جنید جمشید پاپ سنگر سے روحانیت کے سفر تک
کہتے ہیں اپنے آپ کو بدلنے کے لیے پہلے دل کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے
کہتے ہیں اپنے آپ کو بدلنے کے لیے پہلے دل کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ دماغ تو شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے اور دل خدا کا گھر ہوتا ہے جس کا دل بدل جاتا ہے اس کی پھر دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ جب بھی رمضان کا مہینہ آتا ہے جنید جمشید کی نعتیں جب ٹیلی وژن پر آتی ہیں تو دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں اور اسے سن کر دل پر ایک روحانی کیفیت سی طاری ہو جاتی ہے۔
میں جب لاہور نہیں گیا تھا تو کراچی ٹیلی وژن کے پروگراموں میں جنید جمشید کو ریکارڈنگ کرتے ہوئے دیکھتا تھا ، اس کے فنکشنوں میں اس کی سپر اسٹار جیسی پرفارمنس بھی دیکھتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جنید جمشید ایک پاپولر سنگر تھا۔
اس کا اپنا ایک میوزک گروپ تھا جس کا نام وائٹل سائن کے نام سے مشہور تھا۔ اس گروپ کی شہرت نہ صرف پاکستان میں تھی بلکہ بیرونی ممالک میں بھی وائٹل سائن گروپ بڑا مشہور تھا۔ جنید جمشید نے یورپ، امریکا، کینیڈا ہر بڑے ملک میں میوزک کنسرٹ میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں اس کے روحانی پہلو کے سفر کی طرف آؤں۔ میں اس کی شہرت کے ان دنوں کا ان گیتوں کا بھی تذکرہ کروں گا جن گیتوں سے جنید جمشید کا ایک الگ ہی والہانہ انداز ہوتا تھا۔ میری جنید جمشید سے کئی بھرپور ملاقاتیں کراچی ٹیلی وژن اسٹیشن پر ہوئی تھیں۔
اس کی شخصیت میں بھی ایک دلکشی تھی اس کی گائیکی میں بھی خوبصورتی تھی سروں کا ایک رچاؤ تھا اور یہ وہ دور تھا جب اس کے شب و روز موسیقی اور صرف موسیقی کی دنیا سے وابستہ تھے۔
میرا کراچی ٹیلی وژن پر بحیثیت شاعر بھی جانا ہوتا رہتا تھا جب کہ اس وقت کراچی ٹیلی وژن کے کئی پروڈیوسر میرے اسلامیہ کالج کے زمانے کے ساتھی تھے جن میں ایم ظہیر خان، آفتاب عظیم، اناؤنسر غزالہ یاسمین، شاعر پروڈیوسر اقبال حیدر، ان کے علاوہ پروڈیوسر اسلامی پروگرام اے سلام اور اداکار و پروڈیوسر قاسم جلالی سے میری بڑی بے تکلفی تھی۔ اسی دور میں جنید جمشید کا ایک ٹیلی وژن کے لیے ریکارڈ کیا گیا گیت جس کی موسیقی اس وقت کے سینئر پروڈیوسر شعیب منصور نے مرتب کی تھی۔ شعیب منصور سے بھی ہماری اچھی واقفیت تھی وہ ایک اچھے رائٹر اور شاعر بھی ہیں۔ ان کے بعض اشعار تو ان کے دوستوں میں بھی بڑے مقبول ہیں۔ پھر ان کی پروڈکشن میں تیار کیا گیا قومی گیت جس کے بول تھے:
دل دل پاکستان، جان جان پاکستان
جب جنید جمشید کی آواز میں ٹیلی کاسٹ ہوا تو اس نے شہرت کا وہ مقام حاصل کرلیا کہ وہ گیت عوام الناس میں قومی گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا اور یہ قومی گیت بن کر اسکولوں میں گایا جانے لگا تھا اور بچوں بچوں کی زبان پر بس اسی گیت کے چرچے ہوتے تھے۔ اس قومی گیت سے پہلے جنید جمشید کے گائے ہوئے دیگر گیتوں کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی ان میں بعض گیتوں کے بول مندرجہ ذیل ہیں۔
٭تم دور تھے تم مل گئے
٭تنہا تھا میں تنہا ہی رہا
٭مہندی کی رات آئی مہندی کی رات
اور بھی بہت سے گیتوں کے علاوہ جس گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی وہ گیت توایسا تھا کہ جنید جمشید جب گٹار ہاتھ میں لہراتا ہوا اسٹیج پر آتا تھا اور اس گیت کی دھن بجتی تھی تو دھن کا آغاز ہوتے ہی سیکڑوں سامعین کے دلوں میں ایک ہلچل سی پیدا ہو جاتی تھی اور سیٹیوں کے ساتھ تالیاں فضاؤں میں گونجنے لگتی تھیں یہ گیت اس کا ہاٹ کیک گیت ہوتا تھا جس کے بول تھے:
گورے رنگ کا زمانہ
کبھی ہو گا نہ پرانا
جب تک جنید جمشید یہ گیت گاتا رہتا تھا تالیوں کا شور بتدریج بڑھتا چلا جاتا تھا پھر اچانک وقت بدلا، زمانہ بدلا اور جنید جمشید کا دل بدل گیا۔ اور وہی جنید جمشید سپراسٹار، پاپ گلوکار سر پر سفید ٹوپی لگائے چہرے پر نورانی داڑھی کے ساتھ منظر عام پر آتا ہے۔ لوگ اس کو دیکھ کر چونک جاتے ہیں حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں اور اب اس کے ہونٹوں پر یہ نعت ہوتی ہے:
مزہ آجائے مولا دل بدل دے
گناہ گاری میں کب تک عمر کاٹوں
بدل دے میرا رستہ بدل دے
کروں قربان اپنی ساری خوشیاں
تو اپنا غم عطا کر دل بدل دے
میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جنید جمشید کی دنیا ہی بدلتی چلی گئی اس کی زندگی میں روحانیت کا سفر تیزی سے آگے بڑھنے لگا تھا۔ انھی دنوں اس کی ملاقات مشہور عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب سے ہوئی اور پھر طارق جمیل کی رفاقت میں جنید جمشید روحانیت کی طرف آتا چلا گیا۔
مولانا طارق جمیل دین کی باتوں کو اتنے آسان اور پیارے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ فلم کی دنیا، اسٹیج کی دنیا اور کھیل کی دنیا کے بیشتر شہرت یافتہ افراد مولانا طارق جمیل سے ملاقات کے بعد اپنے آپ کو بدلے ہوئے راستے کا مسافر بنا لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں یہ دنیا اللہ کی بنائی ہوئی ہے اسی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو بھی نہ چھوڑو مگر دین کے راستے کی روشنی سے اپنی دنیاوی منزلوں کو روشن کرتے رہو اور پھر جنید جمشید نے بھی ایسا ہی کیا جنید ایک شاعر بھی ہے، خوبصورت آواز کا مالک بھی ہے وہ زیادہ تر نعتیں اپنی ہی لکھی ہوئی پڑھتا ہے اور گاتا بھی ہے اس نے اپنی شخصیت کو روحانیت کے پیکر میں ڈھال لیا ہے۔ اس نے اپنے بزنس کا آغاز بھی کیا۔
وہ ایک اچھا ڈیزائنر بھی تھا۔ اس کو دوست احباب (جے جے)کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ جنید جمشید نے (جے ڈاٹ) کے نام سے ایک بوتیک قائم کیا۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی اسی نام سے بوتیک کھولے گئے بزنس بڑھتا رہا ترقی کرتا رہا۔
اس نے وہ بزنس اپنے گھر کے افراد کے سپرد کردیا اور خود تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگیا اور تن دھن کے ساتھ شب و روز دینی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا وہ پاکستان کے تمام بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں تبلیغ کی غرض سے جانے لگا۔ اب لوگوں کو دین کی طرف لانے کا اس کا مشن بن گیا یہ اب ایک سنگر سے ایک مشنری ہو گیا تھا۔ عمرہ اور حج کی غرض سے مکہ اور مدینہ کا سفر اس کی زندگی کا سفر بن گیا تھا۔ اکثر اس کے ہونٹوں پر ایک یہ نعت بھی ہوتی تھی:
میں تو امتی ہوں اے شاہ امم
کر دیجیے آقا کرم مجھ پہ نذرِ کرم
اب اس کی سانسوں میں ہر دم رب کریم کی حمد اور رسول کریمؐ کی نعتوں کی خوشبو بسی رہتی تھی وہ اپنے اشعار میں کہتا تھا:
الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
اللہ نے اب اس کو دین کے کام کے لیے چن لیا تھا پھر ایک دن پتا چلا کہ وہ تبلیغی کام کے سلسلے میں چترال گیا ہوا تھا وہ وہاں چند دن رہ کر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ بذریعہ جہاز واپس آ رہا تھا کہ راستے میں موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز کو بڑا حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں جہاز کے مسافر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے اور جنید جمشید اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا گیا تھا۔ اس کو اس حادثے کی وجہ سے شہادت کا مرتبہ مل گیا تھا اس نے بندگی کا اپنا حق ادا کردیا تھا۔ اللہ جنید جمشید کی مغفرت فرمائے اس کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اس کے درجات بلند کرے۔(آمین۔)
