سیکھیے ذرا پورٹ ڈاگارڈ سے
پاکستانی سیاست نے اس قدرکروٹیں بدلی ہیں کہ ایک عام سا سیاست کا طالب علم اس کی اونچ نیچ کو سمجھتے ہوئے تھک ہی جائے
پاکستانی سیاست نے اس قدرکروٹیں بدلی ہیں کہ ایک عام سا سیاست کا طالب علم اس کی اونچ نیچ کو سمجھتے ہوئے تھک ہی جائے، یہ ہمارے لیے ایک عجیب سی صورت حال ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے ماشا اللہ سے پچھتر برس ہو رہے ہیں لیکن ہم ان گزرے برسوں میں معاشی مسائل کے علاوہ سیاسی مسائل کا بھی شکار رہے ہیں، آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو ہم اس میں الجھے رہتے ہیں۔
اتفاق سے نظر گزری کہ پل کیوں تعمیر کیے جاتے ہیں؟ صدیوں سے پلوں کی تعمیر کا عمل جاری ہے۔ ناپختہ سے پختہ اور پھر جدید ماڈرن طرز کے پل۔ دراصل انسانوں کی آسانی کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ دریاؤں، پہاڑوں اور وادیوں کو باآسانی عبور کرسکیں ، شہروں اور ملکوں کی ترقی میں سب سے اہم پل ہوتے ہیں جن سے راستے سہل اور مختصر ہو جاتے ہیں، یوں نقل و حمل میں آسانی کے ساتھ کم لاگت آتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس بچت سے قومی خزانے پر اثر پڑتا ہے اور اس طرح ترقی کے سفر کے پل در پل بنتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سب سے پہلے رومن امپائرز نے اپنی حکومتی حدود کو وسعت دینے کے لیے پل بنوائے۔ چودہویں صدی کاوہ پل لکڑی اور پتھر کی مدد سے بنوایا جو آج بھی ساؤتھ فرانس میں موجود ہے۔ پورٹ ڈاگارڈ ایک عظیم تاریخی حیثیت سے آج بھی ہمیں بتاتا ہے کہ حکومتیں اپنے عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے لیے بھی اس طرح کے کام کرتی ہیں جو ان کے لیے مفید ثابت ہوں۔
عظیم رومن امپائرز کی تاریخ سے کون واقف نہیں ہے کہ آج ان کی باقیات بھی بہت شان دار ہیں، کمانیوں کی شکل میں تعمیر کیا گیا یہ پل بنانا یقینا آسان نہ ہوگا۔بارشوں نے چند برسوں پہلے جو طوفان بپا کیا تھا تو نالوں کی صفائی اور چوڑائی کے لیے ادارے جت گئے تھے اور یوں بہت سے ان نالوں کی دریافت بھی ہوئی جو عظیم عمارات کے وجود تلے چھپ گئے تھے بہرحال نالوں کی صفائی کا کام تو چلتا ہی رہتا ہے، حال یہ ہے کہ اسٹاپ پر کھڑے لوگوں کی جانب دیکھیے انتہا سے زیادہ رش، چوڑا مین روڈ اوپر سے گزرتا آہنی پل۔ اس سے ذرا آگے بجلی سے چلتے زینے جو گرین بس کے منصوبے کی ترقی اور سائنس کی عظیم تخلیق پر عش عش کرتے ہوئے ، ذرا غور سے اسی مین روڈ کے کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ نظر پڑتے ہی حیرت اور خوف کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بہت کچھ ہو رہا ہے۔
ایک زیر زمین نالہ جس پر خدا جانے سیمنٹ کے سلیب کس طرح غائب ہوئے تھے اور نیچے پانی بہتا کوڑے کو اپنے ساتھ بہائے جا رہا ہے، یہ کس قدر خطرناک ہے کہ اگر کوئی اپنی گاڑی تیزی سے فٹ پاتھ کے ساتھ پارک کرنا چاہے تو اس کی پارکنگ انڈر واٹر گندے سندے ورلڈ میں ہوگی اور جان کا خطرہ الگ۔ وہ تو دکانداروں کی مہربانی سے اس کے اطراف شاید کچھ رکھ دیتے ہوں کہ نشاندہی ہو جائے۔
