کیا اُردو واقعی ہماری قومی زبان ہے
کیا تعلیمی اداروں میں نئی نسل تک اُردو زبان و ادب کی منتقلی اور ترویج کا کام ہو رہا ہے؟
کراچی:
مجھے بھی دیگر کالم نویس احباب کی طرح بہت سے ایسے خط یا پیغام ملتے رہتے ہیں جن میں یہ فرمائش ہوتی ہے کہ انھیں کالم میں چھاپ دیا جائے تاکہ اُن کی اشک شوئی ہو سکے اور مسائل کے حل کی بھی کوئی صُورت نکل آئے ۔
اب چونکہ زیادہ تر اس نوع کے خطوط میں کسی ذاتی مسئلے یا اُن سے کی گئی بے انصافی پر بات کی جاتی ہے تو یہ امکان بھی موجود رہتا ہے کہ ہر شکایت کرنے والا عام طور پر اپنی بات کو کچھ بڑھا کر پیش کرتا ہے اور آپ کے پاس دوسری طرف یعنی مدعا علیہ کا موقف نہیں ہوتا اس لیے ہمیں مدعی سے ہمدردی رکھنے کے باوجود اُن کی بات کو ''امرِ واقعہ'' کے طور پر درج کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے لیکن آج مجھے اپنے اس خود ساختہ اصول سے کچھ رُوگردانی کرنا پڑرہی ہے کہ گلگت سے نیلوفر بی بی کی بھیجی ہوئی اس ای میل میں اُن کی ذاتی شکایت کا رشتہ ایک ایسے معاملے سے جڑا ہوا ہے جس کے بارے میں خاموش رہنا اپنے ضمیر کی آواز کو اَن سُنا کرنے کے مترادف ہے۔
معاملے کا حصہ اول تو یہ ہے کہ اعلیٰ نمبروں سے ایم اے اُردو کرنے اور نو سال تک پڑھانے کا تجربہ رکھنے کے باوجود نیلوفربی بی کو صرف اس لیے ملازمت سے الگ کر دیا گیا ہے کہ اُن کی انگریزی پر گرفت اور گرامر کی فہم بہت کم ہے۔
عین ممکن ہے کہ اس عمل کی اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہوں جن کا ذکر موصوفہ نے نہ کیا ہو مگر ہم اس بحث میں پڑے بغیر ان کی بات کے صرف اُس حصے کو سامنے رکھتے ہیں جس کا تعلق اردو کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس ناروا سلوک سے ہے کہ آج آزادی کے پچھتر برس بعد بھی ہماری عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ تینوں ہی عملی طور پر اُردو کو اپنی قومی یا سرکاری زبان تسلیم نہیں کرتے۔ نیلوفر بی بی نے اس حوالے سے چیف جسٹس صاحب کے حضور جو درخواست دائر کی ہے اُس میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد جو عبارت بچتی ہے وہ اس خیال اور اُمید سے درج کی جارہی ہے کہ یہ مسئلہ صرف نیلوفر بی بی کا ہی نہیں بلکہ اُس 90% پاکستان کا بھی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے انگریزی پر دسترس نہیں رکھتا اور یوں نیلوفر بی بی کی اس درخواست کو پوری قوم کی تائید کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔
جناب عالیٰ
مؤدبانہ گزارش ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق اُردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا ہے، پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک اُردو کو لازمی تدریسی مضمون کی حیثیت حاصل ہے، پاکستان کے آئین کے مطابق حکومتِ پاکستان اور عدلیہ اُردو زبان کے تحفظ، فروغ، ترویج اور نفاذ کے پابند ہیں اور اس کے لیے عملی اقدام اُٹھائیں گے ۔ اسکول میں اُردو کے اُستاد پر اُردو بولنے پر پابندی لگادینا، طلبہ کو انگریزی نہیں آتی، اُردو میں بات کرنے پر پابندی، یوں طلبہ اسکول میں بھی علاقائی زبان بولنے پر مجبور ہیں، اُردو کی حمایت کرنے والوںکو دیہاتی ، اُردو بولنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہماری ذہنی پستی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے ۔
باقاعدہ کمپیوٹرائز ٹیسٹ کے بعد میری بحیثیت اُردو لیکچرر پروموشن ہوئی تھی گلگت ،غذر اور ہنزہ ریجن میں پہلے نمبر پر تھی، میرے نام پر لیٹر جاری کرنے کے بعد یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ میں نااہل ہوں۔
