کاش
مرزا غالبؔ نے خط کو نصف ملاقات کہا تھا
ISLAMABAD:
مرزا غالبؔ نے خط کو نصف ملاقات کہا تھا اور میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے کالم''قلم برداشتہ'' کو جس کے ذریعے آپ سے ہر ہفتہ کبھی ایک بار اور کبھی دوبار ملاقات ہوجاتی ہے۔ کیا نام دیا جائے، اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار میں اچانک غائب بھی ہوجاتا ہوں جس پر میرے حلقہ قارئین ہی نہیں بلکہ پیارے دوستوں کو بھی تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ یہ کالم بھی آپ تک تاخیر سے پہنچا ہے جس کے لیے میں آپ سب سے معذرت خواہ ہوں۔ کیفیت یہ ہے کہ ضعیفی اب اپنی آمد کو تسلیم کرا رہی ہے کہ بقولِ غالب۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ولئیم شیکسپئیر نے بالکل بجا کہا تھا کہ یہ دنیا سات مرحلوں پر مشتمل ایک اسٹیج ہے جہاں ہر آدمی اپنا اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہو جاتا ہے تو ہمارا بھی یہی حال ہے کہ:
ہو چکیں غالب ؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
بات یہ ہے کہ وطن ِ عزیز کے معروضی حالات نے ہمیں بری طرح پریشان کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے نہ کچھ کھانے پینے کو جی چاہ رہا ہے اور نہ کچھ بولنے چالنے کو طبیعت کر رہی ہے۔ جب بھی طبیعت کو آمادہ کرنے کی کوشش کی تو پھر اُسی احساس نے آ گھیرا۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلق اس نسل سے ہے جس نے وطن عزیز کو نہ صرف بنتے ہوئے بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ نسل معدوم ہورہی ہے اور کیفیت یہ ہے۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ نے ہمیں ناقابل فراموش اور عبرتناک سبق سکھایا تھا جسے عملاً ہم نے بالکل بھُلا دیا۔ اِس عظیم سانحہ نے ہمیں اپنے مشرقی بازو سے ہمیشہ کے لیے محروم اور دنیا بھر میں بدنام کردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اِس سانحہ سے سبق حاصل کرتے اور آیندہ کے لیے انتہائی احتیاط کرتے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس سانحہ کو قصہ پارینہ سمجھ لیا اور پھر انھیں حرکتوں پر اُتر آئے یعنی پھر وہی کھینچا تانی دھینگا مُشتی اور وہی جوتَم پیدار۔ اختلافِ رائے ایک فطری تقاضہ ہے کیونکہ پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا مثلاً کسی کو بریانی پسند ہے تو کسی اور کو پلاؤ مگر اِس میں ایسی تو کوئی بات نہیں کہ اِسے بینائے فساد بنا دیا جائے اور طیش میں آکر ذاتیات پر اُتر آنے کی نوبت آ جائے یہاں تک کہ مرزا کی زبان میں یہ کہا جائے کہ:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ'' تُو کیا ہے؟''
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
ہمارے زمانہ میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا تھا اور نشست و برخواست کا خاص خیال رکھنا پڑتا تھا۔ تاکید یہ تھی کہ میاں پہلے تولو اُس کے بعد بولو لیکن عالم یہ ہے کہ اب تو ادب و آداب کا جیسے چلن ہی اٹھ گیا ہو اور تو اور نہ صرف پڑھے لکھے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ ممبرانِ پارلیمان کو بھی برسرِ عام بے تکان غیر پارلیمانی زبان بولتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اِس روش پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہی ہوگا۔ گستاخی معاف اِس میں نہ مسٹر کا فرق ہے اور نہ مولانا کا۔ سیاست آج کوئی نئی بات نہیں کیونکہ یہ ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے۔ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ مختلف سیاست دانوں میں شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا تھا لیکن سیاسی اکھاڑے کے باہر بحیثیت انسان وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں بھی شریک ہوا کرتے تھے لیکن آج کل کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ لوگ بات بات پر ایک دوسرے کے لیے گالم گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدان مصلحت کوش اور مفاد پرست ہیں۔ وہ جمہوریت کے قصیدے تو پڑھتے ہیں لیکن اُن کے رویوں سے آمریت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔الیکشن کے موقعے پر تو امیدوار خادمِ قوم بن کر آتے ہیں اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنی اصل اوقات دکھاتے ہیں۔ ہمارا اشارہ خدانخواستہ کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اُس کے قائد کی جانب نہیں ہے بلکہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ غالبؔ کے اِس مصرعہ کی تشریح ہے۔
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
ہمارا کسی سے کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے ،نہ ہمیں کسی عہدہ کی خواہش ہے اور نہ ہی نام و نمود کی۔صاف بات یہ ہے کہ:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
البتہ جو بھی اِس مملکت خداداد کی بہتری اور ترقی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتا ہے اُسے ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں اور جو اِسے گزند پہنچائے یا اِس سے اپنا مفاد وابستہ کرے وہ ہمارا پسندیدہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ہم اُس شخص کے ہم نوا اور ہم رکاب ہیں جسے یہ پیارا وطن دل و جان سے عزیز ہے۔ بات صاف ہے کہ یہ وطن جن بے دریغ قربانیوں کا حاصل ہے انھیں کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے ہمارے کانوں میں ابھی تک یہ صدائیں بازگشت کررہی ہیں۔لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔
اس مملکت خداداد کو معرض وجود میں آئے ہوئے 75 سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ منزل حاصل نہیں ہوئی جسے ہمارے قومی ترانہ میں منزلِ مراد کہا گیا ہے۔ اِس کے ابتدائی ایام انتہائی کٹھن اور صبر آزما تھے۔
عجب بے سروسامانی کا عالم تھا حتی کہ سرکاری کاغذات کو نتھی کرنے کے لیے پیپر پن تک میسر نہیں تھی جس کے لیے ببول کے کانٹوں کا استعمال کرکے کام چلایا جاتا تھا۔بڑے بڑے افسران کو بھی گاڑیاں میسر نہ تھیں اور اُن میں سے اکثریت کو پا پیادہ یا سائیکلوں پر آنا جانا پڑتا تھا لیکن ہر آدمی تعمیر وطن کے جذبہ سے سرشار تھا۔ ہر شخص کی یہی خواہش تھی کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردے۔ یہی وہ جذبہ تھا کہ جس نے دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی اولین ایٹمی قوت بن کر دکھا دیا۔آج پاکستانی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔
کاش! ہمیں ویسی ہی قیادت میسر آجائے جو قیامِ پاکستان کے وقت موجود تھی۔