تحریک عدم اعتماد حکومت کا سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ
بابر اعوان اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پہنچے تاہم وقت ختم ہونے کے سبب درخواست دائر نہیں ہوسکی
تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک عدم اعتماد بحال کرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 7 اپریل کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار ، قومی اسمبلی بحال
درخواست دائر کرنے کے لیے ڈاکٹر بابر اعوان اور محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پہنچے تاہم وقت ختم ہونے کے سبب درخواست دائر نہیں ہوسکی۔
واضح رہے کہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ آرٹیکل 69 آئین کا حصہ ہے، سپریم کورٹ اسمبلی کے اختیارات نہیں لے سکتی، سپریم کورٹ کا 7 اپریل کا فیصلہ معطل کیا جائے اور قومی اسمبلی کو رولز کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 8 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی حیثیت سے بحال کردیا۔
سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل 2022 صبح 10 بجے بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھیں، اسپیکر سمیت تمام ارکان فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے لہذا ایوان کو پرانی حیثیت سے بحال کیا جائے اور اسپیکر ہفتے کو دوبارہ اجلاس طلب کریں۔ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری نئے وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ اُن کی کابینہ کے اراکین کی حیثیت بھی بحال ہوگئی، اسی طرح معاونین اور مشیر بھی عہدوں پر بحال ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 7 اپریل کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار ، قومی اسمبلی بحال
درخواست دائر کرنے کے لیے ڈاکٹر بابر اعوان اور محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پہنچے تاہم وقت ختم ہونے کے سبب درخواست دائر نہیں ہوسکی۔
واضح رہے کہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ آرٹیکل 69 آئین کا حصہ ہے، سپریم کورٹ اسمبلی کے اختیارات نہیں لے سکتی، سپریم کورٹ کا 7 اپریل کا فیصلہ معطل کیا جائے اور قومی اسمبلی کو رولز کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 8 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی حیثیت سے بحال کردیا۔
سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل 2022 صبح 10 بجے بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھیں، اسپیکر سمیت تمام ارکان فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے لہذا ایوان کو پرانی حیثیت سے بحال کیا جائے اور اسپیکر ہفتے کو دوبارہ اجلاس طلب کریں۔ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری نئے وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ اُن کی کابینہ کے اراکین کی حیثیت بھی بحال ہوگئی، اسی طرح معاونین اور مشیر بھی عہدوں پر بحال ہوگئے۔