ماہ صیام اہل ایمان کے لیے بارانِ رحمت
اس مہینے کی برکت سے مومنین کی فکر میں ایک انقلاب آفریں تغیّر رُونما ہو جاتا ہے
باران رحمت اور فیوض و برکات سے معمور ماہ صیام ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ مقدس و محترم اور عزت مآب مہینہ اپنے جلو میں لا محدود و بے کراں نعائم و عنایات خداوندی لیے طلوع ہوتا ہے۔
طلوع مہتاب صیام کے ساتھ ہی ملائکۃ المقربین حکم رب ذوالجلال سے نوید بخشش و مغفرت لیے پہلے آسمان پر نزول اجلال کرتے ہیں۔ جو اہل ایمان غفران طلبی کے متمنی ہوتے ہیں وہ غیر مرئی طور پر اس حیات بخش نوید کی آہٹ محسوس کر لیتے ہیں۔ وہ اس شفا بخش مہینے کا استقبال دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں۔ وہ ایک ناقابل بیان مسرت و انبساط سے سحر ی و افطاری کا اہتمام کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اس ذی وقار مہینے کی دیگر بے حد و حساب برکتوں کے علاوہ ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ افطاری کے وقت ہر گھر کے دستر خوان پر وہ تمام مشروبات و فواکہ موجود ہوتے ہیں جو سال بھر شاذ و نادر میسّر آتے ہیں۔ اور اس فیض رسانی کو انسان ماہ صیام گذر جانے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ یہ لطف و کرم اور ابر رحمت کہاں سے برستا رہا۔ اہل دل ان مشاہدات تلطف کو واضح طور پر دیکھ لیتے ہیں۔ پھر یہ ماہ کرم خاک نشینوں اور مفلوک الحالوں کے لیے بھی خوشی و طمانیت کا پیام بر ثابت ہوتا ہے۔
بعض اہل ثروت تو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں اور شان فیاضی و کشادہ دلی اور وسعت ظرف کے ایسے ایمان افروز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا اظہار سال بھر کبھی مشاہدے میں نہیں آتا۔ بردباری، حلیمی و مسکنت اور عفو و درگذر کا روح پرور مظاہرہ روزہ داروں کا طرۂ امتیاز بن جاتا ہے۔ قرآن خوانی اس کثرت سے ہوتی ہے کہ موجہ باد صبا قربان ہوتا نظر آتا ہے۔
انہی خصائص و شمائل آدمیت کے ارتقاء کے لیے تو اس حیات آفریں مہینے کا نزول ہوتا ہے۔ زہد و اتقاء کے اس استغراق میں جب روزہ دار اﷲ رب العزت کے حضور دست دعا بلند کرتا ہے تو رحمت رب کائنات جوش میں آجاتی ہے اور دست غفران طلبی میں تغذیہ قبولیت رکھ دیتی ہے پھر ایک خاطی و عاصی انسان محسوس کرنے لگتا ہے:
اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پُھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
رمضان المبارک کے دیگر بہت سے خواص میں سے سب سے نمایاں خصوصیت روزہ دار کو لغویات و بازاریت، دجل و فریب، دھوکا دہی اور حدود و ضوابط عفّت و عصمت کی پامالی سے روکنا بھی ہے۔ انسان پورا دن بھوکا پیاسا رہ کر تعشیات و لذات کام و دہن سے مجتنب رہتا ہے۔
وہ یہ سب کچھ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ اگر روزہ دار صاحب دانش و بصیرت اور عقل و شعور سے بہرہ ور ہے تو وہ یہ ضرور محسوس کرے گا کہ شدید موسم میں غضب کی اشتہاء و تشنگی کے عالم میں اپنا دامن اعمال آلائش عصیاں سے کیوں داغ دار کرے۔ چناں چہ وہ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر ہر اس طاغوتی سوچ سے احتراز و گریز پائی اختیار کرے گا جس میں اپنے رب کی رضا کے روٹھ جانے کا ادانیٰ سا شائبہ بھی موجود ہوگا۔
