ذرائع ابلاغ کی ذمے داری

پاکستانی میڈیا میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آزادیِ صحافت کا مطلب ہر اچھی بری خبر کی بلاکسی امتیاز اشاعت یا نشرکیاجانا ہے

muqtidakhan@hotmail.com

اسے بعض نادیدہ قوتوں کا خوف کہیے یا مصلحت کوشی کہ ہمارے پالیسی ساز اداروںکی طرح ذرایع ابلاغ بھی ملک کو درپیش مسائل کے بارے میںعالمانہ بحث تو کجا،اب صحافیانہ مباحثہ سے بھی گریز کرنے لگے ہیں اور ان فروعی موضوعات میں الجھے رہتے ہیں، جن سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ایسے ان گنت مسائل جو پہلے ہی پیچیدہ ہوچکے ہیں، مزید گنجلک ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ذرایع ابلاغ نے اطلاعات کی عوام تک رسائی کے پیمانے بھی طے نہیں کیے ہیں۔جس کی وجہ سے اشاعت کے لیے خبروں اور جائزوں کی ترجیحات کا تعین اور ان میں توازن قائم نہیں ہوسکا ہے۔اس میں شک نہیں کہ خبر کی اہمیت اس میں پائی جانے والی خبریت (News Value) سے مشروط ہوتی ہے۔لیکن یہ ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کون سی خبرفسادِ خلق کا سبب بن سکتی ہے،جس کی وجہ سے اسے شایع یا نشر کرنا ہے یا نظر انداز کرنا ضروری ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آزادیِ اظہارکا تصور انیسویں صدی سے عام ہونا شروع ہوا۔جسے ان ممالک کے صحافیوںاور ذرایع ابلاغ نے مہمیز لگائی۔ مثال کے طور پر امریکا میں آزادیِ صحافت کی راہ ریاست پنسلوانیا میں ہونے والے ایک واقعے نے ہموار کی۔واقعہ کچھ یوں کہ 1848ء میں پنسلوانیا گزٹ میں کام کرنے والے ایک صحافی جان پیٹر زینگر نے ریاست کے گورنر کی کرپشن کی خبریں شایع کیں، جس پر اسے گرفتارکرلیا گیا۔ عدالت میں اس نے موقف اختیارکیا کہ جواطلاعات اور معلومات ایک صحافی مختلف ذرایع سے حاصل کرتا ہے، انھیں اپنے قارئین تک پہنچانا اس کی ذمے داری ہے۔اگر متاثرہ فرد یا ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ خبر غلط اور اس میں پیش کردہ اعداد وشمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، تو وہ جوابی بیان اخبار کو بھیج سکتا ہے۔ جسے مناسب جگہ پر شایع کرنا اخبار کی اولین ذمے داری بنتی ہے۔ عدالت نے پیٹرکے موقف کوتسلیم کرتے ہوئے اسے رہاکردیا ۔اس دن سے آزادیِ اظہار امریکی صحافت کا طرہ امتیاز ہے۔ڈیڑھ سو برس کے اس عرصے میں امریکاکی صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے لیے ضابطہ اخلاق بھی طے کرلیا،جس نے انھیں آزادیِ صحافت کو صحیح طور پر برتنے میں خاصی مدد فراہم کی۔آج وہ اپنی حکومتوں،ان کی پالیسیوں اور طرز حکمرانی پرکڑی تنقید کرتے ہیں،لیکن امریکاکی قومی سلامتی اور اس کے آئین پر کسی قسم کی بے جا تنقید پرکوئی مفاہمت نہیں کرتے۔برطانیہ میں بھی آزادیِ صحافت کو کم وبیش اتناہی عرصہ ہواہے۔وہاں بھی بعض طے شدہ اصول ہیں،یعنی ذرایع ابلاغ کو اظہار کی مکمل آزادی ہے،مگر تاج برطانیہ پر تنقید نہیں کی جاسکتی،کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق یہ ان کے ریاستی تشخص کی علامت ہے۔

ہمارے سامنے ماضیِ قریب میں تین ممالک برطانیہ،الجزائراور سری لنکاکی مثالیںبھی ہیں۔جہاں دہشت گردی سے نمٹنے میں ریاستی انتظامیہ کے علاوہ ذرایع ابلا غ نے کلیدی کردار ادا کیا۔برطانیہ کو IRA(آئرش ریپبلکن آرمی) اور سری لنکاکوتامل ٹائیگرزکی شکل میں متشدد علیحدگی پسندی کا سامنا تھا۔ جب کہ الجزائر میں ہماری طرح مذہبی انتہاء پسند ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قبضے کے لیے کوشاں تھے۔ان میں سے کسی بھی ملک میں شدت پسند عناصر کو جو ایک طرف علیحدگی پسندی اور دوسری طرف ریاست کے منطقی جواز کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے، کسی بھی طور Glorifyکرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ ذرایع ابلاغ نے ان کی کارروائیوں سے متعلق صرف وہی خبریں شایع اور نشرکیں،جو ریاست کے بہترین مفاد میں متصورکی جاسکتی تھیں۔الجزائرمیں تو1990ء کے عشرے میں ان عناصر نے انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی بھی حاصل کی۔ لیکن سرشت جمہوری نہ ہونے کی وجہ سے ملک مزید دہشت گردی کا شکار ہوا تو ریاستی مقتدراعلیٰ کو ان کے خلاف سخت اقدام کرنا پڑا۔لیکن اس عرصے میں وہاں کے ذرایع ابلاغ نے بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کیا۔

پاکستان کے آئین کی شق 19Aکہتی ہے کہ"Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulations and reasonable restrictions imposed by law"۔اس شق کی آخری سطر میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی اطلاع کے افشاء ہونے پرضابطوں کے مطابق مناسب پابندی عائد کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کے مطابق گو کہ ہر شہری کو اطلاعات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔لیکن ریاست ایسی تمام اطلاعات اور معلومات جو ملک کے آئین اور اس کے وجود کے لیے چیلنج بن رہی ہوں، ان کی اشاعت اور نشرکیے جانے پر پابندی عائد کرنے کا حق رکھتی ہے۔


لیکن پاکستانی میڈیا میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آزادیِ صحافت کا مطلب ہر اچھی بری خبر کی بلاکسی امتیاز اشاعت یا نشرکیاجانا ہے۔کیونکہ اس وقت مطمع نظر صرف ریٹنگ کا حصول ہوگیا ہے۔لیکن وہ متذکرہ بالاقانون کی آخری سطر کو سمجھنے کی یاتو کوشش نہیں کررہے یا دانستہ نظر انداز کررہے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ذرایع ابلاغ میں نہ صرف ان لوگوں کے بیانات اور کارروائیوں کو موضوعِ بحث بنایا جارہاہے، بلکہGlorifyبھی کیاجارہاہے،جو آئین اورپاکستانی ریاست کے وجود کوتسلیم نہیں کرتے اور پاکستانی شہریوں سمیت سیکیورٹی اداروں کے خلاف بھی کارروائی کر رہے ہیں۔اس کے برعکس ان تجزیہ نگاروں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے،جو آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ریاست کے انسٹیٹیوشن کو بچانے کے خواہشمندہیں۔اس رویے کے نتیجے میںابہام پھیل رہاہے اور قوم واضح طورپر منقسم ہوچکی ہے۔جب کہ وہ قوتیں جنھیں 5فیصد سے بھی کم عوامی مقبولیت حاصل ہے، ایک بار پھرذرایع ابلاغ پر حاوی ہوتی نظر آرہی ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ جس آزادیِ صحافت کے لیے ہمارے بزرگوںاورسینئرز نے قید وبند اور بے روزگاری کی صعوبتیں برداشت کیں، اس کا تصورایک بار پھر میلوں دور ہونے جا رہا ہے۔

