قومی دفاع معیشت اور انڈسٹریلائزیشن
تینوں عوامل ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں
تینوں عوامل ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں۔ انڈسٹریلائزیشن کے بغیر ہماری معیشت طاقتور نہیں ہو سکتی اور طاقتور معیشت کے بغیر ہمارے دفاعی شعبے کی قرار واقعی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ ہمارے دفاعی شعبے کو ایک طرف داخلی طور پر بے شمار پراکسی دشمنوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہمارا روایتی حریف بھارت ہے، دنیا میں ہتھیاروں کا تیسرا بڑا خریدار۔ بھارت کی معیشت اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے۔
مزید یہ کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ وہ روس، یورپ، امریکا، اسرائیل سب ہی سے نہ صرف جدید ترین اسلحہ خریدتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی حاصل کرتے ہیں۔
ہم مانیں یا نہ مانیں اس میں بھارت کی طاقتور معیشت کا اصل کمال ہے کہ چاہے بھارتی عین روس یوکرین جنگ کے دوران روسی تیل خریدیں، اپنے ہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اور کشمیریوں کے ساتھ جو چاہیں کریں دنیا ان کی بلائیں لینے سے نہیں تھکتی۔ پھر بھارت میں اور ہم میں ایک بڑا فرق ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کی سب سے بڑی قیمت ہماری قومی معیشت ادا کرتی ہے جب کہ بھارتی جمہوریت نے بھارتی معیشت کو نرسمہاراؤ اور من موہن سنگھ جیسے معیشت دان دیے۔
ہمارے ہاں اکثریتی پارٹی اور ملک کے اکثریتی حصے کو کامیابی سے الگ کرکے جو جمہوریت آئی اس نے صنعتوں، تجارتی اداروں، بینکوں اور تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کرکے پارٹی کارکنوں کا تو بھلا کردیا مگر ایشیا میں سنگاپور، ملائیشیا اور جنوبی کوریا سے کہیں آگے ترقی کرتی پاکستانی معیشت کا ایسا بیڑا غرق ہوا کہ پھر معاشی ترقی خواب بن کر ہی رہ گئی پھر 1990 کی دہائی میں جمہوریت کا جو سورج چمکا تو رہی سہی معیشت بھی اس جمہوری گرما گرمی میں پگھل گئی۔ اور جناب 2008 کے بعد تو جو ملک پر قرضہ 60 سال میں 6 کھرب کو پہنچا تھا 14 سالوں میں بڑھ کر 43 کھرب ہو گیا ہے جوکہ ملک کے جی ڈی پی کا 85 فیصد سے آگے نکل رہا ہے۔
چنانچہ اور مسائل کے ساتھ ساتھ اس قومی معاشی تنزلی کا نتیجہ ہے کہ جب کہ ہمیں اپنے دفاعی بجٹ میں جس قرار واقعی اضافے کی ضرورت ہے اس کے بجائے کہیں کم اضافہ کر پا رہے ہیں۔ کہنے کو تو ہمارے پاس آئین بھی ہے جس کی شہریوں کو اپنی مقامی خودمختار شہری حکومتوں پر آج تک عمل نہیں کیا گیا اور جمہوریت بھی جو وفاداریاں تبدیل کرنے والوں پر انحصار کرتی ہے مگر اگر کسی عنصر نے اس ملک کو متحد کر رکھا ہے وہ قومی دفاعی ادارے ہیں۔
کمزور معیشت بالآخر جنھیں کمزور کر سکتی ہے چنانچہ ہمیں اب سنجیدگی سے معاشی پالیسیاں بنانی ہوں گی خاص طور پر ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے فروغ کے لیے۔
اس ضمن میں ہمیں ایک تو یہ اصول ہمیشہ کے لیے لاگو کرنا ہوگا کہ معاشی پالیسیوں پر حکومتوں کی تبدیلی کا اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ آپ عمومی نوعیت سے دیکھیے تو ملک میں انڈسٹریلائزیشن جتنی مشکل ہے اتنی ہی آسان بھی ہے۔
