سیاسی اختلاف بمقابلہ سیاسی دشمنی
قومی سیاست کا منظر نامہ ایک بڑی سیاسی تقسیم کا سبب بن گیا ہے
پاکستان کی سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاست دان، سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی فریقین معاشرے میں ایک ایسا جمہوری و مہذہب سیاسی کلچر جہاں ایک دوسرے کی قبولیت او راحترام کاپہلو نمایاں ہو اقائم نہیں کرسکیں۔ قومی سیاست کا منظر نامہ ایک بڑی سیاسی تقسیم کا سبب بن گیا ہے۔
سیاست سمیت ہر شعبہ میں لوگوں نے اپنی اپنی سیاسی پوزیشن لے کر خود کو ایک فریق کے طور پر کھڑا کردیا ہے ۔سیاست میں عملا سیاسی پوزیشن لینا یا کسی کی حمایت یا مخالفت کرنا کوئی انہونی عمل نہیں بلکہ ایک فطری تقاضہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
لیکن سیاسی تقسیم کو بنیاد بنا کر سیاسی مسائل یا اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کے عمل نے پورے سیاسی ، جمہوری اور اخلاقی بالادستی کے کلچر پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑا کردیے ہیں کیونکہ جو سیاسی کلچر یہاں پنپ رہا ہے اس نے مجموعی طور پر ہماری سیاست و جمہوری عمل کو نقصان پہنچاکر عملی طور پر سیاسی رواداری اور قبولیت کے کلچر کے دروازوں کو بند کردیا ہے۔
یہ جو کچھ ہم سیاسی مجالس، بیٹھک، جلسوں ، جلوس ، ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی فریقین سمیت دیگر صحافتی فریقین میں مکالمہ کے نام پر دیکھ رہے ہیں اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ سیاست سے لے کر گھر تک یا گھر سے معاشرے کے تمام طبقات میں عملی طور پر مکالمہ کے کلچر کے مقابلے میں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات طاقت پکڑ رہے ہیں ۔
یہ سوچ اور فکر ہی غلط ہے کہ میرے مقابلے میں باقی سب فریقین کی سوچ اور فکر غلط ہے ۔ خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنا یا عقل کل کے طور پر خود کو پیش کرنا خود ایک بڑے خطرناک رجحانات کی عملا نشاندہی کرتا ہے ۔ہم نئی نسل کو اس عدم رواداری پر مبنی کلچر کی مدد سے کیا پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنی بات منوانے کے لیے اونچی آواز کی مدد سے بات کرنا ، دوسروں کی تذلیل کرنا یاکسی مخالف کی کردار کشی کرناہی مثبت ہتھیار ہے ۔
سیاسی اختلافات ، سیاسی سوچ اور فکر میں ایک دوسرے کے بارے میں متبادل خیال کا ہونا فطری امر ہے ۔ اس لیے ان امور پر ہمیں گھبرانے کے بجائے اس بنیادی فریم ورک کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کے باوجود باہمی تعاون کے ساتھ مل کر چلنا ہوگااور یہ ہی عمل سیاسی رواداری کے عمل کو تقویت دینے کا سبب بنتا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک سیاسی جماعتیں ، سیاسی قیادت، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت دیگر فریقین ایک بنیادی سیاسی فریم ورک یا کوڈ آف کنڈکٹ کی تشکیل نہیں کریں گی جو متفقہ بھی ہو سیاسی جماعتوں اور معاشرے کی سطح پرسیاسی ماحول میں ایک دوسرے کا سیاسی احترام قائم نہیں ہوسکے گا کیونکہ جو خرابی اوپر کی سطح سے نیچے کی سطح تک مجموعی طور پر سیاسی عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے اس کے ذمے دار ہم سب فریق ہیں۔
