رمضان اور کھانا ایک جائزہ
متوازن غذا سے روزے کے مقاصد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں اور جسم بھی توانا رہ سکتا ہے
BEIJING:
رمضان کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوجاتی ہیں، جس میں زیادہ زور غذائے اجناس کی خریداری پر دیا جاتا ہے تاکہ کھانے پینے میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ سحری اور افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے دستیاب ہوں اور دسترخوان وسیع و عریض ہو۔
مسلمان روزے تب سے رکھتے آرہے ہیں جب سے یہ فرض ہوئے ہیں۔ انفرادی طور پر ہم سن بلوغت میں داخل ہوتے ہی روزے رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ گھرانوں میں اس سے بھی پہلے بچے ماحول کے اثر اور ثواب کے شوق میں روزے رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر ایک چیز جس کو رمضان کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے، وہ ہے کھانا۔ گھر کی خواتین رمضان کے قیمتی اوقات بلکہ زیادہ تر وقت کھانا بنانے میں گزار دیتی ہیں اور پھر پورا گھرانہ اس کو کھانے میں۔
یہ سلسلہ خریداری سے شروع ہوتا ہے اور پھر سحری، افطاری، اسنیکس اور رات کے کھانے پر ختم ہوتا ہے۔ ظلم تو تب ہوتا ہے جب تیل کو پانی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور تلی ہوئی اور مرغن غذائیں کھائی جا رہی ہوتی ہیں، چینی کا بھی وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر مشروبات میں۔ انجام سے بے خبر کہ یہ آپ کی صحت کو کس بری طرح نقصان پہنچارہا ہے۔ اس میں ہر طبقہ برابر ہے، وہ جو عبادات کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اور وہ جو روزے کو صرف فرض پورا کرنے کےلیے رکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے سوچ وہی کاربند ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ کھائیں گے اتنا توانا رہیں گے اور روزہ اچھا گزرے گا۔
یہ روزے کا مقصد ہرگز نہیں، اور نہ ہی یہ اس کی روح ہے۔ اس کے نقصانات اس کے فوائد پر بھاری ہیں۔ آئیے اس کے سائنسی پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رمضان کھانے پینے کا نام نہیں اور متوازن غذا سے روزے کے وہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جس سے جسم بھی توانا رہ سکتا ہے اور ذہن بھی پرسکون۔
ریسرچ اور تجربے کے بعد یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ صرف دو وقت غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے سے انسانی جسم کی تمام ضروریات پوری ہوسکتی ہیں جو اس کو توانا اور چاق و چوبند رکھ سکتی ہیں۔ اسی تحقیق کے نتیجے میں مغرب میں اب ''انٹرمٹنٹ فاسٹنگ'' کا رواج پروان چڑھ رہا ہے، جس میں ایک کھانے سے دوسرے کھانے کے درمیان کچھ وقفہ دیا جاتا ہے۔ فاسٹنگ کا دورانیہ ہرانسان اپنی قوت برداشت کے حساب سے طے کرتا ہے، مگر زیادہ تر لوگ اٹھارہ، چھ کے قاعدے کی پیروی کرتے ہیں یعنی اٹھارہ گھنٹے فاسٹانگ اور چھ گھنٹے کھانے کا دورانیہ، جس میں دو یا تین میلز کھائی جاتی ہیں، وہ بھی متوازن اور غذائیت سے بھرپور۔ فاسٹنگ کے دوران پانی کا استعمال کیا جاتا ہے جو پانی کی کمی سے بچاتا ہے اور معدنیات کے معیار کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کے رزلٹس کافی شاندار اور حیرت انگیز ہیں۔ یہ فربہ جسم کے افراد کو وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بصورت دیگر یہ آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر توانا رکھتی ہے۔
انٹرمٹنٹ فاسٹنگ دائمی بیماریوں کو ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی ہے اور جسم و دماغ دونوں کو تازگی بخشتی ہے۔ مشہور امریکی ڈاکٹر ایرک برگ جو انٹرمٹنٹ فاسٹنگ اور کیٹو ڈائیٹ اسپیشلسٹ ہیں، اپنی ریسرچ کے ذریعے اس کے بیش بہا ثمرات لوگوں میں پھیلا رہے ہیں۔ وہ خود بھی اس پر ایک دہائی سے کاربند ہیں اور ایک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے ذریعے اس کے سائنسی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ خاص طور پر وہ پراسیس جو انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے ردعمل میں ہمارے جسم کے اندر ہورہے ہوتے ہیں جیسے کہ سیلز کی مسلسل مرمت، گلوکوز اور دوسرے کیمیکلز کے لیول کی درستگی، نظام ہاضمہ اور جگر کے افعال کی بہتری، قوت مدافعت میں اضافہ اور جسم کو توانا رکھنے کےلیے پہلے سے ذخیرہ شدہ باڈی فیٹ کا استعمال۔ انہی کی ایک تحقیق کے مطابق مشرق وسطیٰ میں موذی امراض پوری دنیا کی نسبت اس لیے کم ہیں، کیوں کہ وہاں پورا ایک مہینہ فاسٹنگ کی جاتی ہے، البتہ شوگر کا مرض زیادہ ہے، کیوں کہ کھانے پینے میں بداحتیاطی کی جاتی ہے۔
