابت ہو سکتا ہوں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے کریئر کے دوسرے نصف میں ٹیسٹ کرکٹ تبدیل ہو گئی۔ اس کی جزوی وجہ ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ اس کے انداز اور حربوں کا اثر ٹیسٹ کرکٹ پر بھی پڑا۔ اس طرز کا آغاز آسٹریلیا نے کیا، آپ غالباً ایڈم گلگرسٹ کی شمولیت کو ٹرننگ پوائنٹ کہہ سکتے ہیں، اور دوسرے ممالک نے ہماری پیروی کی۔
اب رنز بنانے کی شرح خاصی زیادہ ہے کیونکہ بلے باز خطرات مول لینے کے لیے تیار ہیں لیکن، جیسے میں نے پہلے کہا، بیٹسمین جتنا جارحانہ انداز اپناتا ہے ، اتنا ہی میرے وکٹ لینے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے مجھے آج کل کچھ زیادہ رنز پڑتے ہوں، لیکن میرا اسٹرائیک ریٹ پہلے سے کم ہے۔ یہ سب کرکٹ کے عظیم کھیل کے لیے بہت اچھا ہے۔ اب دیکھیں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، مطلب 400 رنز بھی دسترس میں ہیں۔
اگر میرے جسم کے لیے اب بھی ہر گیند کو زیادہ سے زیادہ لیگ بریک کرنا ممکن ہو، میں یہ راہ اختیار نہیں کروں گا۔ میں آج پہلے سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا ہوں۔ یہ چیز صرف تجربے سے آتی ہے۔ راز یہ ہے کہ آپ ایک پراسرار فضا قائم رکھیں اور ثابت قدم رہیں۔ اگر بلے باز گیند کے بہت زیادہ گھومنے کی توقع کر رہا ہے تو ایک سادہ، سیدھی بال بھی تباہ کن ہو سکتی ہے۔
سکوربک میں سب گیندیں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ان دنوں میں بہت سی ویری ایشنز آزماتا ہوں۔ جب میں کہتا ہوں کہ میں ایک نئی بال پر کام کر رہا ہوں، لوگ اس پر نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ ایک سادہ لیگ بریک میں بھی بہت سی فنی باریکیاں ہوتی ہیں۔ آپ مختلف درجوں کی اسپن آزما سکتے ہیں اور کریز کے مختلف حصوں، وکٹوں کے قریب یا دور سے گیند پھینک سکتے ہیں۔
میں پہلے کی طرح اب بھی بال کو زیادہ سے زیادہ گھما سکتا ہوں، اگرچہ پہلے جیسے تسلسل کے ساتھ نہیں۔ اوول میں 2005ء میں، مارکوس ٹریسکاتھک کو کی گئی ایک بال دور سے گھومتی ہوئی وکٹوں کی طرف آئی۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم دونوں میں سے کون زیادہ چکرا کر رہ گیا، لیکن اپنی باقی ماندہ اننگز میں وہ پہلے جیسا پراعتماد کھلاڑی نہیں تھا۔ میں کچھ وقت صرف کر کے بیٹسمین پر کام کرتا ہوں اور عموماً اس طرح وکٹیں حاصل کرتا ہوں۔
اس کی ایک اچھی مثال لارڈز کی ہے جہاں میں نے آئن بیل کو اس امید سے کچھ زیادہ لیگ اسپن ہونے والی گیندیں کیں کہ میں ایک سیدھی بال سے اسے ایل بی ڈبلیو یا بولڈ کر سکتا ہوں۔ حکمت عملی عین اسی طرح کامیاب رہی۔ اور بسا اوقات میں بالنگ اینڈ پر کھڑے بلے باز کے لیے گیندبازی کرتا ہوں۔ عجیب لگتا ہے؟ بات یہ ہے کہ اگر وہ کافی عرصے سے فارم میں نہیں یا اسپن کو کھیلنے میں اچھا نہیں ہے تو میں کوئی خلاف معمول چیز کر کے شک کا بیج اس وقت کے لیے تیار رکھتا ہوں جب وہ گیند کا سامنا کرنے آئے۔
سب سے بڑھ کر میں خوش قسمت ہوں کہ ایسے دور میں آسٹریلیا کے لیے کھیلا جو ملکی کرکٹ تاریخ میں بہترین وقت تھا۔ میں تمام عرصہ اعلیٰ درجے کی ٹیم کی طرف سے کھیلا اور بہت سے کھلاڑی میرے بہت قریبی دوست بن چکے ہیں اور میرے لیے کھیل کا مطلب یہی ہے۔ امید کرتا ہوں یہ کہہ کر کہ اس کامیابی میں میں نے بھی حصہ ڈالا ہے، میں مغرور نہیں سمجھا جائوں گا۔
کرکٹ کا بہت سے دوسرے کھیلوں کے ساتھ موازنہ عجیب ہے، کیونکہ اس میں بہت سے انفرادی اعداد و شمار ہوتے ہیں جبکہ یہ فی الواقع ٹیم گیم ہے۔ سب سے اہم اعداد و شمار جیت اور شکستیں ہیں۔ میں بہت زیادہ کامیابیوں سے لطف اندوز ہوا ہوں جبکہ شکست کا مزہ کم ہی چکھا ہے۔
اچھا اس کا اختتام کب ہو گا؟ مجھ سے یہ سوال آٹھ سال سے پوچھا جا رہا ہے، جب کندھے میں تکلیف کی وجہ سے مجھے کچھ مسائل کا سامنا تھا۔ اوول میں، جب میں گلین میگراتھ کے ساتھ میدان سے باہر آیا، میں ایمانداری سے سمجھتا تھا کہ بطور ایک آسٹریلوی کھلاڑی میں برطانیہ میں اپنی آخری گیند کر چکا ہوں۔ اگر ہم نے وہ میچ جیت کر ایشز ٹرافی برقرار رکھی ہوتی، تو شاید میں ریٹائر ہونے کا فیصلہ بھی کر لیتا۔ اب میں پہلے سے زیادہ گومگو کا شکار ہوں۔
آپ صرف ایک بار ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ جب آپ چلے جاتے ہیں تو پھر بس اختتام! جب مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی نوجوان کھلاڑی کا راستہ روک رہا ہوں یا میں اپنے ساتھیوں کی توقعات پہ پورا نہیں اتر رہا، تو وہ جانے کے فیصلے کا وقت ہو گا۔