جمہوری روایات کی پامالی

عمران خان کے وزراء اور رہنماؤں نے بغیر سوچ و بچار کے اس بیانیہ کا راگ الاپنا شروع کیا

tauceeph@gmail.com

سابق وزیر اعظم عمران خان کا دورِ حکومت جمہوری اقدار کی پامالی کے حوالے سے اس ملک کی تاریخ کا سیاہ باب بن گیا۔ عمران خان نے دنیا کی سب سے قدیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی، وہ آکسفورڈ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے صدر رہے۔

زندگی کا ایک حصہ برطانیہ میں گزارا۔ عمران خان اپنی تقاریر میں برطانوی معاشرہ کے گن گاتے اور جمہوری اقدار کے حوالے دیتے نہیں تھکتے تھے مگر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لینے کے بعد پارلیمنٹ میں آنا چھوڑ دیا۔ اپنے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ایک انتہا پسندانہ بیانیہ ترتیب دیا اور کبھی اس بیانیہ سے ملک کو ہونے والے نقصان پر غور نہیں کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے خود ہی وکیل استغاثہ کا کردار ادا کیا اور پھر جج بن کر یہ فیصلہ صادر کیا کہ ان کے خلاف امریکا نے سازش کی ہے اور حزب اختلاف کے رہنما غدار ہیں اور میڈیا اور ان کے سابق اتحادیوں اور تحریک انصاف کے منحرفین کو 6 ارب روپے دے کر خرید لیا گیا ہے۔

عمران خان کے وزراء اور رہنماؤں نے بغیر سوچ و بچار کے اس بیانیہ کا راگ الاپنا شروع کیا۔ اس کے تحت تحریک عدم اعتماد پر کم از کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ چودہ دن میں بحث ہونی چاہیے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا شور مچانے والے ان کے پیروکاروں نے آئین کی اس شق کی خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھا اور جب 4اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر اسد قیصر کو ایک فیصلہ بھیج دیا گیا۔

وزیر اعظم ہاؤس میں ترتیب دیئے جانے والی حکمت عملی کے تحت وزیر قانون فواد چوہدری نے اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی غیر ملکی سازش پر پوائنٹ آف آرڈر پیش کیا اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پہلے سے تیار شدہ بیان پڑھا اور 172 ارکان کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے جمہوری اقدار کو نظرانداز کرتے ہوئے حزب اختلاف کو بحث کا موقع تک نہیں دیا۔

پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی سیاہ روایت قائم ہوئی کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر اسپیکر نے مسترد کیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس گیا تو فاضل اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ وہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کرسکتے ۔

ساری دنیا نے دیکھا کہ عدالت کے حکم پر 9اپریل کی صبح اسمبلی کا اجلاس ہوا تو عمران خان نے قومی اسمبلی کے ایوان میں آنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی۔ رات 11:30 بجے تک اجلاس جاری رہا۔ اسلام آباد میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوئی۔ سپریم کورٹ کے عملہ کو رات کو بلالیا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنے ساتھیوں کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

وکیلوں نے عمران خان اور اسد قیصر کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں تیار کرلیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے بھی کھلے۔ اسپیکر اسد قیصر نے توہین عدالت سے بچنے کے لیے رات 11:45 بجے ایوان کے اجلاس کی صدارت کی اور فرمایا کہ وزیر اعظم ہاؤس سے انھیں جو خط ملا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد امریکا کی سازش ہے اور اپنے دوست سے 30 سالہ دوستی کی خاطر اپنے عہدہ سے مستعفی ہورہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اب وزیر اعظم ہاؤس کا خط قومی اسمبلی کے ریکارڈکا حصہ ہوگیا ہے۔ قائد حزب اختلاف اس کو 15 دنوں میں دیکھ سکتے ہیں، یوں اسپیکر اسد قیصر نے قانون اور جمہوری روایات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے دوست عمران خان سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔


جمہوری تاریخ سے ناواقف نوجوان تو اسد قیصر کی عمران خان سے دوستی کی مثالیں دے رہے ہیں مگر وہ جمہوری اقدار اور قانون کی پاسداری کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اسد قیصر نہ صرف قانون شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے اپنے دوست عمران خان سے دشمنی بھی کی ہے۔

انھیں عمران خان کو تیار کرنا چاہیے تھا کہ وہ ایوان میں آئیں اور بہادری سے اس صورتحال کو برداشت کریں، اگر اسد قیصر ذاتی دوستی کے بجائے جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے تو ان کا نام پیپلز پارٹی کے بانی رہنما اور بے نظیر بھٹو کے دور کے اسپیکر ملک معراج خالد کی طرح پارلیمنٹ کی تاریخ میں سنہری حروف سے تحریر کیا جاتا۔ عمران خان کا یہ بیانیہ کہ امریکا نے ان کے خلاف سازش کی ہے امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے ایک خفیہ کیبل کو ڈی کوڈ (Cyber)کرنے سے مرتب ہونے والے مواد پر مشتمل ہے۔

اسدمجید نے امریکا کے وزارت اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اعلی افسر کے اعزاز میں واشنگٹن کے ایک کیفے میں لنچ دیا تھا۔ بات چیت میں امریکی افسر کا رویہ سخت تھا۔ اس کیبل پر سفارتی روایت میں صرف احتجاجی نوٹ دیا جاتا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے سامنے بھی کسی سازش کا ذکر نہیں ہوا۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے تھے کہ واقعی ان کی حکومت کو دھمکی دی گئی ہے تو انھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تحقیقات کرانی چاہیے تھی اور اگر اس تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا کہ تحریک عدم اعتماد کے محرکین اس سازش میں ملوث ہیں تو فوری طور پر ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیج دینا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر اسد مجید گزشتہ 15 دن سے اسلام آباد میں موجود ہیں مگر حکومت نے کسی فورم پر انھیں پیش نہیں کیا۔ 9 اپریل کی رات گئے وزیر اعظم ہاؤس نے قومی اسمبلی کے اسپیکر، سینیٹ کے چیئرمین، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور چیف آف آرمی اسٹاف کو خط لکھا جس میں بقول حکومت کے یہ مراسلہ موجود تھا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اس رات 11:30بجے ایوان کے سامنے اقرار کیا کہ انھوں نے ابھی وزیر اعظم ہاؤس کا یہ خط پڑھا ہے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جب تحریک عدم اعتماد مسترد کی گئی تھی تو اسپیکر صاحب نے یہ خط نہیں پڑھا تھا۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ بیانیہ محض تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس بارے میں نئی حکومت کو عدالتی تحقیقات کرانی چاہئیں تاکہ تحقیقات سامنے آئے۔ عمران خان نے اپنی نشریاتی تقریر میں یہ الزام لگایا کہ ان کے اراکین اسمبلی کو امریکی سفارت خانہ بلایا گیا مگر تحریک انصاف کی رکن اسمبلی مسز گلزار نے یہ بیان دیا ہے کہ انھیں امریکی سفارت خانہ نے نہیں بلایا تھا۔ عمران خان یہ شور مچارہے ہیں کہ ان کی پارٹی کے اراکین کو خرید لیا گیا ہے۔

انھوں نے مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلی نامزد کیا ۔ اخبارات کا مطالعہ کرنے والے باشعور قارئین کو پرویز الٰہی کا یوسف رضا گیلانی کے آخری دور اقتدار کا یہ بیان یاد ہے کہ کچھ قوتیں ان کی جماعت کے اراکین کو تحریک انصاف میں بھگا کر لے گئیں۔

وہ اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ 2018میں بزدار، فواد چوہدری اور بہت سے منتخب اراکین ان کی جماعت کے رکن نہیں تھے وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اسی طرح 2018 کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پنجاب میں ''محکمہ زراعت'' کا نیا کردار سامنے آیا اور الیکٹیبل تحریک انصاف کی طرف مائل ہوئے۔ عمران خان نے اقتدار کی خاطر ان سب کو ٹکٹ دئیے۔ تحریک انصاف سے منحرف ہونے والوں میں اکثریت 2018میں شامل ہونے والے اراکین کی ہے تو یہ لوگ جیسے آئے تھے ویسے ہی واپس جارہے ہیں ۔

تاریخ میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے اسی طرح ریپبلک پارٹی بنائی تھی، ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ قائم کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے مسلم لیگ کو بنایا تھا۔ پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق بنائی۔ اسی حکمت عملی کے تحت پیپلز پارٹی کے اراکین کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی تھی۔ یہ سب جماعتیں اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی تاریخ کے کوڑے دان میں روپوش ہوگئی تھیں۔

عمران خان نے ایک ہی عقل مندی کا بیانیہ ترتیب دیا کہ بھارت ایک خودمختار ملک ہے مگر وہ کبھی یہ حقیقت بیان نہیں کرتے کہ بھارت نے یہ سفر کیسے طے کیا۔ 10 اپریل 1973کو ملک کا آئین بنا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ عمران خان کی فاشسٹ پالیسیوں سے قطع نظر یہ صورتحال جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے۔
Load Next Story