میری اہلیت کو انگلش گرائمر کے ٹیسٹ سے مشروط کر دیا گیا ۔ نو سال سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں کبھی انگلش کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا... مجھے اس نامعقول شرط کی سمجھ نہیں آئی جس ادارے میں انگریزی کے اساتذہ کو انگریزی نہیں آتی وہاں پر اُردو لیکچرر کا انتخاب انگلش گرامر کی بنیاد پر ہونا کیا یہ میرے مضمون کی توہین نہیں اس اعتراض پر مجھے بلاوجہ بغیر تحریری نوٹس کے باقاعدہ تحریری الزامات کے ساتھ ملازمت سے نکال دیا گیا۔ کیا کسی انسان کی اہلیت اور قابلیت کو ناپنے کا معیار انگریزی زبان ہوسکتا ہے ایسا ہے تو مغرب میں ایک اَن پڑھ شخص جاہل انسان بھی انگریزی میں بات کرتا ہے کیا ہم اُسے عقلِ کُل کہہ سکتے ہیں؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہیں ہارٹ اسپیشلسٹ کو اس لیے نا اہل قرار دینا کہ وہ آنکھوں کے علاج کا ماہر نہیں ہے ۔
محترم چیف جج صاحب آخر اس طرح ان نام نہاد پرائیوٹ اداروں میں برائے نام اُردو مضمون اور اُردو کے اساتذہ کے مقاصد کیا ہیں ؟ تعلیمی اداروں میں اُردو کے اساتذہ کی حیثیت اچھوت کی سی ہے۔ کسی میٹنگ سیشن وغیرہ میں وہ اردو میں بات نہیں کرسکتا ویسے پاکستان میں اردو زبان اور عورت دونوں کی ایک حیثیت ہے۔ تحریروں میں بہت مقدس جب کہ عملی زندگی میں دونوں اتنی ہی حقیر۔
پاکستان میں انگلش میڈیم سسٹم کے تحت چلنے والے ایک پرائیوٹ ادارے کا اُستاد کس بے بسی سے کہہ رہا تھا کہ اُن کے کوارڈی نیٹر کی طرف سے ہدایت ہے کہ اگر طلبہ ''سَفر'' کو بجائے ''س ''کے ''ص'' سے صِفر لکھیں تو یہ غلط املا درست تسلیم کیا جائے۔
اُردو بولنے پر پابندی ، جان بوجھ کر غلط املا سکھا رہے ہیں، کیا تعلیمی اداروں میں نئی نسل تک اُردو زبان و ادب کی منتقلی اور ترویج کا کام ہو رہا ہے ؟ سَن 1947ء سے ہم غیر ملکی زبان میں تعلیم رٹ رہے ہیں آخر ہمیں اس غیر ملکی زبان میں رٹی ہوئی تعلیم سے کیا ملا ہے ؟ احساس کمتری، ذہنی غلامی ، بے روزگاری اور نئی نسل کی فطری صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے سوا' آخر کب تک ہم کتابوں میں اُردو زبان کی اہمیت پڑھتے رہیں گے عملی زندگی میں معاشرے میں اسے یہ اہمیت کب ملے گی! ہمارے ایک استاد محترم اکثرکالج میں یہ شعر دہراتے تھے ۔
زندہ وطن میں رُوح ثقافت اسی سے ہے
آزادی وطن کی علامت اسی سے ہے
اب کا نہیں یہ ساتھ یہ صدیوں کا ساتھ ہے
تشکیل ارضِ پاک میں اُردو کا ہاتھ ہے
ہمارے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے لیبر قوانین اور پیشہ ورانہ اخلاقیات سے آزاد کسی وڈیرے کی جاگیر کی مثال پیش کر رہے ہیں جہاں ملازمین کی حیثیت حبشی غلاموں سے بد تر ہے، ان اداروں میں کام کرنے والی خواتین ادارے کی ملازمین نہیں بلکہ کنیزیں ہیں۔ معاشرے میں خواتین کے لیے باعزت روزگار کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور لیبر قوانین کے تحت دنیا میں کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے ملازم کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے، ملازمت کے نام پر استحصال اور بے بنیاد الزامات لگا کر اُس کی کردار کشی کا حق نہیں رکھتا... جب اس مسئلے پر اسلام آبادمیں ایک حکومتی ادارے سے رابطہ کیا تو ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ اگر آپ کا مسئلہ حل کیا تو یہاں پر مسئلوں کی لائن لگ جائے گی پھر میں کیا کروں گا؟... نیلو فر، گلگت''
اس اپیل نما خط میں چونکہ ہم سب کے لیے غورو فکر کا بہت سا مواد ہے سو آئیے مل کر اس پر بات کرتے ہیں ۔
مجھے بھی دیگر کالم نویس احباب کی طرح بہت سے ایسے خط یا پیغام ملتے رہتے ہیں جن میں یہ فرمائش ہوتی ہے کہ انھیں کالم میں چھاپ دیا جائے تاکہ اُن کی اشک شوئی ہو سکے اور مسائل کے حل کی بھی کوئی صُورت نکل آئے ۔
اب چونکہ زیادہ تر اس نوع کے خطوط میں کسی ذاتی مسئلے یا اُن سے کی گئی بے انصافی پر بات کی جاتی ہے تو یہ امکان بھی موجود رہتا ہے کہ ہر شکایت کرنے والا عام طور پر اپنی بات کو کچھ بڑھا کر پیش کرتا ہے اور آپ کے پاس دوسری طرف یعنی مدعا علیہ کا موقف نہیں ہوتا اس لیے ہمیں مدعی سے ہمدردی رکھنے کے باوجود اُن کی بات کو ''امرِ واقعہ'' کے طور پر درج کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے لیکن آج مجھے اپنے اس خود ساختہ اصول سے کچھ رُوگردانی کرنا پڑرہی ہے کہ گلگت سے نیلوفر بی بی کی بھیجی ہوئی اس ای میل میں اُن کی ذاتی شکایت کا رشتہ ایک ایسے معاملے سے جڑا ہوا ہے جس کے بارے میں خاموش رہنا اپنے ضمیر کی آواز کو اَن سُنا کرنے کے مترادف ہے۔
معاملے کا حصہ اول تو یہ ہے کہ اعلیٰ نمبروں سے ایم اے اُردو کرنے اور نو سال تک پڑھانے کا تجربہ رکھنے کے باوجود نیلوفربی بی کو صرف اس لیے ملازمت سے الگ کر دیا گیا ہے کہ اُن کی انگریزی پر گرفت اور گرامر کی فہم بہت کم ہے۔
عین ممکن ہے کہ اس عمل کی اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہوں جن کا ذکر موصوفہ نے نہ کیا ہو مگر ہم اس بحث میں پڑے بغیر ان کی بات کے صرف اُس حصے کو سامنے رکھتے ہیں جس کا تعلق اردو کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس ناروا سلوک سے ہے کہ آج آزادی کے پچھتر برس بعد بھی ہماری عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ تینوں ہی عملی طور پر اُردو کو اپنی قومی یا سرکاری زبان تسلیم نہیں کرتے۔ نیلوفر بی بی نے اس حوالے سے چیف جسٹس صاحب کے حضور جو درخواست دائر کی ہے اُس میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد جو عبارت بچتی ہے وہ اس خیال اور اُمید سے درج کی جارہی ہے کہ یہ مسئلہ صرف نیلوفر بی بی کا ہی نہیں بلکہ اُس 90% پاکستان کا بھی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے انگریزی پر دسترس نہیں رکھتا اور یوں نیلوفر بی بی کی اس درخواست کو پوری قوم کی تائید کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔
جناب عالیٰ
مؤدبانہ گزارش ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق اُردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا ہے، پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک اُردو کو لازمی تدریسی مضمون کی حیثیت حاصل ہے، پاکستان کے آئین کے مطابق حکومتِ پاکستان اور عدلیہ اُردو زبان کے تحفظ، فروغ، ترویج اور نفاذ کے پابند ہیں اور اس کے لیے عملی اقدام اُٹھائیں گے ۔ اسکول میں اُردو کے اُستاد پر اُردو بولنے پر پابندی لگادینا، طلبہ کو انگریزی نہیں آتی، اُردو میں بات کرنے پر پابندی، یوں طلبہ اسکول میں بھی علاقائی زبان بولنے پر مجبور ہیں، اُردو کی حمایت کرنے والوںکو دیہاتی ، اُردو بولنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہماری ذہنی پستی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے ۔
باقاعدہ کمپیوٹرائز ٹیسٹ کے بعد میری بحیثیت اُردو لیکچرر پروموشن ہوئی تھی گلگت ،غذر اور ہنزہ ریجن میں پہلے نمبر پر تھی، میرے نام پر لیٹر جاری کرنے کے بعد یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ میں نااہل ہوں۔
