ڈارون کی تھیوری کے دو حصے
آج ساری دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو اس سفرکی ترقی کی انتہا ماننے کے ساتھ ساتھ انسان کی تباہی کی انتہا بھی مانتی ہے
ڈارون کی ارتقائی تھیوری کے مطابق انسان حیوان کی ایک ارتقائی شکل ہے یعنی انسان ابتدا میں حیوان تھا پھر لاکھوں سال کا ارتقائی سفر طے کرکے انسان بنا۔ ارتقا کی دو حیثیتیں یا سطحیں ہیں ایک جسمانی دوسرے ذہنی اگر اس تقسیم کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جسمانی حوالے سے تو حیوان نے ارتقائی سفر طے کرکے انسان کی شکل اختیار کرلی لیکن ذہنی ارتقا کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ کیونکہ دنیا کے مختلف علاقوں خاص طور پر افریقہ کے قبائلی علاقوں میں جسمانی طور پر تو انسان انسان ہی لگتا ہے لیکن ذہنی حوالے سے وہ ابھی تک حیوان ہی نظر آتا ہے یہ بات اتنے وثوق کے ساتھ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ٹی وی چینل ڈسکوری پر افریقہ کے جنگلی علاقوں کے جنگلی انسانوں کی جو زندگی دکھائی جاتی ہے اس میں انسان اپنی عادات اپنے رسم و رواج کے تناظر میں حیوان ہی نہیں حیوان سے بدتر نظر آتا ہے۔ افریقہ کے وحشی قبائل کی زندگی کی یہ تصویر دیکھ کر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ڈارون کی تھیوری کا دوسرا حصہ یعنی ذہنی سفر ابھی حیوانیت پر ہی رکا ہوا ہے۔
ڈسکوری کا مطلب دریافت ہے اس پروگرام میں وحشی قبائل کی زندگی کی ایک ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں ننگ دھڑنگ وحشی قبائل سیاحوں کے ایک گروپ کو پکڑ لیتے ہیں ان میں سے چند کو رسیوں سے جکڑ کر درختوں سے باندھ دیتے ہیں اور ایک کو رسیوں سے باندھ کر زمین پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے گرد حلقہ بناکر رقص کرتے ہیں محو رقص وحشی برچھوں سے ہاتھ پیر بندھے زمین پر پڑے انسان کو زخمی کرتے جاتے ہیں اور زخموں کی تاب نہ لاکر چیخنے والے انسان کی چیخوں پر قہقہے لگاتے ہیں اور جیسے جیسے ہاتھ پاؤں بندھا انسان موت کے قریب پہنچتا ہے اور اس کی چیخوں میں ''شدت'' آتی جاتی ہے۔ وحشیوں کے رقص میں بھی اسی تناسب سے شدت آتی جاتی ہے اس شدت پسندی کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ انسان کا جسمانی ارتقا تو مکمل ہوچکا ہے لیکن ذہنی ارتقا نامکمل ہے اور اس رقص بسمل کو دیکھ کر انسانوں کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ذہن میں فطری طور پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا انسان حیوان سے گیا گزرا نہیں؟
ہم ڈارون کی تھیوری کو ایک طرف رکھ کر انسان کے عمومی ارتقا پر بھی نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پتھر کے دور کا انسان درختوں، پہاڑوں، جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا۔ ننگ دھڑنگ پھرتا تھا بھوک مٹانے کے لیے درختوں کے پتے اور جھاڑیوں کی جڑیں کھاتا تھا، جب ارتقا کا سفرکچھ آگے بڑھا تو اس نے پیٹ بھرنے کے لیے جانوروں کا شکار کرنا شروع کیا اور اس شکار کے لیے پتھرکے ہتھیار بنائے وہ جانوروں کا کچا گوشت کھا جاتا تھا۔ اسے اپنے کھانے پینے رہنے سہنے پر کوئی شرمندگی اس لیے نہیں ہوتی تھی کہ یہی اس کی زندگی تھی یہی اس کا کلچر تھا ارتقائی سفر میں انسان نے ایک قدم جب آگے بڑھایا تو پتھر کو رگڑ کر آگ جلانا سیکھا جب اسے آگ جلانا آیا تو اس نے جانوروں کے گوشت کو آگ پر بھون کر کھانا شروع کیا۔ اس سفر میں خوف مسلسل اس کے ساتھ رہا طوفان کا خوف، سیلاب کا خوف، زلزلوں کا خوف، جان لیوا بیماریوں کا خوف، رات کے اندھیروں کا خوف اس خوف نے اسے آگ پانی سورج چاند جیسے قدرتی عناصر کو خدا ماننے کی طرف راغب کیا جب اس کے ذہن میں خداؤں کا تصور ابھرا تو خوف کے ساتھ امید بھی اس کی شریک سفر بن گئی۔ یہ زمانہ قبل از تاریخ کی دنیا تھی۔
حیرت اور شرم کا مقام ہے کہ اپنی ارتقائی تاریخ کے ہر مرحلے میں انسان کی حیوانی جبلت اس کے ساتھ رہی، پتھر کے ہتھیاروں کا سفر طے کرنے کے بعد جب اس نے لوہے کے ہتھیاروں کے میدان میں قدم رکھا تو تیر، تلوار اور نیزے اس نے ایجاد کیے ان ہتھیاروں کے ساتھ وہ جب حریفوں کے سامنے میدان جنگ میں اترتے تو نیزوں سے انسانی جسموں کو چھلنی کرتے، تلوار سے ایک دوسرے کا سر کاٹتے۔ جو سب سے زیادہ انسانوں کو قتل کرتا وہ سب سے بڑا بہادر کہلاتا۔ اسی انسان نے انسانوں کے سر کاٹ کر نیزوں پر سجائے اور انسانوں کے ارتقائی سفر کا مذاق اڑایا، اب لوہے کے ہتھیاروں کا یہ سفر ارتقا کی منزلیں طے کرتا کرتا ایٹم بم تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ارتقا کے سفر کا منفی پہلو ہے جب کہ ارتقا کے سفر کا مثبت پہلو انسان کا چاند پر پہنچنا، مریخ تک رسائی حاصل کرنا، خلا میں خلائی اسٹیشن قائم کرنا، کائنات کے سربستہ رازوں کا انکشاف کرنا دل جگر گردوں کی پیوندکاری، متعدی بیماریوں کا خاتمہ، دماغ کے فنکشن کا علم حاصل کرنا۔ اپنی زندگی کو جنت بنانے کے لیے طرح طرح کی پرتعیش اشیا کی ایجاد یہ انسانی ارتقا کے سفر کی وہ منزلیں ہیں جن پر انسان بجا طور پر فخر کرسکتا ہے لیکن جب ہم آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں وحشی قبائل کو ننگ دھڑنگ یا ضرورت سے زیادہ کپڑے پہن کر انسانوں کا خون بہاتے اور انسانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر رقص ابلیس کرتے دیکھتے ہیں تو اس سفر کا ایک ایسا بھیانک پہلو ہمارے سامنے آتا ہے۔ جسے دیکھ کر ڈارون کی ارتقائی تھیوری کے دوسرے حصے کا یعنی زمینی سفر کا وہ بھیانک منظر نامہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ انسان پر حیوان ہونے کا گمان یقین میں بدلنے لگتا ہے۔
آج ساری دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو اس سفر کی ترقی کی انتہا ماننے کے ساتھ ساتھ انسان کی تباہی کی انتہا بھی مانتی ہے لیکن اس ارتقائی سفر کو مات دینے کے لیے آج کے انسان نے بارود کے ساتھ نٹ بولٹ، کیل، بیرنگ کو جوڑ کر ''انسانی تاریخ کے جو جدید ترین ہتھیار'' تیار کیے ہیں اور جن کا دھڑلے سے استعمال کر رہا ہے اس ترقی کو ہم کیا نام دیں۔ ارتقا کے سفر کی اسے کون سی منزل قرار دیں؟ کہا جاتا ہے دنیا کے مختلف جنگلات خاص طور پر افریقہ کے جنگلات میں ایسے قبائل موجود ہیں جنھیں آدم خور کہا جاتا ہے۔ یہ انسان نما حیوانوں کی بدترین شکل ہیں یہ آدم خور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے انسانوں کو کھا جاتے ہیں لیکن بغیر پیٹ کی بھوک کے انسانوں کا تیتر بٹیر کی طرح شکار کرنے کے کلچر کو اس ارتقائی سفر کے کس خانے میں رکھا جائے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج کی مہذب دنیا سے جواب طلب کر رہا ہے۔ آج کی اس مہذب دنیا میں حیوان تو حیوان درندے کو درندہ کہنے پر پابندی ہے۔ یہ کیسی مہذب دنیا ہے یہ کیسا مہذب معاشرہ ہے، اگر یہ آزادی ہے تو پھر غلامی کیا ہے؟ شہروں اور جنگلوں میں فرق کیا ہے، کیوں ہے اور اگر فرق نہیں ہے تو شہروں کو جنگل کیوں نہیں کہا جاتا؟
دنیا کے مختلف ملکوں میں آثار قدیمہ دریافت کیے گئے ہیں اور دریافتوں کا سلسلہ جاری ہے پاکستان میں موئن جو دڑو، ہڑپا ،ٹیکسلا بھارت میں ایلورا، اجنٹا جیسے آثار قدیمہ دریافت ہوئے ہیں ان چار ہزار سال سے پہلے زیر زمین جانے والی بستیوں میں رہنے والے انسان کتنے مہذب تھے اس کا اندازہ ان بستیوں کی ساخت سے لگایا جاسکتا ہے۔ پانی کی نکاسی کے لیے بنائی جانے والی نالیاں گرمی سے بچاؤ کے لیے ہوا کا رخ پھیرنے والی تعمیرات برتن، بھانڈے، زیورات اور زندگی کی مختلف اشیا تو ملی ہیں، مجھے حیرت ہے کہ ان چار ہزار سال پہلے زیر زمین جانے والی غیر مہذب بستیوں میں جلی ہوئی بسوں کے ڈھانچے، گولیوں سے چھلنی گاڑیاں، ٹکڑوں میں بٹی موٹر سائیکلیں اور بارود سے اڑے سروں کی کھوپڑیاں، جلی ہوئی عمارتیں اور ان کے ملبے کیوں نظر نہیں آتے، ان بستیوں میں مسجدوں، مندروں، گرجاؤں کے آثار تو اس لیے نظر نہیں آتے کہ ہمارے معروف مذاہب اس وقت تک روشناس نہیں ہوئے تھے میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جلی ہوئی گاڑیوں، اڑی ہوئی کھوپڑیوں، جلی اور گری ہوئی عمارتوں کے ملبے اس لیے تو نظر نہیں آتے ہیں کہ ان زیر زمین بستیوں میں مندروں، مسجدوں، گرجاؤں کے آثار نہیں ہیں؟
کرہ ارض کی زندگی کے چار ارب سال مکمل ہوچکے ہیں ہماری معلوم تاریخ صرف چند ہزار سالوں پر پھیلی ہوئی ہے ان چند ہزار سالوں کا ایک بڑا حصہ قتل و غارت گری کی تاریخ ہے اور اس قتل و غارت گری کی تاریخ پر ہر قوم فخر بھی کرتی ہے زیادہ قتل کرنے والوں کو ہیرو بھی مانتی ہے۔ نیزوں اور تلواروں سے تو چند افراد قتل ہوتے تھے آج بارود سے بنے ہوئے جدید ترین ہتھیاروں سے قدیم ترین انسان ہزاروں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ انھیں ہم اپنے قومی ہیرو ماننے کے بجائے دور وحشت کی یادگاریں کیوں سمجھتے ہیں؟ آج کا انسان دماغ کے فنکشن کو کھوج رہا ہے محبت اور نفرت پیدا کرنے والے سیل اور خلیات کو الگ الگ کر رہا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ دماغ کے خلیات میں سے نفرت کے خلیات کو الگ کردیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے دماغ صرف محبت کے خلیات لے کر پیدا ہوں نفرت کا کوئی وجود نہ ہو جو انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کا سب سے بڑا سبب بنی ہوئی ہے۔