کیونکہ ہم نے یہ سوچ اختیار کرلی ہے کہ سیاست میں محازآرائی اور سیاسی کشیدگی کو بنیاد بنا کر عام لوگوں کو اپنے مخالفین کے خلاف ایک مضبوط سیاسی ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اسی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سیاسی و اخلاقی برتری کی جنگ کی حیثیت کمزور ہے ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ سیاسی رواداری اور سیاسی اہم اہنگی یا سیاسی اختلاف کو بنیاد بنا کر سیاسی کارکنوں کی تربیت کا نظام عملی طور پر ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت کی ترجیحات میں اپنی جماعتوں کے داخلی نظام کو مضبوط کرنا اور سیاسی کارکنوں کو تیار نہ کرنے کے عمل نے پورے سیاسی نظام کو مفلوج کردیا ہے کیونکہ اس وقت سیاسی محاذ پر جو سیاسی لعن طعن ، گالم گلوچ، کردار کشی ، ننگی گالیاں ، عدم برداشت یا ذاتیات یا خاندان کی تضحیک ، جھوٹ پر مبنی الزامات او ربالخصوص عورتوں، گھر کے افراد کی تضحیک جیسے پہلووں سمیت قومی و ریاستی اداروں پر جو کچھ بولا جارہا ہے وہ اخلاقی و سیاسی اصولوں کے برعکس ہے۔
سوشل میڈیا پر تو بے لگامی پہلے سے ہی موجود تھی مگر اب ہم رسمی میڈیا میں بھی ایسے پہلو دیکھ رہے ہیں جہاں خیالات، معلومات اور تجزیہ و تبصرہ میں حقایق کے مقابلے میں جھوٹ پر مبنی مہم نے بالادستی حاصل کرلی ہے جو سیاسی حالات کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔
سیاست او رجمہوریت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کے لیے نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرتی ہے ۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ہم طے کرلیں کہ ہمیں سیاست میں موجود اخلاقی و سیاسی مسائل کا ادراک کرکے ایک ایسا متبادل سیاسی نظام درکار ہے کیونکہ جب آپ کو سیاست سے جڑے داخلی سیاسی حقایق کا ادراک ہوجائے تو مرض کی سیاسی تشخیص کا علاج بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان میں سیاست او رجمہوریت کا مقدمہ مضبوط ہونا چاہیے تو یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب سیاست کو کسی اچھے اصول ، فکر، سوچ اور خیال کی بنیاد پر چلایا جائے ۔ اگرچہ یہ دور نظریاتی سیاست کا نہیں او رنہ ہی یہاں کسی فکری بنیاد پر سیاسی جنگ جاری ہے لیکن کچھ تو بنیادی اصول ہمیں سیاسی محاذ پر طے کرنے ہونگے جو آگے بڑھنے میں او رایک قابل قبول سیاسی کلچر کو نئی سیاسی طاقت فراہم کرسکے۔
لیکن یہ عمل چھ صورتوںمیں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اول سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ سیاسی قیادت یا افراد سمیت سیاسی کارکن اپنی جماعتوں کی سطح پر سیاسی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے سیاسی و قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے دباو ڈالنے، آواز اٹھانے او رجو لوگ اس کلچر کو خراب کررہے ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی ۔ دوئم میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر اس منفی عمل کو فروغ دینے والے افراد یا اداروں کو رائے عامہ کی مثبت تشکیل میں اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
ریٹنگ کی بنیاد پر میڈیا یا سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کے کلچر کی نفی کرکے ایسے کلچر کو فوغ دینا ہوگا جو سیاسی اختلافات میں سیاسی دشمنی کے کلچر کو کمزور یا ختم کرسکے ۔سوئم سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی جماعتوں کی سطح پر سیاسی کارکنوں کی تربیت کے نظام کو ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا ہو گا اور سیاسی کارکنوں میں یہ سوچ او رفکر بڑھانی ہوگی کہ ہم غیر ضروری مباحث اور الزام تراشیوں کی سیاست سے باہر نکل کر سیاسی مخالفین کے لیے احترام کا رویہ پیدا کریں۔
