رمضان الکریم کے فضائل و برکات

ارکانِ اسلام میں روزہ تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی پابندی شہادت توحید و رسالت اور نماز کے بعد فرض کا درجہ رکھتی ہے


’’جس شخص نے روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو اُس کے  بھوکے رہنے سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: ربِ کریم کی ذاتِ پاک کے خاص فضل و کرم سے ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کے صدقے سے ہمیں ایک بار پھر رمضان شریف کا مبارک مہینہ دیکھنے اور اس میں موجود بے شمار برکتیں، رحمتیں اور نیکیاں سمیٹنے کا خوب صورت موقع عطا فرمایا ہے تاکہ ہم رحمتوں کے اِس موسمِ بہار میں ربِ قدوس اور اُس کے پیارے محبوبؐ کی خوش نودی اور قرب خاص حاصل کرسکیں۔

ارکانِ اسلام میں روزہ تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی پابندی شہادت توحید و رسالت اور نماز کے بعد فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ آیت روزہ، شعبان المعظم کے ماہِ مقدس میں نازل ہوئی جس میں رمضان المبارک کو ماہِ صیام قرار دیتے ہوئے اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''پس! تم میں سے جو شخص ماہِ رمضان کو پالے تو اُسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے۔''

اس آیۂ مبارکہ میں روزہ رکھنے کا حکم ہر اُس صاحبِ ایمان کو دیا گیا ہے جو اپنی زندگی میں اِس ماہِ مقدس کو پالے۔ لہذا خدائے بزرگ و برتر نے روزے کی فضیلت کے باب میں بلا استثنائے مرد و زن تمام اہلِ ایمان سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض تھے، تاکہ تم پرہیزگار اور متقی بن جاؤ۔''

حضرت سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ رحمتِ عالمؐ نے شعبان المعظم کے آخری ایام میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے لوگو! تم پر ایک بہت بڑی عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔

اور یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے، خدا تعالیٰ نے اس مہینے میں تم پر روزے فرض کیے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس مہینے میں کوئی نیک کام اور نفلی عبادت اپنے دل کی خوشی سے خود کرے، وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے سوا دوسرے مہینوں میں فرض ادا کیا ہو۔ اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے سوا دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے ہوں۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی تعاون اور ہم دردی کا مہینہ بھی ہے۔'' (مشکوٰۃ شریف)

خدائے بزرگ و برتر کے پیارے حبیبؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص رمضان المبارک کی آمد پر خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے محبّت کے ساتھ اس ماہِ مبارک کا اس کے شایانِ شان استقبال کرے گا، اُس پر دوزخ کی آگ حرام کر دی جائے گی۔''

رمضان شریف کی برکت سے جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور تمام شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ عربیؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''روزہ ڈھال ہے۔ پس! روزہ دار کوئی فحش بات نہ کرے۔ اگر کوئی اس سے لڑے یا گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ قسم ہے اُس ربِ کائنات کی کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، روزہ دار کے منہ سے آنے والی بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بُو سے بھی زیادہ محبوب تر ہے۔''

پروردگارِ عالم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار محض میرے لیے کھانا ترک کرتا ہے۔ اور لذتوں سے بھری چیزیں چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔

پروردگارِ عالم نے ہم گناہ گاروں کے لیے اِس ماہِ مبارک میں فضائل و برکات ، نیکیوں اور رحمتوں کا بے حد و حساب اہتمام کیا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ اور اُس کے پیارے محبوب ﷺ کی خوش نودی اور دولتِ ایمان کے حصول اور تقویت کے لیے کس قدر نیکیاں اور رحمتیں سمیٹتے ہیں۔

رمضان شریف کا مقصد یہ نہیں کہ سحری کے وقت پیٹ بھر لیا اور افطاری کے وقت بھی پیٹ بھر کھانا کھا لیا اور بس! ماہِ صیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ اِس ماہِ مبارک میں امت مسلمہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں مثبت اور اچھی تبدیلیاں لائے۔

قربِ خداوندی حاصل کرنے کے لیے ذکر و اذکار میں مشغول رہنا، رسولِ ہاشمیؐ کی محبت حاصل کرنے کے لیے درودِ پاک کا کثرت سے ورد کرنا، پاک محفلیں سجانا، نمازِ پنج گانہ کی ادائی کو اپنی عادت بنانا، جھوٹ کو چھوڑ کر صرف حق و سچ کو اپنانا، خدا کی راہ میں صدقہ خیرات دینا، پوری زکوٰۃ ادا کرنا، نیک کاموں میں رب العالمین کی عطا کردہ دولت کو فراخ دلی سے خرچ کرنا، یتیموں، غریبوں اور مسکینوں سے محبت کرنا اور اُن کی مالی مدد کرنا، عید کے دن مسرتوں اور خوشیوں بھرے لمحات میں پُرخلوص طریقے سے محروموں کو شامل کرنا، دلوں سے نفرتوں اور رنجشوں کو باہر نکال کر اُن میں ایمان کی روشنی پیدا کرنا، ہر معاملے میں مساوات کو پیش نظر رکھنا، دوسروں کے حقوق غضب کرنے سے اجتناب کرنا، رسول کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے اسلام میں پورا داخل ہونے کی کوشش کرنا، یہ ساری تربیت رمضان شریف میں ہوتی ہے۔

ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم مذکورہ بالا کاموں کو اپنی زندگی کا معمول بنائیں اور یہی ہماری زندگی کا اصل مقصد بھی ہے۔ محض ماہِ صیام کے تیس روزے رکھ کر پورا مہینہ بھوکا یا پیاسا رہنا اﷲ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے بل کہ وہ تو ہمیں متقی اور پر ہیز گار دیکھنا چاہتا ہے۔

رسولِ کریم ﷺ کا فرمانِ مقدس ہے، مفہوم: ''جس شخص نے روزے رکھنے کے باوجود جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو خدا تعالیٰ کو اُس کے بھوکے رہنے سے کوئی سروکار نہیں۔'' گویا اِس صورت میں روزہ رکھنا بے سُود ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم روزہ رکھنے کے ساتھ اس کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کریں۔ قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت کریں، تروایح میں اِس کی سماعت کا اہتمام کریں اور اپنے ربِ کریم کو راضی کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔

تاج دارِ انبیاءؐ نے ارشاد فرمایا: ''روزہ اور قرآن مومن کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں نے اِس شخص کو دن میں کھانے اور پینے سے روکے رکھا اور یہ رکا رہا، اے خدا! اِس شخص کے لیے میری سفارش قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا، یہ اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر نماز اور قرآن میں مصروف رہا، اس شخص کیلئے میری سفارش قبول فرما۔ اور خدا تعالیٰ ان دونوں کی سفارش قبول فرمائے گا۔''

ماہِ صیام کی مبارک راتیں، مبارک دن اور رحمت بھری ساعتیں زندگی میں بار بار نہیں آتیں۔ کیوں نہ ہم سب ان مبارک لمحات اور رحمت بھری ساعتوں کو اپنے دامن میں خوب خوب سمیٹ لیں۔ کیا پتا کہ آئندہ ہمیں رمضان شریف دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ دعا ہے کہ مولائے کائنات ہمیں اسلام میں پورا داخل ہونے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے اور یہ کہ تادمِ واپسیں ہمارے ایمان کی سلامتی فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں