قومی مکالمہ کی اہمیت و افادیت

ہماری جتنی بھی جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں انھیں اس موقع پر احتیاط کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہوگا

ہماری جتنی بھی جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں انھیں اس موقع پر احتیاط کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

کراچی:
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ''سازش'' کا کوئی ذکر نہیں ، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔

ان خیالات کے اظہار ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردارکشی کسی طور قبول نہیں، تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ہماری سیاسی قیادت آستینیں چڑھائے، ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں تو اس ماحول میں عسکری ترجمان کا یہ طرز عمل، سیاست میں موجود شدت اور حدت کو کم کرنے کی مخلصانہ کوشش ہے۔

پاکستان کے اندر ایک وسیع تر قومی مکالمہ کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ پریس کانفرنس ملک کی موجودہ صورتحال پر ابہام اور پروپیگنڈے کا توڑ ثابت ہوئی ہے ، صحافیوں نے درجن سے زائد سوالات کیے اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہر سوال کا جواب تحمل اور بردباری سے دیا۔

عمومی طور پر آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنسوں میں حتی الوسع آن دی ریکارڈ سیاسی گفتگو نہیں کی جاتی، لیکن اس بار زیادہ تر سوالات ملک میں جاری سیاسی منظر نامے ، سیاسی کشیدگی اور نئے بیانیے کی تشکیل کے حوالے سے اٹھائے گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا کہ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیانات کی نفی کی جائے گی اور فوج کے حوالے سے جاری مہم کا جارحانہ انداز میں جواب نہیں دیا جائے گا۔

جب بابر افتخار صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے تھے، تو جواب میں سابق وزیراعظم عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا تو انھوں نے واضح کیا کہ یہ بات سابق وزیراعظم نے ایک انٹرویو میں اینکر کو کہی تھی مگر امریکا نے اڈے نہیں مانگے تھے اور مانگتا تو پاکستانی فوج کا بھی یہی جواب ہوتا کہ ایبسلوٹلی ناٹ۔ جیسا کہ فوجی ترجمان نے واضح کیا کہ واقعی اعلامیے میں دھمکی یا امریکی سازش کا ذکر نہیں تھا مگر سابق وزیراعظم عمران خان اپنے جلسوں میں بار بار کہتے ہیں کہ ان کے خلاف امریکا نے سازش کی اور اپوزیشن اس کا حصہ بن کر تحریک عدم اعتماد لائی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب تک الزامات اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر کسی کو بھی سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے،ایسے رویوں سے ملک میں تصادم پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور خارجہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو ملکی معیشت اور عالمی ساکھ کے لیے شدید نقصان کا سبب ہوں گے،کسی سیاسی جمہوری عمل میں آزادی رائے کا اظہار بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور کوئی بھی جمہوریت پسند اس حق کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوسکتا۔

تاہم کسی سیاسی پارٹی کی ایسی الزام تراشی کی روک تھام ہونی چاہیے جس کے بارے میں صورتحال شک و شبہ کا شکار ہو اورجس میں اداروں اور بین الملکی تعلقات کو نشانہ بنا کر سیاسی فوائد سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ کسی بھی اپوزیشن سیاستدان کو حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی مخالفین اور حکومت کے خلاف قانونی اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے مہم جوئی کرے ،پی ٹی آئی کو بھی اس پالیسی میں خود ہی بعض ریڈ لائنز کا تعین کرنا پڑے گا ورنہ یہ رویہ ملکی نظام ہی نہیں بلکہ معاشی و سفارتی سطح پر اس کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ لہٰذا بابر افتخار کی پریس کانفرنس سے دھند صاف ہوگئی ہے ۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بریفنگ میں کہا کہ پاک فوج کے ترجمان کے بیان سے متفق ہیں۔ سازش سے متعلق ہمارا پیغام اور موقف واضح ہے۔


پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے بلکہ پرامن جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کوسپورٹ کرتے ہیں۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکا پر لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے، انھوں نے میاں شہباز شریف کو پارلیمنٹ سے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مبارکباد دی تھی اور وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان اور خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

امریکا، اکلوتی سپر پاور ہونے کی حیثیت سے تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں پوری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یادش بخیر! امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سابق صدر ٹرمپ کے حامی مسلح جتھوں کی کیپیٹل ہل پر چڑھائی نے دنیا بھر میں سیاست دانوں کا مقدمہ کمزورکر دیا تھا ، اگر جمہوریت کی علامت، امریکا میں اقتدارکو بزور قوت قائم رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے تو پاکستان سمیت ترقی پذیر ملکوں میں اس طرز عمل کو بھی مزید تقویت مل سکتی ہے۔

سفید فام شدت پسندوں کی جارحیت نے نہ صرف امریکی جمہوریت کوکٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا ، بلکہ جمہوریت کے چہرے پر کالک بھی مل دی تھی ۔ امریکی سیاست میں ٹرمپ کے مداحین نے بھی تیسری دنیا کے لیڈروں کے مداحین جیسا رویہ اختیار کیا تھا۔ ان کی بھڑکائی آگ 6جنوری 2021ء کے دن امریکی پارلیمان پر یلغار کا باعث ہوئی۔ ٹرمپ نے اس یلغار کی مذمت سے گریز کیا۔

اس کی رعونت بھری بے اعتنائی نے ٹویٹر اور فیس بک کو اسے اپنے پلیٹ فارموں پر بین کرنے کو مجبورکردیا۔ امن وسکون کے متلاشی سوشل میڈیا کی اجارہ دار کمپنیوں کو مسلسل مجبورکررہے ہیں کہ وہ ٹویٹر اور فیس بک پر لوگوں کو غلط اطلاعات سے گمراہ کرنے اور اشتعال دلانے والی تحریروں اور تقاریر کو روکنے کا نظام وضع کریں۔ گہری تحقیق کے بعد کئی جدید ماہرین نفسیات بھی صارفین سے التجا کررہے ہیں کہ وہ اگر پُر سکون زندگی کے خواہاں ہیں تو سوشل میڈیا سے کم از کم رجوع کرنے کی عادت اپنائیں۔ برداشت مگر عرصہ ہوا ہم کھو بیٹھے ہیں۔ دلیل کے بجائے دشنام کے عادی بن گئے ہیں۔

بات مگر اب روایتی اور سوشل میڈیا پر توتکار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے مداحین اپنے مخالفین کی برسر عام '' بے عزتی'' کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس رویے کا ردعمل بھی شدید تر ہوگا۔

میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ فوج کے خلاف استعمال ہونے والی زبان کا حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔ کوئی مارشل لاء نہیں کیونکہ ملک کا مستقبل جمہوریت میں ہے۔ یہ پاک فوج نہیں جو کسی کو این آر او دے اور سوال کیا کہ کیا جو کچھ ہوا وہ آئین کے مطابق تھا۔ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف نے 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کی جیسا کہ بی بی سی نے دعویٰ کیا اور بی بی سی کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر تمام پروپیگنڈا محفوظ بھی رہتا ہے نیز اس وجہ سے بار بار اور ہر وقت اس پروپیگنڈا کی اثر انگیزی رہتی ہے۔ نوجوان نسل کے ذہنوں کو اس منفی اثر پذیری کے اثرات سے بچانا قومی وملی فریضہ ہے، لہٰذا ہمیں قومی سطح پر ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہے، کہ اس منفی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکے۔

اس وقت ملکی حالات کسی بھی طور پر بہتر نہیں ہیں۔ ہماری جتنی بھی جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں انھیں اس موقع پر احتیاط کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہوگا ، احتجاج کرنا اپوزیشن کا آئینی حق ہے، محتاط انداز میں آگے بڑھیں، احتجاج کے چکر میں کچھ اور ہی ہوگیا تو پھر ملک بہت پیچھے چلا جائے گا۔

ہمیں تاحال دہشت گردی اور دیگر مسائل کا سامنا ہے، اور اسی کی آڑ میں دشمن ہمیں کبھی دہشت گرد ملک قرار دینا چاہتا ہے تو دوسری جانب ڈیپ اسٹیٹ کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے، اس سے پہلے کہ بیرونی طاقتیں ہماری صورتحال کا فائدہ اٹھائیں، پاکستانی سیاستدان خود مل بیٹھ کر نیا عمرانی معاہدہ طے کرلیں ، یہ وطن ہمارا ہے اور ہم سب اس کے پاسبان ہیں ، ہمیں یہ قومی ذمے داری پوری کرنی ہے۔
Load Next Story