آج جس راز کو انگریزوں نے پا لیا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر چودہ سو سال پہلے ہی عیاں کردیا تھا۔
اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ (البقرہ 184)
قرون اولیٰ اور پچھلے زمانے میں رمضان میں اور اس کے علاوہ بھی کم کھانے کا معمول تھا۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں سے۔ (صحیح بُخاری)
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم ہے کہ معدے کے تین حصے کیا کرو، ایک کھانے کا، ایک پانی کا اور ایک ہوا کا (ترمذی، ابن ماجہ)
مگر ہم اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ہم اس طرح کھاتے ہیں جیسے شاید اس کے بعد ہمیں کھانا نصیب ہی نہیں ہوگا اور یہیں سے خواہشات کا دروازہ کھلتا ہے۔ یہ دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے نہایت نقصان دہ ہے، اس کے مضمرات طویل مدتی ہوتے ہیں، جس کا احساس تب ہوتا ہے جب ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ دینی اعتبار سے بھی یہ وقت کا فضول ضیاع ہے جس کو کسی اچھے کام کے استعمال میں کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔
آئیے اس رمضان یہ عہد کریں کہ ہم اپنی توانائیاں اللہ کو راضی کرنے پر خرچ کريں گے اور رمضان اس طرح گزاریں گے جیسا اس کو گزارنے کا حق ہے، نہ کہ باورچی خانے اور دسترخوانوں کی زینت بن کر۔ ہم رمضان میں اور اس کے علاوہ بھی اپنی صلاحیتیں اپنی صحت کی حفاظت اور نشوونما پر مرکوز رکھیں گے۔ اللہ ہم سب کو اس راز کو پا لینے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
رمضان کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوجاتی ہیں، جس میں زیادہ زور غذائے اجناس کی خریداری پر دیا جاتا ہے تاکہ کھانے پینے میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ سحری اور افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے دستیاب ہوں اور دسترخوان وسیع و عریض ہو۔
مسلمان روزے تب سے رکھتے آرہے ہیں جب سے یہ فرض ہوئے ہیں۔ انفرادی طور پر ہم سن بلوغت میں داخل ہوتے ہی روزے رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ گھرانوں میں اس سے بھی پہلے بچے ماحول کے اثر اور ثواب کے شوق میں روزے رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر ایک چیز جس کو رمضان کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے، وہ ہے کھانا۔ گھر کی خواتین رمضان کے قیمتی اوقات بلکہ زیادہ تر وقت کھانا بنانے میں گزار دیتی ہیں اور پھر پورا گھرانہ اس کو کھانے میں۔
یہ سلسلہ خریداری سے شروع ہوتا ہے اور پھر سحری، افطاری، اسنیکس اور رات کے کھانے پر ختم ہوتا ہے۔ ظلم تو تب ہوتا ہے جب تیل کو پانی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور تلی ہوئی اور مرغن غذائیں کھائی جا رہی ہوتی ہیں، چینی کا بھی وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر مشروبات میں۔ انجام سے بے خبر کہ یہ آپ کی صحت کو کس بری طرح نقصان پہنچارہا ہے۔ اس میں ہر طبقہ برابر ہے، وہ جو عبادات کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اور وہ جو روزے کو صرف فرض پورا کرنے کےلیے رکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے سوچ وہی کاربند ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ کھائیں گے اتنا توانا رہیں گے اور روزہ اچھا گزرے گا۔
یہ روزے کا مقصد ہرگز نہیں، اور نہ ہی یہ اس کی روح ہے۔ اس کے نقصانات اس کے فوائد پر بھاری ہیں۔ آئیے اس کے سائنسی پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رمضان کھانے پینے کا نام نہیں اور متوازن غذا سے روزے کے وہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں جس سے جسم بھی توانا رہ سکتا ہے اور ذہن بھی پرسکون۔
