قائداعظم اور VIP سیکیورٹی کلچر
شہریوں میں تحفظ کا احساس نہیں ہے لیکن وی آئی پی کلچر کے سائے میں رہنے والے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں
پاکستان میں وی آئی پی سیکیورٹی کلچر نے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں ۔سیاستدانوں اور حکومت میں شامل وزرا، مشیر، خصوصی معاونین ،بیورو کریسی کے افراد نے وی آئی پی سیکیورٹی کلچر اختیار کر رکھا ہے وی آئی پی سیکیورٹی کے نام پر ہزاروں پولیس' رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو ان کی اصل ذمے داریوں سے علیحدہ رکھا گیا ہے حکومت کی اہم شخصیات جب دوسرے شہروں میں سفر کرتی ہے تو سیکیورٹی کے نام پر شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔
ٹریفک جام ہوتا ہے اور ہزاروں اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں یہ قومی خزانہ کا ضیاع ہے۔ جب کسی مملکت میں عام آدمی محفوظ نہیں ہوگا تو پھر اس ریاست کے قانون نافذ کرنیوالوں پر تنقید ایک فطری ردعمل ہے جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں وی آئی پی کلچر انگریزوں کے دور کی یادگار ہے جو سات سمندر پار سے حکمرانی کرنے آئے تھے، ان کے دور میں بھی وی آئی پی سیکیورٹی اتنی نہیں تھی جتنی آج کے حکمرانوں کے دور میں ہے جو فرنگی حکمرانوں سے بھی زیادہ شاہانہ انداز میں زندگی گزار رہے ہیں اور بادشاہوں کی طرح سرکاری اہلکاروں اور پولیس کے جلوس کے ساتھ حرکت کرتے ہیں۔
شہریوں میں تحفظ کا احساس نہیں ہے لیکن وی آئی پی کلچر کے سائے میں رہنے والے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں یہ ایک ایسا اجتماعی رویہ ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ،صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی وی آئی پی سیکیورٹی کی چھتری کے نیچے ہیں عوام کے مسائل کا دعوی کرکے ووٹ لینے والے ارکان پارلیمنٹ شہریوں کو تحفظ دلانے میں ناکام رہے ہیں۔
حکومت بیورو کریسی اور مراعات یافتہ طبقات نے سیکیورٹی کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کردی ہیں لیکن کروڑوں شہریوں پر مشتمل آبادی کو بدامنی، لاقانونیت کے عذاب میں دھکیل دیا ہے۔ 14 اگست 1947 کو جب ملک آزاد ہوا اور پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کو ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ کراچی میں ایک جلوس میں شرکت کرنی تھی تو اس وقت لارڈ مائونٹ بیٹن کو ان کے خفیہ اداروں نے رپورٹس دی تھیں کہ کراچی میں ان کے جلوس پر حملہ ہوسکتا ہے۔
یہ رپورٹیں اتنی مصدقہ تھیں کہ لارڈ مائونٹ بیٹن بھی خوفزدہ ہوگیا لارڈ مائونٹ بیٹن جس نے فوجی کی حیثیت سے اپنی زندگی جنگوں میں گزاری تھی وہ 14 اگست 1947 کو جلوس میں جانے سے خوفزدہ تھا۔ اس نے قائداعظم سے کہا کہ'' کھلی کار پر جلوس میں جانے سے سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔'' قائداعظم نے فورا جواب دیا''یہ کراچی شہر ہے، سب پاکستانی ہیں اور یہ سب میرے محافظ ہیں، آپ کھلی کار میں چلیں کچھ نہیں ہوگا۔'' لارڈ مائونٹ بیٹن قائداعظم کی جرات اور ہمت پر حیران ہوگیا اور اس نے قائداعظم کے ساتھ کھلی کار میں سفر کیا۔
قائداعظم کے ملٹری سیکریٹری کرنل برنی انگریز تھے اور انھیں مسلسل اطلاعات اور رپورٹس مل رہی تھیں کہ قائداعظم کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ قائداعظم پر حکومت پاکستان کی زیر نگرانی پہلی کتاب لکھنے والے ہیکڑ بولتھیو نے لکھا ہے کہ'' قائداعظم اور ان کے انگریز ملٹری سیکریٹری کرنل برنی کے درمیان ایک مسئلے پر شدید اختلاف تھا جو بہت عرصہ تک جاری رہا۔
کرنل برنی نے کئی مرتبہ قائداعظم سے ملاقات کرکے ان سے اجازت چاہی کہ گورنر ہائوس میں ایک اونچی دیوار اس طرح تعمیر کی جائے کہ جس حصے میں گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کا قیام تھا وہ حصہ محفوظ ہوجائے۔ جب یہ تجویز قائداعظم کو پیش کی گئی تو تجویز کو سننے کے بعد قائداعظم نے انگریز فوجی آفیسر کو کہا کہ'' یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو میری حفاظت کا اتنا خیال ہے لیکن آپ نے اس سے پہلے جو گورنر جنرل دیکھے ہیں، میری حیثیت ان سے بہت مختلف ہے۔ میں اس ملک کا باشندہ ہوں مجھے کوئی خطرہ نہیں۔''
جب ملٹری سیکریٹری نے بہت زیادہ دبائو ڈالا تو قائداعظم نے برجستہ انگریزی فوجی آفیسر کو جواب دیا ''میں اپنے ملک میں اپنی ہی قوم کے لوگوں کے درمیان ہوں اور مجھے کسی سے کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے اور میں بہرحال اس کو فضول خرچی سمجھتا ہوں۔ ''قائداعظم کے اس جواب پر ملٹری سیکریٹری حیران رہ گئے۔ اس سلسلے میں کئی انٹیلی جنس رپورٹس بھی پیش کی گئیں مگر قائداعظم نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا لیکن جب 30 جنوری 1948 کو گاندھی کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد گورنر جنرل ہائوس کے سیکیورٹی کے افسران اور ارباب اختیار نے قائداعظم پر دبائو ڈالا جس کے بعد وہ دیوار کی تعمیر پر رضا مند ہو گئے۔
اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کا کردار کتنا مثالی تھا ۔ سیاستدانوں کے لیے وی آئی پی پروٹوکول دیکھنے والا ہوتا ہے، کسی سڑک سے اگر کوئی وی آئی پی گزر رہا ہو تو سڑک پر سے عام انسان کا داخلہ ممنوع ہو جاتا ہے جیسے کہ عام یا غریب انسان اچھوت ہو اور عام انسان سے وی آئی پی شخص کو کوئی بیماری لگ جائے گی یا غریب لوگ انھیں نقصان پہنچا دیں گے، حالانکہ وی آئی پی ان کو انھی عام عوام نے بنایا ہوتا ہے، ان وی آئی پیز کے پاس جو کچھ ہوتا ہے ان عوام کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جو لوگ وی آئی پی کلچر کے خلاف باتیں کرتے ہیں، وہی خود وی آئی پی کلچر کو چھوڑ نہیں پاتے۔پاکستان میں وی آئی پی کلچردراصل ایک ذہنیت کا نام ہے جسے پاکستان کے اشرافیہ طبقے نے اپنا رکھا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اشرافیہ طبقے کے یہ لوگ جب بھی کسی دورے پر نکلتے ہیں تو سڑکیں بند کرکے عوام کے راستے روک دیے جاتے ہیں۔
یہ لوگ دوران سفر جب اپنی بلٹ پروف گاڑیوں کے کالے شیشوں سے عوام کو دیکھتے ہیں تو انھیں اپنی برتری اور شان و شوکت پر خوشی کا احساس ہوتا ہے جب کہ ان کے حفاظتی اسکواڈ میں شامل اسلحہ لہراتے اہلکار راستہ ہموار کرنے کے لیے عوام سے انتہائی تضحیک آمیز سلوک کرتے ہیں حالانکہ انھی عوام کے ٹیکسوں سے ہی وی آئی پی شخصیات کو بلٹ پروف گاڑیاں اورسیکیورٹی اسکواڈ فراہم کی جاتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں وی آئی پی سیکیورٹی کلچر عروج پر ہے حکمرانوں، بیورو کریسی، ارکان پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کروڑوں روپے روزانہ فقط وی آئی پی سیکیورٹی پر خرچ کرانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔
ایک اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ کیمطابق فقط کراچی میں 35 ہزار پولیس، 20 ہزار رینجرز اور ایک ہزار فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار ہیں، جن میں سے فقط پولیس کے پانچ ہزار اہلکار ایک سو کے لگ بھگ وی آئی پی سیکیورٹی پر مامور ہیں ،حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں نے اپنے گھروں،احباب، دوستوں یہاں تک کہ اپنے ملازمین کو بھی وی آئی پی سیکیورٹی فراہم کر رکھی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وی آئی پی سیکیورٹی کلچر اس فرسودہ نظام کا حصہ بن چکا ہے۔مقام افسوس ہے کہ وی آئی پی کلچر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ٹریفک جام ہوتا ہے اور ہزاروں اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں یہ قومی خزانہ کا ضیاع ہے۔ جب کسی مملکت میں عام آدمی محفوظ نہیں ہوگا تو پھر اس ریاست کے قانون نافذ کرنیوالوں پر تنقید ایک فطری ردعمل ہے جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں وی آئی پی کلچر انگریزوں کے دور کی یادگار ہے جو سات سمندر پار سے حکمرانی کرنے آئے تھے، ان کے دور میں بھی وی آئی پی سیکیورٹی اتنی نہیں تھی جتنی آج کے حکمرانوں کے دور میں ہے جو فرنگی حکمرانوں سے بھی زیادہ شاہانہ انداز میں زندگی گزار رہے ہیں اور بادشاہوں کی طرح سرکاری اہلکاروں اور پولیس کے جلوس کے ساتھ حرکت کرتے ہیں۔
شہریوں میں تحفظ کا احساس نہیں ہے لیکن وی آئی پی کلچر کے سائے میں رہنے والے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں یہ ایک ایسا اجتماعی رویہ ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ،صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی وی آئی پی سیکیورٹی کی چھتری کے نیچے ہیں عوام کے مسائل کا دعوی کرکے ووٹ لینے والے ارکان پارلیمنٹ شہریوں کو تحفظ دلانے میں ناکام رہے ہیں۔
حکومت بیورو کریسی اور مراعات یافتہ طبقات نے سیکیورٹی کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کردی ہیں لیکن کروڑوں شہریوں پر مشتمل آبادی کو بدامنی، لاقانونیت کے عذاب میں دھکیل دیا ہے۔ 14 اگست 1947 کو جب ملک آزاد ہوا اور پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کو ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ کراچی میں ایک جلوس میں شرکت کرنی تھی تو اس وقت لارڈ مائونٹ بیٹن کو ان کے خفیہ اداروں نے رپورٹس دی تھیں کہ کراچی میں ان کے جلوس پر حملہ ہوسکتا ہے۔
یہ رپورٹیں اتنی مصدقہ تھیں کہ لارڈ مائونٹ بیٹن بھی خوفزدہ ہوگیا لارڈ مائونٹ بیٹن جس نے فوجی کی حیثیت سے اپنی زندگی جنگوں میں گزاری تھی وہ 14 اگست 1947 کو جلوس میں جانے سے خوفزدہ تھا۔ اس نے قائداعظم سے کہا کہ'' کھلی کار پر جلوس میں جانے سے سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔'' قائداعظم نے فورا جواب دیا''یہ کراچی شہر ہے، سب پاکستانی ہیں اور یہ سب میرے محافظ ہیں، آپ کھلی کار میں چلیں کچھ نہیں ہوگا۔'' لارڈ مائونٹ بیٹن قائداعظم کی جرات اور ہمت پر حیران ہوگیا اور اس نے قائداعظم کے ساتھ کھلی کار میں سفر کیا۔
قائداعظم کے ملٹری سیکریٹری کرنل برنی انگریز تھے اور انھیں مسلسل اطلاعات اور رپورٹس مل رہی تھیں کہ قائداعظم کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ قائداعظم پر حکومت پاکستان کی زیر نگرانی پہلی کتاب لکھنے والے ہیکڑ بولتھیو نے لکھا ہے کہ'' قائداعظم اور ان کے انگریز ملٹری سیکریٹری کرنل برنی کے درمیان ایک مسئلے پر شدید اختلاف تھا جو بہت عرصہ تک جاری رہا۔
کرنل برنی نے کئی مرتبہ قائداعظم سے ملاقات کرکے ان سے اجازت چاہی کہ گورنر ہائوس میں ایک اونچی دیوار اس طرح تعمیر کی جائے کہ جس حصے میں گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کا قیام تھا وہ حصہ محفوظ ہوجائے۔ جب یہ تجویز قائداعظم کو پیش کی گئی تو تجویز کو سننے کے بعد قائداعظم نے انگریز فوجی آفیسر کو کہا کہ'' یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو میری حفاظت کا اتنا خیال ہے لیکن آپ نے اس سے پہلے جو گورنر جنرل دیکھے ہیں، میری حیثیت ان سے بہت مختلف ہے۔ میں اس ملک کا باشندہ ہوں مجھے کوئی خطرہ نہیں۔''
