گنے چنے الفاظ کی سیاست
’’ٹوئٹر‘‘ پر ہم خود بھی ہیں، اور روز دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ’’فالورز‘‘ خوب پھلیں پھولیں، البتہ چند شکایات بھی ہیں
اگر کسی سنہری صبح، ناشتے کی میز پر، اخبار بینی کے دوران یہ خبر آپ کی نظر سے گزرے کہ فلاں فلاں سیاست دان کے کاغذات نامزدگی ''ٹوئٹر اکاؤنٹ'' نہ ہونے کی بنا پر مسترد کر دیے گئے، تو حیران ہونے میں کسی طور کنجوسی نہیں کیجیے گا۔ آپ اِس کا آئینی حق رکھتے ہیں۔ پھر تعجب کرنا جائز بھی ہے کہ فی الحال ایسی خبر کا جنم لینا غیر امکانی معلوم ہوتا ہے۔
البتہ اتنا یاد رکھیے کہ ''ٹوئٹر'' کی اثر پذیری کے باعث پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اِس کے استعمال کی شرح دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ بہت سوں کو اِس ''چہچہاتی'' ویب سائٹ نے گرویدہ بنا لیا ہے۔ عمران خان، منور حسن، بلاول بھٹو زرداری، حیدر عباس رضوی، مریم نواز، شیخ رشید اور مشاہد حسین سمیت درجنوں سیاست دان باقاعدگی سے اِس سماجی ویب سائٹ پر، گنے چُنے الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی واقعہ ہوتا ہے، کہیں دھماکا ہو جائے، کوئی چل بسے، تو اہل اقتدار کا پہلا ردعمل ''ٹوئٹر'' ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ میڈیا والے بھی سیاست دانوں سے رابطہ کرنے کے بجائے اُن کے ''ٹوئٹس'' پر اکتفا کر لیتے ہیں، اُنھیں ہی ''بریکنگ نیوز'' کے طور پر چلا دیتے ہیں۔ ''ٹوئٹر'' کے اِس اثر کے باعث، کچھ بعید نہیں کہ اگلے انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل ہر سیاست داں ''ٹوئٹر اکاؤنٹ'' کی تشکیل خود پر لازم کر لے اور اگلے انتخابات سے متعلق عمران خان دعویٰ کر چکے ہیں کہ جلد ہونے کو ہیں۔
صرف سیاست دانوں ہی پر کیا موقوف، ہمارے کرکٹرز، فلمی ستارے، سماجی کارکن، گویے، سازندے؛ سب ہی اِس ویب سائٹ پر مل جائیں گے۔ شاید کچھ دوست اِسے ذاتی تشہیر کا ذریعہ سمجھتے ہوں، مگر ہم ایسا ماننے کو تیار نہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا، تو کئی نام وَر ہستیاں، جو ہمہ وقت ٹی وی چینلز پر چھائی رہتی ہیں، بے تکان بولے جاتی ہیں، اِس ویب سائٹ سے لگی بیٹھی نہیں ہوتیں۔ اُن کی ''ٹوئٹر'' پر آمد کا ضرور کوئی نیک مقصد ہے۔ ''ٹوئٹر'' کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی بی سی نے بلاول بھٹو اور مریم نواز کے ''ٹوئٹس'' کا تقابلی جائزہ ضروری جانا۔ ایک کو محتاط، دوسرے کو متنازع ٹھہرایا۔
اِس تمہید کا مقصد، جو کچھ طویل ہو گئی، آپ کو ایک واقعہ یاد دلانا ہے، جو جنوری کے آخری عشرے میں وقوع پذیر ہوا، اور تذکرہ اُس کا جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ مذاکرات یا آپریشن پر بحث جاری تھی۔ ''ٹوئٹر'' پر میاں نواز شریف کے نام سے ایک اکاؤنٹ ہے۔ اُس سے کچھ ایسے ''ٹوئٹ'' ہوئے، جنھوں نے، میاں صاحب کی احتیاط پسندی کے باعث، سیاسی مبصرین کو ٹھیک ٹھاک حیران کر دیا۔ ''ٹوئٹس'' میں وزیر اعظم دو ٹوک الفاظ میں ملک دشمن عناصر کے عزائم خاک میں ملانے کا اعلان کرتے نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر تو جعل سازی معمول سمجھیے۔ الیکشن کے زمانے میں معروف صحافیوں کی جعلی آئی ڈی سے ہونے والے ''ٹوئٹس'' نے دل بہلانے کا خاصا سامان کیا۔ گو میاں صاحب کے اکاؤنٹ کو ہزاروں افراد ''فالو ''کر رہے تھے، جن میں کئی صحافی اور سیاست داں بھی شامل تھے، مگر اِس کے جعلی ہونے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بی بی سی والوں نے تصدیق کے لیے جب مسلم لیگ ن کے ایک راہ نما سے رابطہ کیا، تو پتا چلا کہ اکاؤنٹ اصلی ہے، میاں صاحب کا اسٹاف اُسے چلاتا ہے۔ یعنی اُن ''ٹوئٹس'' کو آپ وزیراعظم کے دل کی آواز جانیے۔ البتہ کچھ دیر بعد صورت حال بدل گئی۔ ایک پریس ریلیز جاری کی گئی کہ میاں صاحب کا سرے سے کوئی'' ٹوئٹر اکاؤنٹ'' ہے ہی نہیں۔تجزیہ کاروں نے معاملے پر یہی رائے دی کہ یہ اکاؤنٹ کرتا تو میاں صاحب کی ترجمانی ہے، مگر جب صورت حال متنازع ہو گئی، تو کہہ دیا گیا کہ وزیر اعظم ''ٹوئٹر'' سے کوسوں دُور ہیں۔ بعد میں بہت سوں نے اِس دُوری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہنے لگے؛ حالات اتنے کٹھن، اتنا ابہام، کیا ہی بہتر ہو کہ وزیر اعظم اپنے ہم عصروں کے مانند کچھ وقت ''ٹوئٹر'' کے لیے نکال لیں۔ عوام سے رابطے میں رہیں گے، تو مایوسی کے بادلوں میں چند چھید ہو جائیں گے، تھوڑی روشنی در آئے گی۔ بات تو دُرست ہے۔ اوروں کی طرح میاں صاحب کو بھی ''ٹوئٹر'' پر ہونا چاہیے۔ یوں ہمیں اُن کے گراں قدر خیالات سے باخبر رہنے میں سہولت رہے گی۔ ہندوستانی سیاست کے دل چسپ کردار، لالو پرساد یادو نے اِسی خیال کے پیش نظر چند روز قبل ''ٹوئٹر'' پر آنے کا اعلان داغا تھا۔ کہنا اُن کا یہ تھا کہ اِس طریق سے وہ نوجوان نسل سے براہ راست رابطے میں رہیں گے۔ویسے ''ٹوئٹر'' فقط رابطے کا ذریعہ نہیں۔ ایک معنوں میں آزادیِ اظہار کی علامت ہے۔ جو باتیں آپ محفل میں نہیں کہہ پاتے، یہاں کہہ دیتے ہیں۔ جن ممالک میں جمہوریت نہیں، میڈیا آزاد نہیں، وہاں تو یہ بڑی نعمت ہے۔ عرب ممالک میں اِس کا بڑا چرچا ہے۔ ''فیس بک'' کے مقابلے میں یہاں لمبی چوڑی کہانی نہیں۔ 140 الفاظ میسر ہیں۔ اِن ہی مدعا بیان کریں، اور چلتے بنیں۔ہمارے ایک دوست کے مطابق کوئی اور افادیت ہو یا نہ ہو، اِس ویب سائٹ نے طویل عرصے سے جاری ایک ادبی بحث ضرور سُلجھا دی۔ جھگڑا تھا کہ غزل عصری تقاضوں کا بوجھ ڈھو سکتی ہے یا نہیں۔ اب ''ٹوئٹر'' پر الفاظ کی بندش کے باعث نظم کا تو امکان نہیں۔ ہاں، احساسات کی ترجمانی کرتے اشعار کام آ سکتے ہیں۔ 140 الفاظ کی شرط پر بھی پورے اترتے ہیں۔ ''ٹوئٹ'' کے بعد بڑے بامعنی لگتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ غزل ''ٹوئٹر'' کا بوجھ ڈھو سکتی ہے۔
''ٹوئٹر'' کا ذکر ہو، اور عمران خان کا تذکرہ نہ آئے، یہ کیوں کر ممکن ہے۔ ''دنیائے ٹوئٹر'' میں وہی سب سے مقبول۔ اِس ویب سائٹ پر انتخابات ہوتے، تو وزیر اعظم بن کر ہی دم لیتے۔ البتہ آج کل اِسی ''ٹوئٹر'' پر تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ خیر، خان صاحب کے ساتھ اُن کے جاں نثار ہیں، اور بے شمار ہیں۔ تنقید سے خود ہی نمٹ لیں گے۔
''ٹوئٹر'' پر ہم خود بھی ہیں، اور روز دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ''فالورز'' خوب پھلیں پھولیں، البتہ چند شکایات بھی ہیں۔ جون ایلیا کا شعر ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
جون بھائی کے برعکس ہماری قوم کا مسئلہ گمبھیر ہے۔ تباہی روبرو ہے، ملال کی خواہش بھی ہے، مگر فرصت نہیں۔ سوشل میڈیا مصروف ہی اتنا رکھتا ہے۔ صبح ''فیس بک'' کے ساتھ۔ شامیں ''ٹوئٹر'' کی صحبت میں۔ بیگانگی اِس نہج پر ہے کہ لکھنے پڑھنے کو وقت کا ضیاع اور غور و فکر کو جرم گرداننے لگے ہیں۔ البتہ عوام کے لیے ہم گریہ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ کام وہ خود کریں۔ ہاں، اہل سیاست سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ جناب، ہمہ وقت'' ٹوئٹر'' سے نتھی رہیں گے، تو عوام کی خدمت کب کریں گے۔ وہ آپ کو ایوانوں اور دفاتروں میں ڈھونڈتے ہیں، اور ملتے آپ'' ٹوئٹر'' پر ہیں۔
پھر ''ٹوئٹر'' پر ردعمل، چاہے کتنا ہی سنجیدہ ہو، کچھ غیر سنجیدہ سا لگتا ہے کہ یہاں ''ٹرینڈز'' کا غلبہ ہے۔ اُن ہی کا تعاقب ہوتا ہے۔ صورت حال بھیڑ چال والی ہو جاتی ہے۔ جو ''تیز رو'' دکھائی دے، سب اُسی کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
خیر، اب اِس قصّے کو سمیٹتے ہیں۔ ''ٹوئٹر'' پر چلتے ہیں۔ دیکھیں تو سہی، اِس سمے وہاں کیا غل مچا ہے۔