بھارت کی خود مختار خارجہ پالیسی کا پس منظر
مودی نے جو غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کیا ہے وہ گاندھی، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کی پالیسیوں کا ورثہ ہیں
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقاریر میں بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کی تعریف کی مگر اس پالیسی کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ناقدین نے فوری طور پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بھارت کی خارجہ پالیسی کے پاکستان دشمن حصہ کو بیان کرنا شروع کیا۔ بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کے محرکات کا جائزہ لے کر ہم کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ہندوستان کی پہلی سیاسی جماعت کانگریس کو ایک انگریز نے 1885 میں قائم کیا تھا ، مگر انگریز حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہندوستان میں متوسط طبقہ پیدا ہوا۔ متوسط طبقہ کا ایک حصہ تو سامراجی حکومت کے نظام کا حصہ تھا اور سیاسی طور پر باشعور حصہ نے ہندوستان کی آزادی کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس گروہ نے سب سے پہلے کانگریس پر توجہ دی۔ تلک ، حسرت موہانی، بیرسٹر محمد علی جناح ، پنڈت موتی لعل نہرو وغیرہ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا۔ کانگریس میں ہمیشہ مختلف نوعیت کے رجحانات رہے۔
20 ویں صدی کے پہلے عشرہ میں ہندوستان کی آزادی کا فوری مطالبہ کرنے والے قوم پرست رہنما تلک اور مولانا حسرت موہانی بھی کانگریس میں شامل رہے۔ آزادی کے لیے گوریلا جنگ اور برطانیہ مخالف ممالک سے مدد حاصل کرنے کا نظریہ رکھنے والے سباش چندر بوس ، لالہ لجپت رائے وغیرہ بھی اور عدم تشدد کے ہتھیار پر یقین رکھنے والے مہاتما گاندھی بھی شامل تھے۔
مولانا ابو الکلام آزاد جیسا سیکیولر وژن رکھنے والے قائد اور سوشلسٹ نظریات سے متاثر پنڈت جواہر لعل نہرو بھی کانگریس کے قائد تھے۔ نچلی ذات دلت کے قائد بابا صاحب ڈاکٹر امبیدکر کنگرامی کبھی کانگریس میں شامل اور کبھی ناراض رہے۔ کانگریس کے رہنما گاندھی ، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد سمیت ہزاروں کارکنان نے برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کے تیسرے عشرہ سے کانگریس کو یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کی آزادی یقینی ہے۔ اس بناء پر آزادی کے بعد ملک چلانے پر بحث و مباحثہ شروع کردیا تھا۔ معروف صحافی آئی اے رحمن نے ایک نشست میں بتایا تھا کہ 1945 میں کانگریس نے ہندوستان کے پندرہ سو کے قریب ذہین نوجوانوں کو پی ایچ ڈی کے لیے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بھیجا۔ 40 کی دہائی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرکے واپس آنے والے کمیونسٹ دانشور ڈاکٹر زیڈ احمد (زید الدین) ، ڈاکٹر اشرف ترقی پسند ادبی تحریک کے بانیوں میں ایک پنڈت جواہر لعل نہرو کی ٹیم میں شامل ہے۔
ہندوستان کے بٹوارہ کے ساتھ بھارت دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ آزادی کے اعلان کے ساتھ یہ خطہ بد ترین مذہبی جنونیت کا شکار ہوا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے، کروڑوں افراد دربدر ہوئے مگر کانگریس کی قیادت نے بھارت کی ترقی کے لیے انتہائی بردباری کا ثبوت دیا۔ کانگریس میں سردار پٹیل کی قیادت میں ہندو مذہبی انتہا پسندوں کا ایک مضبوط گروپ موجود تھا اور کانگریس کے کئی رہنما مذہبی انتہا پسند تنظیم ہندو مہا سبھا کے رکن تھے مگر کانگریس نے نئی ریاست کے لیے سیکولر ازم کے عملی نفاذ کا فیصلہ کیا۔
گاندھی جی نے کانگریس اور حکومت کا کوئی بھی عہدہ لینے سے انکار کیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو مکمل اختیارات کے ساتھ وزیر اعظم بنے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو وزیر تعلیم بنا لیا گیا۔ ہندوؤں کے نچلے طبقہ دلت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امبیدکر کو جو گاندھی کی پالیسیوں کے شدید مخالف تھے وزیر قانون کا منصب دیا۔ آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں نئے ملک کا آئین بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہوئی اور ڈاکٹر امبیدکر کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ بھارت کا آئین بنانے کا سارا سہرا ڈاکٹر امبیدکرکو جاتا ہے۔
