قومی سلامتی پالیسی پر کوئی جماعت تذبذب کا شکار ہے تو اسے دورکیا جائے گا وزیراعظم
قومی سیکیورٹی پالیسی کسی ایک جماعت یا ملک کی نہیں بلکہ پورے ملک کی پالیسی ہے، وزیر اعظم
وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی میں حکومت کسی ابہام کا شکار نہیں اگر کوئی سیاسی جماعت تذبذب کا شکار ہے تو اسے دور کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ قومی سیکیورٹی پالیسی کسی ایک جماعت یا ملک کی نہیں بلکہ پورے ملک کی پالیسی ہے، اس سلسلے میں انتہائی عرق ریزی سے کام کیا گیا ہے جو قابل تعریف ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے مذاکراتی عمل کو سب سے سامنے رکھا، حکومتی اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے قوم کو آگاہ کیا گیا اور قوم کو پتہ چلتا رہا کہ مذاکرات کس سمت جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا ایوان ماضی کے مقابلے میں کافی مختلف ہے کیونکہ ہم سب نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے ہیں، ہم نے آئین ، قانون اورعدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے، اپنے تجربات کی بنا پر ہم نے اپنی اصلاح کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ایوان میں حقائق کی روشنی میں بات کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذاکرات سے متعلق حکومت کسی بھی قسم کے ابہام کا شکار نہیں، قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی سلامتی پالیسی حرف آخر نہیں، پارلیمنٹ میں بحث کے دوران آنے والی تجاویز کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے اور اگر اس سلسلے میں کسی کو ابہام ہے تو حکومت اسے دور کرنے کے لئے تیار ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ قومی سیکیورٹی پالیسی کسی ایک جماعت یا ملک کی نہیں بلکہ پورے ملک کی پالیسی ہے، اس سلسلے میں انتہائی عرق ریزی سے کام کیا گیا ہے جو قابل تعریف ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے مذاکراتی عمل کو سب سے سامنے رکھا، حکومتی اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے قوم کو آگاہ کیا گیا اور قوم کو پتہ چلتا رہا کہ مذاکرات کس سمت جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا ایوان ماضی کے مقابلے میں کافی مختلف ہے کیونکہ ہم سب نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے ہیں، ہم نے آئین ، قانون اورعدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے، اپنے تجربات کی بنا پر ہم نے اپنی اصلاح کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ایوان میں حقائق کی روشنی میں بات کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذاکرات سے متعلق حکومت کسی بھی قسم کے ابہام کا شکار نہیں، قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی سلامتی پالیسی حرف آخر نہیں، پارلیمنٹ میں بحث کے دوران آنے والی تجاویز کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے اور اگر اس سلسلے میں کسی کو ابہام ہے تو حکومت اسے دور کرنے کے لئے تیار ہے۔