براہ کرم ہوشیار رہیے۔ نیچے نالہ آپ کی آمد کا منتظر ہے، لیکن اس وقت اس کے آس پاس کچھ بھی نہ تھا اور حالت بتا رہی تھی کہ نالہ کی رونمائی نئی نہیں ہے۔بات سیاسی اونچ نیچ سے رومن امپائرز اور ان کے پلوں تک جا پہنچی تھی پھر نجانے کیسے کراچی کی ایک عظیم شاہراہ کی کہانی تک چلی گئی۔ کمانی طرز کا بنا ہوا وہ عظیم پل جو رومیوں نے تعمیر کیا تھا، آخر اس میں ایسا کیا تھا کہ جس نے اس وقت اس کمانی کو قائم رکھا یعنی لچک اس قدر تھی کہ دوسری جانب جھک کر بھی قائم رہی۔
اس سلسلے میں ایک اصطلاح سامنے آئی جسے کہتے ہیں ''کی اسٹون'' اگر اس کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ اہم ترین پتھر جو بکھرنے ٹوٹنے سے بچائے۔ اس اہم پتھر کے بغیر اس عظیم ڈاگارڈ کی تعمیر ناممکن تھی۔ یقینا وہ نہایت ماہر انجینئر تھا جس نے چودہویں صدی میں اس نقطے کو پکڑ لیا تھا کہ اگر کمانی در کمانی کی طرز پر پل بنایا جائے گا اور اس کمانی کو مضبوط بنایا جائے گا تو یہ کمانیوں کا سلسلہ اس بڑے عظیم پل کے وزن کو سہار لے گا اور اس تعمیر کا اہم نقطہ وہ کی اسٹون میں ٹھہرا جس نے تمام کمانیوں کو ایک دوسرے سے اتنی مضبوطی سے جوڑا کہ وہ آج بھی قائم ہے۔
آج کی جدید ٹیکنالوجی پر نظر ڈالیے۔ کمانی برج، بیم برج، سسپنشن برج، کیبل اسٹے اور چین نے تو ایسے برج بنا ڈالے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن وہاں کی عوام پلوں پر جا کر پان کی پیکیں نہیں مارتی، سگریٹ، ماچس اور کھانے پینے کی چیزوں کے فالتو کاغذات کے ڈھیر نہیں لگاتی، چرسی، افیمچیوں کو اپنے مشاغل میں مصروف نہیں پاتی، صرف یہی نہیں سرکاری ادارے اپنی جیسی بھی توانائیوں کے ساتھ نالوں کی صفائی کرتے ہیں اور یہاں بڑے بڑے تازہ پھلوں کی کارنرز شاپس اپنے قیمتی فالتو مواد کو ایسے کھلے نالوں میں انڈیلتے چوری چھپے بھی ادھر ادھر نہیں دیکھتے کہ اپنا ملک ہے اپنا کھلا نالہ۔ پانی نہ ہو تو دوسرے کوڑا جات ہی سہی۔ بھئی اپنا ملک تو اپنا ہے۔
جب یہاں نالوں پر مکانوں، دکانوں اور بنگلوں کی تعمیرات ہو سکتی ہیں، آہنی پلوں سے لوہے کی سلاخیں نکالی جا سکتی ہیں یہاں تک کہ روڈ کے کنارے فٹ پاتھ کو اپنی سہولت کے مطابق شکل دی جاسکتی ہے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔
بڑے بڑے نالوں میں ترتیب سے کچے پکے گھر، گزرتے پائپوں کی لائنوں میں مداخلت، گیس کی لائنوں میں چھیڑ چھاڑ، بجلی کے کنڈوں کی بہتات۔ ہم ان تمام باتوں اور اذیتوں کا سہرا کسے پہنائیں؟ دراصل ہم عوام بھی تو کچھ کم نہیں، عظیم روس کے دور میں اگر اس طرح ہوتا تو کیا عظیم پورٹ ڈاگارڈ کھڑا رہ سکتا تھا؟ یہاں تو آہنی پلوں کے بارے میں بھی یہی گمان کیا جاتا ہے کہ دیکھو کب تک چلتے ہیں۔تو پیارے قارئین! ہمیں بھی تو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے کیا ہمارا مذہب ہی تعلیم دیتا ہے، اتنا صاف شفاف اور کھول کھول کر بتا دینے والا مذہب، ہم تو خوش قسمت لوگ ہیں لیکن پھر بھی اپنی قسمتوں کو ڈھونڈتے اور کوستے ہیں۔ رب العزت ہم سب کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)