ذرایع ابلاغ میں دوسری برائی اس کا نظریاتی کے علاوہ لسانی بنیادوں پر منقسم ہونا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جو ریاست کی غلط پالیسیوں کے سبب مختلف نوعیت کی تقسیم (Fragmentation)کا شکار ہے،اس میں اگر صحافت کا شعبہ بھی حصہ دار بن جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ ایسی ایک ہزار مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ میڈیا میں میرٹ کا تصور دم توڑچکا ہے اور لسانی تقسیم بہت تیزی کے ساتھ جڑیں پکڑ رہی ہے اور اس کے بعض ذمے داروں کا رویہ انتہائی غیر مناسب اورغیر ذمے دارانہ ہوچکا ہے۔ چھوٹے صوبوں کے صحافیوں اور قلم کاروں کو نظر اندازکرنا اور ان کے مقابلے پر بڑے صوبے کے قلمکاروں کی سطحی تحریروں کو زیادہ اہمیت دینے کے رجحان کے باعث صحافیوں کے درمیان مختلف نوعیت کی دیواریں کھڑی ہو رہی ہیں۔جس کا ادراک کرنے اور اس کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔یہ رویے اس ملک کومزید تباہی سے دوچار کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس وقت سنجیدہ، متین اور ملک کی دگرگوں حالات کا ادراک رکھنے والے سینئر صحافیوں کو چھوٹے صوبوںکے صحافیوں کی شکایات پر توجہ دینی چاہیے ورنہ تاریخ اس ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں میں ذرایع ابلاغ کو بھی شامل کرے گی۔

لہٰذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے میڈیا منیجرز سنجیدگی کے ساتھ بیٹھیں اور اس سلسلے میں کوئی واضح حکمت عملی طے کریں۔ عوام کے اطلاعات تک رسائی کا حق آزادیِ صحافت سے مشروط ہے،اس لیے یہ فیصلہ کیا جانا اب اشد ضروری ہوگیا ہے کہ ذرایع ابلاغ آزادیِ صحافت کے تحفظ کے لیے کس حد تک آگے جا سکتا ہے۔لہٰذا یہ حکمت عملی تیار کرنا ہوگی کہ کون سی خبروںکا ریاست کی بقاء اور سلامتی کی خاطر روکا جانا ضروری ہے اور کن طبقات کو اہمیت دینی ہے اور کن حلقوں کی خبروں کو بلیک آوٹ کرنا ضروری ہے۔

تشویشناک پہلو یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے درمیان اتنے شدید اختلافات اور مخاصمت پائی جاتی ہے کہ انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مشترکہ مفادات کا فیصلہ کرنا مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔اس صورتحال کے باعث کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام تقسیم در تقسیم کا شکار ہو رہے ہیں۔اس لیے سب سے پہلے ذرایع ابلاغ کو ریٹنگ کی دوڑ سے نکل کراپنے اختلافات ختم کرنا ہوں گے اورآزادیِ صحافت کے لیے ایک صفحہ(Page)پر آنا پڑے گا۔انھیں جرأت مندی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئین اور ریاست کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والوں کو ان کی عوامی قبولیت سے زیادہ اہمیت نہیں دینی ہے۔یہ فیصلہ حکومت نے نہیں بلکہ اخبارات کے مدیران اور الیکٹرونک میڈیا کے ذمے دار ہی طے کرسکتے ہیں۔کیونکہ حکومت کا فیصلہ سنسرشپ کہلاتا ہے، جس کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔اگر میڈیا ہاؤسز باہم متحد ہوکر مشترکہ ضابطہ اخلاق تیار کرنے کے بعد ترجیحات کا تعین کرلیتے ہیں، تو ابلاغی جنگ(Media War)میں ان حلقوں کا پلڑا لازمی طور پر بھاری ہوگا جو آئین اور جمہوری نظم حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔
Load Next Story