یعنی ہم انڈسٹریلائزیشن کی راہ میں موجود تین بڑی رکاوٹیں دورکردیں جوکہ ہیں ہمارا ٹیکس کا پیچیدہ نظام ، صنعتوں کا خون چوسنے کے لیے کوئی درجن بھر سرکاری اداروں کی موجودگی اور سرخ فیتہ۔ آج کل کا زمانہ ٹیک کا زمانہ ہے یعنی ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی کا زمانہ جس میں ٹیکنالوجی نے اب انسانوں کی مداخلت سے مبرا ایسے سسٹم بنانے شروع کردیے ہیں کہ جو بڑے بڑے اداروں کے معاملات کو بخوبی چلا رہے ہیں۔
لہٰذا اب صنعتوں سے ٹیکس وصولی کا بھی ٹیک نظام بنانا ہوگا جو انسانی مداخلت سے مبرا اور محفوظ ہو۔ دوسرا معاملہ بھی ٹیک سسٹمز بنا کر حل ہو سکتا ہے یعنی صنعتوں کو درجن بھر سرکاری اداروں کے نرغے سے آزاد کرانا۔ ہمارے ہاں آج کل نت نئی ٹیک کمپنیاں وجود میں آ رہی ہیں۔
یہ کمپنیاں اس سلسلے میں ایسے ٹیک سسٹم تیار کرکے دے سکتی ہیں جن سے ملک میں صنعتیں درجن بھر سرکاری اداروں کی گلا گھوٹتی گرفت سے بچ سکتی ہیں تو دوسری طرف ایک خودکار ٹیکس وصولی اور تخمینے کا ٹیک نظام بن سکتا ہے۔
ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے ضمن میں ہمارا فوکس برآمدی صنعتوں اور ویلیو ایڈڈ صنعتوں کا ہونا چاہیے۔ شوگر ملیں بہت ہو گئیں اتنی کہ ہمارے کپاس پیدا کرنے والے علاقے کھا گئیں، ساتھ ہی کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے ملک اور قدرتی ماحول سے بڑی زیادتی ہیں۔ تاہم برآمدی اور ویلیو ایڈڈ صنعتوں کے بڑے پیمانے پر قیام کے لیے ملک کو بڑے پیمانے پر لیبر ٹریننگ چاہیے ہوگی جب کہ ملک میں صنعتی ورکرز ایک طرف جدید تربیت سے نابلد ہیں تو دوسری طرف ماڈرن مینجمنٹ سسٹم اور ڈسپلن کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
مہنگی بجلی انڈسٹریلائزیشن کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ ہے اور موجودہ معاشی حالات میں سبسڈی دینا ممکن نہیں البتہ صنعتوں کو خود اپنی بجلی پیدا کرنے کے لیے آسانیاں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ انڈسٹریلائزیشن کے عمل کی کامیابی کا بڑا انحصار صنعتی فضلے کے محفوظ طریقے سے ٹریٹ منٹ اور ری سائکلنگ کے سسٹمز کے قیام کو یقینی بنانے میں مضمر ہوگا ورنہ قدرتی ماحول کی مزید تباہی معاشی ترقی کے ثمرات کو نقصانات میں بدل دے گی۔
پاکستان اور چین کا سی پیک میں زیادہ فوکس مواصلاتی انفرااسٹرکچر قائم کرنے پر رہا ہے جو بہرحال ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے عمل کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہمارا قومی سماجی ماحول بھی ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ 1971 کے بعد کا پاکستان برصغیر کے ان علاقوں پر مشتمل ہے جو سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ترین تھا اور مقامی حکمران طبقہ ہندوستان کے مرکزی حکمران طبقوں کا ایک طفیلی طبقہ تھا چنانچہ آج بھی آپ دیکھیے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ ملک چلانے کے بجائے چھوٹے چھوٹے راجواڑے چلانے والے جینیاتی ذہن کا مالک ہے اور اب اپنے اپنے صوبوں کو اپنے اپنے خودمختار راجواڑے سمجھتا ہے جو اس ملک سے زیادہ مقدس ہیں۔
دوسری طرف ملک خصوصاً پنجاب صوبے کے عوام نے صنعتی ترقی پر سستے سیاسی نعروں اور بھنگڑوں اور بڑھکوں کو ترجیح دی اور ملکی معیشت کو تباہ کروا دیا۔ تاہم اب انڈسٹریلائزیشن ہمارے لیے چوائس نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ ہماری قومی سلامتی ہمارے قومی دفاع پر استوار ہے اور ہمارا قومی دفاع ہماری معاشی مضبوطی پر جس کے لیے انڈسٹریلائزیشن کے عمل کا آغاز لازم و ملزوم ہے۔
مزید یہ کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ وہ روس، یورپ، امریکا، اسرائیل سب ہی سے نہ صرف جدید ترین اسلحہ خریدتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی حاصل کرتے ہیں۔
ہم مانیں یا نہ مانیں اس میں بھارت کی طاقتور معیشت کا اصل کمال ہے کہ چاہے بھارتی عین روس یوکرین جنگ کے دوران روسی تیل خریدیں، اپنے ہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اور کشمیریوں کے ساتھ جو چاہیں کریں دنیا ان کی بلائیں لینے سے نہیں تھکتی۔ پھر بھارت میں اور ہم میں ایک بڑا فرق ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کی سب سے بڑی قیمت ہماری قومی معیشت ادا کرتی ہے جب کہ بھارتی جمہوریت نے بھارتی معیشت کو نرسمہاراؤ اور من موہن سنگھ جیسے معیشت دان دیے۔
ہمارے ہاں اکثریتی پارٹی اور ملک کے اکثریتی حصے کو کامیابی سے الگ کرکے جو جمہوریت آئی اس نے صنعتوں، تجارتی اداروں، بینکوں اور تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کرکے پارٹی کارکنوں کا تو بھلا کردیا مگر ایشیا میں سنگاپور، ملائیشیا اور جنوبی کوریا سے کہیں آگے ترقی کرتی پاکستانی معیشت کا ایسا بیڑا غرق ہوا کہ پھر معاشی ترقی خواب بن کر ہی رہ گئی پھر 1990 کی دہائی میں جمہوریت کا جو سورج چمکا تو رہی سہی معیشت بھی اس جمہوری گرما گرمی میں پگھل گئی۔ اور جناب 2008 کے بعد تو جو ملک پر قرضہ 60 سال میں 6 کھرب کو پہنچا تھا 14 سالوں میں بڑھ کر 43 کھرب ہو گیا ہے جوکہ ملک کے جی ڈی پی کا 85 فیصد سے آگے نکل رہا ہے۔
چنانچہ اور مسائل کے ساتھ ساتھ اس قومی معاشی تنزلی کا نتیجہ ہے کہ جب کہ ہمیں اپنے دفاعی بجٹ میں جس قرار واقعی اضافے کی ضرورت ہے اس کے بجائے کہیں کم اضافہ کر پا رہے ہیں۔ کہنے کو تو ہمارے پاس آئین بھی ہے جس کی شہریوں کو اپنی مقامی خودمختار شہری حکومتوں پر آج تک عمل نہیں کیا گیا اور جمہوریت بھی جو وفاداریاں تبدیل کرنے والوں پر انحصار کرتی ہے مگر اگر کسی عنصر نے اس ملک کو متحد کر رکھا ہے وہ قومی دفاعی ادارے ہیں۔
کمزور معیشت بالآخر جنھیں کمزور کر سکتی ہے چنانچہ ہمیں اب سنجیدگی سے معاشی پالیسیاں بنانی ہوں گی خاص طور پر ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے فروغ کے لیے۔
اس ضمن میں ہمیں ایک تو یہ اصول ہمیشہ کے لیے لاگو کرنا ہوگا کہ معاشی پالیسیوں پر حکومتوں کی تبدیلی کا اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ آپ عمومی نوعیت سے دیکھیے تو ملک میں انڈسٹریلائزیشن جتنی مشکل ہے اتنی ہی آسان بھی ہے۔
یعنی ہم انڈسٹریلائزیشن کی راہ میں موجود تین بڑی رکاوٹیں دورکردیں جوکہ ہیں ہمارا ٹیکس کا پیچیدہ نظام ، صنعتوں کا خون چوسنے کے لیے کوئی درجن بھر سرکاری اداروں کی موجودگی اور سرخ فیتہ۔ آج کل کا زمانہ ٹیک کا زمانہ ہے یعنی ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی کا زمانہ جس میں ٹیکنالوجی نے اب انسانوں کی مداخلت سے مبرا ایسے سسٹم بنانے شروع کردیے ہیں کہ جو بڑے بڑے اداروں کے معاملات کو بخوبی چلا رہے ہیں۔
