مرغوں کی لڑائی ایک وحشی کھیل
مرغا میدان سے بھاگ جائے یا پھر اپنے آپ کو لڑائی میں لڑنے والے مرغے کے پروں میں چھپانا شروع کرے تو اسے ہار مانا جاتا ہے
میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ کچھ لوگ بڑے خوب صورت مرغے بغل میں لے کر گھومتے رہتے ہیں، جس میں بڑے بڑے لوگ بھی شامل ہیں۔ جو انھیں پجیرو میں لے کر بھی ساتھ گھومتے رہتے ہیں اور بڑی شان سے کہتے ہیں کہ ان کا یہ مرغا دس مقابلے جیت چکا ہے۔ بچپن میں تو اکثر مرغوں کی لڑائی گاؤں میں دیکھتا رہا ہوں مگر اس میں کوئی خاص دل چسپی اس لیے بھی نہیں تھی کہ اس کے بارے میں معلومات نہیں تھی کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ شعور اور معلومات میں اضافہ ہوا تو میں نے اس لڑائی کے بارے میں کچھ لکھنا چاہا۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کھیل کے شوقین کراچی میں بھی موجود ہیں۔ میں نے ایک دوست سے رابطہ کیا جو سچل گوٹھ میں رہتا تھا۔ وہاں پر ایک شخص تھا جس کے ساتھ اکثر ایک مرغا ہوتا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میں مرغوں کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کے لیے مجھے کچھ معلومات چاہئیں جو میں خود حاصل کرنے کے لیے جہاں مرغے لڑتے ہیں وہیں چلوں گا ۔
میں طے شدہ وقت پر پہنچا تو وہ مجھے اپنے ساتھ کار میں بٹھا کر چمڑا چورنگی، کورنگی لے گئے جہاں سے اندر کی طرف گئے تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک میلہ سا لگا ہوا ہے۔اب میں نے چاروں طرف نظر گھمائی اور گھومنا شروع کیا اور دیکھا تو ایک طرف ڈھول والا اپنے گلے میں ڈھول ڈال کر گھوم رہا تھا جس نے بتایا کہ اس کا کام ہے کہ وہ جیتنے والے مرغے کے لیے ڈھول بجاتا ہے جس پر اسے انعام ملتا ہے۔ دوسری طرف برگر والا، چنے والا، بریانی والا، چائے والا، پان بیڑی اور سگریٹ والے نظر آئے جہاں پر لوگ چیزیں کھا رہے تھے۔ شامیانوں کے اندر مرغے لڑانے والوں کے ساتھ ان کے حامیوں کا مجمع تھا۔ ایک جگہ یہ بھی نظر آیا کہ مرغوں کے SPURS کے اوپر نقلی SPURS بناکر ڈالے جا رہے تھے جو زیادہ نوکیلے اور تیز تھے۔ جس سے لڑائی کے دوران مرغے ایک دوسرے کو زیادہ زخمی بنا دیتے ہیں یا پھر اگر وہ کیل نما گردن کے آر پار ہو جائے تو اس سے خون فوارے کی طرح نکلنا شروع ہوتا ہے جس سے مرغا مر جاتا ہے۔
دوسری جانب ایک شامیانے میں ایک سے تین رجسٹر رکھے ہوئے تھے جس پر مرغے لڑانے والوں کے نام درج کیے جا رہے تھے اور جوئے کی رقم جمع کروانے کے بعد اسے ایک پرچی دی جا رہی تھی جس پر رقم اور نمبر لکھے ہوئے تھے کہ کس وقت اس کی باری شروع ہو گی۔ ابھی میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک بڑی خوبصورت پجیرو رکی جس سے ایک بڑے آدمی کے بیٹے نے اترتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کھیل کی شروعات کی جائے۔ دوسری گاڑی سے اس کے کارندوں کے ہاتھ میں دو مرغے تھے جس پر وہ پیار سے ہاتھ پھیر رہے تھے۔ اب خالی جگہ پر ایک سرکل کی شکل میں Arena بنایا گیا۔ جس کے تینوں اطراف تماشائی بیٹھ گئے اور ایک طرف وہ بڑا آدمی اور اس کے مہمان دوست بیٹھے۔ مرغوں کی لڑائی کے لیے ایک ریفری بھی میدان میں آ گیا جس نے نام پکارے کہ وہ اپنے مرغے لڑائی کے لیے میدان میں آئیں۔ اب دو بندوں نے اپنے اپنے مرغوں کو ہاتھوں سے ہلاتے ہوئے میدان میں چھوڑا۔
اب لڑائی شروع ہو گئی اور مرغے جو کافی صحت مند تھے ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے۔ جب وہ کچھ تھک گئے تو ان کے مالکوں نے اپنے منہ میں رکھے ہوئے پانی کو مرغوں کے منہ پر مارنا شروع کیا۔ پھر دوبارہ میدان میں چھوڑا گیا۔ اب اگر ایک مرغا میدان سے بھاگ جائے یا پھر اپنے آپ کو لڑائی میں لڑنے والے مرغے کے پروں میں چھپانا شروع کرے تو اسے ہار مانا جاتا ہے۔ مگر کئی لڑائیوں میں دونوں طرف سے لڑائی اتنی شدید تھی کہ مرغے لڑتے لڑتے جان کھو بیٹھے کیوں کہ ان کے جسم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ نڈھال ہو کر گر جاتے تھے۔ وہاں پر بیٹھے ہوئے تماشائی بھی مرغوں پر رقم لگا رہے تھے۔
مجھے ایک چیز کا بڑا افسوس ہو رہا تھا کہ مرغوں کو لڑا کر لوگوں کے چہروں پر ایک خوشی نمودار ہو رہی تھی۔ اس میں ہارنے والے مرغے کے مالک کی حالت بری تھی کیوں کہ اب نہ صرف اس نے پیسے ہارے ہیں بلکہ اس کا مرغا بھی زخمی ہو گیا ہے جس کا اسے پیسوں سے زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ اب لڑائی چل رہی تھی کہ میدان میں ایک ہلچل سی مچ گئی کہ فلاں ایم این اے یا ایم پی اے اندرون سندھ سے مرغوں کی لڑائی دیکھنے آئے ہیں۔ جس کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ اس بڑے آدمی کے برابر میں کرسی ڈال کر دی جاتی ہے۔ لڑائی کے دوران جوئے میں ڈالی ہوئی رقم والے مرغوں کے رنگوں سے پکار کر اسے داد دینے لگے۔
مرغوں کی لڑائی زیادہ تر سردیوں کے موسم میں ہوتی ہے اور یہ کھیل نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کھیلا جاتا ہے۔ سندھ میں بھی یہ کھیل صدیوں سے چل رہا ہے جس کو زیادہ تر گاؤں میں زندہ رکھا گیا ہے۔ اس کھیل کا انعقاد میلوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ راجہ داہر کے زمانے میں بھی اس کھیل کو بڑا فروغ حاصل تھا۔ جس کے لیے خاص طور پر غلاموں کو مرغے پالنے کا کام دیا جاتا تھا۔ اس کھیل سے کئی امیر لوگ قلاش اور غریب لوگ امیر ہو گئے ہیں۔ کئی شوقین لوگوں نے اپنی جائیداد، زمین اور پیسے کھو دیے ہیں۔ اس کی وجہ سے اس کھیل پر بھی حکومت نے پابندی لگا دی ہے مگر جیسا کہ اس کھیل میں با اثر افراد شامل ہیں اور پھر پولیس اپنا حصہ لیتی ہے اس لیے یہ بند نہیں ہو سکا ہے۔ کئی علاقوں میں تو اس کے لیے کارڈ کے ذریعے دعوت نامہ بھیجتے ہیں۔