کانگریس ہمیشہ سے مضبوط مرکز کی حامی تھی مگر کانگریس نے ایک وفاقی آئین بنایا جس میں ریاستوں کو خاصی آزادی دی گئی۔ اس آئین میں بنیادی انسانی حقوق خاص طور پر آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کی ضمانت دی گئی تھی۔ فوج کی اس طرح کی تنظیم نو کی تھی کہ ان ریاستوں کے باشندوں کو بھی نمایندگی ملے جنھیں انگریز حکومت فوج میں شمولیت کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ پنڈت نہرو نے جاگیرداری کے خاتمہ کا فیصلہ کیا۔ حکومت بھارت کے دائرہ کار میں موجود تمام راجہ اور نوابوں کی ریاستیں ختم کردی گئی۔ تعلیم اور صحت کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا۔
ریاست نے تعلیم کی ذمے داری سنبھال لی۔ اس طرح صحت کی سہولتوں کی بھی بنیادی ذمے داری ریاست کی قرار پائی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی پالیسیوں کا محور صنعتی ترقی تھا۔ بھارت کی حکومت نے شروع سے امریکا، یورپی ممالک اور سوویت یونین سے قرضے لیے مگر ان قرضوں کو اداروں کے قیام ، زراعت اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال کیا گیا۔ بھارت نے ساری توجہ برآمدات کی طرف مبذول کی۔ درآمدات پر سخت پابندیاں عائد رہیں۔
اندرا گاندھی کے دور تک بھارت میں اپنی موٹر کار ، اپنی اسکوٹر ، اپنا کولڈ ڈرنک کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا گیا ، جو بھارتی باشندے امریکا ، یورپی ممالک اور خلیجی ممالک میں کام کرتے تھے ان پر پابندی تھی کہ محدود رقم سے ان ممالک کی اشیاء خرید کر اپنے ملک لے جاسکتے تھے۔ بھارتی حکومتوں نے معاشرہ میں بدعنوانی کو ہر ممکن طور پر روکا۔ سرکاری ملازمت میں خواہ وہ فوجی افسر ہی کیوں نہ ہوں بدعنوانی کے قانون کے پابند تھے ، بھارتی فوج کے کردار کو شعوری طور پر محدود رکھا گیا۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اپنی کتاب "Militarinc" میں لکھا ہے کہ بھارت کی وزارت دفاع فیصلوں میں جنرل ہیڈ کوارٹر پر بالا دستی رکھتی ہے ، جب کوئی فوجی سربراہ کسی ہتھیار یا دوسری ضرورت کی خریداری کے لیے ریکوزیشن کردیتا ہے تو وزارت دفاع میں ایک فائل تیار ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر وزیراعظم اور وزارت دفاع کی فائل کے ریمارکس کو ترجیح دیتے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے شروع سے تمام ممالک سے تعلقات قائم کیے۔ پنڈت نہرو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سوشل ازم کے فلسفہ سے متاثر تھے اور سوویت یونین کے قریب تھے ، مگر انھوں نے برطانیہ اور امریکا سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات رکھے۔ نہرو غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔
ان کی خارجہ پالیسی کی خوبی یہ تھی کہ تمام ممالک سے بہترین تعلقات رکھے، بھارت نے سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی تعلقات قائم رکھے اور بادشاہوں کی مخالف عرب ریاستوں سے بھی تعلقات قائم کیے ، فلسطین کاز کی حمایت کی اور اسرائیل کو بھی تسلیم کیا۔
1999 میں کارگل تنازع کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی آئی اور بھارت اور امریکا کے درمیان سول ایٹمی تعاون معاہدہ ہوا مگر بھارت کے روس اور امریکا سے بھی تعلقات میں فرق نہیں آیا ۔ چین کا بھارت سے پرانا سرحدی تنازع ہے مگر چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم اربوں ڈالر کا ہے۔
بھارت کی خارجہ پالیسی کشمیر میں مکمل ناکام رہی ، جو اس خطہ میں نئے تضادات کا سبب بنی۔ مودی کی پالیسیوں سے مسلمان امتیازی سلوک کا شکار ہوئے اور آج آبادی کا ایک حصہ بھارتی ریاست سے مایوس ہے۔ پنڈت نہرو نے آزادئ اظہار کو یقینی بنایا تھا۔ اورن دتی رائے اور جاوید اختر سمیت ادیب، دانشور اور صحافی ہندو انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
بھارت کو آج بھی غربت و افلاس کے خاتمہ کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ مودی نے جو غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کیا ہے وہ گاندھی، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کی پالیسیوں کا ورثہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہندو توا کا ایجنڈا برقرار رکھا تو بھارت کی تباہی یقینی ہے۔
دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ سیکیورٹی اسٹیٹ کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ حکمران اس حقیقت کو محسوس کریں کہ جب تک پاکستان سوشل ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بنے گا ، اس کی پالیسیاں آزاد نہیں ہونگی۔
ہندوستان کی پہلی سیاسی جماعت کانگریس کو ایک انگریز نے 1885 میں قائم کیا تھا ، مگر انگریز حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہندوستان میں متوسط طبقہ پیدا ہوا۔ متوسط طبقہ کا ایک حصہ تو سامراجی حکومت کے نظام کا حصہ تھا اور سیاسی طور پر باشعور حصہ نے ہندوستان کی آزادی کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس گروہ نے سب سے پہلے کانگریس پر توجہ دی۔ تلک ، حسرت موہانی، بیرسٹر محمد علی جناح ، پنڈت موتی لعل نہرو وغیرہ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا۔ کانگریس میں ہمیشہ مختلف نوعیت کے رجحانات رہے۔
20 ویں صدی کے پہلے عشرہ میں ہندوستان کی آزادی کا فوری مطالبہ کرنے والے قوم پرست رہنما تلک اور مولانا حسرت موہانی بھی کانگریس میں شامل رہے۔ آزادی کے لیے گوریلا جنگ اور برطانیہ مخالف ممالک سے مدد حاصل کرنے کا نظریہ رکھنے والے سباش چندر بوس ، لالہ لجپت رائے وغیرہ بھی اور عدم تشدد کے ہتھیار پر یقین رکھنے والے مہاتما گاندھی بھی شامل تھے۔
مولانا ابو الکلام آزاد جیسا سیکیولر وژن رکھنے والے قائد اور سوشلسٹ نظریات سے متاثر پنڈت جواہر لعل نہرو بھی کانگریس کے قائد تھے۔ نچلی ذات دلت کے قائد بابا صاحب ڈاکٹر امبیدکر کنگرامی کبھی کانگریس میں شامل اور کبھی ناراض رہے۔ کانگریس کے رہنما گاندھی ، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد سمیت ہزاروں کارکنان نے برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کے تیسرے عشرہ سے کانگریس کو یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کی آزادی یقینی ہے۔ اس بناء پر آزادی کے بعد ملک چلانے پر بحث و مباحثہ شروع کردیا تھا۔ معروف صحافی آئی اے رحمن نے ایک نشست میں بتایا تھا کہ 1945 میں کانگریس نے ہندوستان کے پندرہ سو کے قریب ذہین نوجوانوں کو پی ایچ ڈی کے لیے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بھیجا۔ 40 کی دہائی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرکے واپس آنے والے کمیونسٹ دانشور ڈاکٹر زیڈ احمد (زید الدین) ، ڈاکٹر اشرف ترقی پسند ادبی تحریک کے بانیوں میں ایک پنڈت جواہر لعل نہرو کی ٹیم میں شامل ہے۔
ہندوستان کے بٹوارہ کے ساتھ بھارت دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ آزادی کے اعلان کے ساتھ یہ خطہ بد ترین مذہبی جنونیت کا شکار ہوا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے، کروڑوں افراد دربدر ہوئے مگر کانگریس کی قیادت نے بھارت کی ترقی کے لیے انتہائی بردباری کا ثبوت دیا۔ کانگریس میں سردار پٹیل کی قیادت میں ہندو مذہبی انتہا پسندوں کا ایک مضبوط گروپ موجود تھا اور کانگریس کے کئی رہنما مذہبی انتہا پسند تنظیم ہندو مہا سبھا کے رکن تھے مگر کانگریس نے نئی ریاست کے لیے سیکولر ازم کے عملی نفاذ کا فیصلہ کیا۔
گاندھی جی نے کانگریس اور حکومت کا کوئی بھی عہدہ لینے سے انکار کیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو مکمل اختیارات کے ساتھ وزیر اعظم بنے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو وزیر تعلیم بنا لیا گیا۔ ہندوؤں کے نچلے طبقہ دلت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امبیدکر کو جو گاندھی کی پالیسیوں کے شدید مخالف تھے وزیر قانون کا منصب دیا۔ آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں نئے ملک کا آئین بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہوئی اور ڈاکٹر امبیدکر کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ بھارت کا آئین بنانے کا سارا سہرا ڈاکٹر امبیدکرکو جاتا ہے۔