اتفاق سے نظر گزری کہ پل کیوں تعمیر کیے جاتے ہیں؟ صدیوں سے پلوں کی تعمیر کا عمل جاری ہے۔ ناپختہ سے پختہ اور پھر جدید ماڈرن طرز کے پل۔ دراصل انسانوں کی آسانی کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ دریاؤں، پہاڑوں اور وادیوں کو باآسانی عبور کرسکیں ، شہروں اور ملکوں کی ترقی میں سب سے اہم پل ہوتے ہیں جن سے راستے سہل اور مختصر ہو جاتے ہیں، یوں نقل و حمل میں آسانی کے ساتھ کم لاگت آتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس بچت سے قومی خزانے پر اثر پڑتا ہے اور اس طرح ترقی کے سفر کے پل در پل بنتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سب سے پہلے رومن امپائرز نے اپنی حکومتی حدود کو وسعت دینے کے لیے پل بنوائے۔ چودہویں صدی کاوہ پل لکڑی اور پتھر کی مدد سے بنوایا جو آج بھی ساؤتھ فرانس میں موجود ہے۔ پورٹ ڈاگارڈ ایک عظیم تاریخی حیثیت سے آج بھی ہمیں بتاتا ہے کہ حکومتیں اپنے عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے لیے بھی اس طرح کے کام کرتی ہیں جو ان کے لیے مفید ثابت ہوں۔
عظیم رومن امپائرز کی تاریخ سے کون واقف نہیں ہے کہ آج ان کی باقیات بھی بہت شان دار ہیں، کمانیوں کی شکل میں تعمیر کیا گیا یہ پل بنانا یقینا آسان نہ ہوگا۔بارشوں نے چند برسوں پہلے جو طوفان بپا کیا تھا تو نالوں کی صفائی اور چوڑائی کے لیے ادارے جت گئے تھے اور یوں بہت سے ان نالوں کی دریافت بھی ہوئی جو عظیم عمارات کے وجود تلے چھپ گئے تھے بہرحال نالوں کی صفائی کا کام تو چلتا ہی رہتا ہے، حال یہ ہے کہ اسٹاپ پر کھڑے لوگوں کی جانب دیکھیے انتہا سے زیادہ رش، چوڑا مین روڈ اوپر سے گزرتا آہنی پل۔ اس سے ذرا آگے بجلی سے چلتے زینے جو گرین بس کے منصوبے کی ترقی اور سائنس کی عظیم تخلیق پر عش عش کرتے ہوئے ، ذرا غور سے اسی مین روڈ کے کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ نظر پڑتے ہی حیرت اور خوف کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بہت کچھ ہو رہا ہے۔
ایک زیر زمین نالہ جس پر خدا جانے سیمنٹ کے سلیب کس طرح غائب ہوئے تھے اور نیچے پانی بہتا کوڑے کو اپنے ساتھ بہائے جا رہا ہے، یہ کس قدر خطرناک ہے کہ اگر کوئی اپنی گاڑی تیزی سے فٹ پاتھ کے ساتھ پارک کرنا چاہے تو اس کی پارکنگ انڈر واٹر گندے سندے ورلڈ میں ہوگی اور جان کا خطرہ الگ۔ وہ تو دکانداروں کی مہربانی سے اس کے اطراف شاید کچھ رکھ دیتے ہوں کہ نشاندہی ہو جائے۔
