کوچۂ سخن

کاش اتروں تمہارے چاک سے میں؛<br /> خود سے مل پاؤں انہماک سے میں

۔ فوٹو : فائل

PAKPATTAN:

غزل
کاش اتروں تمہارے چاک سے میں
خود سے مل پاؤں انہماک سے میں
ہائے اس شخص کی وہ جھیل آنکھیں
ان میں گرتا ہوا چھپاک سے میں
مجھ میں رکھی گئی تھیں دنیائیں
یونہی پھوٹا نہیں تھا خاک سے میں
تو زمانے کا ہونے والا تھا
بیچ میں آ گیا کھٹاک سے میں
گئی بے فائدہ رفو کاری
جھانکتا ہوں اک ایک چاک سے میں
اور پھر زندگی میں آپ آئے
پہلے رہتا تھا ٹھیک ٹھاک سے میں
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)


۔۔۔
غزل
عشق وحشت نشاں مکمل ہے
ورنہ کچھ بھی کہاں مکمل ہے؟
چائے ہے، شاعری ہے اور تم ہو
میرا سارا جہاں مکمل ہے
تو ہے گر سامنے تو لگتا ہے
چاند آدھا کہاں، مکمل ہے
میں محبت سے بھاگ نکلی ہوں
اب مرا امتحاں مکمل ہے
آپ کا زکر گر نہ آئے تو!
پھر غزل بھی کہاں مکمل ہے
ہجر لکھتے ہی یوں لگا ایماںؔ
جیسے کارِ زیاں مکمل ہے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
پرانے وقت کی اک رسم کو نبھاتے ہوئے
ہمارے ساتھ جلے ہیں دیے، جلاتے ہوئے
مرا تو شہر میں دشمن نہیں تھاکوئی بھی
میں زخم زخم ہوا ہوں تجھے بچاتے ہوئے
یہ بادشاہوں کے قصّے تمام جھوٹے ہیں
تو سوگوار نہ ہو داستاں سناتے ہوئے
ہر ایک لمحہ مرے امتحاں کا لمحہ ہے
میں ٹوٹ پھوٹ رہا ہوںتجھے بھلاتے ہوئے
یہ میری ماں کی دعاؤں کا ہے اثر شاید
کہ اپنے حرف بھی دیکھے ہیں جگمگاتے ہوئے
وہ جانتا ہے ضرورت میری حسین اختر
سو شرم آتی ہے دستِ دعا اٹھاتے ہوئے
(حسین اختر۔ بل کسر، چکوال)


۔۔۔
غزل
مانا اداسیوں کا سبب پوچھتے ہیں وہ
جب شہر سارا جان لے تب پوچھتے ہیں وہ
ہر شام بھول جاتے ہیں حرماں نصیبیاں
ہر صبح مجھ سے قصۂ شب پوچھتے ہیں وہ
جب انتہائے کرب کی منزل گزر گئی
بربادیوں کی داستاں اب پوچھتے ہیں وہ
بتلائے کوئی عشق کی ہوتی ہے ذات کیا
مجنوں سے اس کا نام و نسب پوچھتے ہیں وہ
رکھتے ہیں رکھ رکھاؤ کا ہر حال میں خیال
بازارِ زر میں دل کی طلب پوچھتے ہیں وہ
کیسے ہمیں نہ فخر ہو اس التفات پر
ہر ایک سے تو حال بھی کب پوچھتے ہیں وہ
جاذب ؔ ہزار پرسش ِ احوال سب کریں
دل کو قرار آتا ہے جب پوچھتے ہیں وہ
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)


۔۔۔
غزل
نقالی کی حد اور وہ
پھر بھی ٹھگنا قد اور وہ
ایک وطن میں رہتے ہیں
کیونکر یہ سرحد اور وہ
لہجہ نرم ملائم تھا
اب کیوں شد و مد اور وہ
مصرعوں میں سے ڈھونڈے عیب
اتنی رد و کد اور وہ
چہرے پر مسکان لیے
دل میں بغض و کد اور وہ
اچھے جوانی سے بھی لگیں
ڈھلتے خال و خد اور وہ
بچپن کے ساتھی میرے
اک بوڑھا برگد اور وہ
(عنبرین خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
کھڑی ہیں گھر میں دیواریں تو بیٹے لڑ پڑے ہوں گے
خبر ہوتی ہے ماؤں کو جگر کے دو دھڑے ہوں گے
ہواؤں کی طرح وہ بھی کسی دن لوٹ آئے گا
درختوں کی طرح ہم بھی جگہ اپنی کھڑے ہوں گے
ہمیں وہ پھول کہتا ہے تو اک دن سوکھ جائیں گے
کہیں پر شاعری کی پھر کتابوں میں پڑے ہوں گے
ذرا سی بات پر اب تو یہ دنیا روٹھ جاتی ہے
کسی دن اس کے ماتھے پر ستاروں سے جڑے ہوں گے
ہمیشہ ماں نے لوری میں محبت ہی سکھائی تھی
سیاست سیکھ جائیں گے وہ جیسے ہی بڑے ہوں گے
ابھی بارش کا موسم ہے تو ہم مٹی کے کوزے ہیں


کبھی صحر ا نوردوں کے لیے ٹھنڈے گھڑے ہوں گے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
بوقت شام چراغوں کا اہتمام ہوا
جو وقت طے تھا اسی پر ہمارا نام ہوا
اذانِ فجر نے شب کا سکوت توڑ دیا
یوں ایک عہدِ اذیت کا اختتام ہوا
نہ گفتگو کا ہنر ہے نہ خواہش دیدار
یہ کیسے موڑ پہ ملنے کا انتظام ہوا
گزرتے وقت نے میرے نقوش خاک کیے
عمارتوں کی طرح میرا انہدام ہوا
ہزاروں لوگ تھے دل کے قریب تر لیکن
فقط جناب کی خواہش کا احترام ہوا
ہماری چھوڑیے ہم تو ہیں راندہ درگاہ
بتائیے ہمیں درباریوں کا کام ہوا؟
(سبحان خالد ۔تلہ گنگ)


۔۔۔
غزل
غبارِ دشت ہوں، میرا ہے انتظار کسے
مرے وجود نے کرنا ہے بیقرار کسے
یہ دل سمجھتا ہے کس کس کے دل میں نفرت ہے
تمہارے ساتھ میں لگتا ہوں ناگوار کسے
یہ کس کی یاد میں کلیاں نہال ہوتی ہیں
تلاش کرتی ہے آنگن کی یہ بہار کسے
نظر سمجھتی نہیں ہے فریبِ دنیا کو
دکھائی دیتا ہے دھوکہ یہ بار بار کسے
خیال و خواب کی دنیا سجانے والی سن
ترے خیال پہ ہوتا ہے اختیار کسے
تمہارے عشق میں ڈوبا ہے کس کا دل احمد
تمہارے نام نے کر ڈالا اشکبار کسے
(احمد حجازی۔ لیاقت پور، رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
اِک کٹھن راہ بلائے ہے کمال ہونے تک
ہجر کی آگ جلائے ہے وصال ہونے تک
جس طرح ساتھ چلے اوجِ ثریا سب ہی
کون یوںساتھ نبھائے ہے زوال ہونے تک
دیکھ کر لاش مری پوچھ نہ اُس شوخ کاحال
اک ہنسی ہونٹ پہ آئے ہے ملال ہونے تک
مثلِ گُل تم بھی مہکنے سے یہ پہلے سوچو
خاکِ پا خوب ستائے ہے گلال ہونے تک
وقت کی لَے پہ آنکھوں کو کئے بند مُعانؔ
سانس ساکن ہوئے جائے ہے دھمال ہونے تک
(عامرمُعان۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
رات پھر سارا جہاں روشن ہوا
چاند نکلا آسماں روشن ہوا
آخری لمحے تمہارے پاس تھا
پھر نجانے میں کہاں روشن ہوا
بارہ تھی تاریخ دن تھا پیر کا
دہر مثل کہکشاں روشن ہوا
خلد کی خوشبورہی ہے رات بھر
ماں کے آنچل سے مکاں روشن ہوا
رات خلوت میں خدا سے بات کی
مجھ پہ جو کچھ تھا نہاں،روشن ہوا
اک شجر کٹتے ہوئے دیکھا گیا
غم برائے رفتگاں روشن ہوا
(نور تنہا۔کراچی)


۔۔۔
غزل
کچھ بھی نہیں لکھوں گا میں شہرت کے واسطے
میرا قلم اٹھے گاصداقت کے واسطے
میں سچ کہوں گا جان کی پروا کیے بغیر
حاضر ہے میری جان شہادت کے واسطے
بس چودہ فروری ہی نہیں ہے مرے عزیز
اک دن نہیں بنا ہے محبت کے واسطے
سوچو کہ کچھ بھی فائدہ ہوگا نہ اس گھڑی
جب کچھ نہیں بچے گا ملامت کے واسطے
بس ایک بات میں ہی تعلق کا ہے بھرم
ہم چھوڑ دیں انا کو عقیدت کے واسطے
یوسفؔ کو یاالٰہی وہ زورِ قلم بھی دے
لکھتا رہے ہمیشہ حقیقت کے واسطے
(یوسف عابدی۔ کراچی)


۔۔۔
غزل
ہزار ہا درد و غم کی شمعیں فسردہ سینوں میں جل رہی ہیں
چمن میں کیا دھول اڑ رہی ہے، ہوائیں کیسی یہ چل رہی ہیں
مگن سے رہتے ہیں اس قدر ہم ، حیاتِ تازہ کی خوش دلی میں
فضائیں عالم میں سرعتوں سے نئی رتوں میں بدل رہی ہیں
عجب سیاست بھری فضاہے، جلی کٹی سچی جھوٹی باتیں
ہمارے حساس سے دلوں پر بجائے نشتر کے چل رہی ہیں
کہیںیقیں میں بدل نہ جائے حیاتِ امروز کا تسلسل
چراغِ تہذیب بجھ رہے ہیں دعائیں اشکوں میں ڈھل رہی ہیں
یہ تار ظلمت کے ٹوٹ جائیں، نکھار عالم میں پھر سے آئے
چمن میں لے کربہار آئیںجو حسرتیں دل میں پل رہی ہیں
غریب آہوں میں سسکیوں میں ہیں رہتے جاویدؔ تلملاتے
کہ قوتیں جبر کی مسلسل انہیں کے ارماں کچل رہی ہیں
(اقبال احمد جاوید ہاشمی۔ ملتان)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story