کانگریس ہمیشہ سے مضبوط مرکز کی حامی تھی مگر کانگریس نے ایک وفاقی آئین بنایا جس میں ریاستوں کو خاصی آزادی دی گئی۔ اس آئین میں بنیادی انسانی حقوق خاص طور پر آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کی ضمانت دی گئی تھی۔ فوج کی اس طرح کی تنظیم نو کی تھی کہ ان ریاستوں کے باشندوں کو بھی نمایندگی ملے جنھیں انگریز حکومت فوج میں شمولیت کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ پنڈت نہرو نے جاگیرداری کے خاتمہ کا فیصلہ کیا۔ حکومت بھارت کے دائرہ کار میں موجود تمام راجہ اور نوابوں کی ریاستیں ختم کردی گئی۔ تعلیم اور صحت کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا۔
ریاست نے تعلیم کی ذمے داری سنبھال لی۔ اس طرح صحت کی سہولتوں کی بھی بنیادی ذمے داری ریاست کی قرار پائی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی پالیسیوں کا محور صنعتی ترقی تھا۔ بھارت کی حکومت نے شروع سے امریکا، یورپی ممالک اور سوویت یونین سے قرضے لیے مگر ان قرضوں کو اداروں کے قیام ، زراعت اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال کیا گیا۔ بھارت نے ساری توجہ برآمدات کی طرف مبذول کی۔ درآمدات پر سخت پابندیاں عائد رہیں۔
اندرا گاندھی کے دور تک بھارت میں اپنی موٹر کار ، اپنی اسکوٹر ، اپنا کولڈ ڈرنک کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا گیا ، جو بھارتی باشندے امریکا ، یورپی ممالک اور خلیجی ممالک میں کام کرتے تھے ان پر پابندی تھی کہ محدود رقم سے ان ممالک کی اشیاء خرید کر اپنے ملک لے جاسکتے تھے۔ بھارتی حکومتوں نے معاشرہ میں بدعنوانی کو ہر ممکن طور پر روکا۔ سرکاری ملازمت میں خواہ وہ فوجی افسر ہی کیوں نہ ہوں بدعنوانی کے قانون کے پابند تھے ، بھارتی فوج کے کردار کو شعوری طور پر محدود رکھا گیا۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اپنی کتاب "Militarinc" میں لکھا ہے کہ بھارت کی وزارت دفاع فیصلوں میں جنرل ہیڈ کوارٹر پر بالا دستی رکھتی ہے ، جب کوئی فوجی سربراہ کسی ہتھیار یا دوسری ضرورت کی خریداری کے لیے ریکوزیشن کردیتا ہے تو وزارت دفاع میں ایک فائل تیار ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر وزیراعظم اور وزارت دفاع کی فائل کے ریمارکس کو ترجیح دیتے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے شروع سے تمام ممالک سے تعلقات قائم کیے۔ پنڈت نہرو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سوشل ازم کے فلسفہ سے متاثر تھے اور سوویت یونین کے قریب تھے ، مگر انھوں نے برطانیہ اور امریکا سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات رکھے۔ نہرو غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔
ان کی خارجہ پالیسی کی خوبی یہ تھی کہ تمام ممالک سے بہترین تعلقات رکھے، بھارت نے سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی تعلقات قائم رکھے اور بادشاہوں کی مخالف عرب ریاستوں سے بھی تعلقات قائم کیے ، فلسطین کاز کی حمایت کی اور اسرائیل کو بھی تسلیم کیا۔
1999 میں کارگل تنازع کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی آئی اور بھارت اور امریکا کے درمیان سول ایٹمی تعاون معاہدہ ہوا مگر بھارت کے روس اور امریکا سے بھی تعلقات میں فرق نہیں آیا ۔ چین کا بھارت سے پرانا سرحدی تنازع ہے مگر چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم اربوں ڈالر کا ہے۔
بھارت کی خارجہ پالیسی کشمیر میں مکمل ناکام رہی ، جو اس خطہ میں نئے تضادات کا سبب بنی۔ مودی کی پالیسیوں سے مسلمان امتیازی سلوک کا شکار ہوئے اور آج آبادی کا ایک حصہ بھارتی ریاست سے مایوس ہے۔ پنڈت نہرو نے آزادئ اظہار کو یقینی بنایا تھا۔ اورن دتی رائے اور جاوید اختر سمیت ادیب، دانشور اور صحافی ہندو انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
بھارت کو آج بھی غربت و افلاس کے خاتمہ کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ مودی نے جو غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کیا ہے وہ گاندھی، نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کی پالیسیوں کا ورثہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہندو توا کا ایجنڈا برقرار رکھا تو بھارت کی تباہی یقینی ہے۔
دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ سیکیورٹی اسٹیٹ کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ حکمران اس حقیقت کو محسوس کریں کہ جب تک پاکستان سوشل ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بنے گا ، اس کی پالیسیاں آزاد نہیں ہونگی۔