یہ کتنے کمال درجے کی عنایت خداوندی ہے کہ اس مہینے کی برکت سے اہل ایمان کی فکر میں ایک انقلاب آفریں تغیر رونما ہو جاتا ہے۔ جو آہستہ آہستہ دیگر مہینوں میں بھی تہذیب انسانیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
منبع رشد و ہدایت آدمیت قرآن کریم سے محبت کا ایک ایسا دل افروز اور دل پذیر طوفان بپا ہو جاتا ہے جس کی طلاطم خیز موجیں روزہ دار کو جانے کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ وہ صبح و مسا اس کی تلاوت سننے اور کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہی سوز قرأت اسے خواہشات و ترغیبات نفس کے ایمان شکن حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ خیالات میں تازگی اور جذبات و احساسات میں تقدیس آمیز دل کشی و رعنائی پیدا ہونے لگتی ہے۔ روزہ دار کا سینہ مدینۂ سوز و گداز بننے لگتا ہے۔ قلوب و اذہان میں کمال بُوذرؓ و روح بلالؓ پیدا کر لینے کی تڑپ جنم لینے لگتی ہے۔
ناجائز و حرام ذریعہ آمدن سے نفرت اور رزق حلال کی تمنّا غالب آنے لگتی ہے۔ صراط دانش و حکمت روشن و تابندہ تر نظر آنے لگتا ہے۔ رحمت پروردگار اس شان و انداز سے ڈھانپ لیتی ہے کہ تا حد نگاہ عالم بقعۂ نُور بن جاتا ہے۔ جوں جوں ماہ رمضان آغاز سے اختتام کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے عنایات ربِ کائنات کا نزول ظہور دوچند ہوتا چلا جاتا ہے۔ سُرور رحمت و بادۂ عز و وقار انسان کے ہم دوش کر دیے جاتے ہیں۔ چشمۂ صدق و صفا اور خزینۂ مہر و وفا اس کے ہم رکاب ہو جاتے ہیں اور پھر روزہ دار رحمت خداوندی کی لطافت سے اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ وہ ایک لحظے کے لیے بھی فراق گوارا نہیں کرتا اور زبان حال سے پکار اٹھتا ہے :
چمن میں اس قدر تُو عام کردے اپنے جلووں کو
نگاہیں جس طرف اٹھیں، تیرا دیدار ہو جائے
اس ماہ محترم میں ہر نفس پر ایک خنک خوش بُو یہ خبر لیے کھڑی ہوتی ہے کہ مژدہ تسکین جان بے قرار آنے کو ہے۔ رگ و پے میں ایک موج سلسبیل ڈھلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دل و نگاہ کی تمام کثافتیں اور آلائشیں دُھل کر ردائے بے داغ بن جاتی ہیں۔
روزہ عصیاں کا کوہ گراں سر سے اتار کر خُوگر مدحت خدا و مصطفی ﷺ بنا دیتا ہے۔ روزہ انسان کو خواہش و فکر دست طلب درازی سے نکال کر نکہت خودداری سے مالا مال کر دیتا ہے۔
روزہ اہتمام رونق مے خانہ وحدت کا درس دیتا ہے جس کی برکت سے انسان ارتقاء سے ارتفاع کی جانب سرعت سے گام زن ہو جاتا ہے۔ روزہ مادہ پرستانہ رجحانات سے بچا کر آسمان روحانیت کی جانب مائل پرواز کر دیتا ہے۔ اور یہ مقام روزہ دار کو ہم دوش ثریّا کر دیتا ہے۔
روزہ جنسی خواہشات کو کچل کر لطافت قرآن و سنّت کی طرف جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ روزہ باہمی رواداری، حسن اخلاق، مخلوق خدا سے بے پایاں محبت، مناقشت و مخاصمانہ رویوں کو کچل دینے اور بغض و حسد سے نفرت کی ترغیب دیتا ہے۔ روزہ امر بل معروف اور نہی عن المنکر کے دل کشا فکر سے مالا مال کر دیتا ہے۔