جب ملٹری سیکریٹری نے بہت زیادہ دبائو ڈالا تو قائداعظم نے برجستہ انگریزی فوجی آفیسر کو جواب دیا ''میں اپنے ملک میں اپنی ہی قوم کے لوگوں کے درمیان ہوں اور مجھے کسی سے کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے اور میں بہرحال اس کو فضول خرچی سمجھتا ہوں۔ ''قائداعظم کے اس جواب پر ملٹری سیکریٹری حیران رہ گئے۔ اس سلسلے میں کئی انٹیلی جنس رپورٹس بھی پیش کی گئیں مگر قائداعظم نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا لیکن جب 30 جنوری 1948 کو گاندھی کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد گورنر جنرل ہائوس کے سیکیورٹی کے افسران اور ارباب اختیار نے قائداعظم پر دبائو ڈالا جس کے بعد وہ دیوار کی تعمیر پر رضا مند ہو گئے۔
اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کا کردار کتنا مثالی تھا ۔ سیاستدانوں کے لیے وی آئی پی پروٹوکول دیکھنے والا ہوتا ہے، کسی سڑک سے اگر کوئی وی آئی پی گزر رہا ہو تو سڑک پر سے عام انسان کا داخلہ ممنوع ہو جاتا ہے جیسے کہ عام یا غریب انسان اچھوت ہو اور عام انسان سے وی آئی پی شخص کو کوئی بیماری لگ جائے گی یا غریب لوگ انھیں نقصان پہنچا دیں گے، حالانکہ وی آئی پی ان کو انھی عام عوام نے بنایا ہوتا ہے، ان وی آئی پیز کے پاس جو کچھ ہوتا ہے ان عوام کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جو لوگ وی آئی پی کلچر کے خلاف باتیں کرتے ہیں، وہی خود وی آئی پی کلچر کو چھوڑ نہیں پاتے۔پاکستان میں وی آئی پی کلچردراصل ایک ذہنیت کا نام ہے جسے پاکستان کے اشرافیہ طبقے نے اپنا رکھا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اشرافیہ طبقے کے یہ لوگ جب بھی کسی دورے پر نکلتے ہیں تو سڑکیں بند کرکے عوام کے راستے روک دیے جاتے ہیں۔
یہ لوگ دوران سفر جب اپنی بلٹ پروف گاڑیوں کے کالے شیشوں سے عوام کو دیکھتے ہیں تو انھیں اپنی برتری اور شان و شوکت پر خوشی کا احساس ہوتا ہے جب کہ ان کے حفاظتی اسکواڈ میں شامل اسلحہ لہراتے اہلکار راستہ ہموار کرنے کے لیے عوام سے انتہائی تضحیک آمیز سلوک کرتے ہیں حالانکہ انھی عوام کے ٹیکسوں سے ہی وی آئی پی شخصیات کو بلٹ پروف گاڑیاں اورسیکیورٹی اسکواڈ فراہم کی جاتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں وی آئی پی سیکیورٹی کلچر عروج پر ہے حکمرانوں، بیورو کریسی، ارکان پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کروڑوں روپے روزانہ فقط وی آئی پی سیکیورٹی پر خرچ کرانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔
ایک اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ کیمطابق فقط کراچی میں 35 ہزار پولیس، 20 ہزار رینجرز اور ایک ہزار فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار ہیں، جن میں سے فقط پولیس کے پانچ ہزار اہلکار ایک سو کے لگ بھگ وی آئی پی سیکیورٹی پر مامور ہیں ،حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں نے اپنے گھروں،احباب، دوستوں یہاں تک کہ اپنے ملازمین کو بھی وی آئی پی سیکیورٹی فراہم کر رکھی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وی آئی پی سیکیورٹی کلچر اس فرسودہ نظام کا حصہ بن چکا ہے۔مقام افسوس ہے کہ وی آئی پی کلچر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