خود ہمارے ٹاک شوز کے کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا جو ریٹنگ کی بنیاد پر محاز آرائی کو پیدا کرنے کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں ۔چہارم علمائے کرام ، دانش ور ، اہل قلم ، شاعر ، ادیب ، لکھاری بھی اس مہم کو اپنی ترجیح کا حصہ بنائیں او رایک ایسا سیاسی بیانیہ کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں جو لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے ان کو جوڑ سکے ۔ پنجم سیاسی طور پر رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہونگی اور نصابی کتابوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جو نئی نسل میں عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرسکے۔
نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ اس عمل میں خود کو ایک بڑے سفیر کے طو رپر پیش کریں کہ ہمیں امن اور رواداری پر مبنی سیاست درکار ہے ۔یہ کام سوشل میڈیا میں ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ ہم نفرت، تعصب اور دشمنی کی سیاست کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں ۔ششم سول سوسائٹی اور معاشرے میں موجود تھنک ٹینک کو بھی سیاسی جماعتوں او ران کے افراد یا شخصیات کے ساتھ ان کے ایجنڈے پر اپنی سیاسی طاقت یا خود کو بھی طاقت کی عملی سیاست سے جوڑنے کے بجائے سیاسی کلچر میں جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کہ ہمار ی سیاست او رجمہوریت کے عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں اور وہ مجموعی طور پر سیاسی نظام کا حصہ بنیں تو ہمیں اپنے سیاسی کلچر کو سب فریقین کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت لوگوں کی سیاسی نظام میں موثر شمولیت اسی صورت ممکن ہوگی جب ان کو رواداری پر مبنی کلچر ملے۔لیکن ایک عمل سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی سطح پر جوابدہی کا نظام بھی قائم کرنا ہوگاتاکہ جو بھی فریق رواداری پر مبنی کلچر کو نقصان پہنچائے تو اس کو ہر فورم پر جوابدہ بنانا ہو گا۔
رواداری پر مبنی سیاسی کلچر کا عمل کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی ایک فریق یہ کام کرسکتا ہے۔ اس کے لیے سب فریقین کو پہلے انفرادی سطح اور پھر اجتماعی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس سوچ اور فکر کو ایک بڑے بیانیہ کی صورت میں تبدیل کرنا ہوگا۔
سیاست سمیت ہر شعبہ میں لوگوں نے اپنی اپنی سیاسی پوزیشن لے کر خود کو ایک فریق کے طور پر کھڑا کردیا ہے ۔سیاست میں عملا سیاسی پوزیشن لینا یا کسی کی حمایت یا مخالفت کرنا کوئی انہونی عمل نہیں بلکہ ایک فطری تقاضہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
لیکن سیاسی تقسیم کو بنیاد بنا کر سیاسی مسائل یا اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کے عمل نے پورے سیاسی ، جمہوری اور اخلاقی بالادستی کے کلچر پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑا کردیے ہیں کیونکہ جو سیاسی کلچر یہاں پنپ رہا ہے اس نے مجموعی طور پر ہماری سیاست و جمہوری عمل کو نقصان پہنچاکر عملی طور پر سیاسی رواداری اور قبولیت کے کلچر کے دروازوں کو بند کردیا ہے۔
یہ جو کچھ ہم سیاسی مجالس، بیٹھک، جلسوں ، جلوس ، ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی فریقین سمیت دیگر صحافتی فریقین میں مکالمہ کے نام پر دیکھ رہے ہیں اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ سیاست سے لے کر گھر تک یا گھر سے معاشرے کے تمام طبقات میں عملی طور پر مکالمہ کے کلچر کے مقابلے میں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات طاقت پکڑ رہے ہیں ۔
یہ سوچ اور فکر ہی غلط ہے کہ میرے مقابلے میں باقی سب فریقین کی سوچ اور فکر غلط ہے ۔ خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنا یا عقل کل کے طور پر خود کو پیش کرنا خود ایک بڑے خطرناک رجحانات کی عملا نشاندہی کرتا ہے ۔ہم نئی نسل کو اس عدم رواداری پر مبنی کلچر کی مدد سے کیا پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنی بات منوانے کے لیے اونچی آواز کی مدد سے بات کرنا ، دوسروں کی تذلیل کرنا یاکسی مخالف کی کردار کشی کرناہی مثبت ہتھیار ہے ۔
سیاسی اختلافات ، سیاسی سوچ اور فکر میں ایک دوسرے کے بارے میں متبادل خیال کا ہونا فطری امر ہے ۔ اس لیے ان امور پر ہمیں گھبرانے کے بجائے اس بنیادی فریم ورک کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کے باوجود باہمی تعاون کے ساتھ مل کر چلنا ہوگااور یہ ہی عمل سیاسی رواداری کے عمل کو تقویت دینے کا سبب بنتا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک سیاسی جماعتیں ، سیاسی قیادت، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت دیگر فریقین ایک بنیادی سیاسی فریم ورک یا کوڈ آف کنڈکٹ کی تشکیل نہیں کریں گی جو متفقہ بھی ہو سیاسی جماعتوں اور معاشرے کی سطح پرسیاسی ماحول میں ایک دوسرے کا سیاسی احترام قائم نہیں ہوسکے گا کیونکہ جو خرابی اوپر کی سطح سے نیچے کی سطح تک مجموعی طور پر سیاسی عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے اس کے ذمے دار ہم سب فریق ہیں۔
کیونکہ ہم نے یہ سوچ اختیار کرلی ہے کہ سیاست میں محازآرائی اور سیاسی کشیدگی کو بنیاد بنا کر عام لوگوں کو اپنے مخالفین کے خلاف ایک مضبوط سیاسی ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اسی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سیاسی و اخلاقی برتری کی جنگ کی حیثیت کمزور ہے ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ سیاسی رواداری اور سیاسی اہم اہنگی یا سیاسی اختلاف کو بنیاد بنا کر سیاسی کارکنوں کی تربیت کا نظام عملی طور پر ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت کی ترجیحات میں اپنی جماعتوں کے داخلی نظام کو مضبوط کرنا اور سیاسی کارکنوں کو تیار نہ کرنے کے عمل نے پورے سیاسی نظام کو مفلوج کردیا ہے کیونکہ اس وقت سیاسی محاذ پر جو سیاسی لعن طعن ، گالم گلوچ، کردار کشی ، ننگی گالیاں ، عدم برداشت یا ذاتیات یا خاندان کی تضحیک ، جھوٹ پر مبنی الزامات او ربالخصوص عورتوں، گھر کے افراد کی تضحیک جیسے پہلووں سمیت قومی و ریاستی اداروں پر جو کچھ بولا جارہا ہے وہ اخلاقی و سیاسی اصولوں کے برعکس ہے۔
سوشل میڈیا پر تو بے لگامی پہلے سے ہی موجود تھی مگر اب ہم رسمی میڈیا میں بھی ایسے پہلو دیکھ رہے ہیں جہاں خیالات، معلومات اور تجزیہ و تبصرہ میں حقایق کے مقابلے میں جھوٹ پر مبنی مہم نے بالادستی حاصل کرلی ہے جو سیاسی حالات کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔
سیاست او رجمہوریت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کے لیے نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرتی ہے ۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ہم طے کرلیں کہ ہمیں سیاست میں موجود اخلاقی و سیاسی مسائل کا ادراک کرکے ایک ایسا متبادل سیاسی نظام درکار ہے کیونکہ جب آپ کو سیاست سے جڑے داخلی سیاسی حقایق کا ادراک ہوجائے تو مرض کی سیاسی تشخیص کا علاج بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان میں سیاست او رجمہوریت کا مقدمہ مضبوط ہونا چاہیے تو یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب سیاست کو کسی اچھے اصول ، فکر، سوچ اور خیال کی بنیاد پر چلایا جائے ۔ اگرچہ یہ دور نظریاتی سیاست کا نہیں او رنہ ہی یہاں کسی فکری بنیاد پر سیاسی جنگ جاری ہے لیکن کچھ تو بنیادی اصول ہمیں سیاسی محاذ پر طے کرنے ہونگے جو آگے بڑھنے میں او رایک قابل قبول سیاسی کلچر کو نئی سیاسی طاقت فراہم کرسکے۔
لیکن یہ عمل چھ صورتوںمیں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اول سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ سیاسی قیادت یا افراد سمیت سیاسی کارکن اپنی جماعتوں کی سطح پر سیاسی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے سیاسی و قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے دباو ڈالنے، آواز اٹھانے او رجو لوگ اس کلچر کو خراب کررہے ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی ۔ دوئم میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر اس منفی عمل کو فروغ دینے والے افراد یا اداروں کو رائے عامہ کی مثبت تشکیل میں اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
ریٹنگ کی بنیاد پر میڈیا یا سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کے کلچر کی نفی کرکے ایسے کلچر کو فوغ دینا ہوگا جو سیاسی اختلافات میں سیاسی دشمنی کے کلچر کو کمزور یا ختم کرسکے ۔سوئم سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی جماعتوں کی سطح پر سیاسی کارکنوں کی تربیت کے نظام کو ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا ہو گا اور سیاسی کارکنوں میں یہ سوچ او رفکر بڑھانی ہوگی کہ ہم غیر ضروری مباحث اور الزام تراشیوں کی سیاست سے باہر نکل کر سیاسی مخالفین کے لیے احترام کا رویہ پیدا کریں۔
خود ہمارے ٹاک شوز کے کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا جو ریٹنگ کی بنیاد پر محاز آرائی کو پیدا کرنے کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں ۔چہارم علمائے کرام ، دانش ور ، اہل قلم ، شاعر ، ادیب ، لکھاری بھی اس مہم کو اپنی ترجیح کا حصہ بنائیں او رایک ایسا سیاسی بیانیہ کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں جو لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے ان کو جوڑ سکے ۔ پنجم سیاسی طور پر رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہونگی اور نصابی کتابوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جو نئی نسل میں عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرسکے۔
نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ اس عمل میں خود کو ایک بڑے سفیر کے طو رپر پیش کریں کہ ہمیں امن اور رواداری پر مبنی سیاست درکار ہے ۔یہ کام سوشل میڈیا میں ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ ہم نفرت، تعصب اور دشمنی کی سیاست کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں ۔ششم سول سوسائٹی اور معاشرے میں موجود تھنک ٹینک کو بھی سیاسی جماعتوں او ران کے افراد یا شخصیات کے ساتھ ان کے ایجنڈے پر اپنی سیاسی طاقت یا خود کو بھی طاقت کی عملی سیاست سے جوڑنے کے بجائے سیاسی کلچر میں جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کہ ہمار ی سیاست او رجمہوریت کے عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں اور وہ مجموعی طور پر سیاسی نظام کا حصہ بنیں تو ہمیں اپنے سیاسی کلچر کو سب فریقین کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت لوگوں کی سیاسی نظام میں موثر شمولیت اسی صورت ممکن ہوگی جب ان کو رواداری پر مبنی کلچر ملے۔لیکن ایک عمل سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی سطح پر جوابدہی کا نظام بھی قائم کرنا ہوگاتاکہ جو بھی فریق رواداری پر مبنی کلچر کو نقصان پہنچائے تو اس کو ہر فورم پر جوابدہ بنانا ہو گا۔
رواداری پر مبنی سیاسی کلچر کا عمل کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی ایک فریق یہ کام کرسکتا ہے۔ اس کے لیے سب فریقین کو پہلے انفرادی سطح اور پھر اجتماعی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس سوچ اور فکر کو ایک بڑے بیانیہ کی صورت میں تبدیل کرنا ہوگا۔