چین سے درآمدی مال کی ادائیگی میں 2 ارب کا فرق تحقیقات شروع
اگلی تاریخ کے چیک اورزبانی یقین دہانیوں پرٹیکس ادائیگی کی رسیدیں لے کر مال کلیئرکرایا گیا، ذرائع
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے نیشنل بینک کی سوست برانچ گلگت بلتستان میں گزشتہ 10 سال سے جمع کسٹم ڈیوٹی اوردیگر ٹیکسوں کی مد میں جمع رقوم میں 2ارب روپے سے زائد کی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات شروع کردی ۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایاکہ چین سے مال لانے والے درآمدکنندگان کی سہولت کے لیے سوست ڈرائی پورٹ سے کلیئرنس کے لیے ٹیکسوںکی یہ رقوم نیشنل بینک سوست برانچ میں جمع کرائی گئیں۔پچھلے سال کسٹم حکام کی جانب سے 2002 سے جمع کرائے گئے محصولات کاجائزہ لیا گیا توکسٹمز، سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی اورسیلز ٹیکس کی رسیدوں اورجمع کرائے گئے حقیقی ٹیکسوں کی رقوم میں 2ارب روپے کافرق سامنے آیاتھاجس پرمعاملہ ایف بی آرکے سامنے اٹھایاگیاتھا۔اس سنجیدہ معاملے پرنیشنل بینک،کسٹمزحکام اورایف بی آر کے درمیان متعدداجلاس ہوئے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا،ذرائع کے مطابق یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد بینک برانچ کے عملے نے کم پڑنے والی رقم اعدادوشمار میں پوری کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان درآمدکنندگان نے مذکورہ بینک برانچ کے عملے کی ملی بھگت سے اگلی تاریخوںکے چیک دے کر یا صرف زبانی یقین دہانی پرٹیکس ادائیگی کی رسیدیںحاصل کرکے اپنامال کلیئرکرایالیکن وعدے کے مطابق وقت پررقم جمع نہیں کرائی۔
بینک حکام درآمدکنندگان کویہ غیرقانونی سہولت نہ دیتے توانھیں اپنامال کلیئرکرانے کیے اضافی چارجز اور بھاری جرمانے اداکرنا پڑتے۔2002سے2013تک یہ منظم نیٹ ورک غیرقانونی کام کرکے قومی خزانے کونقصان پہنچاتا رہاہے۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کرائمز اسلام آباد زون نے معاملے کانوٹس لے کر13فروری کوتحقیقات شروع کی تھی اور ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن جلیل خان کوانکوائری افسر مقررکرتے ہوئے تحقیقات مکمل کرکے جلدازجلدرپورٹ دینے کاحکم دیاتھا۔اس معاملے پرجب نیشنل بینک کاموقف معلوم کیاگیاتوبینک کے ترجمان اوروائس پریذیڈنٹ سید ابن حسن نے کہاکہ یہ معاملہ غبن کانہیںبلکہ جمع کرائی گئی رقم کی غلط درجہ بندی ( miss classification)اورغلط موافقت( miss reconciliation )کاہے۔انھوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بعض عناصرنے شایدمقامی طورپرسیاسی وجوہ پر یہ معاملہ غلط طریقے سے پیش کیا ہو۔انھوں نے بتایاکہ 2ارب کامعاملہ اس وقت سامنے آیاجب کسٹمزکلکٹوریٹ گلگت نے اپنے اورنیشنل بینک کے اعدادوشمارکاموازنہ کیا۔
انھوں نے بتایا اس معاملے پرایف بی آراورنیشنل بینک کی مشترکہ ٹیم بنائی گئی تھی،ہمارے گلگت کے دفترنے بتایاکہ ایک ارب 75کروڑکی رقم کے حسابات درست کرلیے گئے ہیں باقی 25کروڑ رقم کامعاملہ بھی حل کرلیاجائے گا ۔انھوں نے یہ بھی بتایاکہ دونوں ادارے اس کام میںمل کرکوششیں کررہے ہیں اوراب ایف بی آر بھی مطمئن ہے۔انھوں نے کہا کہ ایف بی آر اور وفاقی وزارت خزانہ نے معاملے کی یہی پوزیشن بیان کی ہے اوریہ معاملے تقریباً حل کرلیاگیا ہے اورکوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے سوال پر بینک ترجمان نے بتایاکہ اسے تحقیقات کاحق حاصل ہے،حقائق کاپتا چلنے پرسارامعاملہ ٹھیک ہوجائے گا ۔گلگت بلتستان کسٹم کلکٹوریٹ سے رابطہ کیاگیاتوایڈیشنل کلکٹرکسٹمزفیض علی نے حتمی طورپرکچھ کہنے سے گریزکیا اورانھوں نے کہاکہ بینک پرالزام نہیں لگاناچاہتے اورامید ہے کہ یہ معاملہ حل کرلیاجائے گا۔جب ان سے پوچھاگیاکہ 2ارب میںسے کتنی رقم کاحساب اب تک درست کرلیاگیاہے توانھوں نے کہاکہ ابھی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔جب انھیں بتایا گیا کہ بینک ترجمان نے پونے 2ارب کی درستی کی تصدیق کی ہے توانھوں نے کہاکہ نیشنل بینک کے ریجنل آفس نے ہمیں یہ صرف زبانی طورپربتایا ہے۔
جب ان سے پوچھاگیاکہ یہ معاملہ 10 سال بعدسامنے آیا، رقوم کی باقاعدگی سے تصدیق اورکھاتے درست کیوں نہیں کیے گئے ؟ان کاکہنا تھااس سے قبل نیشنل بینک سوست برانچ کانظام 2011 میں کمپیوٹرائزڈکیاگیا اس سے قبل یہ نظام کمپیوٹرائزڈنہیں تھا اسی وجہ سے یہ معاملہ پیش آیا۔اس حوالے سے جب ایف آئی اے کے ڈائریکٹرکرائمززون اسلام آبادکیپٹن (ر)ظفراقبال اعوان سے رابطہ کیاگیا توانھوں نے مذکورہ بالارپورٹ کی تصدیق کی اورکہاکہ انکوائری مکمل ہونے کے بعداگرکوئی شخص ذمے دار قرار پایا تواس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔جب انھیں نیشنل بینک کے ترجمان کاموقف بتایاگیاکہ نیشنل بینک اورایف بی آرکی مشترکہ کوششوں سے پونے 2ارب روپے کی رقم حساب میں آگئی ہے اوریہ معاملہ غبن نہیں بلکہ غلط درجہ بندی کاہے، ڈائریکٹرایف آئی اے نے کہاکہ ہم ایف بی آر اورنیشنل بینک کے ریکارڈکامعائنہ کرکے حقائق کی تصدیق کرینگے۔انھوں نے کہاکہ اس معاملے کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ کس طریقہ کارکے تحت اورکیسے یہ رقم حساب میں لائی گئی اوریہ معاملہ 10 سال تک کیسے چلتا رہاکیونکہ محصولات وصولی کاریکارڈ ماہانہ اورہفتہ واربنیادوں پراپ ڈیٹ کیاجاتاہے۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایاکہ چین سے مال لانے والے درآمدکنندگان کی سہولت کے لیے سوست ڈرائی پورٹ سے کلیئرنس کے لیے ٹیکسوںکی یہ رقوم نیشنل بینک سوست برانچ میں جمع کرائی گئیں۔پچھلے سال کسٹم حکام کی جانب سے 2002 سے جمع کرائے گئے محصولات کاجائزہ لیا گیا توکسٹمز، سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی اورسیلز ٹیکس کی رسیدوں اورجمع کرائے گئے حقیقی ٹیکسوں کی رقوم میں 2ارب روپے کافرق سامنے آیاتھاجس پرمعاملہ ایف بی آرکے سامنے اٹھایاگیاتھا۔اس سنجیدہ معاملے پرنیشنل بینک،کسٹمزحکام اورایف بی آر کے درمیان متعدداجلاس ہوئے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا،ذرائع کے مطابق یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد بینک برانچ کے عملے نے کم پڑنے والی رقم اعدادوشمار میں پوری کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان درآمدکنندگان نے مذکورہ بینک برانچ کے عملے کی ملی بھگت سے اگلی تاریخوںکے چیک دے کر یا صرف زبانی یقین دہانی پرٹیکس ادائیگی کی رسیدیںحاصل کرکے اپنامال کلیئرکرایالیکن وعدے کے مطابق وقت پررقم جمع نہیں کرائی۔