براہ کرم ہوشیار رہیے۔ نیچے نالہ آپ کی آمد کا منتظر ہے، لیکن اس وقت اس کے آس پاس کچھ بھی نہ تھا اور حالت بتا رہی تھی کہ نالہ کی رونمائی نئی نہیں ہے۔بات سیاسی اونچ نیچ سے رومن امپائرز اور ان کے پلوں تک جا پہنچی تھی پھر نجانے کیسے کراچی کی ایک عظیم شاہراہ کی کہانی تک چلی گئی۔ کمانی طرز کا بنا ہوا وہ عظیم پل جو رومیوں نے تعمیر کیا تھا، آخر اس میں ایسا کیا تھا کہ جس نے اس وقت اس کمانی کو قائم رکھا یعنی لچک اس قدر تھی کہ دوسری جانب جھک کر بھی قائم رہی۔
اس سلسلے میں ایک اصطلاح سامنے آئی جسے کہتے ہیں ''کی اسٹون'' اگر اس کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ اہم ترین پتھر جو بکھرنے ٹوٹنے سے بچائے۔ اس اہم پتھر کے بغیر اس عظیم ڈاگارڈ کی تعمیر ناممکن تھی۔ یقینا وہ نہایت ماہر انجینئر تھا جس نے چودہویں صدی میں اس نقطے کو پکڑ لیا تھا کہ اگر کمانی در کمانی کی طرز پر پل بنایا جائے گا اور اس کمانی کو مضبوط بنایا جائے گا تو یہ کمانیوں کا سلسلہ اس بڑے عظیم پل کے وزن کو سہار لے گا اور اس تعمیر کا اہم نقطہ وہ کی اسٹون میں ٹھہرا جس نے تمام کمانیوں کو ایک دوسرے سے اتنی مضبوطی سے جوڑا کہ وہ آج بھی قائم ہے۔
آج کی جدید ٹیکنالوجی پر نظر ڈالیے۔ کمانی برج، بیم برج، سسپنشن برج، کیبل اسٹے اور چین نے تو ایسے برج بنا ڈالے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن وہاں کی عوام پلوں پر جا کر پان کی پیکیں نہیں مارتی، سگریٹ، ماچس اور کھانے پینے کی چیزوں کے فالتو کاغذات کے ڈھیر نہیں لگاتی، چرسی، افیمچیوں کو اپنے مشاغل میں مصروف نہیں پاتی، صرف یہی نہیں سرکاری ادارے اپنی جیسی بھی توانائیوں کے ساتھ نالوں کی صفائی کرتے ہیں اور یہاں بڑے بڑے تازہ پھلوں کی کارنرز شاپس اپنے قیمتی فالتو مواد کو ایسے کھلے نالوں میں انڈیلتے چوری چھپے بھی ادھر ادھر نہیں دیکھتے کہ اپنا ملک ہے اپنا کھلا نالہ۔ پانی نہ ہو تو دوسرے کوڑا جات ہی سہی۔ بھئی اپنا ملک تو اپنا ہے۔
جب یہاں نالوں پر مکانوں، دکانوں اور بنگلوں کی تعمیرات ہو سکتی ہیں، آہنی پلوں سے لوہے کی سلاخیں نکالی جا سکتی ہیں یہاں تک کہ روڈ کے کنارے فٹ پاتھ کو اپنی سہولت کے مطابق شکل دی جاسکتی ہے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔
بڑے بڑے نالوں میں ترتیب سے کچے پکے گھر، گزرتے پائپوں کی لائنوں میں مداخلت، گیس کی لائنوں میں چھیڑ چھاڑ، بجلی کے کنڈوں کی بہتات۔ ہم ان تمام باتوں اور اذیتوں کا سہرا کسے پہنائیں؟ دراصل ہم عوام بھی تو کچھ کم نہیں، عظیم روس کے دور میں اگر اس طرح ہوتا تو کیا عظیم پورٹ ڈاگارڈ کھڑا رہ سکتا تھا؟ یہاں تو آہنی پلوں کے بارے میں بھی یہی گمان کیا جاتا ہے کہ دیکھو کب تک چلتے ہیں۔تو پیارے قارئین! ہمیں بھی تو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے کیا ہمارا مذہب ہی تعلیم دیتا ہے، اتنا صاف شفاف اور کھول کھول کر بتا دینے والا مذہب، ہم تو خوش قسمت لوگ ہیں لیکن پھر بھی اپنی قسمتوں کو ڈھونڈتے اور کوستے ہیں۔ رب العزت ہم سب کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)