افغانستان کا گم گشتہ تاریخی و ثقافتی ورثہ اس قیمتی اثاثے کو کون واپس دلائے گا
ابتدائی انسانی تاریخ سے لے کر آج تک افغانستان دنیا کی قدیم اور عظیم تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے
کراچی:
افغانستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کے درمیان ایک پُل کا درجہ حاصل ہے۔
یہ خطہ اپنے قدرتی وسائل، تاریخی نوادرات اور آثارقدیمہ کے لحاظ سے ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں اور حملہ آوروں کا مرکز نگاہ رہا اور جو بھی یہاں آیا تو کسی خاص عقیدے یا نظریے کو پھیلانے کی غرض سے نہیں بل کہ افغانستان کے قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات کو لوٹنے کی نیت سے آیا۔ ابتدائی انسانی تاریخ سے لے کر آج تک افغانستان دنیا کی قدیم اور عظیم تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے جس کے آثار اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
آج بھی افغانستان کے مختلف علاقوں اور پہاڑوں میں قبل از تاریخ دور کے غاروں میں رہنے والے انسانوں کی زندگی اور بودوباش کے آلات و اوازار اور دیگر باقیات ملتے ہیں جسے آثارقدیمہ کے ماہرین نے پچاس ہزار سالہ قدیم قرار دیا ہے جن میں اس وقت کے آرٹ اور ہنر کے ابتدائی نقش ونگار اور دیگر نمونے آج بھی پہاڑوں کے مختلف غاروں میں پائے جاتے ہیں۔
تحریر کی ایجاد کے ساتھ جمشید بادشاہ نے بلخ میں ایک مضبوط آریائی تمدن کی بنیاد رکھی اس کے بعد زرتشت کے زمانے میں اس تمدن کو مزید فروغ ملا۔ یونانی فاتح سکندر اعظم نے آتے ہی موجودہ آریائی تہذیب اور تمدن میں یونانی تہذیب کا رنگ بھر کر دونوں تہذیبوں کی آمیزش کی لیکن بعد میں بدھ ازم نے اس تہذیب اور کلچر کا پورا ڈھانچہ تبدیل کردیا اور نقش ونگار، تصویرکشی اور مجسمہ سازی میں گندھارا تہذیب ایک منفرد شکل میں سامنے آئی۔
اسلام کے آتے ہی آرٹ کی دنیا میں نئے نئے تجربے شروع ہوئے۔ کوزہ گری اور ظروف سازی کے علاوہ فن خطاطی نے خوب ترقی کی۔ دسویں صدی کے بعد پندرھویں صدی میں غزنوی، غوری اور تیموریوں کے دور میں افغانستان کا ہنر اور آرٹ زیادہ تر جاگیرداروں اور امیر طبقوں کے ہاتھوں پروان چڑھا اور اسی دور میں صوبہ ہرات ہنر وآرٹ کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہوا۔
ہرات میں تیموری خاندان کے دور میں جو فن وہنر باقی رہا اس میں ایک فن خطاطی تھا جس نے چودھویں صدی میں خراسان، ماورا لنہر اور ایران میں بہت زیادہ ترقی کی تھی جس کے بے شمار نمونے آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کتبوں اور کتابوں میں موجود ہیں۔
افغانستان میں فن خطاطی کے اسلوب، نستعلیق کو رواج دینے میں میرعماد حسینی (وفات 1414ھ) اس کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں میر عبدالرحمان ہروی نے اس فن کو بام عروج تک پہنچایا۔ نستعلیق کے یہ آخری استاد جو ہرات، قندہار اور کابل میں قیام پذیر رہے، 1850ء کو وفات پاگئے۔ اس کے بعد ان کے شاگردوں میں ملا محمد حسین، مرزا نجف بہرام اور مرزا جان مستوفی نے فن خطاطی کے قابل تقلید نمونے تخلیق کیے۔
ان میں ایک نام سید عطامحمدحسینی جو قندہار کے رہنے والے تھے اور جنہیں امیر عبدالرحمان نے اپنے دربار کا خوش نویس بھی مقرر کیا تھا، نے تذکرۃ الاولیاء کی دو جلدیں نستعلیق میں لکھیں جو کابل کے سرکاری کتب خانے میں پڑی تھیں۔ اس دور کے دیگر خطاطوں میں سردار غلام محمد، قاضی طلامحمد، محمد عمر بردرانی، مرزاغلام قادرکاکڑ اور اس طرح اور بے شمار نام لیے جاسکتے ہیں۔ نقاشی، مصوری اور چوب کاری کے فن میں مرزا رضاہروی، مرزاباقر کابلی، محمد عظیم اور حاجی فخرالدین کے نام قابل ذکر ہیں۔ 1919ء کو امان اللہ خان کے دور حکم رانی میں نقاشی اور مصوری کو خصوصی توجہ دی گئی۔
افغانستان کا قومی عجائب گھر جو ابتداء میں ''کابل میوزیم'' کے نام سے مشہور تھا، غازی امان اللہ خان کے دور میں ''ارگ'' کے کوٹہ باغچہ کے مقام پر کھول دیا گیا جسے بعد میں 1918ء کو ''باغ بالا مانڑئی'' منتقل کردیا گیا۔ بعد میں میوزیم کے لیے دارالامان کے قریب الگ عمارت بنائی گئی۔ 1919ء کے آخری دور میں میوزیم میں سو سے زیادہ قدیم اور تاریخی آثار موجود تھے مگر بعد میں جس وقت افغانستان اندرونی خانہ جنگیوں کا شکار ہوا تو میوزیم بھی اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں لٹنے سے نہ بچ سکا۔
میوزیم میں محفوظ بے شمار تاریخی اور قیمتی آثار جو افغانستان کی قدامت اور شان وشوکت کے زندہ نمونے تھے، مسلح گروپوں کے ہاتھوں لٹ کر دوسرے ممالک کے اسمگلروں کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کردیے گئے ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی، مذہبی، فوجی اور سرکاری شخصیات کا نام بھی لیا جاتا ہے یعنی ''ان میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں'' جنہوں نے اپنے ڈرائنگ روموں کو افغانستان کے قومی عجائب گھر کے قیمتی، تاریخی اور نادر نمونوں سے سجا رکھا ہے۔
افغانستان کے باشندے اپنی ثقافت اور تہذیب سے بہت پیار کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کی ترقی اور حفاظت کے لیے کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔1921ء میں فن و ثقافت کی ترقی اور ترویج کے لیے ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ اس کے لیے ایک الگ وزارت بنائی گئی اور میٹرک تک مصوری اور ڈرائنگ کو بطور ایک لازمی مضمون رواج دیا گیا۔ اس کام کے لیے پروفیسر محمدخان اور پروفیسر عبدالغفور کو جرمنی بھیجا گیا تاکہ وہاں وہ فن کی دنیا میں نئے نئے تجربات سے استفادہ کرسکیں اور واپس آکر یہاں کے طالب علموں اور فن مصوری سے شوق رکھنے والوں کو ان تجربات کی روشنی میں سکھا سکیں۔
پروفیسر غلام محمدخان وہاں مصوری میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرکے واپس آئے اور کابل میں اس فن کے لیے ایک الگ سکول کھولا اور بے شمار شاگرد پیدا کیے جن میں غوث الدین اسام، غلام علی امید اور سید جلال خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ افغانستان میں تھیٹر اور ڈرامے کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خراسان میں قدیم زمانے سے تمثیل کی طرز پر مختلف کھیل شاہی دربار اور لوگوں کی عام محفلوں میں وقت گزاری اور ہنسنے ہنسانے کے لیے کھیلے جاتے تھے۔ شہروں میں اس کام کے لیے خصوصی اداکار ہوتے تھے جو عید اور دیگر تہواروں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے۔
بازاروں میں قصہ گو لوگ بھی موجود رہتے تھے جو مذہبی اور جنگی قصے سناتے تھے جس کے ساتھ وہ اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کابل کے دربار میں ایک باقاعدہ مجلس آراء بھی موجود رہتا تھا جو پرانے زمانے کے مشہور پہلوانوں کی داستانیں اداکاری کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ 1910ء میں فقیر احمد کابل دربار کے مشہور مجلس آراء گزرے ہیں۔
کابل کے پرانے شہر میں ایک محلہ کوچہ سادوھا کے نام سے موجود تھا یہاں اس قسم کے قصہ گو لوگ آباد تھے جنہیں لوگ جنگ نامہ خواناں بھی کہتے تھے ان قصہ گو پیشہ وروں میں ملا علی جان بڑے مشہور تھے جو اپنی باتوں سے لوگوں کو رلاتے اور ہنساتے تھے بعد میں اس فن میں ان کے بیٹے ملا سخی داد اور نواسے اسد اللہ نے بھی بڑا نام کمایا۔ اس کے علاوہ دینو دار باز، محی الدین سراج اور غیاث بھی کابل کے مشہور تمثیل نگار گزرے ہیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں قندہار میں اداکاروں کے دو گروپ مشہور تھے جنہیں ناٹکیان (ناٹک کرنے والے) کہا جاتا تھا۔
ان میں ایک گروپ کی قیادت فراموز اور دوسرے گروپ کی قیادت حاجی کریم کرتے تھے جو بازاروں میں رات کے وقت ناٹک کرتے تھے ان اداکاروں میں اعضاء اور موسیٰ بڑے مشہور اداکار گزرے ہیں۔ 1920ء کے بعد ''نمائشیات عرفانی'' کے نام سے ایک ادارہ ''مولوی محمد حسین اور مڑجالندھری''کی سربراہی میں بنایا گیا جنہوں نے افغانستان پہلا اسٹیج ڈراما ''سردار جزیرہ جاوا'' کے نام سے جلال آباد کے کوکب باغ اور لغمان کے قلعہ سراج میں 1922ء میں پیش کیا۔
سٹیج اور تھیٹر کے اداکاروں میں سرور گویا اعتمادی، عبدالعزیز ناصری، حافظ نور محمد، علی محمد، سرور صباء کے علاوہ بے شمار اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ ڈراما لکھنے اور ترجمہ کرنے والوں میں فیض محمد ذکریا، صلاح الدین، سلجوقی، حسن سلیمی، علی آفندی، ضیاء ہمایون (ھندی) اور حافظ نورمحمد نے نئے ڈرامے ''مادروطن''، ''صحبت ہائے اخلاقی'' جیسے ڈرامے لکھ کر پغمان کے تھیٹر میں پیش کیے۔
1925ء میں جشن افغانستان کے موقع پر'' بچہء می پدر، محاکمہ حکمراناں، فتح اندلس'' اور اس نوع کے دیگر ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان ڈراموں کی موسیقی استاد قاسم اور استاد غلام حسین ناٹکی نے ترتیب دی تھی۔ 1923ء میں پغمان کے عوامی باغ میں ایک عمارت سینما تھیٹر اور اولمپک جمناسٹک کے لیے بنائی گئی جہاں جشن استقلال کے دور کے ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ 1955ء میں باقاعدہ طور پر سینما اور تھیٹر کے لیے راستہ ہموار کیا گیا۔
1973ء میں''افغان نندارہ'' کے نام سے ایک سنیما کی بنیاد رکھی گئی، جس میں کئی مشہور ڈرامے پیش کیے گئے۔ اس دور کے مشہور ڈراما آرٹسٹوں میں عبدالرشید جلیا، عبدالحمید جلیا، محمد اکبر نادم، احمد ضیاء، محمد اکرم نقاش اور خورشید کے نام قابل ذکر ہیں۔ سنگ تراشی کا ہنر زمانہ قدیم سے افغانستان میں موجود تھا کیوں کہ یہاں کے پہاڑوں میں قسم قسم کے خوب صورت اور قیمتی پتھر موجود ہیں۔
غزنی کے سفید سنگ مرمر کے نمونے آج بھی موجود ہیں ہرات کے سیاہ پتھر اور ان پر قسماقسم کے نقش ونگار، تحریریں بعض قبروں کے کتبوں پر سنگ تراشی اور خطاطی کے بہترین شاہ کار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن گذشتہ نصف صدی سے اندرونی خانہ جنگیوں اور بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں نے یہاں کے باشندوں اور حکم رانوں کو اتنی فرصت نہیں دی کہ وہ اپنے ملک کی قدیم تاریخ، تہذیب اور آثار کی حفاظت کرسکیں یا ان پر کوئی نیا تحقیقی کام کرسکیں۔ ماضی میں یہاں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ بھی دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے ماہرین نے کیا ہے۔
پہلی بار 1939ء میں آثار قدیمہ کے مشن نے سیستان کے مقام ''بادعلی'' میں کھدائی کرکے ہزاروں سالہ قدیم آثار اور نودرات دریافت کیے تھے اس کے بعد ''امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری'' سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے ماقبل از تاریخ دور کے آثار پر کام شروع کیا۔ 1966ء میں بدخشاں کے علاقے ''درکوہ'' میں چار قدیم تہذیبی مقامات دریافت کیے گئے جن میں تانبے کے عہد کے وسطی دور پتھر کے زمانے کے آخری دور لوہے کے عہد و اسلامی عہد اور تیموری عہد کے نادر ونایاب نمونے شامل تھے اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں بدھ مت کی عبادت گاہوں کا بھی سراغ ملا تھا۔
مختلف علاقوں اور پہاڑوں میں کھدائی کے دوران جو بیش قیمت پرانے آثار دریافت کیے گئے تھے، انہیں افغانستان کے قومی عجائب گھر میں محفوظ کرلیے گئے تھے۔ محمود غزنوی نے اپنے دور حکم رانی میں اپنے پایہ تخت غزنی میں قیمتی سنگ مرمر سے مزین ستارہ نما مینار اور عمارتیں بنائیں۔ قدیم تاریخی اور تہذیبی آثار کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ہرات کو یونان کے شہر ایتھنز سے مماثل قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ کابل میوزیم میں سونے، چاندنی، کانسی اور پیتل کے نایاب سکے اور دیگر نوادرات بھی وافر مقدار میں موجود تھے مگر افغان جنگ نے ماضی کے اس قیمتی اثاثے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ روسی فوج کے سپاہیوں نے بھی کابل میوزیم سے کئی نادر اشیاء چوری کی تھیں۔ کابل میوزیم میں پڑی ہوئی مورتیاں، مجسمے، سکندر اعظم کے دور سے تعلق رکھنے والے شیشے کے پیالے اور مچھلی کی شکل کی عطردانیاں، ہاتھی دانت کی مورتیوں کے علاوہ کئی بیش قیمت ظروف موجود تھے۔
افغانستان کے سابق شاہ ظاہر شاہ نے اس تاریخی اور تہذیبی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسا قانون بنایا تھا جس کی وجہ سے کوئی چیز یہاں سے باہر نہیں جاسکتی تھی جس وقت روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور افغانستان کو آگ اور شعلوں میں دھکیل دیا گیا تو اس میں دیگر جانی، مالی اور معاشی نقصان پہنچانے کے علاوہ وہاں کے تاریخی اور تہذیبی ورثے کو بھی کسی نے معاف نہیں کیا۔
2 اپریل 1989ء کو کابل میوزیم سے بہت سی قیمتی نوادرات چوری ہوگئے اور یہ افواہ اڑائی گئی کہ یہ چوری روسی فوج کے چند سپاہیوں نے کی ہے مگر اس وقت کے صدر مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ نے فوراً اس کی تردید کی اور مغربی سفارت کاروں کے سامنے ان نوادرات کی نمائش بھی کی بعدازآں مجاہدین کی آپس میں تخت کابل پر قبضہ جمانے کی دوڑ میں کابل میوزیم میں جو ذخیرہ تھا اسے لوٹ لیا اور عمارت کو شدید نقصان پہنچایا، اگر چہ ؎
