کیا راجہ کا تخت و تاج برقرار رہے گا

وزیر اعظم کے ساتھ چیئرمین پی سی بی کو بھی اپنا سامان پیک کرنا پڑتا ہے

وزیر اعظم کے ساتھ چیئرمین پی سی بی کو بھی اپنا سامان پیک کرنا پڑتا ہے (فوٹو: فائل)

کراچی:
آسٹریلیا سے سیریز کے بعد پاکستان ٹیم اب کچھ عرصے فراغت میں گذارے گی،کرکٹ کے محاذ پر سناٹا چھایا تو سیاسی ماحول گرم ہو گیا، عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر وزیر اعظم نہ رہے، شہباز شریف نے ان کی جگہ سنبھال لی، کوئی اور ملک ہوتا تو کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ایک سابق کرکٹر کی کرسی سے محرومی پر بس افسوس کا اظہارہی کرتے مگر پاکستان میں کھیل پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔

وزیر اعظم کے ساتھ چیئرمین پی سی بی کو بھی اپنا سامان پیک کرنا پڑتا ہے،گوکہ آئی سی سی کے کہنے پر بظاہر پاکستان نے بھی کرکٹ بورڈ کو سیاسی مداخلت سے آزاد کر دیا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، اب بھی وزیر اعظم گورننگ بورڈ کیلیے دو نام تجویز کرتے ہیں اور ان میں جس کسی کو چیئرمین بنانا ہو وہ بلامقابلہ ہی منتخب ہو جاتا ہے، احسان مانی اور پھر رمیز راجہ کو لاتے وقت بھی یہی ہوا۔

اس سسٹم کا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات اچھا کام کرنے والوں کو بھی فارغ کر دیا جاتا ہے، جیسے کہ رمیز راجہ ان دنوں عمدگی سے فرائض انجام دے رہے ہیں مگر عمران خان کے جانے پر شاید ان کو بھی عہدہ چھوڑنا پڑے،یہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ بھی بہت غلط ہوگا، رمیز کے آنے سے قومی ٹیم کی کارکردگی پر مثبت اثر پڑا، انھوں نے کپتان بابر اعظم کو مکمل اختیارات دیے جس کا بہت فائدہ ہوا، نیوزی لینڈ کی ٹیم کے واپس جانے سے پاکستانی میدان پھر ویران ہونے کا خدشہ تھا مگر رمیز راجہ کی بہترین حکمت عملی سے ایسا نہ ہوا اور24 سال بعد آسٹریلوی کرکٹ ٹیم یہاں کھیل کر گئی۔

سیریز کے کامیاب انعقاد نے اب نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کیلیے بھی انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی، پی ایس ایل کو مسلسل دو سال کوویڈ کی وجہ سے درمیان میں روکنا پڑا تھا، اس بار بغیر کسی تعطل کے انعقاد ہوا، فرنچائز ہمیشہ مالی نقصان کا رونا روتی تھیں، نئے فنانشل ماڈل سے وہ بھی اب خوش ہیں، گوکہ چار قومی ٹورنامنٹ کے حوالے سے ان کی تجویز کو آئی سی سی نے منظور نہ کیا مگر کم از کم انھوں نے کوئی آئیڈیا تو پیش کیا، ماضی میں ایسی کتنی مثالیں موجود ہیں؟پی سی بی میں رہتے ہوئے انھوں نے کوئی تنخواہ یا زیادہ مراعات بھی نہیں لیں۔

البتہ انھیں اپنی سیاسی وابستگی کا پرچار کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، جس دن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرائی گئی رمیز نے سابق وزیراعظم کی تعریف میں اپنے پرانے انٹرویو کی کلپ شیئر کی، اب ظاہر ہے جو نئی حکومت آئی ہے وہ انھیں اپنا مخالف ہی سمجھے گی، پی سی بی میں سیاسی مداخلت کا یہی نقصان ہے۔


اگر باقاعدہ الیکشن کے بعد ریجنز وغیرہ چیئرمین منتخب کریں تو کوئی نئی حکومت بھی اسے نہیں نکال پائے گی،اس وقت تو یہی اطلاعات زیرگردش ہیں کہ نجم سیٹھی بورڈ کی سربراہی سنبھالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،پی ایس ایل کا آغاز انہی کے دور میں ہوا تھا اور یہ کریڈٹ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا،رمیز راجہ کی عمران خان سے جتنی قربت ہے اسے دیکھتے ہوئے شاید وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں البتہ ابھی کچھ دیر قبل میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ شام کو مستعفی ہورہے ہیں تو ان کا جواب ناں میں تھا، مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنے مستقبل کا خود ہی فیصلہ کر لیں گے کیونکہ نئی حکومت کے ساتھ ان کا چلنا آسان نہ ہوگا،البتہ میرے ایک انتہائی قریبی دوست کہتے ہیں کہ رمیز استعفیٰ نہیں دیں گے۔

ہم نے ڈنر کی شرط لگائی ہوئی ہے، دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے، ویسے نجم سیٹھی کی وزیر اعظم سے جتنی قربت ہے اسے دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ قذافی اسٹیڈیم میں ان کے نام کی تختی تیار ہو چکی ہوگی، راجہ کا تخت و تاج برقرار رہنا آسان نہیں لگتا، اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ پاکستان کرکٹ کی بدقسمتی ہوگی کہ ایک کرکٹر جو کام کرنا بھی چاہتا ہے اسے ایسے جانا پڑے، تاریخ میں کم وقت کیلیے بورڈ کی سربراہی سنبھالنے والے وہ تیسرے سربراہ ہوں گے۔ نجم سیٹھی آنے کے بعد سب سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم کو تبدیل کریں گے۔

عمران خان کے کہنے پر جو نیا آئین بنا اس میں ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم کر دی گئی تھیں، ہزاروں کرکٹرز و دیگر افراد بے روزگار ہوگئے، جو منصوبہ بنایا گیا تھا کہ سب کو ملازمتیں دی جائیں گی اس پر عمل نہ ہو سکا، کئی ٹیکسی چلانے لگے تو کسی کو کوئی اورکام کرنا پڑا،وسیم خان نے خود تو کروڑوں روپے کمائے لیکن چند ہزار ماہانہ پانے والوں کوبھی گھر بھیج دیا۔

میری اطلاعات کے مطابق نجم سیٹھی کے بعض رفقا نے پرانے ڈومیسٹک سسٹم کی واپسی پر کام بھی شروع کر دیا ہے، البتہ ڈپارٹمنٹس کو دوبارہ ٹیمیں بنانے پر کیسے قائل کیا جائے گا یہ کوئی نہیں جانتا،شاید وزیر اعظم سے اس حوالے سے مدد لی جائے گی،ویسے پی سی بی کے بعض آفیشلز جتنی تنخواہیں وصول کررہے ہیں کسی ایک کو ہٹا کرہی15،20 یا زائد افراد کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں،نئے ڈومیسٹک نظام کا تاحال کوئی فائدہ بھی نظر نہیں آیا، پچز، گراؤنڈز، بالز سب وہی پہلے جیسی ہیں، کوئی غیرمعمولی ٹیلنٹ بھی نہیں ملا،بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں وقت لگے گا تو ایسا پلان تیار کرتے ہوئے حکومت کی تبدیلی کا بھی سوچنا چاہیے تھا، خیر مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی نئی حکومت پی سی بی کے چیئرمین کے تقرر میں اپنا اختیار کھونا چاہے گی۔

یہ پوسٹ ایک طرح سے انعام کی طرح ہوتی ہے جو اپنے وفاداروں کو دیا جاتا ہے،البتہ اس کا نقصان ملکی کرکٹ کو اٹھانا پڑتا ہے،ہر چیئرمین کے سر پر تلوار لٹکی رہتی ہے کہ صاحب گئے تو ہمیں بھی جانا پڑے گا، اس سے کھیل کے فروغ پر بھی اثر پڑتا ہے، خیر اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوگا البتہ کئی تبدیلیاں ہوتی ضرور نظر آ رہی ہیں،اگر کوئی نیا چیئرمین آیا تو کئی ڈائریکٹرز اور دیگر اعلیٰ آفیشلز کو بھی قذافی اسٹیڈیم میں اپنے کمرے خالی کرنا پڑیں گے، ہر سربراہ اپنے بھروسے کے لوگ لاتا ہے،گوکہ رمیز راجہ نے ایسا نہیں کیا لیکن نجم سیٹھی آئے تو ان کے دور میں پہلے کام کرنے والے کئی آفیشلز بھی ساتھ ضرور آئیں گے،قذافی اسٹیڈیم میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story