بند گلی میں پھنسا کپتان
بدقسمتی سے ان کا عمل یہ بتاتا ہے کہ انھیں جمہوریت کی جیم کے نیچے جو نکتہ ہے اس کا بھی علم نہیں
کراچی:
جمہوریت، جمہوریت جمہوریت... عمران خان کی زبان نہیں تھکتی یہ راگ الاپتے، تاثر یہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن بس یہی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا عمل یہ بتاتا ہے کہ انھیں جمہوریت کی جیم کے نیچے جو نکتہ ہے اس کا بھی علم نہیں۔
2018کے دھاندلی زدہ انتخابات میں جس طرح انھوں نے پاکستان کی حقیقی پولیٹیکل پاورز کو ان کی مینڈیٹ سے محروم کرکے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا، اس عمل کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف کرپشن کا ڈھونگ رچایا گیا، کیس ثابت کرنے کے لیے قومی خزانے کے منہ کھولے گئے اور کسی پر کیس ثابت نہ ہوسکے۔
جھوٹ اور دھوکے بازی آخر کب تک چلتی، عوام بیزار، اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی سڑکوں پر تھیں، ایک وقت آیا کہ خان کے اپنے اتحادی اور پارٹی اراکین بھی کھسکنا شروع ہوگئے۔ اس بارے ہم نے مفصل گفتگو گزشتہ کالم میں کی تھی لہٰذا آج کے کالم میں اس تفصیل میں نہیں جائیں گے۔
اپوزیشن نے کپتان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جسے غیر آئینی طریقے سے بلڈوز کردیا گیا۔ تین اپریل کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کر دیا تھا۔
تحریک عدم اعتماد کو 'آئین کے منافی' اور 'ضوابط کے خلاف' قرار دے کر مسترد کیے جانے کے بعد صدرِ پاکستان عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ اس عمل کے بعد پیدا ہونے والے آئینی اور قانونی بحران پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اْسی روز ازخود نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مسلسل چار روز کیس کی سماعت کی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال میں متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نو اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ سنایا۔
پاکستان میں انتخابات اور پارلیمان پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے بقول سپریم کورٹ سب سے بڑا فورم ہے اور ازخود نوٹس پر آنے والے فیصلے پر حکومت کی جانب سے اب زیادہ سے زیادہ نظر ثانی کی ایک درخواست دائر ہو سکتی ہے، لیکن اگر ماضی کی نظیروں کو سامنے رکھا جائے تو نظر ثانی کی درخواست میں بھی چیزیں بدلنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ ویسے بھی لارجر بینچ کا فیصلہ متفقہ فیصلہ ہے جس پر کسی بھی معزز جج نے اختلافی نوٹ نہیں لکھا۔
کپتان نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور ان کے قائدین پر سنگین غداری کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تین بڑی پارٹیوں کے سربراہان نے امریکا، برطانیہ اور دوسرے ناپسندیدہ ممالک یہاں تک کہ بھارت اور اسرائیل کے ایما اور پشت پناہی پر ملک سے غداری کی ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان تین رہنماؤں اور تینوں سیاسی جماعتوں کے لیے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے مگر کیا اب اپوزیشن صرف اس پر بھنگڑے ڈال کر خوشی منائے گی یا اس قصے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ تحریک انصاف کی ناعاقبت اندیش قیادت نے قانون و آئین توڑ کر اس مملکت خداداد پاکستان کو جس سیاسی دلدل اور انارکی کی طرف دھکیلا تھا۔
اس کا سوچ کر بھی ہر محب وطن پاکستانی کانپ جاتا ہے مگر شکر الحمدللہ کلمہ طیبہ کے نام اور شب قدر کے بابرکات لمحات میں دنیا کے نقشے میں ظہور پذیر ہونے والے پاکستان کو ایک بار پھر رمضان المبارک کے بابرکات لمحات میں اللہ رب العزت نے بچا لیا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اپوزیشن کے متفقہ امیدوار میاں شہباز شریف نئے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
