عمران خان کے سابق ہونے میں کب کیا غلط ہوا

کپتان اور ان کی ٹیم نے نہایت بھونڈے طریقے سے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی

اگلے الیکشن کی تیاری کیجیے اور گالم گلوچ کے بجائے حقیقی خدمت کو شعار بنائیے۔ (فوٹو: فائل)

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 5 کے پہلے حصے میں واضح ہے کہ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ اور اسی شق کے دوسرے حصے میں دستورِ پاکستان اور قانون کی پاسداری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا جن بوتل سے باہر نکلا اور کپتان کے کھلاڑی قاسم سوری نے آرٹیکل پانچ کی چھتری کے نیچے اس تحریک کو مسترد کیا تو اس وقت ہی یہ قصہ زباں زدِ عام ہوچکا تھا کہ اب عمران خان محفوظ نہیں رہے۔ کیوں کہ انتہائی بھونڈے انداز سے اس پورے معاملے کو نہ صرف ترتیب دیا گیا بلکہ اس سے نمٹنے کےلیے بھی کپتان کی ٹیم مکمل طور پر نہ صرف ناکام نظر آئی بلکہ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے بھی اپنے حواریوں کو مایوس کیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اپوزیشن بھی تگڑی ہوتی گئی۔

ہفتے کی شام کو جو کچھ ہوا اس سے ایک عمومی تاثر یہ ابھرا کہ عمران خان مقابلہ کرنے کے بجائے میدان میں پانی چھوڑ کر کھیل ہی ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اور رہی سہی کسر پروپیگنڈا ٹیموں نے پوری کردی۔ اتنی خطرناک خبریں زیر گردش کرنے لگیں کہ اک چاپ سی سنائی دینے لگی۔ یہ نجانے کرسیٔ اقتدار سے کیسا عشق ہے کہ جو نہ آپ کو فیصلہ کرنے دیتا ہے نہ ہی ملک کا مفاد سوچنے دیتا ہے۔

بنیادی قضیہ جو ایک خط بنا، اس حوالے سے عمران خان نے بے انتہا غلطیاں کیں۔ پہلی اور بنیادی غلطی یہ تھی کہ اس خط کی بنیاد پر جب سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کارروائی کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک مسترد کی تو کسی جگہ یہ اشارہ تک نہ دیا کہ انہوں نے خط دیکھا ہے۔ یا وہ اس خط کے مندرجات سے آگاہ ہیں، یا کم از کم یہ کہ وہ یہ خط اپوزیشن لیڈر کو دکھانے کو تیار ہیں۔ شنید یہی ہے کہ وہ اس خط کو دیکھ تک نہ سکے تھے اس فیصلے کے وقت۔ فواد چوہدری کی آشیرباد پر جو کچھ ڈپٹی اسپیکر نے کیا وہ خود تحریک انصاف کے گلے پڑگیا۔ مزید حیرت یہ ہوئی کہ ہفتے کی رات جب اسد قیصر نے استعفیٰ پیش کیا تو وہی خط یہ کہتے ہوئے لہرایا کہ اب میرے پاس یہ خط پہنچ گیا ہے اور میں اسے اپوزیشن لیڈر کو دکھانے کو بھی تیار ہوں۔ یعنی یہ خط پہلے کہیں وجود ہی نہیں رکھتا تھا اسپیکر کے پاس؟ تو جب وجود ہی نہیں تھا اسپیکر کے پاس اس کا تو تمام کارروائی ہوئی کیسے؟ اور تمام ممبران اسمبلی پر غداری کا فتویٰ کیسے لگادیا گیا؟ یہ ایک بلنڈر تھا جو پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں سے ہوا۔

