داستان بلی
دو بلیاں لڑتے لڑتے ہمارے اُوپر گرگئیں، پھر تو ہماری و حشت ناک چیخیں سن کر سارا گھر جاگ اُٹھا
کراچی:
بلیوں سے ہمارے ڈرنے کا بھی عجیب قصہ ہے اور یہ داستان امیر حمزہ ہی ہے۔ ہوا یوں کہ ہم سب بچے ، یاد رہے ہم بھی کبھی بچے تھے ، جب گائوں میں واقع نانا کے گھر جاتے تو کھُلا ویڑہ، جہاں رات میں سب کی چارپائیاں ڈالی جاتیں، نئے نکور بستر لگائے جاتے اور گرمیوں کی راتوں میں سب سکون سے سوتے مگر ایک دن اس سکون میںآگ لگ گئی۔
دو بلیاں لڑتے لڑتے ہمارے اُوپر گرگئیں، پھر تو ہماری و حشت ناک چیخیں سن کر سارا گھر جاگ اُٹھا، بلیوں کو دیکھ کر سب نے حسب توفیق ہمیں لتاڑا ، مگر وہ دن اورآج کا دن، بلیوں سے ہماری دشمنی پکی جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے دشمنی اور ڈر دونوں میں اضافہ ہی ہوا ،کمی نہ ہوئی ہمارے محلے میں ایک گھر تھا جن کی لڑکیوں سے ہماری بڑی دوستی تھی ہر وقت کا آنا جانا کرکٹ ہم سب کا پسندیدہ کھیل تھا ،سو بیٹھ کر کرکٹ پر تبصرے ہوتے ، خوب لڑائیاں ہوتیں، مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ اُن کے گھر جانا بند کیا ہو۔
ایک دن اُن کی ایک بہن نے جو کب سے یہ شیطانی منصوبہ بنائے بیٹھی تھیں کہ بلی کے ذریعے ہمارا شکار کریں گی ،کون سی دشمنی تھی جو اُن کے دل میں پل رہی تھی ویسے بھی لڈو اور کیرم میں ہمیشہ انھیں ہرایا ، شاید یہ کینہ اس ہار کا نتیجہ ہو ، خیر ہم بیٹھے اپنی دھن میں عمران خان کے لتے لے رہے تھے کہ انھوں نے بڑے پیار سے بلی کا بچہ ہماری گود میں رکھ دیا پہلے تو ہم نے دھیان ہی نہیں دیا بحث ہی زور شور سے جاری تھی مگر اچانک جو ہماری نظر پڑی اور ہلکی سی میائوں سُنائی دی، اُسے پھینکنے بھی نہ پائے کے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر سجدہ ریز ہو گئے اور پھر ان کے گھر قدم نہ رکھا۔
کچھ عرصہ بعد دوستی تو دوبارہ ہو گئی مگر محفل ہمارے گھر جمنے لگی۔ اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں نے کون سے جنم کا بدلہ ہم سے لیا، وہ یہ کہ ایک بلی کہیں سے گھومتے گھامتے ہمارے گھر آنکلی ، گھر اتنا پسند آیا کہ اس نے جانے سے صاف انکار کردیا اور پھیل کر بیٹھ گئی، ہم نے ہش ہش کیا ہوش ہوش کیا مگر میں نہ مانوں والی کیفیت میں مبتلا وہ ہماری طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھیں، ہم نے آخر بچوں کو آواز دی کہ شاید ہماری مدد کریں گے مگر یہ کیا یسری صاحبہ، ادھر سے مریم صاحبہ اُدھر سے چیختی ہوئی آئیں اور ہمیں بلی کے حسن سے متاثر کرنے کی کوشش کی کہا ''دیکھو کس قدر خوب صورت بلی ہے اس کی رنگت دیکھو بیٹھنے کے انداز تو بالکل کسی