میری اہلیت کو انگلش گرائمر کے ٹیسٹ سے مشروط کر دیا گیا ۔ نو سال سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں کبھی انگلش کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا... مجھے اس نامعقول شرط کی سمجھ نہیں آئی جس ادارے میں انگریزی کے اساتذہ کو انگریزی نہیں آتی وہاں پر اُردو لیکچرر کا انتخاب انگلش گرامر کی بنیاد پر ہونا کیا یہ میرے مضمون کی توہین نہیں اس اعتراض پر مجھے بلاوجہ بغیر تحریری نوٹس کے باقاعدہ تحریری الزامات کے ساتھ ملازمت سے نکال دیا گیا۔ کیا کسی انسان کی اہلیت اور قابلیت کو ناپنے کا معیار انگریزی زبان ہوسکتا ہے ایسا ہے تو مغرب میں ایک اَن پڑھ شخص جاہل انسان بھی انگریزی میں بات کرتا ہے کیا ہم اُسے عقلِ کُل کہہ سکتے ہیں؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہیں ہارٹ اسپیشلسٹ کو اس لیے نا اہل قرار دینا کہ وہ آنکھوں کے علاج کا ماہر نہیں ہے ۔
محترم چیف جج صاحب آخر اس طرح ان نام نہاد پرائیوٹ اداروں میں برائے نام اُردو مضمون اور اُردو کے اساتذہ کے مقاصد کیا ہیں ؟ تعلیمی اداروں میں اُردو کے اساتذہ کی حیثیت اچھوت کی سی ہے۔ کسی میٹنگ سیشن وغیرہ میں وہ اردو میں بات نہیں کرسکتا ویسے پاکستان میں اردو زبان اور عورت دونوں کی ایک حیثیت ہے۔ تحریروں میں بہت مقدس جب کہ عملی زندگی میں دونوں اتنی ہی حقیر۔
پاکستان میں انگلش میڈیم سسٹم کے تحت چلنے والے ایک پرائیوٹ ادارے کا اُستاد کس بے بسی سے کہہ رہا تھا کہ اُن کے کوارڈی نیٹر کی طرف سے ہدایت ہے کہ اگر طلبہ ''سَفر'' کو بجائے ''س ''کے ''ص'' سے صِفر لکھیں تو یہ غلط املا درست تسلیم کیا جائے۔
اُردو بولنے پر پابندی ، جان بوجھ کر غلط املا سکھا رہے ہیں، کیا تعلیمی اداروں میں نئی نسل تک اُردو زبان و ادب کی منتقلی اور ترویج کا کام ہو رہا ہے ؟ سَن 1947ء سے ہم غیر ملکی زبان میں تعلیم رٹ رہے ہیں آخر ہمیں اس غیر ملکی زبان میں رٹی ہوئی تعلیم سے کیا ملا ہے ؟ احساس کمتری، ذہنی غلامی ، بے روزگاری اور نئی نسل کی فطری صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے سوا' آخر کب تک ہم کتابوں میں اُردو زبان کی اہمیت پڑھتے رہیں گے عملی زندگی میں معاشرے میں اسے یہ اہمیت کب ملے گی! ہمارے ایک استاد محترم اکثرکالج میں یہ شعر دہراتے تھے ۔
زندہ وطن میں رُوح ثقافت اسی سے ہے
آزادی وطن کی علامت اسی سے ہے
اب کا نہیں یہ ساتھ یہ صدیوں کا ساتھ ہے
تشکیل ارضِ پاک میں اُردو کا ہاتھ ہے
ہمارے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے لیبر قوانین اور پیشہ ورانہ اخلاقیات سے آزاد کسی وڈیرے کی جاگیر کی مثال پیش کر رہے ہیں جہاں ملازمین کی حیثیت حبشی غلاموں سے بد تر ہے، ان اداروں میں کام کرنے والی خواتین ادارے کی ملازمین نہیں بلکہ کنیزیں ہیں۔ معاشرے میں خواتین کے لیے باعزت روزگار کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور لیبر قوانین کے تحت دنیا میں کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے ملازم کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے، ملازمت کے نام پر استحصال اور بے بنیاد الزامات لگا کر اُس کی کردار کشی کا حق نہیں رکھتا... جب اس مسئلے پر اسلام آبادمیں ایک حکومتی ادارے سے رابطہ کیا تو ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ اگر آپ کا مسئلہ حل کیا تو یہاں پر مسئلوں کی لائن لگ جائے گی پھر میں کیا کروں گا؟... نیلو فر، گلگت''
اس اپیل نما خط میں چونکہ ہم سب کے لیے غورو فکر کا بہت سا مواد ہے سو آئیے مل کر اس پر بات کرتے ہیں ۔