مداخلت یا سازش

قوم کو ایک غیر مرئی بیرونی سازش میں الجھا دیا گیا ہے جو تحریک انصاف کے علاوہ کسی کو نظر نہیں آرہی


سفارتکاری میں اس طرح کے مراسلے عام سی بات ہیں۔ (فوٹو: فائل)

LONDON: عمران خان نے جب یہ بھانپ لیا کہ ان کےلیے برسرِ اقتدار رہنا مشکل ہے تو امریکی سازش کے نام پر نئی چیز مارکیٹ میں لے آئے، جو ان کے کارکنان کی توسط سے ہاتھوں ہاتھ بکنے لگی۔ تادم تحریر ان کا یہ بیانیہ اس قدر پھیلا دیا گیا ہے کہ ان کے حامی محب وطن قرار پاتے ہیں جبکہ ان سے اختلاف رکھنے والا ہر شخص غدار ہے۔

اس بیانیے کی بنیاد ایک سفارتی مراسلہ ہے، جس میں اس وقت کے امریکا میں متعین پاکستانی سفیر نے امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر سے ملاقات کے احوال لکھے ہیں۔ بقول عمران خان اس مراسلے کے مطابق مذکورہ افسر نے سفیر سے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو ٹھیک ہے، اور اگر کامیاب نہیں ہوتی تو پاکستان کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اگر ہم اس بات کو من و عن تسلیم کرلیں تو کچھ نکات قابل غور ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سفارتکاری میں اس طرح کے مراسلے عام سی بات ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی کہ امریکا پاکستان کی حکومت کو تبدیل کرے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ نجی محافل کی گفتگو کبھی بھی باضابطہ دھمکی قرار نہیں پاتی۔ بلاشبہ امریکا اس وقت یوکرین کے حوالے سے حساس واقع ہوا ہے اور دنیا کے کئی ممالک بشمول ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو باضابطہ متعدد بار دھمکی دے چکا ہے۔ اگر پاکستان کو بھی دی ہے تو اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آرہا، ہمیں دیگر ممالک کی طرح باضابطہ طور پر دھمکی نہیں دی گئی، ورنہ خان صاحب کو سفارتی مراسلے کا پرنٹ ساتھ لے کر گھومنے کی ضرورت نہ پڑتی۔

اس پوری کہانی میں ایک دلچسپ موڑ آیا اس وقت آیا جب ترجمان پاک فوج نے واضح کردیا کہ حکومت کی تبدیلی میں کسی قسم کی بیرونی سازش کے آثار نہیں ملے۔ یاد رہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ہی دراصل اس قسم کی سازشوں پر نظر رکھنے اور ان کا توڑ کرنے کےلیے ذمے دار ہیں۔ یقیناً تحقیقات میں کچھ وقت لگتا ہے اور کل کی پریس کانفرنس مکمل تحقیقات کے بعد کی گئی تھی، جو پہلے بالخصوص تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ممکن نہ تھی۔ یہاں حسب معمول ترجمان پاک فوج کے کچھ الفاظ کو لے کر سوشل میڈیا پر حقائق مسخ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار ترجمان پاک فوج نے اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے مراسلے کے متعلق کہا کہ مداخلت تو بظاہر نظر آتی ہے لیکن قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ان کی اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے ''مداخلت'' اور ''سازش'' کے فرق پر فلسفے جھاڑے جارہے ہیں۔ ہدف صرف ایک ہی ہے کہ لوگوں کی توجہ اصل بات سے ہٹا کر غیر ضروری باتوں میں انہیں الجھا دیا جائے۔

الفاظ کے ہیر پھیر سے ہٹ کر مفہوم کو دیکھیے تو بات بہت واضح سی ہے۔ اگر کوئی غیر ملکی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں بات کرے تو یہ مداخلت کہلاتی ہے، یا آپ مداخلت کے علاوہ کوئی بھی موزوں سا نام دے دیں۔ اور اگر یہ مداخلت عملی ہوجائے، ساز باز کریں، جوڑ توڑ کریں اور باقاعدہ ملوث ہوجائیں تو اس کو سازش کہا جائے گا۔ لہٰذا ترجمان پاک فوج کے مطابق بیرونی عناصر کی زبانی طور پر مداخلت ثابت ہے لیکن حکومت کی تبدیلی میں کوئی عملی سازش یا ساز باز نہیں ہے۔

دیکھا جائے تو واضح طور پر تحریک انصاف کا بیانیہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ لیکن حسب دستور انہی ہتھکنڈوں کا سہارا لیا گیا جن سے حقائق بالکل مسخ ہوجاتے ہیں۔ عوام کی توجہ بہت خوبصورتی سے ساڑھے تین سالہ ناکام کارکردگی کے بجائے بیرونی سازش کی طرف موڑ دی گئی ہے، جس کا وجود ہی نہیں۔ بعض افراد کے مطابق پاکستان میں ہمیشہ ایک سپر پاور کی مداخلت رہی ہے اور ماضی میں حکومتیں تبدیل کروانے میں ان کا ہاتھ رہا ہے۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر یہ بھی مان لیجیے کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے میں بھی بیرونی سازش کارفرما تھی۔

ہم تو عمران خان سے امید کرتے تھے کہ وہ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن میں مثبت کردار ادا کریں گے اور حکومت پر نظارت رکھیں گے تاکہ ملک صحیح سمت میں گامزن ہوسکے۔ لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف کے جملہ لیڈران اور کارکنان اپنا غصہ سیکیورٹی اداروں پر نکال کر معاشرے میں انارکی پھیلا رہے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی پر کوئی بات نہ آئے اور غیر مرئی بیرونی سازش میں قوم الجھی رہے جو تحریک انصاف کے سوا کسی کو نظر نہیں آرہی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں