گلیوں کے تارے
صرف گلیوں کے ان تاروں کو دیکھنا ہو تو ہر گلی، ہر سڑک، ہر چوراہے، ہر بازار، پلوں کے نیچے، فٹ پاتھوں پر یہ نظر آجائیں گے
2002 کی بات ہے یہی اپریل کا مہینہ تھا ، ہر سال اپریل کی 12 تاریخ کو ہی گلیوں کے بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی 12 اپریل کو ''اسٹریٹ چلڈرن'' کے نام سے عالمی دن منایا گیا ۔
پاکستان میں ایسے بچوں کی صحیح تعداد نہیں معلوم کی جا سکی۔ یہ وہ بچے ہیں اور بچیاں ہیں جن کے نہ گھر بار، نہ آشیانہ، نہ جھونپڑی، نہ کوئی عارضی پناہ گاہ، نہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ ، نہ کھانے پینے کا کوئی بندوبست، گندگی کے ڈھیر سے، کوڑے دانوں سے نکال کر روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے مل گئے، کہیں سے پانی کے ایک دو گھونٹ پی لیے، اسی پر صبر شکر کر لیا۔ انھیں اپنے والدین کا پتا نہیں کہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں۔
ان کے والدین کو نہیں پتا کہ ان کے جگر گوشے کہاں کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے۔ ہر سال سرکار کی طرف سے کچھ رقم مخصوص کردی جاتی ہے۔ وہ کیسے خرچ ہوتی ہے کن پر خرچ ہوتی ہے کتنے بچے اس سے مستفید ہوتے ہیں کتنے اسٹریٹ چلڈرن کی حالت تبدیل ہوئی اور اس میں ہر دن اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے ان کی کہیں شنوائی نہیں ہے، کہیں بلایا جاتا ہے کہ ان کا حال دل سنیں۔
ان کے نام پر کانفرنس بلالی جاتی ہے، سرکاری خرچ پر ہی نہیں بلکہ ان کے نام کے فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے ایسے اجلاس کے مواقعوں پر چائے بسکٹ، پیسٹریاں وغیرہ اڑا لی جاتی ہیں۔ میں 2002 کی بات کر رہا ہوں جب مجھے بچوں کی فلاح و بہبود اسٹریٹ چلڈرن سے متعلق چائلڈ لیبر سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ ان میں بزرگ بھی تھے، ادھیڑ عمر بھی تھے، سوٹڈ بوٹڈ نوجوان بھی تھے۔
لیکن آپ یقین مانیے میں نے بہت ڈھونڈا تلاش کیا ایک بھی اسٹریٹ چلڈرن ایک بھی چائلڈ لیبر موجود نہیں تھا۔ اور ابھی تک کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق بہت تقاریر ہوئیں، بہت سی تجاویز پیش کی گئیں، اخراجات کی تفصیل بھی پیش کی گئی، یقینا بچوں کے نام پر خرچ کیا جاتا ہے لیکن شاید بچوں پر بہت کم یا برائے نام خرچ کیا جاتا ہو۔ یہ بچے اور بچیاں زیادہ تر بھیک منگوانے والے مافیاز کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور زندگی بھر بھیک مانگتے، مانگتے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کے بچوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں اور بوڑھوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ملک میں کئی فلاحی ادارے موجود ہیں جہاں ایسے بچوں کو پناہ دی جاتی ہے اور بوڑھوں کی بھی خبر گیری کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود گھروں سے بھاگے ہوئے یا اسکول میں استادوں کی مارپیٹ سے بھاگے ہوئے بچوں یا ماں باپ سے بچھڑے ہوئے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر حکومت اپنے بعض فضول اخراجات کے لیے اربوں روپے مختص کردیتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا کہ جو بچے گم ہوگئے یا اغوا ہوگئے یا کسی وجہ سے کسی ماں سے اس کا لخت جگر دور ہو گیا یا چھین لیا گیا ہو، ان بچوں کو ماں باپ سے ملوانے کے چند واقعات کے سوا حکومتی مشینری اس بارے میں متحرک نہیں ہوتی۔ کچھ ادارے قائم ہیں لیکن پھر بھی ہزاروں لاکھوں بچے بے آسرا بے سہارا ہیں۔ جن کو اسٹریٹ چلڈرن کہا جاتا ہے۔ ان کو گلیوں سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن میں ان کو گلیوں کے تارے کہتا ہوں۔ کیونکہ یہ راج دلارے، پیارے اپنے ماں باپ کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ ان میں کئی یتیم ہیں لیکن کیا ان کے دیگر رشتہ دار موجود نہیں ہیں۔
بہت سے ایسے ہیں جن کے والدین ہیں یا ان میں سے کوئی ایک ہے لیکن دونوں کو نہیں معلوم کون کہاں ہے۔ ان کو ملانے کے لیے کچھ اخراجات آتے ہیں، وہ اخراجات حکومت کے ذمے ہیں، اور یہ کام مرکزی حکومت کے ذمے ہونا چاہیے کیونکہ معلوم نہیں کس علاقے کا بچہ پاکستان کے کس علاقے میں رل رہا ہے۔ اسے والدین سے ملوانا ریاست کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے۔
بعض ادوار میں حکومت کی طرف سے کچھ سرگرمیاں رہی ہیں لیکن اس وقت تک مرکزی حکومت کو بھاگ دوڑ جاری رکھنی چاہیے جب تک ایک ایک بچہ یا بچی اپنے والدین یا عزیز و اقارب تک نہ پہنچ جائے، مرکزی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں ضلع انتظامیہ اور پولیس ان تمام کو اس بارے میں انتہائی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کے علاوہ معاشرے میں ایسے نوجوان، ادھیڑ عمر اور بڑی عمر کے مرد و زن موجود ہیں جو فٹ پاتھوں، گلیوں، نیم تاریک جگہوں پر کہیں خانہ بدوشی کی حالت میں، کہیں گھاس، چٹائی تنکوں سے بنائی جھونپڑیوں میں اور کس کس طریقے سے انتہائی خستہ حالی میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
خاص طور پر بوڑھے افراد کی حالت بھی خستہ حال ہے اور حکومت کو ایسے فلاحی اداروں، فلاحی سرگرمیوں کا جذبہ رکھنے والے افراد، گروپ، کمپنیز اور جو کوئی بھی کسی طور پر نادار بچوں، بے آسرا افراد، اپاہج لوگوں اور بوڑھوں کی خبر گیری کر رہا ہو، حکومت ان کے ذریعے سے ان بچوں اور بوڑھوں کو امداد فراہم کرے، کچھ امدادی مراکز قائم کیے گئے ہیں لیکن میں اس جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ صرف سیکڑوں کا انتظام کردینا اس کی تشہیر کرنا کافی نہیں ہے۔
صرف گلیوں کے ان تاروں کو دیکھنا ہو تو ہر گلی، ہر سڑک، ہر چوراہے، ہر بازار، پلوں کے نیچے، فٹ پاتھوں پر یہ نظر آجائیں گے۔ وسیع پیمانے پر ریاست کو ان کی فلاح و بہبود کی خاطر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چائلڈ لیبر ڈے کا یہی مقصد ہے۔
پاکستان میں ایسے بچوں کی صحیح تعداد نہیں معلوم کی جا سکی۔ یہ وہ بچے ہیں اور بچیاں ہیں جن کے نہ گھر بار، نہ آشیانہ، نہ جھونپڑی، نہ کوئی عارضی پناہ گاہ، نہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ ، نہ کھانے پینے کا کوئی بندوبست، گندگی کے ڈھیر سے، کوڑے دانوں سے نکال کر روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے مل گئے، کہیں سے پانی کے ایک دو گھونٹ پی لیے، اسی پر صبر شکر کر لیا۔ انھیں اپنے والدین کا پتا نہیں کہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں۔
ان کے والدین کو نہیں پتا کہ ان کے جگر گوشے کہاں کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے۔ ہر سال سرکار کی طرف سے کچھ رقم مخصوص کردی جاتی ہے۔ وہ کیسے خرچ ہوتی ہے کن پر خرچ ہوتی ہے کتنے بچے اس سے مستفید ہوتے ہیں کتنے اسٹریٹ چلڈرن کی حالت تبدیل ہوئی اور اس میں ہر دن اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے ان کی کہیں شنوائی نہیں ہے، کہیں بلایا جاتا ہے کہ ان کا حال دل سنیں۔
ان کے نام پر کانفرنس بلالی جاتی ہے، سرکاری خرچ پر ہی نہیں بلکہ ان کے نام کے فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے ایسے اجلاس کے مواقعوں پر چائے بسکٹ، پیسٹریاں وغیرہ اڑا لی جاتی ہیں۔ میں 2002 کی بات کر رہا ہوں جب مجھے بچوں کی فلاح و بہبود اسٹریٹ چلڈرن سے متعلق چائلڈ لیبر سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ ان میں بزرگ بھی تھے، ادھیڑ عمر بھی تھے، سوٹڈ بوٹڈ نوجوان بھی تھے۔