میں جب لاہور نہیں گیا تھا تو کراچی ٹیلی وژن کے پروگراموں میں جنید جمشید کو ریکارڈنگ کرتے ہوئے دیکھتا تھا ، اس کے فنکشنوں میں اس کی سپر اسٹار جیسی پرفارمنس بھی دیکھتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جنید جمشید ایک پاپولر سنگر تھا۔
اس کا اپنا ایک میوزک گروپ تھا جس کا نام وائٹل سائن کے نام سے مشہور تھا۔ اس گروپ کی شہرت نہ صرف پاکستان میں تھی بلکہ بیرونی ممالک میں بھی وائٹل سائن گروپ بڑا مشہور تھا۔ جنید جمشید نے یورپ، امریکا، کینیڈا ہر بڑے ملک میں میوزک کنسرٹ میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں اس کے روحانی پہلو کے سفر کی طرف آؤں۔ میں اس کی شہرت کے ان دنوں کا ان گیتوں کا بھی تذکرہ کروں گا جن گیتوں سے جنید جمشید کا ایک الگ ہی والہانہ انداز ہوتا تھا۔ میری جنید جمشید سے کئی بھرپور ملاقاتیں کراچی ٹیلی وژن اسٹیشن پر ہوئی تھیں۔
اس کی شخصیت میں بھی ایک دلکشی تھی اس کی گائیکی میں بھی خوبصورتی تھی سروں کا ایک رچاؤ تھا اور یہ وہ دور تھا جب اس کے شب و روز موسیقی اور صرف موسیقی کی دنیا سے وابستہ تھے۔
میرا کراچی ٹیلی وژن پر بحیثیت شاعر بھی جانا ہوتا رہتا تھا جب کہ اس وقت کراچی ٹیلی وژن کے کئی پروڈیوسر میرے اسلامیہ کالج کے زمانے کے ساتھی تھے جن میں ایم ظہیر خان، آفتاب عظیم، اناؤنسر غزالہ یاسمین، شاعر پروڈیوسر اقبال حیدر، ان کے علاوہ پروڈیوسر اسلامی پروگرام اے سلام اور اداکار و پروڈیوسر قاسم جلالی سے میری بڑی بے تکلفی تھی۔ اسی دور میں جنید جمشید کا ایک ٹیلی وژن کے لیے ریکارڈ کیا گیا گیت جس کی موسیقی اس وقت کے سینئر پروڈیوسر شعیب منصور نے مرتب کی تھی۔ شعیب منصور سے بھی ہماری اچھی واقفیت تھی وہ ایک اچھے رائٹر اور شاعر بھی ہیں۔ ان کے بعض اشعار تو ان کے دوستوں میں بھی بڑے مقبول ہیں۔ پھر ان کی پروڈکشن میں تیار کیا گیا قومی گیت جس کے بول تھے:
دل دل پاکستان، جان جان پاکستان
جب جنید جمشید کی آواز میں ٹیلی کاسٹ ہوا تو اس نے شہرت کا وہ مقام حاصل کرلیا کہ وہ گیت عوام الناس میں قومی گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا اور یہ قومی گیت بن کر اسکولوں میں گایا جانے لگا تھا اور بچوں بچوں کی زبان پر بس اسی گیت کے چرچے ہوتے تھے۔ اس قومی گیت سے پہلے جنید جمشید کے گائے ہوئے دیگر گیتوں کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی ان میں بعض گیتوں کے بول مندرجہ ذیل ہیں۔
٭تم دور تھے تم مل گئے
٭تنہا تھا میں تنہا ہی رہا
٭مہندی کی رات آئی مہندی کی رات
اور بھی بہت سے گیتوں کے علاوہ جس گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی وہ گیت توایسا تھا کہ جنید جمشید جب گٹار ہاتھ میں لہراتا ہوا اسٹیج پر آتا تھا اور اس گیت کی دھن بجتی تھی تو دھن کا آغاز ہوتے ہی سیکڑوں سامعین کے دلوں میں ایک ہلچل سی پیدا ہو جاتی تھی اور سیٹیوں کے ساتھ تالیاں فضاؤں میں گونجنے لگتی تھیں یہ گیت اس کا ہاٹ کیک گیت ہوتا تھا جس کے بول تھے:
گورے رنگ کا زمانہ
کبھی ہو گا نہ پرانا
جب تک جنید جمشید یہ گیت گاتا رہتا تھا تالیوں کا شور بتدریج بڑھتا چلا جاتا تھا پھر اچانک وقت بدلا، زمانہ بدلا اور جنید جمشید کا دل بدل گیا۔ اور وہی جنید جمشید سپراسٹار، پاپ گلوکار سر پر سفید ٹوپی لگائے چہرے پر نورانی داڑھی کے ساتھ منظر عام پر آتا ہے۔ لوگ اس کو دیکھ کر چونک جاتے ہیں حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں اور اب اس کے ہونٹوں پر یہ نعت ہوتی ہے:
مزہ آجائے مولا دل بدل دے
گناہ گاری میں کب تک عمر کاٹوں
بدل دے میرا رستہ بدل دے
کروں قربان اپنی ساری خوشیاں
تو اپنا غم عطا کر دل بدل دے
میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جنید جمشید کی دنیا ہی بدلتی چلی گئی اس کی زندگی میں روحانیت کا سفر تیزی سے آگے بڑھنے لگا تھا۔ انھی دنوں اس کی ملاقات مشہور عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب سے ہوئی اور پھر طارق جمیل کی رفاقت میں جنید جمشید روحانیت کی طرف آتا چلا گیا۔
مولانا طارق جمیل دین کی باتوں کو اتنے آسان اور پیارے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ فلم کی دنیا، اسٹیج کی دنیا اور کھیل کی دنیا کے بیشتر شہرت یافتہ افراد مولانا طارق جمیل سے ملاقات کے بعد اپنے آپ کو بدلے ہوئے راستے کا مسافر بنا لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں یہ دنیا اللہ کی بنائی ہوئی ہے اسی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو بھی نہ چھوڑو مگر دین کے راستے کی روشنی سے اپنی دنیاوی منزلوں کو روشن کرتے رہو اور پھر جنید جمشید نے بھی ایسا ہی کیا جنید ایک شاعر بھی ہے، خوبصورت آواز کا مالک بھی ہے وہ زیادہ تر نعتیں اپنی ہی لکھی ہوئی پڑھتا ہے اور گاتا بھی ہے اس نے اپنی شخصیت کو روحانیت کے پیکر میں ڈھال لیا ہے۔ اس نے اپنے بزنس کا آغاز بھی کیا۔
وہ ایک اچھا ڈیزائنر بھی تھا۔ اس کو دوست احباب (جے جے)کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ جنید جمشید نے (جے ڈاٹ) کے نام سے ایک بوتیک قائم کیا۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی اسی نام سے بوتیک کھولے گئے بزنس بڑھتا رہا ترقی کرتا رہا۔
اس نے وہ بزنس اپنے گھر کے افراد کے سپرد کردیا اور خود تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگیا اور تن دھن کے ساتھ شب و روز دینی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا وہ پاکستان کے تمام بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں تبلیغ کی غرض سے جانے لگا۔ اب لوگوں کو دین کی طرف لانے کا اس کا مشن بن گیا یہ اب ایک سنگر سے ایک مشنری ہو گیا تھا۔ عمرہ اور حج کی غرض سے مکہ اور مدینہ کا سفر اس کی زندگی کا سفر بن گیا تھا۔ اکثر اس کے ہونٹوں پر ایک یہ نعت بھی ہوتی تھی:
میں تو امتی ہوں اے شاہ امم
کر دیجیے آقا کرم مجھ پہ نذرِ کرم
اب اس کی سانسوں میں ہر دم رب کریم کی حمد اور رسول کریمؐ کی نعتوں کی خوشبو بسی رہتی تھی وہ اپنے اشعار میں کہتا تھا:
الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
اللہ نے اب اس کو دین کے کام کے لیے چن لیا تھا پھر ایک دن پتا چلا کہ وہ تبلیغی کام کے سلسلے میں چترال گیا ہوا تھا وہ وہاں چند دن رہ کر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ بذریعہ جہاز واپس آ رہا تھا کہ راستے میں موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز کو بڑا حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں جہاز کے مسافر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے اور جنید جمشید اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا گیا تھا۔ اس کو اس حادثے کی وجہ سے شہادت کا مرتبہ مل گیا تھا اس نے بندگی کا اپنا حق ادا کردیا تھا۔ اللہ جنید جمشید کی مغفرت فرمائے اس کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اس کے درجات بلند کرے۔(آمین۔)