عمران خان کی ’’نئے چورن‘‘ کے ساتھ کراچی آمد

عمران خان نے اب تک کراچی کے لیے اپنے بیانیے کا چورن بیچنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے؟

عمران خان نے دوران اقتدار کراچی کے لیے گیارہ سو ارب پیکیج کا لولی پاپ دیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان کراچی آرہے ہیں۔ وہ جب وزیراعظم تھے کبھی کبھی آتے تھے۔ رات نہ گزارتے، صبح آتے اور شام میں چلے جاتے۔ سننے میں آیا تھا کہ کسی نے ان کو منع کیا ہے کہ سمندر کے کنارے شب نہیں گزارنی۔ ان کی شب بسری سے شہریوں کو کوئی دلچپسی بھی نہ تھی۔ دلچسپی تھی تو صرف اس بات میں کہ وہ بحیثیت وزیراعظم کراچی کےلیے کچھ کرجائیں۔ بہت سے دور اندیشوں نے ان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی کہہ دیا تھا موصوف کچھ نہ کریں گے، بلاوجہ پاگل ہوئے چلے جاتے ہو۔ مگر پاگل ہونے والے کب کسی کی سنتے ہیں۔ وہ تو بس پاگل ہوتے ہیں۔ خود بھی قیمت ادا کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی جبری قیمت ادا کرواتے ہیں۔ چند لفظوں کی اس کہانی میں کئی عشرے چھپے ہوئے ہیں۔

عمران خان اقتدار سے فارغ ہوئے تو امریکا کا کارڈ اٹھالیا۔ مذہب کارڈ سینے پر چسپاں کرلیا۔ کہتے ہیں امریکا نے ان کے خلاف سازش کی، اس لیے ان کو فارغ کیا جارہا ہے۔ وجہ نہیں بتاتے۔ امریکا نے اتنی بڑی دنیا میں اقتدار سے فارغ کرنے کےلیے اتنے خوبصورت شخص کا انتخاب کیوں کیا جو امریکا اور یورپ کو شاید ان سے بھی زیادہ جانتا تھا؟ امریکا تو اس سازش کو تسلیم نہ کرتا مگر عمران خان کہتے ہیں یہی زرداری اور نوازشریف سے مل گیا۔

بہتر ہوتا کہ عمران خان امریکی سازش کے بجائے اپنے اقتدار کی پونے چار سالہ کارکردگی کو بیانیہ بناتے۔ مگر انھوں نے اس لیے ایسا کرنے سے گریز کیا کہ شاید کچھ بتانے کو نہ ہو۔ مذہب کارڈ اور امریکی دشمنی پاکستان میں فروخت تو ہر دور میں ہوئی مگر یہ کریڈٹ عمران خان کو دینا ہوگا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، کاروباری اور دولت مند افراد نے بھی اس عہد کے سب سے پرانے بیانیے کو عمران خان کی منہ مانگی قیمت پر خرید لیا اور دوسروں کو بھی بیچنے پر بضد ہیں۔ جو نہ مانے اس کو پاکستان کا دشمن اور کرپٹ افراد کا ہمدرد قرار دیتے ہیں۔

عمران خان اپنا ہر بیانیہ ہر دفعہ بیچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس مرتبہ تو کمال کرگئے۔ اپنی حکومت کی پونے چار سالہ خراب کارکردگی پر امریکی کارڈ کی ایسی پنی چڑھائی کہ اس میں ان کی حکومت کی پوری نااہلی چھپ گئی۔ اب صرف امریکا کی دشمنی ہے اور پاکستان کو عالمی طاقت بننے سے روکنے کی سازش ہے۔ عمران خان کی اس کامیابی کی وجہ کیا ہے؟ درحققیت عمران خان کے پاس سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی شکل میں اتنی بڑی سیلزمینوں کی ورک فورس ہے جو عمران خان کا ہر آئٹم چاہے وہ زائد المیعاد ہو، ناکارہ ہو اور جعلی کیوں نہ ہو، مہنگے داموں فروخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عمران خان کی ایسی طاقت ہے جو ملک کی ساری سیاسی جماعتوں میں اجتماعی طور پر بھی نہیں۔ مسلم لیگ نے یہ استعداد پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر عمران خان کے اس مونوپولی آئٹم کو توڑنا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا وہ خاص کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