ریسرچ اور تجربے کے بعد یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ صرف دو وقت غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے سے انسانی جسم کی تمام ضروریات پوری ہوسکتی ہیں جو اس کو توانا اور چاق و چوبند رکھ سکتی ہیں۔ اسی تحقیق کے نتیجے میں مغرب میں اب ''انٹرمٹنٹ فاسٹنگ'' کا رواج پروان چڑھ رہا ہے، جس میں ایک کھانے سے دوسرے کھانے کے درمیان کچھ وقفہ دیا جاتا ہے۔ فاسٹنگ کا دورانیہ ہرانسان اپنی قوت برداشت کے حساب سے طے کرتا ہے، مگر زیادہ تر لوگ اٹھارہ، چھ کے قاعدے کی پیروی کرتے ہیں یعنی اٹھارہ گھنٹے فاسٹانگ اور چھ گھنٹے کھانے کا دورانیہ، جس میں دو یا تین میلز کھائی جاتی ہیں، وہ بھی متوازن اور غذائیت سے بھرپور۔ فاسٹنگ کے دوران پانی کا استعمال کیا جاتا ہے جو پانی کی کمی سے بچاتا ہے اور معدنیات کے معیار کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کے رزلٹس کافی شاندار اور حیرت انگیز ہیں۔ یہ فربہ جسم کے افراد کو وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بصورت دیگر یہ آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر توانا رکھتی ہے۔
انٹرمٹنٹ فاسٹنگ دائمی بیماریوں کو ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی ہے اور جسم و دماغ دونوں کو تازگی بخشتی ہے۔ مشہور امریکی ڈاکٹر ایرک برگ جو انٹرمٹنٹ فاسٹنگ اور کیٹو ڈائیٹ اسپیشلسٹ ہیں، اپنی ریسرچ کے ذریعے اس کے بیش بہا ثمرات لوگوں میں پھیلا رہے ہیں۔ وہ خود بھی اس پر ایک دہائی سے کاربند ہیں اور ایک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے ذریعے اس کے سائنسی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ خاص طور پر وہ پراسیس جو انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے ردعمل میں ہمارے جسم کے اندر ہورہے ہوتے ہیں جیسے کہ سیلز کی مسلسل مرمت، گلوکوز اور دوسرے کیمیکلز کے لیول کی درستگی، نظام ہاضمہ اور جگر کے افعال کی بہتری، قوت مدافعت میں اضافہ اور جسم کو توانا رکھنے کےلیے پہلے سے ذخیرہ شدہ باڈی فیٹ کا استعمال۔ انہی کی ایک تحقیق کے مطابق مشرق وسطیٰ میں موذی امراض پوری دنیا کی نسبت اس لیے کم ہیں، کیوں کہ وہاں پورا ایک مہینہ فاسٹنگ کی جاتی ہے، البتہ شوگر کا مرض زیادہ ہے، کیوں کہ کھانے پینے میں بداحتیاطی کی جاتی ہے۔
آج جس راز کو انگریزوں نے پا لیا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر چودہ سو سال پہلے ہی عیاں کردیا تھا۔
اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ (البقرہ 184)
قرون اولیٰ اور پچھلے زمانے میں رمضان میں اور اس کے علاوہ بھی کم کھانے کا معمول تھا۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں سے۔ (صحیح بُخاری)
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم ہے کہ معدے کے تین حصے کیا کرو، ایک کھانے کا، ایک پانی کا اور ایک ہوا کا (ترمذی، ابن ماجہ)
مگر ہم اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ہم اس طرح کھاتے ہیں جیسے شاید اس کے بعد ہمیں کھانا نصیب ہی نہیں ہوگا اور یہیں سے خواہشات کا دروازہ کھلتا ہے۔ یہ دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے نہایت نقصان دہ ہے، اس کے مضمرات طویل مدتی ہوتے ہیں، جس کا احساس تب ہوتا ہے جب ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ دینی اعتبار سے بھی یہ وقت کا فضول ضیاع ہے جس کو کسی اچھے کام کے استعمال میں کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔
آئیے اس رمضان یہ عہد کریں کہ ہم اپنی توانائیاں اللہ کو راضی کرنے پر خرچ کريں گے اور رمضان اس طرح گزاریں گے جیسا اس کو گزارنے کا حق ہے، نہ کہ باورچی خانے اور دسترخوانوں کی زینت بن کر۔ ہم رمضان میں اور اس کے علاوہ بھی اپنی صلاحیتیں اپنی صحت کی حفاظت اور نشوونما پر مرکوز رکھیں گے۔ اللہ ہم سب کو اس راز کو پا لینے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