امید کی شمع

ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بھی دست بہ دعا ہیں کہ جن سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے دیگر عناصر نے ایک پلیٹ فارم ۔۔۔

ہم تو بیٹھے بٹھائے خود کو بقراط زمانہ سمجھنے لگے ہیں اور اس کی بڑی ٹھوس وجہ ہے یعنی ہم نے ایک کالم میں سقوط ڈھاکا کے حوالے سے لکھا تھا کہ کسی کے وجود کو تسلیم نہ کرنے، اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھنے یا کسی کے جائز حقوق غصب کرنے کی پالیسی کے باعث سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ اور آج بھی ملک میں کچھ سیاسی و لسانی جماعتوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے جو ان عناصر میں احساس محرومی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے جس کا ردعمل منفی طرز فکر یا رویے کو جنم دے سکتا ہے۔ لہٰذا اب ہمیں اپنی یہ پالیسی بدل دینی چاہیے۔ کچھ طبقوں کو مراعات یافتہ قرار دے کر باقی طبقوں کو نظرانداز کر دیا جانا درست نہیں۔ اس کالم کی اشاعت کے صرف دو دن بعد ایم کیو ایم کے قائد نے (بقول ان کے) دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کو خبردار کیا کہ ہمارے ساتھ ترجیحی سلوک بند کیا جائے ، انھوں نے سندھ 1 اور سندھ 2 کا فارمولا بھی پیش کیا۔

اب پھر صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ گزشتہ کالم میں ملک میں دہشت گردی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہم نے طالبان مخالف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے سوال کیا تھا کہ ان کے بڑھتے ہوئے اثرات کو (جو مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں مزید بڑھ جائیں گے) روکنے کے لیے آپ نے کیا لائحہ عمل تیار کیا؟ اسی رات ٹی وی کے دو مختلف چینلز پر ٹاک شوز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ان دونوں شوز میں مسلم لیگ (ن)، پی پی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے نمایندے شامل گفتگو تھے۔ ظاہر ہے کہ اس گفتگو کا موضوع تو ملک کی ابتر صورت حال ہی تھا مگر تمام جماعتوں کے نمایندے اپنے اپنے موقف کو درست اور دوسروں پر تنقید کرنے پر سارا زور صرف کر رہے تھے کسی ایک نکتے پر بھی وہ ہم خیال نظر نہ آئے تو ہمیں اپنے سوال کا جواب مل گیا اور ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ لوگ اپنے اختلافات بھلا کر کبھی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے یہ سب طالبان کے خلاف ہیں مگر بیانات، پریس کانفرنس اور ٹوئٹر کی حد تک خوب گرج برس سکتے ہیں مگر One Point ایجنڈے پر متفق نہیں ہو سکتے اور اس طرح مخالف ہونے کے باوجود (محض اپنے اختلاف کے باعث) بلاواسطہ طالبان کے لیے حالات مزید سازگار بنا کر ان کو فائدہ پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

ایم کیو ایم نے افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے ریلی نکالنے کا اعلان کیا اور یہ ریلی کامیابی سے نکالی بھی گئی۔ اب ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ جس طرح اس ریلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے علاوہ تمام مسالک، مذاہب، مکاتب فکر، علما، اقلیتی رہنماؤں کے علاوہ وہ تمام عناصر جو طالبان کے رویے سے نالاں اور ان کے ذاتی اسلام کے مخالف ہیں سب نے مسلح افواج کو اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے ہر طرح ان کے ملکی تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے ہر اقدام پر ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔


ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بھی دست بہ دعا ہیں کہ جن سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے دیگر عناصر نے ایک پلیٹ فارم پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اسی طرح باقی جماعتیں بھی آگے بڑھیں اور اس ملک گیر اتحاد میں شامل ہوکر وطن عزیز میں امن و امان کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ طویل عرصہ ہو گیا ہے عوام خوف و دہشت کی فضا میں جینے پر مجبور ہیں اب سب چاہتے ہیں کہ ''بس بہت ہو چکا'' اب پاکستان میں دیر پا امن قائم ہونا چاہیے۔ پاکستان سلامت رہے۔ سیاست اور سیاسی اختلاف بھی چلتے رہیں گے ورنہ کچھ بھی (خدانخواستہ) نہیں۔ اختلاف تو جمہوریت کا حسن ہے اور ہم اپنے ملک کو کسی بھی حسن سے محروم کرنے کے خواہاں نہیں۔

البتہ طلعت حسین نے اپنے کالم ''آپ نے فرمایا'' میں جس تضاد کا ذکر کیا ہے پی ٹی آئی کے سربراہ اس کی زندہ مثال ہیں۔ جو بات آج کہیں گے کل نہیں تو پرسوں خود اس کی تردید کردیں گے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا وہ طالبان سے اظہار یکجہتی کے لیے ان کا دفتر پاکستان میں کھلوانے پر مصر تھے۔ مذاکرات مذاکرات کا ورد تو وہ عالم خواب میں بھی کرتے رہتے تھے۔ کسی بھی قومی مسئلے پر گفتگو کریں یا پریس کانفرنس مگر انتخابات میں دھاندلی پر ہی بات کا اختتام ہو گا، الیکشن کمیشن کو بار بار یاد دہانی کرائیں گے کہ ووٹوں کی دوبارہ جانچ کرائی جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن حلقوں سے انھیں کامیابی ہوئی وہاں تو انتخابات بالکل صاف شفاف ہوئے اور جہاں وہ نہ جیت سکے وہاں زبردست دھاندلی ہوئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان کا ذکر یہاں کیوں آیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بات طالبان اور ان کے مخالف عناصر کی ہو رہی تھی اب یہ صاحب طالبان کی حمایت گول مول الفاظ میں کرتے رہتے مگر سٹپٹائے اس وقت جب طالبان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی میں ان کو بھی نامزد کر دیا۔ دوسرے لوگوں نے، حکومتی وزرا نے بھی کہا کہ آپ بالکل نہ گھبرائیں بلکہ اس کار خیر میں بلاخوف حصہ لیں اور آپ جو مذاکرات کرانے کے ہمیشہ سے حامی تھے اب ان کو کامیابی سے ہمکنار کرائیں۔ مگر یہ تیار نہ ہوئے اب جب کہ ایم کیو ایم نے ببانگ دہل طبل جنگ بجا دیا تو تحریک انصاف نے بھی شمالی وزیر ستان میں آپریشن کی حمایت کا فیصلہ کر لیا (اخباری اطلاع) اور یہ بھی کہ آپریشن میں پی ٹی آئی کے کارکنان مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ تو کیا یہ تضاد نہیں ؟ چلیے محض شمالی وزیرستان کی حد تک تو آپریشن کی حمایت پر راضی ہوئے ہو سکتا ہے کہ بعد میں وہ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر سب کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کر لیں۔

راہ میں ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

اگر ایسا ہوا تو یہ بڑا نیک شگون ہو گا کیونکہ سب کے ساتھ مل کر چلنے میں نہ صرف عافیت ہے بلکہ نیک نامی بھی اور کوئی بھی باہوش نیکی کمانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
Load Next Story