ملکہ کی طرح ہے یہ تو بنی بنائی ملکہ حسن ہے آواز الگ سُریلی '' ہم نے چلا کر کہا ''خاموش ہوجائو تم لوگوں کو اسے بھگانے کو بلایا ہے، نہ کہ قصیدے پڑنے کو'' مگر ڈھٹائی تیرا ہی آسرا دونوں نے مل کر گود میں اُٹھایا پچکارا ،دودھ لاکر بلی کے آگے رکھا، مہمان نوازی کے لیے فرج سے گوشت بھی نکالا اور تو اور نام بھی'' بلو'' رکھ دیا گیا اور با ضابطہ طور پر اعلان بھی کر دیا گیا کہ بلو کو نکالنے کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔
''بلو ''اب گھر کا فرد ہے اگر کسی کو اعتراض ہے تو اپنا انتظام خود کر لے ، خیر یہ الفاظ کہے تو نہیں مگر ہم ان کے انداز سے سمجھ گئے اور ڈر کر چپ ہوگئے ، تھوڑی دیر کے بعد اُسامہ آ گئے، موصوف گھر میں ہمارے واحد ہمدرد ہیں ہم نے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ'' تمہاری بہنوں نے کیا حرکت کی ہے کہ بلی کو گھر میں حصہ دار بنا لیا ،گھر بھی گندہ ہوگا اور ہم تو رہ ہی نہیں سکتے ، تم اس کو باہر کا راستہ دکھائو ''مگر وہ بھی ایسے بدلے جیسے کعبہ سے کافر اتنا لمبا پرمغز بغیر کسی تیاری کے بلیوں کے حقوق پر لیکچر دیا کہ ہمیں تو اپنے حقوق کی فکر پڑ گئی کہ ہمارا کیا ہوگا؟
اور وہ ہی ہوا جب ''بلو '' گھر میں مالکانہ حقوق سے چہل قدمی کرنے لگیں تو ہمیں اپنی نشست و بر خاست کو محدود کرنا پڑا، ہمارا نیا کمبل بلو کو پسند آگیا ،وہ انھیں دے دیا گیا اور ہمیں وہی پرانا کمبل کہ ہم کمبل کو چھوڑتے مگر وہ نہیں۔ گوشت الگ سے آنے لگا ہم نے تو ہمیشہ یہ ہی سُنا کے بلیوں کو تو چھیچڑے اتنے پسند ہوتے ہیں کہ خواب میں بھی وہ ہی نظرآتے ہیں مگر خدا گواہ ہے اس بلی نے تو نظر اُٹھا کر بھی کبھی نہ دیکھا کھایا تو تازہ گوشت ہی کھایا۔
نخرے اتنے کہ کیا کسی ہیروئین کے ہوں گے ایک دن تو حد ہی ہوگئی گھر میں دودھ صرف اتنا تھا کہ یا تو دوا کھا کے ہم پی لیں یا پھر بلو اور اتنا جانب داری سے فیصلہ ہوا کہ بلی کو ملے گا اور ہمیں جانوروں کے حقوق پر لیکچر اور یاد دلایا گیا کہ ہم انسان ہیں، صبر کریں اورآہستہ آہستہ بلو کو ہمارا بیڈ پسند آگیا اور وہاں سونے لگیں تو ہمیں اپنے کمرے سے ہی بے دخل کر دیا گیااور ہم نے ڈرائنگ روم کو اپنا مسکن بنایا ، بلو ایک ہلکی شرارت بھری مسکراہٹ سے ہمیں دیکھتیں مگر ہم اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے کہ اسٹبلشمنٹ اس کے ساتھ تھی ۔ہم تو صرف یہ گانا ہی گا سکتے تھے۔
جو زخم ملا اپنوں سے ملا غیروں سے شکایت کون کرے
اب صورت حال یہ ہے کہ بلو کی اولاد بھی گھر میںمزے سے گھوم پھر رہی ہے، کریں تو کیا کریں؟ قبضہ گروپ کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اپنے ہی گھر میں ایک کمرے تک محدود ہو گئے ہیں ۔