بینک حکام درآمدکنندگان کویہ غیرقانونی سہولت نہ دیتے توانھیں اپنامال کلیئرکرانے کیے اضافی چارجز اور بھاری جرمانے اداکرنا پڑتے۔2002سے2013تک یہ منظم نیٹ ورک غیرقانونی کام کرکے قومی خزانے کونقصان پہنچاتا رہاہے۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کرائمز اسلام آباد زون نے معاملے کانوٹس لے کر13فروری کوتحقیقات شروع کی تھی اور ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن جلیل خان کوانکوائری افسر مقررکرتے ہوئے تحقیقات مکمل کرکے جلدازجلدرپورٹ دینے کاحکم دیاتھا۔اس معاملے پرجب نیشنل بینک کاموقف معلوم کیاگیاتوبینک کے ترجمان اوروائس پریذیڈنٹ سید ابن حسن نے کہاکہ یہ معاملہ غبن کانہیںبلکہ جمع کرائی گئی رقم کی غلط درجہ بندی ( miss classification)اورغلط موافقت( miss reconciliation )کاہے۔انھوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بعض عناصرنے شایدمقامی طورپرسیاسی وجوہ پر یہ معاملہ غلط طریقے سے پیش کیا ہو۔انھوں نے بتایاکہ 2ارب کامعاملہ اس وقت سامنے آیاجب کسٹمزکلکٹوریٹ گلگت نے اپنے اورنیشنل بینک کے اعدادوشمارکاموازنہ کیا۔
انھوں نے بتایا اس معاملے پرایف بی آراورنیشنل بینک کی مشترکہ ٹیم بنائی گئی تھی،ہمارے گلگت کے دفترنے بتایاکہ ایک ارب 75کروڑکی رقم کے حسابات درست کرلیے گئے ہیں باقی 25کروڑ رقم کامعاملہ بھی حل کرلیاجائے گا ۔انھوں نے یہ بھی بتایاکہ دونوں ادارے اس کام میںمل کرکوششیں کررہے ہیں اوراب ایف بی آر بھی مطمئن ہے۔انھوں نے کہا کہ ایف بی آر اور وفاقی وزارت خزانہ نے معاملے کی یہی پوزیشن بیان کی ہے اوریہ معاملے تقریباً حل کرلیاگیا ہے اورکوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے سوال پر بینک ترجمان نے بتایاکہ اسے تحقیقات کاحق حاصل ہے،حقائق کاپتا چلنے پرسارامعاملہ ٹھیک ہوجائے گا ۔گلگت بلتستان کسٹم کلکٹوریٹ سے رابطہ کیاگیاتوایڈیشنل کلکٹرکسٹمزفیض علی نے حتمی طورپرکچھ کہنے سے گریزکیا اورانھوں نے کہاکہ بینک پرالزام نہیں لگاناچاہتے اورامید ہے کہ یہ معاملہ حل کرلیاجائے گا۔جب ان سے پوچھاگیاکہ 2ارب میںسے کتنی رقم کاحساب اب تک درست کرلیاگیاہے توانھوں نے کہاکہ ابھی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔جب انھیں بتایا گیا کہ بینک ترجمان نے پونے 2ارب کی درستی کی تصدیق کی ہے توانھوں نے کہاکہ نیشنل بینک کے ریجنل آفس نے ہمیں یہ صرف زبانی طورپربتایا ہے۔
جب ان سے پوچھاگیاکہ یہ معاملہ 10 سال بعدسامنے آیا، رقوم کی باقاعدگی سے تصدیق اورکھاتے درست کیوں نہیں کیے گئے ؟ان کاکہنا تھااس سے قبل نیشنل بینک سوست برانچ کانظام 2011 میں کمپیوٹرائزڈکیاگیا اس سے قبل یہ نظام کمپیوٹرائزڈنہیں تھا اسی وجہ سے یہ معاملہ پیش آیا۔اس حوالے سے جب ایف آئی اے کے ڈائریکٹرکرائمززون اسلام آبادکیپٹن (ر)ظفراقبال اعوان سے رابطہ کیاگیا توانھوں نے مذکورہ بالارپورٹ کی تصدیق کی اورکہاکہ انکوائری مکمل ہونے کے بعداگرکوئی شخص ذمے دار قرار پایا تواس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔جب انھیں نیشنل بینک کے ترجمان کاموقف بتایاگیاکہ نیشنل بینک اورایف بی آرکی مشترکہ کوششوں سے پونے 2ارب روپے کی رقم حساب میں آگئی ہے اوریہ معاملہ غبن نہیں بلکہ غلط درجہ بندی کاہے، ڈائریکٹرایف آئی اے نے کہاکہ ہم ایف بی آر اورنیشنل بینک کے ریکارڈکامعائنہ کرکے حقائق کی تصدیق کرینگے۔انھوں نے کہاکہ اس معاملے کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ کس طریقہ کارکے تحت اورکیسے یہ رقم حساب میں لائی گئی اوریہ معاملہ 10 سال تک کیسے چلتا رہاکیونکہ محصولات وصولی کاریکارڈ ماہانہ اورہفتہ واربنیادوں پراپ ڈیٹ کیاجاتاہے۔