کاش ایسا نہ ہوتا
پاکستان اور امریکا کے تعلقات پچھلے کچھ عرصے سے کافی خراب ہیں
ISLAMABAD:
واشنگٹن میں پاکستانی سفیر جناب اسد مجید اپنی تعیناتی کی مدت مکمل کر کے امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے الوداعی ملاقاتیں کرنا چاہتے تھے۔ دنیا بھر میں یہی دستور ہے کہ سفراء روانگی سے پہلے الوداعی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں میزبان ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز فرد کے ساتھ ملاقات ہونا بہت ہی اہم ہوتا ہے۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات پچھلے کچھ عرصے سے کافی خراب ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ہمارے تعلقات میں خاصی سرد مہری آ چکی ہے۔ ہم نے امریکا کی افغانستان میں بہت مدد کی۔ افغانستان میں قیامِ امن اور امریکی افواج کے بحفاظت انخلا میں پاکستان نے بھر پور کردار ادا کیا۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے لیے ملا برادر کو رہا کیا تاکہ مذاکرات کی داغ بیل ڈالی جا سکے اور ایک پائیدار حل کی طرف بڑھا جا سکے۔
طالبان کابل میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو پاکستان نے افغانستان میں پھنس جانے والے امریکی اور یورپی افراد کے انخلا میں اپنی صلاحیت سے بڑھ کر مدد کی لیکن امریکی انتظامیہ نے شکریے کے چند الفاظ تک ادا نہیں کیے۔جناب اسد مجید صاحب الوداعی ملاقاتوں کے لیے سرگرم ہوئے تو تعلقات میں یہ سرد مہری ان کے راستے میں حائل نظر آئی۔
امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں سے کوئی بھی ملاقات کرنے پر راضی نہیں تھا۔اسد مجید صاحب کو پچھلے دو سال سے اسی سرد مہری کا سامنا تھا اور ان کی امریکی اعلیٰ انتظامیہ تک پہنچ نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب کوئی بڑا ملنے کو تیار نہ ہوا تو رہ سہہ کے امریکی وزارتِ خارجہ کے جنوبی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ Donlad Luسے ملاقات کو غنیمت جانا گیا۔یہ صاحب چینی نژاد امریکی ہیں۔
یہ پاکستان اور بھارت میں تعینات رہ چکے ہیں اور ہماری سیاست اور حالات سے بڑی حد تک واقف ہیں۔ سفیرِ پاکستان کی الوداعی ملاقات کی تجویز پر LU راضی ہو گئے، ویسے بھی یہ ان کے فراٗضِ منصبی کا تقاضا تھا۔ ادھر پاکستان میں پچھلے چند مہینوں سے جناب عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی سرگرمیوں کا خاصا غوغا تھا، اس لیے ملاقات میں اور باتوں کے علاوہ عدم اعتما د وغیرہ کا ْقصہ بھی آ گیا جس پر اسسٹنٹ سیکریٹری نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔چونکہ یہ صاحب چینی نژاد امریکی ہیں اس لیے پاکستان کے معاملات سے ان کی دلچسپی نیچرل ہے۔
یہ ملاقات 5مارچ کو ہوئی۔ملاقات کا احوال چھ مارچ کو سائفر مسیج کی شکل میں ڈھلا جو اسلام آباد میں سات مارچ کو موصول ہوا۔اس قسم کے تمام سائفر پیغامات سیکریٹری خارجہ کے دفتر میں آتے ہیں۔ان میں سے ہر مسیج کو وزاتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹریوں کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہوں اور ڈی جی ایٹیلیجنس کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔
اسد مجید صاحب کا بھیجا ہوا مسیج بھی ان سب کے ساتھ شیئر ہوا۔یہ مسیج وزیرِ اعظم کے دفتر کے ساتھ بھی شیئر ہوا اور اگلے پندرہ سے زائد دنوں تک اس کو بالکل بھی غیر معمولی نہیں گردانا گیا کیونکہ یہ ایک بہت عام سا مسیج تھا۔روٹین کے ایک سائفر پیغام کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔یہ بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک منفی باب کا اضافہ ہی کہلا سکتا ہے۔
قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد حکومتی طرزعمل انتہائی غیر ضروری اور ناپسندیدہ تھا۔آئینِ پاکستان اور اسمبلی ضوابط سے جو کھلواڑ کیا گیا، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔رولز میں یہ بہت واضح ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا کیا پراسس ہے اور ووٹنگ کی طرف کیسے بڑھنا ہے۔تحریک 8مارچ کو جمع کرائی گئی جس پر ووٹنگ کے لیے چودہ دن کے اندر اجلاس بلوانا ضروری تھا،ایسا نہیں ہوا۔کاش ایسا نہ ہوتا۔آئین اور اسمبلی رولز سے کھیلا گیا، اس سے آیندہ کے لیے بری مثٓال بنتی ہے اورآئین کی خلاف ورزی کا راستہ کھلنا آسان ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد جس دن عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی، اُس دن اجلاس شروع ہونے کے چند ہی منٹ بعد ڈپٹی اسپیکر نے آناًفاناً ایک غلط رولنگ دے کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا۔سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت جب اجلاس بلایا گیا تو صبح ساڑھے دس بجے سے رات پونے بارہ بجے تک اجلاس کو غیر ضروری طور پر اور پوری منصوبہ بندی سے طول دیا گیا جب کہ صرف ووٹنگ ہونا تھی،سارا دن حکومتی پارٹی کی تقاریر جاری رہیں اور جب سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کے نتیجے میں Contempt of courtصاف نظر آنے لگی تو ایوان سے بھاگ گئے اور پینل آف چیئرمین میں سے ایاز صادق نے ووٹنگ کرائی۔ہونی کو تو کوئی ٹال نہیں سکتا لیکن جس طرح سے اسمبلی کی کارروائی چلائی گئی وہ انتہائی افسوسناک تھی۔اقتدار سے محرومی کے وقت باعزت اور باوقار رویہ قدر و منزلت میں اضافہ کا باعث بنتاہے۔
پی ٹی آئی اسمبلی میں رہ کر ایک مضبوط اپوزیشن ہو سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی نے اسمبلی سے استعفے دینا مناسب سمجھا۔اسمبلی سے استعفے دینے کے آپشن پر پچھلی اپوزیشن بھی سوچتی رہی لیکن اگر وہ استعفے دے دیتے تو اسمبلی کے اندر سے موجودہ کامیابی نہ سمیٹتے۔ پی ٹی آئی کے استعفے شاید اپنا ہدف حاصل کر لیں لیکن بظاہر ایسا ممکن نہیں۔پارلیمانی نظام میں اسمبلی کے اندر پاور شو بہت اہم ہوتا ہے۔
جلسے جلوسوں سے اپنی مقبولیت تو دکھائی جا سکتی ہے اور کون ہے جو جناب عمران خان کی شہرت سے انکار کرتا ہے لیکن اسمبلی میں موجود نہ ہونے سے حکومت کے اوپر دباؤ غائب ہو جاتا ہے۔حکومت اپوزیشن کی غیر موجودگی میں اپنی مرضی سے قانون سازی کر سکتی ہے۔حکومت پر کوئی چیک نہ ہونے سے قانون سازی میں تیزی تو آ جاتی ہے لیکن اپوزیشن کی طرف سے ضروری ترامیم تجویز نہ ہونے سے اچھی قانون سازی نہیں ہو سکتی جس سے نقصان عوام کاہوتا ہے۔
قومی اسمبلی سے استعفے دینے سے جناب عمران خان اپوزیشن لیڈر نہیں رہتے۔سرکاری طور پر یہ حیثیت کھو دینے سے وہ ایک تو اسمبلی سے باہر ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف آیندہ انتخابات سے پہلے بننے والی قائم مقام حکومت کے لیے مشاورت سے نکل جاتے ہیں۔اپوزیشن لیڈر کا مقام سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر کامقام ہے۔لگتا ہے استعفے دینے سے پہلے پورا غور نہیں کیا گیا۔
عام انتخابات اس سال ہونے کی توقع رکھنا غیر دانشمندانہ لگتا ہے ۔نیب کے چیئرمین کی مدتِ ملازمت پوری ہو چکی ہے۔نیا چیئرمین لگانے کے لیے وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان بامعنی مشاورت ضروری ہے۔جب آپ نہ وزیرِ اعظم ہیں اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر تو موجودہ حکومت آپ سے مشورہ کیے بغیر یہ تقرری بآسانی کر سکتی ہے۔کاش ایسا نہ ہوتا۔
واشنگٹن سے سفیرِ پاکستان کے ارسال کردہ سائفر مسیج کے بارے میں پروپیگنڈا کیاگیا کہ یہ ایک سازش ہے حالانکہ سازش کھلم کھلا نہیں ہوتی ۔سازش کی کامیابی کے لیے اسے خفیہ رکھنا اہم ہوتا ہے۔یا تو یہ دھمکی ہے یا پھر سازش۔ دونوں باتیں اکٹھی جوڑ نہیں کھاتیں۔
سازش کھلم کھلا نہیں ہوتی اور اپنے سفیر کا سائفر مسیج دھمکی نہیں ہو سکتی ۔سفارت کاری میں فریقِ ثانی کو اعتماد میں لے کر اس کا پوئنٹ آف ویو جاننا از بس ضروری ہوتا ہے اگر ایسا نہ ہو سکے تو اُس ملک کے لیے ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہو سکتی۔فریقِ ثانی چاہے پاکستان کا کتنا ہی دوست ملک ہو لیکن ہر ملک کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اور یہ بہت ہی کم ہوتا ہے کہ آپ کے ملک کا مفاد بالکل ہی ایسا ہو جیسا فریقِ ثانی کا۔ ترکی ہمارا بہت اہم اور اچھا دوست ملک ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہر بین الاقوامی فورم پر وہی بات کرے گا جو پاکستان چاہتا ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ ہمارے بہت ہی قریبی مراسم ہیں لیکن اکثر موقعوں پر ہمارے اور ان کے نقطہ نظر میں کچھ اختلاف ہوتا ہے۔بہر حال جو بھی گیپ ہو اس کا جاننا ضروری ہوتاہے۔ جس طرح سائفر مسیج کو اچھالا گیا اس سے یہ بہت ممکن ہے کہ آیندہ دوسرے ممالک کے سفارتکار ہمارے سفارتکاروں پر پہلے والا اعتماد نہ کریںاور ہمارے سامنے ان کانقطہء نظر نہ آ سکے۔یہ بہت برا سیٹ بیک بیک ہو گا۔ سائفر مسیج کے اس طرح عام ہونے سے پاکستان کا خفیہ کوڈ بھی سامنے آ گیا۔کاش ایسا نہ ہوتا۔