روزہ روحانیت سے مسحور و معمور کر دینے کے ساتھ جسمانی آلائشوں اور بیماریوں سے بھی ڈھال کا کام دیتا ہے۔ دنیا بھر کے اہل طب اس حقیقت سے سو فی صد متفق ہیں کہ ماہ صیام ایک ریفریشر کورس ہے جو گیارہ ماہ تک انسانی معدے میں پیدا ہونے والی کثافتوں کو صاف کر دیتا ہے۔ بڑے بڑے لحیم شحیم انسان روزے کو اپنے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ خیال کرتے ہیں۔
ان کا خیال ہے یہ ذریعہ حصول ثواب کے ساتھ موٹاپے کا تریاق بھی ہے۔ روزہ جسم میں موجود فاسد مادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے، بہ شرط کہ یہ مقدس و محتشم مہینہ گذر جانے کے بعد بھی انسان طبی ضوابط کا لحاظ کرتے ہوئے کھانے پینے کا اہتمام رکھے۔ حکمت خداوندی نے اس عظیم الشان مہینے کو اپنے بندوں کے لیے گراں باریٔ طبع کا باعث نہیں بنایا۔ اس میں خاطر اہل ایمان کا لحاظ رکھتے ہوئے بہت سی گنجائش بھی موجود ہیں۔ شدید عالم علالت میں رخصت بھی عطا کی گئی ہے اور اس کا متبادل تجویز کیا گیا ہے۔
لا اکرہ فی الدین کتنا جامع فرمان خدا وندی ہے۔ اس میں جہاں دیگر عبادات میں غیر معمولی اور شدید حالات میں چھوٹ دی گئی ہے وہاں خوب صورت بدل بھی عطا کیا گیا ہے اور انسانی فطرت کے لیے انتہائی قابل قبول متبادل راستہ تجویز کیا گیا ہے۔ غرض یہ ماہ ذی شان ہر اعتبار سے اہل ایمان کے لیے باعث فوز و فلاح دنیوی و اخروی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر اپنے خالق و مالک کی لا محدود نعمتوں سے بہرہ یاب ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسا مفیض مہینہ ہے کہ جس وقت اور جدھر دیکھو :
ہونٹوں کی طلب بار نہ پاتی ہے نہ پائے
ملتی ہے وہی چیز ہو دل جس کا طلب گار
پُرسوز تلاوت کی صدا گونج رہی ہے
ہر قلب میں ہے نغمہ جبریل کی جھنکار
طلوع مہتاب صیام کے ساتھ ہی ملائکۃ المقربین حکم رب ذوالجلال سے نوید بخشش و مغفرت لیے پہلے آسمان پر نزول اجلال کرتے ہیں۔ جو اہل ایمان غفران طلبی کے متمنی ہوتے ہیں وہ غیر مرئی طور پر اس حیات بخش نوید کی آہٹ محسوس کر لیتے ہیں۔ وہ اس شفا بخش مہینے کا استقبال دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں۔ وہ ایک ناقابل بیان مسرت و انبساط سے سحر ی و افطاری کا اہتمام کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اس ذی وقار مہینے کی دیگر بے حد و حساب برکتوں کے علاوہ ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ افطاری کے وقت ہر گھر کے دستر خوان پر وہ تمام مشروبات و فواکہ موجود ہوتے ہیں جو سال بھر شاذ و نادر میسّر آتے ہیں۔ اور اس فیض رسانی کو انسان ماہ صیام گذر جانے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ یہ لطف و کرم اور ابر رحمت کہاں سے برستا رہا۔ اہل دل ان مشاہدات تلطف کو واضح طور پر دیکھ لیتے ہیں۔ پھر یہ ماہ کرم خاک نشینوں اور مفلوک الحالوں کے لیے بھی خوشی و طمانیت کا پیام بر ثابت ہوتا ہے۔
بعض اہل ثروت تو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں اور شان فیاضی و کشادہ دلی اور وسعت ظرف کے ایسے ایمان افروز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا اظہار سال بھر کبھی مشاہدے میں نہیں آتا۔ بردباری، حلیمی و مسکنت اور عفو و درگذر کا روح پرور مظاہرہ روزہ داروں کا طرۂ امتیاز بن جاتا ہے۔ قرآن خوانی اس کثرت سے ہوتی ہے کہ موجہ باد صبا قربان ہوتا نظر آتا ہے۔