عمران خان کی سیاست پر بیانیے کا چورن ہمیشہ حاوی رہا۔ وہ چورن دیتے رہے، ان کے سیلزمین فروخت کرتے رہے اور عام آدمی خریدتا رہا۔ مگر وہ اتنی جلدی نیا چورن دے دیتے ہیں کہ کبھی کبھی وہ پرانے چورن کی ضد بن جاتا ہے۔ عمران خان کو تو یاد بھی نہیں رہتا مگر ان کے سیلزمین فروخت کردیتے ہیں۔ اب کی بار اقتدار سے فارغ ہونے کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ جن کے کندھوں پر بیٹھے ہوئے تھے وہ کندھے نہ رہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سارے سہارے اچانک غائب ہوچکے تھے۔ کال کرنے والوں نے کال کرنا چھوڑ دیا، عمران کے مخالفین کو آنکھ کے اشاروں پر چلانے والوں نے اپنی آنکھیں ایسی بند کرلیں جیسے وہ ان کو جانتے ہی نہ تھے۔ جب عمران خان کو ہر جگہ اندھیرا نظر آنے لگا، جب قریبی رشتے داروں اور دوستوں سے بھی زیادہ عزیز مہربانوں نے کمر دکھادی تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب اقتدار کا بچنا مشکل ہے۔ تو ان کو عجب سوجھی مگر خوب سوجھی کہ کہنے لگے امریکا یہ سب کچھ کررہا ہے۔

انھوں نے یہ چورن فروخت کرنا شروع کردیا، جو ان کی نئی مگر کامیاب پروڈکٹ کے طور پر خوب بکنے لگا۔ کراچی میں تو حد ہی ہوگئی، اس چورن کے خریدار ایسے آئے جیسے صدیوں سے اپنے ہاضمے کےلیے اسی چورن کے انتظار میں ہوں۔


اتوار کو کراچی میں تحریک انصاف کا جو اجتماع ہوا حیران کن حد تک کامیاب تھا۔ حیران کن حد تک اس لیے کہ 2018 کے انتخابات سے قبل کراچی میں تحریک انصاف کے اجتماعات ہوئے جن میں تو کچھ بہت کامیاب تھے۔ اتوار کا اجتماع تحریک انصاف کے کراچی میں ہونے والے اجتماعات میں عددی طور پر سب سے کامیاب اجتماع تھا۔ تعلیم یافتہ اپر کلاس اور مڈل کلاس کھل کر امریکا کے خلاف نعرے لگارہی تھی۔ اجتماع میں اکثریت مہاجروں کی تھی جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوئے۔ دو بجے رات تک یہ اجتماع چلا۔ کراچی میں سیاسی نوعیت کے اجتماعات کی تاریخ بھری پڑی ہے مگر اس اجتماع کا رنگ ہی کچھ الگ تھا۔ کسی نے حکومت کی کارکردگی یا مہنگائی پر بات نہیں کی، بس سب امریکا پر غصے میں تھے مگر غصہ اسٹیبلشمنٹ پر نعروں اور پوسٹروں کے ذریعے اتار رہے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں بہرحال امریکا کی مخالفت کا چورن اس وقت ملک میں سب سے زیادہ کراچی میں فروخت ہورہا ہے۔ خریدار صرف ناخواندہ یا غریب نہیں بلکہ تعلیم یافتہ، دولت مند، بزنس مین، سرکاری ملازمین، خواتین، افسران خاص طور پر نوجوان اس بات پر یقین کرچکے ہیں کہ امریکا نے سازش کی ہے۔ اگر اس غلامی سے ہم کو کوئی نکال سکتا ہے تو صرف عمران خان ہی نکال سکتا ہے۔

عمران خان بہرحال خوش نصیب انسان ہیں۔ جب تحریک انصاف 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے 14 نشستیں جیت گئی تو اس کے بعد صورتحال بہت عجیب سے ہوگئی۔ ہارنے والا سینہ تان کر چلے اور جیتنے والا شرمندہ شرمندہ گھومے۔ ایسا بھی نہ تھا تحریک انصاف کو ووٹ نہ پڑے مگر ایسا بھی نہ تھا کہ جتنے نکلے اتنے پڑے تھے۔ جیتنے کے اجزائے ترکیبی تحریک انصاف کے ووٹ، ایم کیو ایم کا تنظیمی بحران اور طاقتور حلقوں کی کھلی حمایت بنی۔ مگر تنظیم نہ تھی۔ جب نظم نہ ہو تو فتح کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ یہی تحریک انصاف کے ساتھ ہوا۔ بلکہ اتنا برا شاید ہی کسی اور کے ساتھ ہوا ہو کہ 14 نشستوں سے کراچی کو فتح کرنے والی پارٹی کراچی میں ایک کارنر میٹنگ کرنے کی استعداد بھی نہیں رکھتی۔ پونے چار سال میں کوئی اجتماع نہیں ہوا۔ کارکردگی اتنی بری کہ پیپلزپارٹی جیسی پارٹی بھی چیلنج پر اتر آئی۔ اب آپ تصور کیجئے کہ جس پارٹی کی کارکردگی کو پیپلزپارٹی چیلنج کردے وہ کیسی ہوگی؟

کراچی میں بڑے بڑے چورن الیکشن سے پہلے فروخت کیے تھے۔ پھر دوران اقتدار گیارہ سو ارب کا پیکیج دیا مگر گیارہ روپے نہیں ملے۔ پونے چار سال میں صرف ایک منصوبہ جزوی طور پر مکمل ہوا، وہ بھی نوازشریف کا تھا مگر تختی عمران خان کی لگ گئی۔ شہریوں کا شکوہ بہت بڑھ گیا۔ جو لوگ عمران خان کے گن گاتے نہ تھکتے وہ کھلی تنقید کرنے لگے مگر عمران خان حالت تکبر میں تھے۔ انھوں نے کسی کی پروا نہیں کی۔ وہ کراچی کو فتح کرکے کراچی کو بھول گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی بھی ان کو بھول گیا۔ کراچی والوں نے شہر کے حالات کو اپنا نصیب جان لیا۔ مگر اچانک سے وقت تبدیل ہوگیا، جذبات بدل گئے، لہجے تبدیل ہوگئے۔ عمران خان کا بیانیہ پھر فروخت ہوا اور اتنی تیزی سے فروخت ہوا کہ ساعتوں میں برسوں کا سفر طے کرلیا۔ جو شہری ان کی کارکردگی سے مایوس ہوگئے تھے وہ بھی عمران خان کے ساتھ اس بیانیے کے سیلزمین بن گئے۔ حد تو یہ ہوئی کہ وہ لوگ جو پہلے عمران خان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے وہ بھی کہنے لگے ہیں کہ ہمیں غلامی سے نجات دلانے کی بات کررہا ہے۔ جبکہ یہ بات کئی عشروں سے جماعت اسلامی اور فضل الرحمان بھی کررہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کررہے ہیں۔ مگر مجال ہو کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔

کراچی کے شہری اور تحریک انصاف کے کارکن اتنے جذباتی ہوگئے ہیں کہ وہ عمران خان کی محبت میں اسٹیبلشمنٹ کو کھل کر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ہمارے دوست اور ممتاز دانشور اقبال خورشید نے ان کی ذہنی حالت کے باعث ان کو مشورہ بھی دیا کہ اگرچہ عمران نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا مگر تم کو عمران کی حمایت کرنی ہے تو ضرور کرو مگر اس حمایت میں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں نکالتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنا تمہارا تعلق کسی اور صوبے سے نہیں کراچی شہر سے ہے۔ تم پر برا وقت آیا تو عمران تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔

عمران خان کی ایک چورن کی فیکٹری ہے جس میں طرح طرح کا چورن تیار کیا جاتا ہے، جس کو خوبصورت پیکنگ میں پورے ملک کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ جو وقت ضرورت اور جگہ کے اعتبار سے فروخت ہوتا ہے۔ اسی فیکٹری میں گیارہ سو ارب روپے کا کراچی پیکیج کے نام سے ایک چورن تیار ہوا تھا جو کراچی میں بہت بکا تھا۔ کراچی کے شہریوں نے بھی خوب خریدا تھا، جیسے ان کے ہر مرض کا علاج اسی چورن میں ہے۔ مگر عمرانی چورن کبھی کسی مرض کو کہاں ختم کرسکا؟ کراچی کے لوگ جب عمران خان کے جلسے میں جائیں تو ایک سوال ضرور کریں کہ ہم تو آپ کا چورن پورے ملک میں سب سے زیادہ بیچتے ہیں مگر خان صاحب آپ یہ تو بتائیے آپ نے کراچی کےلیے کیا کیا سوائے چورن بیچنے کے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story