لہٰذا اب صنعتوں سے ٹیکس وصولی کا بھی ٹیک نظام بنانا ہوگا جو انسانی مداخلت سے مبرا اور محفوظ ہو۔ دوسرا معاملہ بھی ٹیک سسٹمز بنا کر حل ہو سکتا ہے یعنی صنعتوں کو درجن بھر سرکاری اداروں کے نرغے سے آزاد کرانا۔ ہمارے ہاں آج کل نت نئی ٹیک کمپنیاں وجود میں آ رہی ہیں۔
یہ کمپنیاں اس سلسلے میں ایسے ٹیک سسٹم تیار کرکے دے سکتی ہیں جن سے ملک میں صنعتیں درجن بھر سرکاری اداروں کی گلا گھوٹتی گرفت سے بچ سکتی ہیں تو دوسری طرف ایک خودکار ٹیکس وصولی اور تخمینے کا ٹیک نظام بن سکتا ہے۔
ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے ضمن میں ہمارا فوکس برآمدی صنعتوں اور ویلیو ایڈڈ صنعتوں کا ہونا چاہیے۔ شوگر ملیں بہت ہو گئیں اتنی کہ ہمارے کپاس پیدا کرنے والے علاقے کھا گئیں، ساتھ ہی کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے ملک اور قدرتی ماحول سے بڑی زیادتی ہیں۔ تاہم برآمدی اور ویلیو ایڈڈ صنعتوں کے بڑے پیمانے پر قیام کے لیے ملک کو بڑے پیمانے پر لیبر ٹریننگ چاہیے ہوگی جب کہ ملک میں صنعتی ورکرز ایک طرف جدید تربیت سے نابلد ہیں تو دوسری طرف ماڈرن مینجمنٹ سسٹم اور ڈسپلن کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
مہنگی بجلی انڈسٹریلائزیشن کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ ہے اور موجودہ معاشی حالات میں سبسڈی دینا ممکن نہیں البتہ صنعتوں کو خود اپنی بجلی پیدا کرنے کے لیے آسانیاں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ انڈسٹریلائزیشن کے عمل کی کامیابی کا بڑا انحصار صنعتی فضلے کے محفوظ طریقے سے ٹریٹ منٹ اور ری سائکلنگ کے سسٹمز کے قیام کو یقینی بنانے میں مضمر ہوگا ورنہ قدرتی ماحول کی مزید تباہی معاشی ترقی کے ثمرات کو نقصانات میں بدل دے گی۔
پاکستان اور چین کا سی پیک میں زیادہ فوکس مواصلاتی انفرااسٹرکچر قائم کرنے پر رہا ہے جو بہرحال ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے عمل کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہمارا قومی سماجی ماحول بھی ملک میں انڈسٹریلائزیشن کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ 1971 کے بعد کا پاکستان برصغیر کے ان علاقوں پر مشتمل ہے جو سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ترین تھا اور مقامی حکمران طبقہ ہندوستان کے مرکزی حکمران طبقوں کا ایک طفیلی طبقہ تھا چنانچہ آج بھی آپ دیکھیے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ ملک چلانے کے بجائے چھوٹے چھوٹے راجواڑے چلانے والے جینیاتی ذہن کا مالک ہے اور اب اپنے اپنے صوبوں کو اپنے اپنے خودمختار راجواڑے سمجھتا ہے جو اس ملک سے زیادہ مقدس ہیں۔
دوسری طرف ملک خصوصاً پنجاب صوبے کے عوام نے صنعتی ترقی پر سستے سیاسی نعروں اور بھنگڑوں اور بڑھکوں کو ترجیح دی اور ملکی معیشت کو تباہ کروا دیا۔ تاہم اب انڈسٹریلائزیشن ہمارے لیے چوائس نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ ہماری قومی سلامتی ہمارے قومی دفاع پر استوار ہے اور ہمارا قومی دفاع ہماری معاشی مضبوطی پر جس کے لیے انڈسٹریلائزیشن کے عمل کا آغاز لازم و ملزوم ہے۔