سرکٹ گئے جہاد میں لیکن خبر نہیں
کس کے خلاف کون صف آرائیوں میں تھا؟
جینوا معاہدے کے تحت روسی افواج افغانستان سے نکل گئی مگر پھر بھی جہاد جاری رہا اور متحارب گروپوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی جن میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور اربوں روپے کی املاک کو راکھ کا ڈھیر کردیا گیا۔
اس خانہ جنگی اور آپس کے قتل مقاتلے میں افغانستان کے ہزاروں سالہ قدیم آثار اور نوادرات کو بھی تباہ کردیا گیا اور جس کے حصے میں جو بھی آیا اسے مال غنیمت سمجھ کر اپنے ساتھ لے گیا، کسی بھی جہادی گروپ نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے قدیم تاریخی اور تہذیبی ورثے کو تباہ کررہے ہیں اور نہ کسی کو یہ معلوم تھا کہ میوزیم میں موجود ان قیمتی نوادرات اور آثار کی مالیت عالمی منڈی میں کئی ملین ڈالر ہے۔
طالبان کے گذشتہ دور حکم رانی میں افغانستان کے دیگر تاریخی آثار کے علاوہ بامیان کے بتوں کو بھی بارود سے اڑایا گیا جو بدھ مت تہذیب کی یادگار تھے۔ بامیان کے بتوں کو دنیا بھر میں شہرت حاصل تھی۔ وادی بامیان کابل سے شمال مغرب کی طرف 80 میل کے فاصلے پر برف پوش کوہ باپا کے دامن میں واقع ہے۔ بامیان کا شمار چوں کہ بدھوں کے اہم ترین اور متبرک مراکز میں ہوتا ہے اس لیے یہاں ہر سال کئی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے رہے ہیں۔
افغانستان کی سر زمین پر جتنے بھی بیرونی حملہ آور اور فاتحین آئے ہیں ان میں کسی نے بھی بامیان کے بتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی اس پر تعرض کیا۔ امیر امان اللہ خان نے ان بتوں کی حفاظت اور بچائو کے لیے مجسموں کے نزدیک سرائے اور دکانوں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا اور بامیان کے آثار کو قومی ملکیت قرار دیا بعد کے دور میں افغانستان پر جتنے بھی حکم راں آئے ہیں ہر حکم راں اور اس کی جماعت نے افغانستان کے قدیم آثار اور نوادرات کی نہ صرف حفاظت کی بل کہ وقتاً فوقتاً مختلف مقامات اور علاقوں میں نئی کھدائی کا کام کرکے ان آثار میں مزید اضافہ بھی کیا اس طرح بعد بھی میں افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے جتنے بھی گروپ برسراقتدار آئے تھے۔
ان میں کسی بھی گروپ نے بامیان کے بتوں کو اپنے مذہبی عقیدے یا گناہ اور ثواب کے ترازو میں نہیں تولا مگر جس وقت طالبان برسراقتدار آئے تو انہوں نے ان بتوں کو اپنے مذہبی گز سے ناپنے کا اعلامیہ جاری کرکے افغانستان کے اس قومی، تاریخی اور تہذیبی ورثے کو تباہ کردیا جس پر کئی ممالک کے لاکھوں بدھ مت کے پیروکاروں اور انسانی تہذیب اور قدیم آثار سے محبت کرنے والوں نے شدید احتجاج کیا مگر طالبان نے کسی کی نہیں سنی اور دنیا کے ان طویل القامت مجسموں جس کی لمبائی 53 میٹر اور چوڑائی35 میٹر تھی، کو مارچ 2001ء میں پوری دنیا کی اپیلوں کے باوجود بارود سے اڑادیا۔
اس کے علاوہ ہرات کے عجائب گھر کو بھی طالبان اپنے گذشتہ دور حکم رانی میں نہیں بخشا اور وہاں پڑے ہوئے قدیم ترین مجسمے، گل دان اور دیگر قیمتی نوادرات لوٹ لیے۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود نہ تو طالبان افغانستان کو ایک مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال سکے اور نہ ہی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے میں کام یاب ثابت ہوئے کیوں کہ بظاہر اگر کوئی کسی بت پرست کے سامنے پڑے بت توڑ بھی ڈالے مگر اس کے ذہن اور دل میں اپنے بتوں کے ساتھ جو عقیدت اور محبت قائم ہے اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
طالبان کے گذشتہ دور میں تعلیمی اور اقتصادی نقصان کے علاوہ افغانستان کو جو تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی نقصان اور بحران سے دوچار ہونا پڑا اس کی تلافی ممکن اس لیے نہیں کہ وہ تمام قیمتی آثار اور نوادرات افغانستان سے اسمگل ہوکر پاکستان، عرب امارات اور مغربی ممالک تک پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اگر یہ سچ ہو تو قانوناً اور اخلاقاً ان نوادرات اور آثار کو واپس افغانستان کی حکومت کے حوالے کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ان لوگوں کی قدیم تاریخ اور تہذیب کا ایک قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہے اس سے افغانستان کے پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ دوستی کا بندھن اور بھی مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذاں دے رہا ہوں
افغانستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کے درمیان ایک پُل کا درجہ حاصل ہے۔
یہ خطہ اپنے قدرتی وسائل، تاریخی نوادرات اور آثارقدیمہ کے لحاظ سے ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں اور حملہ آوروں کا مرکز نگاہ رہا اور جو بھی یہاں آیا تو کسی خاص عقیدے یا نظریے کو پھیلانے کی غرض سے نہیں بل کہ افغانستان کے قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات کو لوٹنے کی نیت سے آیا۔ ابتدائی انسانی تاریخ سے لے کر آج تک افغانستان دنیا کی قدیم اور عظیم تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے جس کے آثار اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
آج بھی افغانستان کے مختلف علاقوں اور پہاڑوں میں قبل از تاریخ دور کے غاروں میں رہنے والے انسانوں کی زندگی اور بودوباش کے آلات و اوازار اور دیگر باقیات ملتے ہیں جسے آثارقدیمہ کے ماہرین نے پچاس ہزار سالہ قدیم قرار دیا ہے جن میں اس وقت کے آرٹ اور ہنر کے ابتدائی نقش ونگار اور دیگر نمونے آج بھی پہاڑوں کے مختلف غاروں میں پائے جاتے ہیں۔
تحریر کی ایجاد کے ساتھ جمشید بادشاہ نے بلخ میں ایک مضبوط آریائی تمدن کی بنیاد رکھی اس کے بعد زرتشت کے زمانے میں اس تمدن کو مزید فروغ ملا۔ یونانی فاتح سکندر اعظم نے آتے ہی موجودہ آریائی تہذیب اور تمدن میں یونانی تہذیب کا رنگ بھر کر دونوں تہذیبوں کی آمیزش کی لیکن بعد میں بدھ ازم نے اس تہذیب اور کلچر کا پورا ڈھانچہ تبدیل کردیا اور نقش ونگار، تصویرکشی اور مجسمہ سازی میں گندھارا تہذیب ایک منفرد شکل میں سامنے آئی۔
اسلام کے آتے ہی آرٹ کی دنیا میں نئے نئے تجربے شروع ہوئے۔ کوزہ گری اور ظروف سازی کے علاوہ فن خطاطی نے خوب ترقی کی۔ دسویں صدی کے بعد پندرھویں صدی میں غزنوی، غوری اور تیموریوں کے دور میں افغانستان کا ہنر اور آرٹ زیادہ تر جاگیرداروں اور امیر طبقوں کے ہاتھوں پروان چڑھا اور اسی دور میں صوبہ ہرات ہنر وآرٹ کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہوا۔
ہرات میں تیموری خاندان کے دور میں جو فن وہنر باقی رہا اس میں ایک فن خطاطی تھا جس نے چودھویں صدی میں خراسان، ماورا لنہر اور ایران میں بہت زیادہ ترقی کی تھی جس کے بے شمار نمونے آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کتبوں اور کتابوں میں موجود ہیں۔
افغانستان میں فن خطاطی کے اسلوب، نستعلیق کو رواج دینے میں میرعماد حسینی (وفات 1414ھ) اس کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں میر عبدالرحمان ہروی نے اس فن کو بام عروج تک پہنچایا۔ نستعلیق کے یہ آخری استاد جو ہرات، قندہار اور کابل میں قیام پذیر رہے، 1850ء کو وفات پاگئے۔ اس کے بعد ان کے شاگردوں میں ملا محمد حسین، مرزا نجف بہرام اور مرزا جان مستوفی نے فن خطاطی کے قابل تقلید نمونے تخلیق کیے۔
ان میں ایک نام سید عطامحمدحسینی جو قندہار کے رہنے والے تھے اور جنہیں امیر عبدالرحمان نے اپنے دربار کا خوش نویس بھی مقرر کیا تھا، نے تذکرۃ الاولیاء کی دو جلدیں نستعلیق میں لکھیں جو کابل کے سرکاری کتب خانے میں پڑی تھیں۔ اس دور کے دیگر خطاطوں میں سردار غلام محمد، قاضی طلامحمد، محمد عمر بردرانی، مرزاغلام قادرکاکڑ اور اس طرح اور بے شمار نام لیے جاسکتے ہیں۔ نقاشی، مصوری اور چوب کاری کے فن میں مرزا رضاہروی، مرزاباقر کابلی، محمد عظیم اور حاجی فخرالدین کے نام قابل ذکر ہیں۔ 1919ء کو امان اللہ خان کے دور حکم رانی میں نقاشی اور مصوری کو خصوصی توجہ دی گئی۔
افغانستان کا قومی عجائب گھر جو ابتداء میں ''کابل میوزیم'' کے نام سے مشہور تھا، غازی امان اللہ خان کے دور میں ''ارگ'' کے کوٹہ باغچہ کے مقام پر کھول دیا گیا جسے بعد میں 1918ء کو ''باغ بالا مانڑئی'' منتقل کردیا گیا۔ بعد میں میوزیم کے لیے دارالامان کے قریب الگ عمارت بنائی گئی۔ 1919ء کے آخری دور میں میوزیم میں سو سے زیادہ قدیم اور تاریخی آثار موجود تھے مگر بعد میں جس وقت افغانستان اندرونی خانہ جنگیوں کا شکار ہوا تو میوزیم بھی اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں لٹنے سے نہ بچ سکا۔
میوزیم میں محفوظ بے شمار تاریخی اور قیمتی آثار جو افغانستان کی قدامت اور شان وشوکت کے زندہ نمونے تھے، مسلح گروپوں کے ہاتھوں لٹ کر دوسرے ممالک کے اسمگلروں کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کردیے گئے ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی، مذہبی، فوجی اور سرکاری شخصیات کا نام بھی لیا جاتا ہے یعنی ''ان میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں'' جنہوں نے اپنے ڈرائنگ روموں کو افغانستان کے قومی عجائب گھر کے قیمتی، تاریخی اور نادر نمونوں سے سجا رکھا ہے۔
افغانستان کے باشندے اپنی ثقافت اور تہذیب سے بہت پیار کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کی ترقی اور حفاظت کے لیے کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔1921ء میں فن و ثقافت کی ترقی اور ترویج کے لیے ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ اس کے لیے ایک الگ وزارت بنائی گئی اور میٹرک تک مصوری اور ڈرائنگ کو بطور ایک لازمی مضمون رواج دیا گیا۔ اس کام کے لیے پروفیسر محمدخان اور پروفیسر عبدالغفور کو جرمنی بھیجا گیا تاکہ وہاں وہ فن کی دنیا میں نئے نئے تجربات سے استفادہ کرسکیں اور واپس آکر یہاں کے طالب علموں اور فن مصوری سے شوق رکھنے والوں کو ان تجربات کی روشنی میں سکھا سکیں۔
پروفیسر غلام محمدخان وہاں مصوری میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرکے واپس آئے اور کابل میں اس فن کے لیے ایک الگ سکول کھولا اور بے شمار شاگرد پیدا کیے جن میں غوث الدین اسام، غلام علی امید اور سید جلال خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ افغانستان میں تھیٹر اور ڈرامے کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خراسان میں قدیم زمانے سے تمثیل کی طرز پر مختلف کھیل شاہی دربار اور لوگوں کی عام محفلوں میں وقت گزاری اور ہنسنے ہنسانے کے لیے کھیلے جاتے تھے۔ شہروں میں اس کام کے لیے خصوصی اداکار ہوتے تھے جو عید اور دیگر تہواروں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے۔
بازاروں میں قصہ گو لوگ بھی موجود رہتے تھے جو مذہبی اور جنگی قصے سناتے تھے جس کے ساتھ وہ اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کابل کے دربار میں ایک باقاعدہ مجلس آراء بھی موجود رہتا تھا جو پرانے زمانے کے مشہور پہلوانوں کی داستانیں اداکاری کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ 1910ء میں فقیر احمد کابل دربار کے مشہور مجلس آراء گزرے ہیں۔
کابل کے پرانے شہر میں ایک محلہ کوچہ سادوھا کے نام سے موجود تھا یہاں اس قسم کے قصہ گو لوگ آباد تھے جنہیں لوگ جنگ نامہ خواناں بھی کہتے تھے ان قصہ گو پیشہ وروں میں ملا علی جان بڑے مشہور تھے جو اپنی باتوں سے لوگوں کو رلاتے اور ہنساتے تھے بعد میں اس فن میں ان کے بیٹے ملا سخی داد اور نواسے اسد اللہ نے بھی بڑا نام کمایا۔ اس کے علاوہ دینو دار باز، محی الدین سراج اور غیاث بھی کابل کے مشہور تمثیل نگار گزرے ہیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں قندہار میں اداکاروں کے دو گروپ مشہور تھے جنہیں ناٹکیان (ناٹک کرنے والے) کہا جاتا تھا۔
ان میں ایک گروپ کی قیادت فراموز اور دوسرے گروپ کی قیادت حاجی کریم کرتے تھے جو بازاروں میں رات کے وقت ناٹک کرتے تھے ان اداکاروں میں اعضاء اور موسیٰ بڑے مشہور اداکار گزرے ہیں۔ 1920ء کے بعد ''نمائشیات عرفانی'' کے نام سے ایک ادارہ ''مولوی محمد حسین اور مڑجالندھری''کی سربراہی میں بنایا گیا جنہوں نے افغانستان پہلا اسٹیج ڈراما ''سردار جزیرہ جاوا'' کے نام سے جلال آباد کے کوکب باغ اور لغمان کے قلعہ سراج میں 1922ء میں پیش کیا۔
سٹیج اور تھیٹر کے اداکاروں میں سرور گویا اعتمادی، عبدالعزیز ناصری، حافظ نور محمد، علی محمد، سرور صباء کے علاوہ بے شمار اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ ڈراما لکھنے اور ترجمہ کرنے والوں میں فیض محمد ذکریا، صلاح الدین، سلجوقی، حسن سلیمی، علی آفندی، ضیاء ہمایون (ھندی) اور حافظ نورمحمد نے نئے ڈرامے ''مادروطن''، ''صحبت ہائے اخلاقی'' جیسے ڈرامے لکھ کر پغمان کے تھیٹر میں پیش کیے۔
1925ء میں جشن افغانستان کے موقع پر'' بچہء می پدر، محاکمہ حکمراناں، فتح اندلس'' اور اس نوع کے دیگر ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان ڈراموں کی موسیقی استاد قاسم اور استاد غلام حسین ناٹکی نے ترتیب دی تھی۔ 1923ء میں پغمان کے عوامی باغ میں ایک عمارت سینما تھیٹر اور اولمپک جمناسٹک کے لیے بنائی گئی جہاں جشن استقلال کے دور کے ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ 1955ء میں باقاعدہ طور پر سینما اور تھیٹر کے لیے راستہ ہموار کیا گیا۔
