منفی رویوں کا آسیب
جب لوگ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے، رویوں کی آلودگی بڑھ جاتی ہے
اکثر سندھ میں واقع مختلف مزاروں پر جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ جہاں اکثر ایسے افراد دیکھے ہیں جنھیں جن کا سایہ بتایا جاتا ہے۔ جن میں متاثرین کی زیادہ تر تعداد عورتوں اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سجاول شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ایک مزار اس حوالے سے مشہور ہے۔ وہاں جا کے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ لوگ کس حد تک توہم پرستی میں مبتلا ہیں۔ بہت سے لوگ زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ جن کی آنکھیں وحشت زدہ اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف معمر افراد بیٹھے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنی اولاد اور رشتے دار یہاں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اور دوبارہ پلٹ کر نہیں پوچھتے۔ ایک عجیب سا سماں تھا۔ دکھ کی منفرد کہانیاں تھیں۔ ایک لڑکی مزار کا طواف کر رہی تھی۔ وہ اتنی تیزی سے دوڑ رہی تھی کہ لگتا تھا کہ گرنے والی ہو۔ اس کی آنکھیں سرخ اور چہرے پر وحشت بکھری ہوئی تھی۔ اس کے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے ایک ان کہی کہانی اس کے خاموش احساس میں مچلتی تھی۔
یہ حالات کا جن لگتا ہے ان لوگوں کو مار ڈالے گا۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ جن کا لفظ دکھ کا استعارہ ہو جیسے:
ایک تمثیل ہو ہجر کی
ناپسندیدہ روایتوں کی زنجیر سی ہو
ریزہ ریزہ خوابوں کی تفسیر سی ہو
جب لوگ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے۔ رویوں کی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ رشتے سکھ کے بجائے عذاب دینے لگتے ہیں، تو ان کہے دکھ جن کا روپ دھار لیتے ہیں۔ سکھی گھروں میں کہیں جن کا سایہ نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ جن اکثر روایتوں کے پہروں میں تو کبھی حویلی کے رازوں میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ یہ جن منفی سوچوں، نفرتوں، رکاوٹوں و پابندیوں کی پیداوار ہیں۔ جو جہالت کے سائے میں پھلتے اور پھولتے ہیں۔ کہیں یہ پناہ بن جاتے ہیں سماج سے چھپنے کی۔۔۔۔یہ لڑکیاں جب مردانہ آواز میں بولتی ہیں تو انھیں ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ انھیں عورت کے نام سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہ لفظ ان کے جسموں کو زخموں سے بھر دیتا ہے۔ آنکھوں میں خوف کے مہیب سائے منڈلاتے ہیں۔ کوئی جرم نہ کرتے ہوئے بھی خود سے نظریں چرانے پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ پھر جب مرد کی آواز میں بولنے لگتی ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
انھیں توجہ ملنے لگتی ہے۔ گھر والے ان کا خیال رکھنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان سے لاشعور کرواتا ہے۔ بیماری کے شروعاتی مرحلے میں جب انھیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان پر جنات کا سایہ ہے، تو ان کا ذہن وہ اثر قبول کر لیتا ہے۔ ان کے اپنے مشاہدے قبول کرلیتا ہے۔ ان کے اپنے مشاہدے بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن پر جنات کا سایہ بتایا جاتا ہے۔ ان کا رویہ اور بول چال کا طریقہ ان کے تصور میں محفوظ ہوتا ہے۔ یوں وہ لاشعوری طور پر وہی طریقے اپنا لیتی ہیں۔ نظرانداز ہونے والے بچے یا نوجوان اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ وہ بیمار ہونا چاہتے ہیں۔ تا کہ گھر والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکیں۔ اس طرح یہ محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام تر معاملے شعوری طور پر نہیں ہوتے۔ خاص طور پر جوان لڑکیاں ہسٹیریا اور شیزوفرینیا میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ شیزوفرینیا میں مریض کو Hallucination (واہمہ) ہوتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو پرفریب خیال، قیاس آرائی یا واہمے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جسے ادراکی خلل بھی کہا جاتا ہے۔ ماحول میں جو چیزیں اگر غیر موجود ہوں ان کا حسی تاثر واہمہ کہلاتا ہے۔ مریض غیر منظم گفتگو کرتا ہے۔ خود کلامی کرنے لگتا ہے، اور خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خوف اور شک ان مریضوں کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غیبی طاقت ان کے خیالات و احساسات پر حاوی ہو گئی ہے۔ مریض کا حقیقت کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ان مریضوں کو عجیب شکلیں اور آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جب یہ گھر والوں سے ان تمام ترکیفیات کا تذکرہ کرتے ہیں تو انھیں آسیب زدہ قرار دیا جاتا ہے۔ ذہنی بیماری کے ابتدائی دنوں میں جب کسی کو ایسے دورے پڑنے لگیں یا انھیں پراسرار مخلوق دکھائی دینے لگیں گی تو انھیں فوری طور پر نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔
سماج کا دہرا رویہ بھی کئی ذہنی امراض کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ یہ امراض زیادہ تر زیریں طبقے کے افراد میں پائے جاتے ہیں جو مالی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ ادھوری خواہشات، لوگوں کا ہتک آمیز رویہ، اچھے مواقعے کا فقدان، گھریلو جھگڑے ان افراد کو انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جن لوگوں میں شیزوفرینیا کا میلان ہو وہ ان حالات کی وجہ سے ذہنی مرض کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ہسٹیریا بھی ایک ایسی پیچیدہ ذہنی بیماری ہے، جس کے مریضوں کے رویوں کو آسیب سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس بیماری کے محرکات میں بے جا پابندیاں، خاندانی رقابتیں، دبی جنسی خواہشیں اور جذباتی ہیجان وغیرہ شامل ہیں۔ ان مریضوں کو دورے پڑتے ہیں۔ ڈر، خوف یا دباؤ کی صورت میں بے اختیار چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ ان کی جذباتی زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان مریضوں کی عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے انھیں آسیب سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ان متاثرہ لوگوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے انھیں پیروں فقیروں اور مزاروں پر لے جایا جاتا ہے۔ بروقت علاج نہ ملنے کی صورت میں ان کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ ذہنی امراض کے حامل افراد کو سنبھالنے کے لیے غیر معمولی برداشت چاہیے۔ حد سے زیادہ توجہ یا بالکل نظرانداز کر دینے سے ان کے مرض کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں ذہنی امراض کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ بے جا پابندیاں اور عدم تحفظ کا احساس ہے۔ جس کے باعث رویوں میں پر تغیّر علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔ شخصیت میں بے چینی، الجھاؤ، ہیجانی اتار چڑھاؤ، افسردگی، خوف، خبط حوالہ، جوش و جذبہ، خواب آمیز گفتگو اور تشویش آگے چل کر نفسیاتی امراض کا سبب بنتی ہے۔
ذہنی امراض کے حامل افراد جنھیں جنات کے سائے کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے اکثر گاجی شاہ، سیہون ، سعدی موسانی اور شاہ عقیق کے مزاروں پر لائے جاتے ہیں۔ جن میں سے اکثر لوگ لاعلاج ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے مریضوں کو اگر بر وقت ڈاکٹر کو دکھایا جائے تو ان کی حالت میں بہتری آ سکتی ہے۔ بعض طبی حالتوں میں بھی مریضوں کو شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ایسی لڑکی دیکھی، جس کے بارے میں اس کے گھر والوں کا خیال تھا کہ اس پر جن کا سایہ ہے۔ اس لڑکی کو تیز بخار رہنے لگا تھا۔ اسے عجیب و غریب شکلیں دکھائی دیتی تھیں۔ اس کے گھر والوں کو بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کے اسے اسپتال میں داخل کروا دیا۔ بقول ڈاکٹرز کے کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پانی بھر گیا تھا۔ جسے cerebrospinal fluid کہتے ہیں۔ اس بیماری میں بھی مریض کو ہیلیوسینیشن ہوتی ہے۔ جس میں وہ عجیب ڈراؤنی صورتیں دیکھتا ہے۔ وقت پر اسپتال پہنچنے سے اس لڑکی کی جان بچ گئی۔ بقول ڈاکٹرز کے کہ اس رات اگر اسے اسپتال نہ لایا جاتا، تو وہ اس کی زندگی کی آخری رات ثابت ہوتی۔
اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت توہم پرستی کے خبط میں مبتلا ہے۔ یہ لوگ عاملوں، پیروں و فقیروں کی حاضری بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منفی رویوں سے بڑھ کر کوئی دوسرا بڑا آسیب نہیں ہے۔ جو کئی نسلوں کی خوشیاں و خواب برباد کرتا چلا آیا ہے۔
یہ حالات کا جن لگتا ہے ان لوگوں کو مار ڈالے گا۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ جن کا لفظ دکھ کا استعارہ ہو جیسے:
ایک تمثیل ہو ہجر کی
ناپسندیدہ روایتوں کی زنجیر سی ہو
ریزہ ریزہ خوابوں کی تفسیر سی ہو
جب لوگ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے۔ رویوں کی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ رشتے سکھ کے بجائے عذاب دینے لگتے ہیں، تو ان کہے دکھ جن کا روپ دھار لیتے ہیں۔ سکھی گھروں میں کہیں جن کا سایہ نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ جن اکثر روایتوں کے پہروں میں تو کبھی حویلی کے رازوں میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ یہ جن منفی سوچوں، نفرتوں، رکاوٹوں و پابندیوں کی پیداوار ہیں۔ جو جہالت کے سائے میں پھلتے اور پھولتے ہیں۔ کہیں یہ پناہ بن جاتے ہیں سماج سے چھپنے کی۔۔۔۔یہ لڑکیاں جب مردانہ آواز میں بولتی ہیں تو انھیں ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ انھیں عورت کے نام سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہ لفظ ان کے جسموں کو زخموں سے بھر دیتا ہے۔ آنکھوں میں خوف کے مہیب سائے منڈلاتے ہیں۔ کوئی جرم نہ کرتے ہوئے بھی خود سے نظریں چرانے پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ پھر جب مرد کی آواز میں بولنے لگتی ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
انھیں توجہ ملنے لگتی ہے۔ گھر والے ان کا خیال رکھنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان سے لاشعور کرواتا ہے۔ بیماری کے شروعاتی مرحلے میں جب انھیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان پر جنات کا سایہ ہے، تو ان کا ذہن وہ اثر قبول کر لیتا ہے۔ ان کے اپنے مشاہدے قبول کرلیتا ہے۔ ان کے اپنے مشاہدے بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن پر جنات کا سایہ بتایا جاتا ہے۔ ان کا رویہ اور بول چال کا طریقہ ان کے تصور میں محفوظ ہوتا ہے۔ یوں وہ لاشعوری طور پر وہی طریقے اپنا لیتی ہیں۔ نظرانداز ہونے والے بچے یا نوجوان اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ وہ بیمار ہونا چاہتے ہیں۔ تا کہ گھر والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکیں۔ اس طرح یہ محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام تر معاملے شعوری طور پر نہیں ہوتے۔ خاص طور پر جوان لڑکیاں ہسٹیریا اور شیزوفرینیا میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ شیزوفرینیا میں مریض کو Hallucination (واہمہ) ہوتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو پرفریب خیال، قیاس آرائی یا واہمے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جسے ادراکی خلل بھی کہا جاتا ہے۔ ماحول میں جو چیزیں اگر غیر موجود ہوں ان کا حسی تاثر واہمہ کہلاتا ہے۔ مریض غیر منظم گفتگو کرتا ہے۔ خود کلامی کرنے لگتا ہے، اور خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خوف اور شک ان مریضوں کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غیبی طاقت ان کے خیالات و احساسات پر حاوی ہو گئی ہے۔ مریض کا حقیقت کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ان مریضوں کو عجیب شکلیں اور آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جب یہ گھر والوں سے ان تمام ترکیفیات کا تذکرہ کرتے ہیں تو انھیں آسیب زدہ قرار دیا جاتا ہے۔ ذہنی بیماری کے ابتدائی دنوں میں جب کسی کو ایسے دورے پڑنے لگیں یا انھیں پراسرار مخلوق دکھائی دینے لگیں گی تو انھیں فوری طور پر نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔
سماج کا دہرا رویہ بھی کئی ذہنی امراض کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ یہ امراض زیادہ تر زیریں طبقے کے افراد میں پائے جاتے ہیں جو مالی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ ادھوری خواہشات، لوگوں کا ہتک آمیز رویہ، اچھے مواقعے کا فقدان، گھریلو جھگڑے ان افراد کو انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جن لوگوں میں شیزوفرینیا کا میلان ہو وہ ان حالات کی وجہ سے ذہنی مرض کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ہسٹیریا بھی ایک ایسی پیچیدہ ذہنی بیماری ہے، جس کے مریضوں کے رویوں کو آسیب سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس بیماری کے محرکات میں بے جا پابندیاں، خاندانی رقابتیں، دبی جنسی خواہشیں اور جذباتی ہیجان وغیرہ شامل ہیں۔ ان مریضوں کو دورے پڑتے ہیں۔ ڈر، خوف یا دباؤ کی صورت میں بے اختیار چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ ان کی جذباتی زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان مریضوں کی عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے انھیں آسیب سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ان متاثرہ لوگوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے انھیں پیروں فقیروں اور مزاروں پر لے جایا جاتا ہے۔ بروقت علاج نہ ملنے کی صورت میں ان کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ ذہنی امراض کے حامل افراد کو سنبھالنے کے لیے غیر معمولی برداشت چاہیے۔ حد سے زیادہ توجہ یا بالکل نظرانداز کر دینے سے ان کے مرض کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں ذہنی امراض کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ بے جا پابندیاں اور عدم تحفظ کا احساس ہے۔ جس کے باعث رویوں میں پر تغیّر علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔ شخصیت میں بے چینی، الجھاؤ، ہیجانی اتار چڑھاؤ، افسردگی، خوف، خبط حوالہ، جوش و جذبہ، خواب آمیز گفتگو اور تشویش آگے چل کر نفسیاتی امراض کا سبب بنتی ہے۔
ذہنی امراض کے حامل افراد جنھیں جنات کے سائے کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے اکثر گاجی شاہ، سیہون ، سعدی موسانی اور شاہ عقیق کے مزاروں پر لائے جاتے ہیں۔ جن میں سے اکثر لوگ لاعلاج ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے مریضوں کو اگر بر وقت ڈاکٹر کو دکھایا جائے تو ان کی حالت میں بہتری آ سکتی ہے۔ بعض طبی حالتوں میں بھی مریضوں کو شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ایسی لڑکی دیکھی، جس کے بارے میں اس کے گھر والوں کا خیال تھا کہ اس پر جن کا سایہ ہے۔ اس لڑکی کو تیز بخار رہنے لگا تھا۔ اسے عجیب و غریب شکلیں دکھائی دیتی تھیں۔ اس کے گھر والوں کو بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کے اسے اسپتال میں داخل کروا دیا۔ بقول ڈاکٹرز کے کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پانی بھر گیا تھا۔ جسے cerebrospinal fluid کہتے ہیں۔ اس بیماری میں بھی مریض کو ہیلیوسینیشن ہوتی ہے۔ جس میں وہ عجیب ڈراؤنی صورتیں دیکھتا ہے۔ وقت پر اسپتال پہنچنے سے اس لڑکی کی جان بچ گئی۔ بقول ڈاکٹرز کے کہ اس رات اگر اسے اسپتال نہ لایا جاتا، تو وہ اس کی زندگی کی آخری رات ثابت ہوتی۔
اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت توہم پرستی کے خبط میں مبتلا ہے۔ یہ لوگ عاملوں، پیروں و فقیروں کی حاضری بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منفی رویوں سے بڑھ کر کوئی دوسرا بڑا آسیب نہیں ہے۔ جو کئی نسلوں کی خوشیاں و خواب برباد کرتا چلا آیا ہے۔