لیکن آپ یقین مانیے میں نے بہت ڈھونڈا تلاش کیا ایک بھی اسٹریٹ چلڈرن ایک بھی چائلڈ لیبر موجود نہیں تھا۔ اور ابھی تک کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق بہت تقاریر ہوئیں، بہت سی تجاویز پیش کی گئیں، اخراجات کی تفصیل بھی پیش کی گئی، یقینا بچوں کے نام پر خرچ کیا جاتا ہے لیکن شاید بچوں پر بہت کم یا برائے نام خرچ کیا جاتا ہو۔ یہ بچے اور بچیاں زیادہ تر بھیک منگوانے والے مافیاز کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور زندگی بھر بھیک مانگتے، مانگتے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کے بچوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں اور بوڑھوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ملک میں کئی فلاحی ادارے موجود ہیں جہاں ایسے بچوں کو پناہ دی جاتی ہے اور بوڑھوں کی بھی خبر گیری کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود گھروں سے بھاگے ہوئے یا اسکول میں استادوں کی مارپیٹ سے بھاگے ہوئے بچوں یا ماں باپ سے بچھڑے ہوئے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر حکومت اپنے بعض فضول اخراجات کے لیے اربوں روپے مختص کردیتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا کہ جو بچے گم ہوگئے یا اغوا ہوگئے یا کسی وجہ سے کسی ماں سے اس کا لخت جگر دور ہو گیا یا چھین لیا گیا ہو، ان بچوں کو ماں باپ سے ملوانے کے چند واقعات کے سوا حکومتی مشینری اس بارے میں متحرک نہیں ہوتی۔ کچھ ادارے قائم ہیں لیکن پھر بھی ہزاروں لاکھوں بچے بے آسرا بے سہارا ہیں۔ جن کو اسٹریٹ چلڈرن کہا جاتا ہے۔ ان کو گلیوں سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن میں ان کو گلیوں کے تارے کہتا ہوں۔ کیونکہ یہ راج دلارے، پیارے اپنے ماں باپ کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ ان میں کئی یتیم ہیں لیکن کیا ان کے دیگر رشتہ دار موجود نہیں ہیں۔
بہت سے ایسے ہیں جن کے والدین ہیں یا ان میں سے کوئی ایک ہے لیکن دونوں کو نہیں معلوم کون کہاں ہے۔ ان کو ملانے کے لیے کچھ اخراجات آتے ہیں، وہ اخراجات حکومت کے ذمے ہیں، اور یہ کام مرکزی حکومت کے ذمے ہونا چاہیے کیونکہ معلوم نہیں کس علاقے کا بچہ پاکستان کے کس علاقے میں رل رہا ہے۔ اسے والدین سے ملوانا ریاست کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے۔
بعض ادوار میں حکومت کی طرف سے کچھ سرگرمیاں رہی ہیں لیکن اس وقت تک مرکزی حکومت کو بھاگ دوڑ جاری رکھنی چاہیے جب تک ایک ایک بچہ یا بچی اپنے والدین یا عزیز و اقارب تک نہ پہنچ جائے، مرکزی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں ضلع انتظامیہ اور پولیس ان تمام کو اس بارے میں انتہائی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کے علاوہ معاشرے میں ایسے نوجوان، ادھیڑ عمر اور بڑی عمر کے مرد و زن موجود ہیں جو فٹ پاتھوں، گلیوں، نیم تاریک جگہوں پر کہیں خانہ بدوشی کی حالت میں، کہیں گھاس، چٹائی تنکوں سے بنائی جھونپڑیوں میں اور کس کس طریقے سے انتہائی خستہ حالی میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
خاص طور پر بوڑھے افراد کی حالت بھی خستہ حال ہے اور حکومت کو ایسے فلاحی اداروں، فلاحی سرگرمیوں کا جذبہ رکھنے والے افراد، گروپ، کمپنیز اور جو کوئی بھی کسی طور پر نادار بچوں، بے آسرا افراد، اپاہج لوگوں اور بوڑھوں کی خبر گیری کر رہا ہو، حکومت ان کے ذریعے سے ان بچوں اور بوڑھوں کو امداد فراہم کرے، کچھ امدادی مراکز قائم کیے گئے ہیں لیکن میں اس جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ صرف سیکڑوں کا انتظام کردینا اس کی تشہیر کرنا کافی نہیں ہے۔
صرف گلیوں کے ان تاروں کو دیکھنا ہو تو ہر گلی، ہر سڑک، ہر چوراہے، ہر بازار، پلوں کے نیچے، فٹ پاتھوں پر یہ نظر آجائیں گے۔ وسیع پیمانے پر ریاست کو ان کی فلاح و بہبود کی خاطر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چائلڈ لیبر ڈے کا یہی مقصد ہے۔