کچھ پیچھے جائیے۔ اعلیٰ عدلیہ نے ازخود نوٹس لے لیا۔ کئی دن پوری قوم انتظار کے عذاب میں مبتلا رہی۔ صبح سے رات گئے تک سماعت ہوتی رہی۔ اور بالآخر اعلیٰ عدالت نے فیصلہ حکمران جماعت کے اقدامات کے خلاف دے دیا۔ پھر واویلا شروع ہوا کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔ ہم خط نہیں دکھا سکے۔ ارے محترم! عدالت آپ کو کیوں کہتی؟ آپ کے وکیل بابر اعوان کس مرض کی دوا تھے؟ وہ کیوں خود سے نہ خط لے گئے کہ جناب یہ لیجیے، پڑھیے اور نکال باہر کیجیے غداروں کو۔ اٹارنی جنرل ہی اگر آگاہ تھے اس خط سے تو پھر انہوں نے قاسم سوری کے اقدامات کا دفاع کرنے سے انکار کیوں کردیا؟ اگر واقعی اس سفارتی تار میں اتنی جان تھی تو کیوں آپ کسی جگہ اسے پیش نہ کرسکے؟ اور کیوں آپ نے اسے ایک ہوا بنائے رکھا اور حکومت گنوا بیٹھے؟ یہ ایک اور بلنڈر تھا۔


خط بنیادی طور پر ایک سفارتی مراسلہ تھا جو معمول کے مطابق پوری دنیا میں قائم سفارتخانوں اور قونصل خانوں سے اپنے ممالک میں بھیجے جاتے رہتے ہیں۔ اور یہ معمول کی خط و کتابت ہی ہے۔ لیکن چونکہ یہ اس ملک میں تعینات سفیر کی جانب سے اپنے دفتر خارجہ کے ذریعے اعلیٰ قیادت کی آگاہی کےلیے بھیجا جاتا ہے تو اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن سفارتی طور پر ایسے مراسلے موصول ہونا غیر معمولی واقعہ نہیں۔ لیکن جب تحریک انصاف کی حکومت کے پاس اور کچھ بچا نہیں تو انہوں نے اس مراسلے کو ہی اپنے خلاف سازش سمجھ لیا اور اس پر واویلا مچاتے ہوئے نہ صرف اپنا کباڑا کرلیا بلکہ پاکستان کے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے سفارتی مشنز کو بھی ایک ایسا جھٹکا دیا ہے کہ آئندہ وہ ایسا مراسلہ بھیجتے ہوئے بھی ہزار بار سوچیں گے۔ اسد مجید کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھی کی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں آپ کے خارجہ امور کے ذمے دار بیوروکریٹ اب کیسا رویہ رکھیں گے؟ یہ کھلا راز ہے۔ یہ خارجہ امور کے محاذ پر بلنڈر تھا۔

آرٹیکل 58 کے پہلے حصے میں صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن اس کی ذیلی تشریح میں یہ بھی موجود ہے کہ صدر وزیراعظم کے مشورے پر اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا اس وزیراعظم کی ایڈوائس پر نہیں کیا جاسکتا جس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دیا جاچکا ہو لیکن اس پر رائے دہی نہ کی گئی ہو۔ یہ بھی ایک بلنڈر کیا گیا۔

اعلیٰ ترین عدالت نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تو فیصلہ حاکم وقت کے خلاف آیا۔ عدالت آدھی رات کو کیوں کھولی گئی، اعتراض بردار سامنے آئے، سوشل میڈیائی پیادے۔ تو عرض ہے کہ ملکی سلامتی یا جمہوریت کے خلاف کچھ کام ہو تو کہاں لکھا ہے کہ عدالت ایسا نہیں کرسکتی؟ اگر مقننہ کارروائی میں آزاد ہے تو عدلیہ 186 اور 188 کی دفعات کی تشریحات کے مطابق نظرثانی کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔ اور اعلیٰ عدلیہ ہی تو آئین کی دفعات کی تشریح کی ذمے دار بھی ہے۔ تو حضور پھر مسئلہ کیوں ہے؟

راقم الحروف نے بچشم خود ایسے مخالفین دیکھے خان کے، جو کہتے سنے کہ عمران خان واقعی بہادروں کی طرح مقابلہ کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن جس طرح سے آئین کے ساتھ مذاق کیا گیا، جس طرح سے معاملات کو کج فہمی سے خراب کیا گیا۔ حواری بھی پریشان نظر آتے ہیں کہ ایسے غیر ذمے دار لیڈر کو وہ پچیس سال سے فالو کرتے رہے۔ بگڑا کچھ نہیں، خود میں علی محمد خان جیسی روش لائیے۔ تن تنہا اسمبلی میں دھاڑتا رہا۔ اور مقابلہ کیا ناتواں ہونے کے باوجود۔ اگلے الیکشن کی تیاری کیجیے اور گالم گلوچ کے بجائے حقیقی خدمت کو شعار بنائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story