خفتی جو ہوتے ہیں وہ اپنے مرغوں کے نام خونخوار جانوروں اور ہتھیاروں کی طرح رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی مرغوں کے نام کلاشنکوف، بلیڈ، وولف اور کوبرا وغیرہ تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ ان ناموں سے ان کی وحشت ظاہر ہو گی اور وہ زیادہ خونخوار بن کر لڑائی لڑیں گے اور سامنے والے مرغے کو چیر پھاڑ کر فتح کا جھنڈا گاڑیں گے۔ اب یہاں پر ایک چیز جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی غریب کے مرغے نے بڑے آدمی کے مرغے کو ہرا دیا تو وہ بڑا آدمی اس مرغے کو خریدنے کے لیے رقم آفر کرتا ہے اور اگر وہ مرغا اسے نہ دیا جائے تو وہ اس مرغے کو مروا دیتے ہیں یا چرا کر اور کہیں بیچ دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ دبئی، سعودی عرب اور قطر میں بھی اس کھیل کا انعقاد چھپ کر ہوتا ہے اور وہاں کے خفتی لوگ پاکستان سے بھاری رقم میں لڑاکا مرغے خریدتے ہیں۔
مرغے کے خفتی لوگ اپنے مرغوں کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں اور ان کی پرورش میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے ہیں۔ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، ان کو بادام، پستہ، دودھ، انڈے، گھی، باجرہ اور گوشت کھلاتے ہیں اور اپنے بچے بھلے بھوکے بیٹھے ہوں اگر ان کا مرغا ہار جائے تو انھیں اتنا افسوس ہوتا ہے جیسے ان کے ہاں کوئی وفات ہو گئی ہو۔ مرغوں کو وہ مرغیوں کے قریب نہیں جانے دیتے ہیں مگر جب وہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں تو پھر ان کی Mating بڑی اچھی نسل والی مرغی سے کرواتے ہیں اور وہاں سے جو انڈے نکلتے ہیں اور پھر چکن کی پرورش ایک ماں کی طرح کرتے ہیں اور انھیں چیل جیسے Predators سے بھی بچا کر رکھتے ہیں۔ بلی کو بھی قریب نہیں آنے دیتے۔ اس کے علاوہ مسلسل انھیں جانور اور پرندوں کے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے رہتے ہیں۔ انھیں Neurobon کا انجیکشن لگواتے ہیں تا کہ ان میں بچپن ہی سے طاقت آ جائے۔ چوری کے خوف سے ان کی حفاظت کی جگہ کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ جب یہ بچے ڈیڑھ سال کے ہوتے ہیں تو ان کے لیے نقلی مقابلے کروائے جاتے ہیں تا کہ ان کا Stamina بڑھے۔ اس کے علاوہ انھیں بھگانے کی تربیت دی جاتی ہے جس سے بھی ان میں مزید Stamina اور طاقت بڑھتی ہے۔ مگر وہ مرغے کا وزن سے تین کلو سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتے۔ اب یہ لمحہ خفتیوں کے لیے بڑا اہم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرغے کو ذبح کریں اور سارے دوستوں کو بلا کر دعوت کریں کیوں کہ وہ اپنے مرغوں کو اولاد سمجھتے ہیں مگر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ایک رواج ہے جسے کرنا پڑتا ہے۔ کئی خفتیوں نے یہ کہا کہ وہ اس روایت کو توڑ دیتے ہیں اور اپنے مرغے کو دفن کرتے ہیں اور اس کے افسوس میں کئی دن تک بھوکے رہتے ہیں اور کھانا نہیں کھاتے اور انھیں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
میں حکومت سے اس پلیٹ فارم سے گزارش کرتا ہوں کہ اس طرح کے کھیلوں پر سخت نظر رکھیں اور اسے روکنے کے لیے قانون کو حرکت میں لائیں کیوں کہ اس طرح سے لوگوں میں وحشت والی نیچر بڑھتی ہے اور یہ جوا بھی ہے جسے بند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ کئی گھر اس سے اجڑ چکے ہیں اور معاشرے پر بھی اس کا غلط اثر پڑتا ہے۔