1973ء میں''افغان نندارہ'' کے نام سے ایک سنیما کی بنیاد رکھی گئی، جس میں کئی مشہور ڈرامے پیش کیے گئے۔ اس دور کے مشہور ڈراما آرٹسٹوں میں عبدالرشید جلیا، عبدالحمید جلیا، محمد اکبر نادم، احمد ضیاء، محمد اکرم نقاش اور خورشید کے نام قابل ذکر ہیں۔ سنگ تراشی کا ہنر زمانہ قدیم سے افغانستان میں موجود تھا کیوں کہ یہاں کے پہاڑوں میں قسم قسم کے خوب صورت اور قیمتی پتھر موجود ہیں۔
غزنی کے سفید سنگ مرمر کے نمونے آج بھی موجود ہیں ہرات کے سیاہ پتھر اور ان پر قسماقسم کے نقش ونگار، تحریریں بعض قبروں کے کتبوں پر سنگ تراشی اور خطاطی کے بہترین شاہ کار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن گذشتہ نصف صدی سے اندرونی خانہ جنگیوں اور بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں نے یہاں کے باشندوں اور حکم رانوں کو اتنی فرصت نہیں دی کہ وہ اپنے ملک کی قدیم تاریخ، تہذیب اور آثار کی حفاظت کرسکیں یا ان پر کوئی نیا تحقیقی کام کرسکیں۔ ماضی میں یہاں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ بھی دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے ماہرین نے کیا ہے۔
پہلی بار 1939ء میں آثار قدیمہ کے مشن نے سیستان کے مقام ''بادعلی'' میں کھدائی کرکے ہزاروں سالہ قدیم آثار اور نودرات دریافت کیے تھے اس کے بعد ''امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری'' سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے ماقبل از تاریخ دور کے آثار پر کام شروع کیا۔ 1966ء میں بدخشاں کے علاقے ''درکوہ'' میں چار قدیم تہذیبی مقامات دریافت کیے گئے جن میں تانبے کے عہد کے وسطی دور پتھر کے زمانے کے آخری دور لوہے کے عہد و اسلامی عہد اور تیموری عہد کے نادر ونایاب نمونے شامل تھے اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں بدھ مت کی عبادت گاہوں کا بھی سراغ ملا تھا۔
مختلف علاقوں اور پہاڑوں میں کھدائی کے دوران جو بیش قیمت پرانے آثار دریافت کیے گئے تھے، انہیں افغانستان کے قومی عجائب گھر میں محفوظ کرلیے گئے تھے۔ محمود غزنوی نے اپنے دور حکم رانی میں اپنے پایہ تخت غزنی میں قیمتی سنگ مرمر سے مزین ستارہ نما مینار اور عمارتیں بنائیں۔ قدیم تاریخی اور تہذیبی آثار کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ہرات کو یونان کے شہر ایتھنز سے مماثل قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ کابل میوزیم میں سونے، چاندنی، کانسی اور پیتل کے نایاب سکے اور دیگر نوادرات بھی وافر مقدار میں موجود تھے مگر افغان جنگ نے ماضی کے اس قیمتی اثاثے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ روسی فوج کے سپاہیوں نے بھی کابل میوزیم سے کئی نادر اشیاء چوری کی تھیں۔ کابل میوزیم میں پڑی ہوئی مورتیاں، مجسمے، سکندر اعظم کے دور سے تعلق رکھنے والے شیشے کے پیالے اور مچھلی کی شکل کی عطردانیاں، ہاتھی دانت کی مورتیوں کے علاوہ کئی بیش قیمت ظروف موجود تھے۔
افغانستان کے سابق شاہ ظاہر شاہ نے اس تاریخی اور تہذیبی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسا قانون بنایا تھا جس کی وجہ سے کوئی چیز یہاں سے باہر نہیں جاسکتی تھی جس وقت روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور افغانستان کو آگ اور شعلوں میں دھکیل دیا گیا تو اس میں دیگر جانی، مالی اور معاشی نقصان پہنچانے کے علاوہ وہاں کے تاریخی اور تہذیبی ورثے کو بھی کسی نے معاف نہیں کیا۔
2 اپریل 1989ء کو کابل میوزیم سے بہت سی قیمتی نوادرات چوری ہوگئے اور یہ افواہ اڑائی گئی کہ یہ چوری روسی فوج کے چند سپاہیوں نے کی ہے مگر اس وقت کے صدر مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ نے فوراً اس کی تردید کی اور مغربی سفارت کاروں کے سامنے ان نوادرات کی نمائش بھی کی بعدازآں مجاہدین کی آپس میں تخت کابل پر قبضہ جمانے کی دوڑ میں کابل میوزیم میں جو ذخیرہ تھا اسے لوٹ لیا اور عمارت کو شدید نقصان پہنچایا، اگر چہ ؎
سرکٹ گئے جہاد میں لیکن خبر نہیں
کس کے خلاف کون صف آرائیوں میں تھا؟
جینوا معاہدے کے تحت روسی افواج افغانستان سے نکل گئی مگر پھر بھی جہاد جاری رہا اور متحارب گروپوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی جن میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور اربوں روپے کی املاک کو راکھ کا ڈھیر کردیا گیا۔
اس خانہ جنگی اور آپس کے قتل مقاتلے میں افغانستان کے ہزاروں سالہ قدیم آثار اور نوادرات کو بھی تباہ کردیا گیا اور جس کے حصے میں جو بھی آیا اسے مال غنیمت سمجھ کر اپنے ساتھ لے گیا، کسی بھی جہادی گروپ نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے قدیم تاریخی اور تہذیبی ورثے کو تباہ کررہے ہیں اور نہ کسی کو یہ معلوم تھا کہ میوزیم میں موجود ان قیمتی نوادرات اور آثار کی مالیت عالمی منڈی میں کئی ملین ڈالر ہے۔
طالبان کے گذشتہ دور حکم رانی میں افغانستان کے دیگر تاریخی آثار کے علاوہ بامیان کے بتوں کو بھی بارود سے اڑایا گیا جو بدھ مت تہذیب کی یادگار تھے۔ بامیان کے بتوں کو دنیا بھر میں شہرت حاصل تھی۔ وادی بامیان کابل سے شمال مغرب کی طرف 80 میل کے فاصلے پر برف پوش کوہ باپا کے دامن میں واقع ہے۔ بامیان کا شمار چوں کہ بدھوں کے اہم ترین اور متبرک مراکز میں ہوتا ہے اس لیے یہاں ہر سال کئی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے رہے ہیں۔
افغانستان کی سر زمین پر جتنے بھی بیرونی حملہ آور اور فاتحین آئے ہیں ان میں کسی نے بھی بامیان کے بتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی اس پر تعرض کیا۔ امیر امان اللہ خان نے ان بتوں کی حفاظت اور بچائو کے لیے مجسموں کے نزدیک سرائے اور دکانوں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا اور بامیان کے آثار کو قومی ملکیت قرار دیا بعد کے دور میں افغانستان پر جتنے بھی حکم راں آئے ہیں ہر حکم راں اور اس کی جماعت نے افغانستان کے قدیم آثار اور نوادرات کی نہ صرف حفاظت کی بل کہ وقتاً فوقتاً مختلف مقامات اور علاقوں میں نئی کھدائی کا کام کرکے ان آثار میں مزید اضافہ بھی کیا اس طرح بعد بھی میں افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے جتنے بھی گروپ برسراقتدار آئے تھے۔
ان میں کسی بھی گروپ نے بامیان کے بتوں کو اپنے مذہبی عقیدے یا گناہ اور ثواب کے ترازو میں نہیں تولا مگر جس وقت طالبان برسراقتدار آئے تو انہوں نے ان بتوں کو اپنے مذہبی گز سے ناپنے کا اعلامیہ جاری کرکے افغانستان کے اس قومی، تاریخی اور تہذیبی ورثے کو تباہ کردیا جس پر کئی ممالک کے لاکھوں بدھ مت کے پیروکاروں اور انسانی تہذیب اور قدیم آثار سے محبت کرنے والوں نے شدید احتجاج کیا مگر طالبان نے کسی کی نہیں سنی اور دنیا کے ان طویل القامت مجسموں جس کی لمبائی 53 میٹر اور چوڑائی35 میٹر تھی، کو مارچ 2001ء میں پوری دنیا کی اپیلوں کے باوجود بارود سے اڑادیا۔
اس کے علاوہ ہرات کے عجائب گھر کو بھی طالبان اپنے گذشتہ دور حکم رانی میں نہیں بخشا اور وہاں پڑے ہوئے قدیم ترین مجسمے، گل دان اور دیگر قیمتی نوادرات لوٹ لیے۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود نہ تو طالبان افغانستان کو ایک مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال سکے اور نہ ہی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے میں کام یاب ثابت ہوئے کیوں کہ بظاہر اگر کوئی کسی بت پرست کے سامنے پڑے بت توڑ بھی ڈالے مگر اس کے ذہن اور دل میں اپنے بتوں کے ساتھ جو عقیدت اور محبت قائم ہے اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
طالبان کے گذشتہ دور میں تعلیمی اور اقتصادی نقصان کے علاوہ افغانستان کو جو تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی نقصان اور بحران سے دوچار ہونا پڑا اس کی تلافی ممکن اس لیے نہیں کہ وہ تمام قیمتی آثار اور نوادرات افغانستان سے اسمگل ہوکر پاکستان، عرب امارات اور مغربی ممالک تک پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اگر یہ سچ ہو تو قانوناً اور اخلاقاً ان نوادرات اور آثار کو واپس افغانستان کی حکومت کے حوالے کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ان لوگوں کی قدیم تاریخ اور تہذیب کا ایک قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہے اس سے افغانستان کے پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ دوستی کا بندھن اور بھی مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذاں دے رہا ہوں