انہی خصائص و شمائل آدمیت کے ارتقاء کے لیے تو اس حیات آفریں مہینے کا نزول ہوتا ہے۔ زہد و اتقاء کے اس استغراق میں جب روزہ دار اﷲ رب العزت کے حضور دست دعا بلند کرتا ہے تو رحمت رب کائنات جوش میں آجاتی ہے اور دست غفران طلبی میں تغذیہ قبولیت رکھ دیتی ہے پھر ایک خاطی و عاصی انسان محسوس کرنے لگتا ہے:
اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پُھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
رمضان المبارک کے دیگر بہت سے خواص میں سے سب سے نمایاں خصوصیت روزہ دار کو لغویات و بازاریت، دجل و فریب، دھوکا دہی اور حدود و ضوابط عفّت و عصمت کی پامالی سے روکنا بھی ہے۔ انسان پورا دن بھوکا پیاسا رہ کر تعشیات و لذات کام و دہن سے مجتنب رہتا ہے۔
وہ یہ سب کچھ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ اگر روزہ دار صاحب دانش و بصیرت اور عقل و شعور سے بہرہ ور ہے تو وہ یہ ضرور محسوس کرے گا کہ شدید موسم میں غضب کی اشتہاء و تشنگی کے عالم میں اپنا دامن اعمال آلائش عصیاں سے کیوں داغ دار کرے۔ چناں چہ وہ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر ہر اس طاغوتی سوچ سے احتراز و گریز پائی اختیار کرے گا جس میں اپنے رب کی رضا کے روٹھ جانے کا ادانیٰ سا شائبہ بھی موجود ہوگا۔
یہ کتنے کمال درجے کی عنایت خداوندی ہے کہ اس مہینے کی برکت سے اہل ایمان کی فکر میں ایک انقلاب آفریں تغیر رونما ہو جاتا ہے۔ جو آہستہ آہستہ دیگر مہینوں میں بھی تہذیب انسانیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
منبع رشد و ہدایت آدمیت قرآن کریم سے محبت کا ایک ایسا دل افروز اور دل پذیر طوفان بپا ہو جاتا ہے جس کی طلاطم خیز موجیں روزہ دار کو جانے کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ وہ صبح و مسا اس کی تلاوت سننے اور کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہی سوز قرأت اسے خواہشات و ترغیبات نفس کے ایمان شکن حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ خیالات میں تازگی اور جذبات و احساسات میں تقدیس آمیز دل کشی و رعنائی پیدا ہونے لگتی ہے۔ روزہ دار کا سینہ مدینۂ سوز و گداز بننے لگتا ہے۔ قلوب و اذہان میں کمال بُوذرؓ و روح بلالؓ پیدا کر لینے کی تڑپ جنم لینے لگتی ہے۔
ناجائز و حرام ذریعہ آمدن سے نفرت اور رزق حلال کی تمنّا غالب آنے لگتی ہے۔ صراط دانش و حکمت روشن و تابندہ تر نظر آنے لگتا ہے۔ رحمت پروردگار اس شان و انداز سے ڈھانپ لیتی ہے کہ تا حد نگاہ عالم بقعۂ نُور بن جاتا ہے۔ جوں جوں ماہ رمضان آغاز سے اختتام کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے عنایات ربِ کائنات کا نزول ظہور دوچند ہوتا چلا جاتا ہے۔ سُرور رحمت و بادۂ عز و وقار انسان کے ہم دوش کر دیے جاتے ہیں۔ چشمۂ صدق و صفا اور خزینۂ مہر و وفا اس کے ہم رکاب ہو جاتے ہیں اور پھر روزہ دار رحمت خداوندی کی لطافت سے اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ وہ ایک لحظے کے لیے بھی فراق گوارا نہیں کرتا اور زبان حال سے پکار اٹھتا ہے :
چمن میں اس قدر تُو عام کردے اپنے جلووں کو
نگاہیں جس طرف اٹھیں، تیرا دیدار ہو جائے
اس ماہ محترم میں ہر نفس پر ایک خنک خوش بُو یہ خبر لیے کھڑی ہوتی ہے کہ مژدہ تسکین جان بے قرار آنے کو ہے۔ رگ و پے میں ایک موج سلسبیل ڈھلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دل و نگاہ کی تمام کثافتیں اور آلائشیں دُھل کر ردائے بے داغ بن جاتی ہیں۔
روزہ عصیاں کا کوہ گراں سر سے اتار کر خُوگر مدحت خدا و مصطفی ﷺ بنا دیتا ہے۔ روزہ انسان کو خواہش و فکر دست طلب درازی سے نکال کر نکہت خودداری سے مالا مال کر دیتا ہے۔
روزہ اہتمام رونق مے خانہ وحدت کا درس دیتا ہے جس کی برکت سے انسان ارتقاء سے ارتفاع کی جانب سرعت سے گام زن ہو جاتا ہے۔ روزہ مادہ پرستانہ رجحانات سے بچا کر آسمان روحانیت کی جانب مائل پرواز کر دیتا ہے۔ اور یہ مقام روزہ دار کو ہم دوش ثریّا کر دیتا ہے۔
روزہ جنسی خواہشات کو کچل کر لطافت قرآن و سنّت کی طرف جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ روزہ باہمی رواداری، حسن اخلاق، مخلوق خدا سے بے پایاں محبت، مناقشت و مخاصمانہ رویوں کو کچل دینے اور بغض و حسد سے نفرت کی ترغیب دیتا ہے۔ روزہ امر بل معروف اور نہی عن المنکر کے دل کشا فکر سے مالا مال کر دیتا ہے۔
روزہ روحانیت سے مسحور و معمور کر دینے کے ساتھ جسمانی آلائشوں اور بیماریوں سے بھی ڈھال کا کام دیتا ہے۔ دنیا بھر کے اہل طب اس حقیقت سے سو فی صد متفق ہیں کہ ماہ صیام ایک ریفریشر کورس ہے جو گیارہ ماہ تک انسانی معدے میں پیدا ہونے والی کثافتوں کو صاف کر دیتا ہے۔ بڑے بڑے لحیم شحیم انسان روزے کو اپنے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ خیال کرتے ہیں۔
ان کا خیال ہے یہ ذریعہ حصول ثواب کے ساتھ موٹاپے کا تریاق بھی ہے۔ روزہ جسم میں موجود فاسد مادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے، بہ شرط کہ یہ مقدس و محتشم مہینہ گذر جانے کے بعد بھی انسان طبی ضوابط کا لحاظ کرتے ہوئے کھانے پینے کا اہتمام رکھے۔ حکمت خداوندی نے اس عظیم الشان مہینے کو اپنے بندوں کے لیے گراں باریٔ طبع کا باعث نہیں بنایا۔ اس میں خاطر اہل ایمان کا لحاظ رکھتے ہوئے بہت سی گنجائش بھی موجود ہیں۔ شدید عالم علالت میں رخصت بھی عطا کی گئی ہے اور اس کا متبادل تجویز کیا گیا ہے۔
لا اکرہ فی الدین کتنا جامع فرمان خدا وندی ہے۔ اس میں جہاں دیگر عبادات میں غیر معمولی اور شدید حالات میں چھوٹ دی گئی ہے وہاں خوب صورت بدل بھی عطا کیا گیا ہے اور انسانی فطرت کے لیے انتہائی قابل قبول متبادل راستہ تجویز کیا گیا ہے۔ غرض یہ ماہ ذی شان ہر اعتبار سے اہل ایمان کے لیے باعث فوز و فلاح دنیوی و اخروی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر اپنے خالق و مالک کی لا محدود نعمتوں سے بہرہ یاب ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسا مفیض مہینہ ہے کہ جس وقت اور جدھر دیکھو :
ہونٹوں کی طلب بار نہ پاتی ہے نہ پائے
ملتی ہے وہی چیز ہو دل جس کا طلب گار
پُرسوز تلاوت کی صدا گونج رہی ہے
ہر قلب میں ہے نغمہ جبریل کی جھنکار