بلیوں سے ہمارے ڈرنے کا بھی عجیب قصہ ہے اور یہ داستان امیر حمزہ ہی ہے۔ ہوا یوں کہ ہم سب بچے ، یاد رہے ہم بھی کبھی بچے تھے ، جب گائوں میں واقع نانا کے گھر جاتے تو کھُلا ویڑہ، جہاں رات میں سب کی چارپائیاں ڈالی جاتیں، نئے نکور بستر لگائے جاتے اور گرمیوں کی راتوں میں سب سکون سے سوتے مگر ایک دن اس سکون میںآگ لگ گئی۔
دو بلیاں لڑتے لڑتے ہمارے اُوپر گرگئیں، پھر تو ہماری و حشت ناک چیخیں سن کر سارا گھر جاگ اُٹھا، بلیوں کو دیکھ کر سب نے حسب توفیق ہمیں لتاڑا ، مگر وہ دن اورآج کا دن، بلیوں سے ہماری دشمنی پکی جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے دشمنی اور ڈر دونوں میں اضافہ ہی ہوا ،کمی نہ ہوئی ہمارے محلے میں ایک گھر تھا جن کی لڑکیوں سے ہماری بڑی دوستی تھی ہر وقت کا آنا جانا کرکٹ ہم سب کا پسندیدہ کھیل تھا ،سو بیٹھ کر کرکٹ پر تبصرے ہوتے ، خوب لڑائیاں ہوتیں، مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ اُن کے گھر جانا بند کیا ہو۔
ایک دن اُن کی ایک بہن نے جو کب سے یہ شیطانی منصوبہ بنائے بیٹھی تھیں کہ بلی کے ذریعے ہمارا شکار کریں گی ،کون سی دشمنی تھی جو اُن کے دل میں پل رہی تھی ویسے بھی لڈو اور کیرم میں ہمیشہ انھیں ہرایا ، شاید یہ کینہ اس ہار کا نتیجہ ہو ، خیر ہم بیٹھے اپنی دھن میں عمران خان کے لتے لے رہے تھے کہ انھوں نے بڑے پیار سے بلی کا بچہ ہماری گود میں رکھ دیا پہلے تو ہم نے دھیان ہی نہیں دیا بحث ہی زور شور سے جاری تھی مگر اچانک جو ہماری نظر پڑی اور ہلکی سی میائوں سُنائی دی، اُسے پھینکنے بھی نہ پائے کے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر سجدہ ریز ہو گئے اور پھر ان کے گھر قدم نہ رکھا۔
کچھ عرصہ بعد دوستی تو دوبارہ ہو گئی مگر محفل ہمارے گھر جمنے لگی۔ اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں نے کون سے جنم کا بدلہ ہم سے لیا، وہ یہ کہ ایک بلی کہیں سے گھومتے گھامتے ہمارے گھر آنکلی ، گھر اتنا پسند آیا کہ اس نے جانے سے صاف انکار کردیا اور پھیل کر بیٹھ گئی، ہم نے ہش ہش کیا ہوش ہوش کیا مگر میں نہ مانوں والی کیفیت میں مبتلا وہ ہماری طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھیں، ہم نے آخر بچوں کو آواز دی کہ شاید ہماری مدد کریں گے مگر یہ کیا یسری صاحبہ، ادھر سے مریم صاحبہ اُدھر سے چیختی ہوئی آئیں اور ہمیں بلی کے حسن سے متاثر کرنے کی کوشش کی کہا ''دیکھو کس قدر خوب صورت بلی ہے اس کی رنگت دیکھو بیٹھنے کے انداز تو بالکل کسی ملکہ کی طرح ہے یہ تو بنی بنائی ملکہ حسن ہے آواز الگ سُریلی '' ہم نے چلا کر کہا ''خاموش ہوجائو تم لوگوں کو اسے بھگانے کو بلایا ہے، نہ کہ قصیدے پڑنے کو'' مگر ڈھٹائی تیرا ہی آسرا دونوں نے مل کر گود میں اُٹھایا پچکارا ،دودھ لاکر بلی کے آگے رکھا، مہمان نوازی کے لیے فرج سے گوشت بھی نکالا اور تو اور نام بھی'' بلو'' رکھ دیا گیا اور با ضابطہ طور پر اعلان بھی کر دیا گیا کہ بلو کو نکالنے کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔
''بلو ''اب گھر کا فرد ہے اگر کسی کو اعتراض ہے تو اپنا انتظام خود کر لے ، خیر یہ الفاظ کہے تو نہیں مگر ہم ان کے انداز سے سمجھ گئے اور ڈر کر چپ ہوگئے ، تھوڑی دیر کے بعد اُسامہ آ گئے، موصوف گھر میں ہمارے واحد ہمدرد ہیں ہم نے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ'' تمہاری بہنوں نے کیا حرکت کی ہے کہ بلی کو گھر میں حصہ دار بنا لیا ،گھر بھی گندہ ہوگا اور ہم تو رہ ہی نہیں سکتے ، تم اس کو باہر کا راستہ دکھائو ''مگر وہ بھی ایسے بدلے جیسے کعبہ سے کافر اتنا لمبا پرمغز بغیر کسی تیاری کے بلیوں کے حقوق پر لیکچر دیا کہ ہمیں تو اپنے حقوق کی فکر پڑ گئی کہ ہمارا کیا ہوگا؟
اور وہ ہی ہوا جب ''بلو '' گھر میں مالکانہ حقوق سے چہل قدمی کرنے لگیں تو ہمیں اپنی نشست و بر خاست کو محدود کرنا پڑا، ہمارا نیا کمبل بلو کو پسند آگیا ،وہ انھیں دے دیا گیا اور ہمیں وہی پرانا کمبل کہ ہم کمبل کو چھوڑتے مگر وہ نہیں۔ گوشت الگ سے آنے لگا ہم نے تو ہمیشہ یہ ہی سُنا کے بلیوں کو تو چھیچڑے اتنے پسند ہوتے ہیں کہ خواب میں بھی وہ ہی نظرآتے ہیں مگر خدا گواہ ہے اس بلی نے تو نظر اُٹھا کر بھی کبھی نہ دیکھا کھایا تو تازہ گوشت ہی کھایا۔
نخرے اتنے کہ کیا کسی ہیروئین کے ہوں گے ایک دن تو حد ہی ہوگئی گھر میں دودھ صرف اتنا تھا کہ یا تو دوا کھا کے ہم پی لیں یا پھر بلو اور اتنا جانب داری سے فیصلہ ہوا کہ بلی کو ملے گا اور ہمیں جانوروں کے حقوق پر لیکچر اور یاد دلایا گیا کہ ہم انسان ہیں، صبر کریں اورآہستہ آہستہ بلو کو ہمارا بیڈ پسند آگیا اور وہاں سونے لگیں تو ہمیں اپنے کمرے سے ہی بے دخل کر دیا گیااور ہم نے ڈرائنگ روم کو اپنا مسکن بنایا ، بلو ایک ہلکی شرارت بھری مسکراہٹ سے ہمیں دیکھتیں مگر ہم اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے کہ اسٹبلشمنٹ اس کے ساتھ تھی ۔ہم تو صرف یہ گانا ہی گا سکتے تھے۔
جو زخم ملا اپنوں سے ملا غیروں سے شکایت کون کرے
اب صورت حال یہ ہے کہ بلو کی اولاد بھی گھر میںمزے سے گھوم پھر رہی ہے، کریں تو کیا کریں؟ قبضہ گروپ کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اپنے ہی گھر میں ایک کمرے تک محدود ہو گئے ہیں ۔