انھوں نے اپنے پہلے خطاب میں لیٹر گیٹ اسکینڈل پر ان کیمرہ بریفنگ کا اعلان کیا اور سازش ثابت ہونے پر ایک لمحہ ضایع کیے بغیر مستعفی ہونے کی پیش کش بھی کر دی۔ یہ نہایت ضروری ہے اگر نومنتخب حکومت نے اس کے محرک اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو اس غداری کی سزا دلوانے کی کو شش نہ کی تو قوم انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ جس طرح عدالت عظمیٰ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔
اسی طرح اس معاملے میں بھی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے۔ اگر اپوزیشن کی غداری ثابت ہو جائے تو قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے، اسمبلی تحلیل کرنے اور اپوزیشن لیڈران کو غدار ثابت کرکے راستے سے ہٹانے کے لیے ایک خود ساختہ سازش ہے تو بھی قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔
اس وقت کپتان اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ایسی بند گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ جمعہ کی رات ان کا قوم سے خطاب ایک ہارے ہوئے شخص کا خطاب تھا، جو اپنی ہر چال کے الٹا پڑنے پر دلبرداشتہ تھا۔ کبھی وہ امریکا سے دوستانہ تعلقات کی بات کر رہے تھے، کبھی ہندوستانیوں کو خوددار قوم قرار دے رہے تھے اور آخر میں اپنے بچے کھچے ورکرز کو ملک گیر احتجاج پر اکسا رہے تھے۔
وہ اب کچھ بھی کرلیں لیکن جس جال میں وہ پھنس چکے ہیں وہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ان کی حکومت ہی نہیں گئی انھیں سیاسی میدان سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے کیونکہ اقتدار ہاتھ سے جانے کے بعد ان کے کارکن بھی اپنا آپ دکھا رہے ہیں، پاکستان کے اداروں اور شخصیات کے خلاف مہم، مسجد پر حملہ یہ ان کی تربیت اور ذہنی فتور کا نتیجہ ہے۔
لیکن الحمدللہ پاکستان ایک بدترین دور سے نکل چکا ہے۔ پاکستان کی تمام محب وطن سیاسی قوتیں ایک پیج پر ہیں، انھیں چاہیے کہ اب اقتدار سنبھال لیا ہے تو سب سے پہلے ان تمام آئینی ترامیم اور آرڈیننسز کا جائزہ لے کر انھیں ختم کیا جائے جو بد نیتی پر مبنی تھے جن کی بنیاد پر اگلے الیکشن میں ٹیکنیکل دھاندلی کا خواب دیکھا جارہاتھا۔ ان نیب قوانین کا بھی جائزہ لیا جائے جو بنا ثبوت کسی کی پگڑی اچھالنے کا سبب بنتے رہے۔ سیاسی قوتوں کے پاس وقت کم اور کام بہت زیادہ ہے لیکن ساڑھے تین سال کا گند صاف کیے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
کپتان اور ان کے سیاسی لاوارث ٹولے کو اقتدار کے ایوان سے نکلنے کا دکھ اور درد اتنا ہے کہ وہ بر ملا اور الاعلان اپنے کارکنوں کو کہہ رہے ہیں کہ گلی کوچوں اور بازاروں میں تحریک انصاف کے منحرف ارکان کا گھیراؤ کریں، منحرف ارکان کی تصاویر کو لے کر ان کے گلی محلوں میں کارکنان کو احتجاج کا حکم دیا ہے اب ان کو کون سمجھائے کہ جب وہ ایسا کرینگے تو جواب میں اپوزیشن اور تحریک انصاف کے منحرف ارکان کا رد عمل کیا ہوگا اس کی ایک جھلک اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں دیکھی جا چکی ہے۔
عمران خان نیازی اور اس کے ہمنواؤں کا احتساب شروع ہوچکا ہے مگر عمران خان کے لیے وہ منظر کیسا ہو گاجب شہباز شریف وزیراعظم، مولانا فضل الرحمن صدر پاکستان اور بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ ہونگے ۔میں تو جب سوچتا ہو تو ان پر ترس آتا ہے مگر کیا کریں:
اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں