تاریخ کا سبق اور نسل

کون نہیں جانتا کہ وطن کے بانی کی موجودگی میں ان کے علم میں لائے بغیر کشمیر پر لشکر کشی کی گئی

Warza10@hotmail.com

جمہور کی ایک نوید ہے جو ستر برس پہلے ملک کی جمہوری جدوجہد کے دوران ایک آزاد اور خود مختار وطن حاصل کرنے کے وقت سنائی گئی تھی...مگر...ہوا کیا اور کیونکر عوام کی امید اور بھروسے کو توڑا گیا،یہی وہ تلخ سچ ہے کہ جس کو جانے بغیر ہم اپنی کی گئی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا احاطہ نہیں کریں گے،ہمیں اس وقت تک دکھائے جانے والے خوبصورت خواب کی جمہوری سیاسی،معاشی اور سماجی خوشحالی کی تعبیر نہیں مل سکے گی،جب تک عوام کے ووٹ کو مکمل آزادی نہیں ملتی۔

کہتے ہیں نا کہ تاریخ کے دورانیے میںپیش آنے والے حالات اور بیت جانے والے واقعات کے نشان چھوڑ جاتے ہیں تاکہ مستقبل میں ان حادثات کی منصفانہ تحقیق کرکے تاریخ کی درست سمت کا تعین کیا جائے،یہی کچھ مختلف ادوار میں ہوتا ہے ہو رہا ہے اور شاید ہوتا بھی رہے،مگر واقعات کی حقانیت جانچنے کا پیمانہ مستقبل ہی طے کرتا ہے کہ کتنا سچ وقت پر بولا یا بتایا گیا اور کس قدر اصل حقائق سے عوام کو محروم یا دور رکھا گیا۔

ہم اپنے وطن کی ستر برس سے زیادہ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو واضح طور سے ہماری سیاسی اور معاشرتی تاریخ ایک ایسی بند گلی کے بیانیے کی سمت کھڑی ملے گی جہاں تمام واقعات کی اصل گنجلک اور بے سمت ہے،میرے وطن کی تاریخ جہاں توہم پرستی،فرقہ پرستی اور بے شعوری کے دورانیئے میں منقسم ہے ،وہیں میرے دیس کی اس روشن خیال سوشلسٹ اور کمیونسٹ سیاسی جدوجہد کو دیکھنا اور اس کے نتیجے میں سیاسی شعور کی آگہی نہ حاصل کرنے دینا جبر اور طاقت کی قوتوں کا وہ بھیانک سچ ہے جس نے دیس کی نسل کو لسانیت اور تنگ نظر مذہب پرست بنا دیا تاکہ جبر اور بندوق کی طاقت سے سیاست کی رواداری برداشت اور آپسی گفتگو کو ختم کیا جاسکے تاکہ سماج میں عدم تشدد کی کونپلیں پھوٹنیں ہی نہ پائیں،ان جبر کی قوتوں کی روز اول سے کوشش رہی کہ امن انصاف اور سماج میں نا ہمواری کی کوششوں کے دھنی افراد کو نہ صرف بندی خانوں اور تشدد گاہوں کے خوف میں مبتلا رکھا جائے بلکہ امن اور جمہوری قدروں سے متاثر نسل کو بھی آمرانہ ریاست کا خوف دلا کر ان کے ذہن میں خوف اور طاقت کی فرمانبرداری کا انجکشن لگا کر نسل کو جمہوری حقوق اور اپنی سیاسی آزادی سے دور رکھا جائے۔

کون نہیں جانتا کہ وطن کے بانی کی موجودگی میں ان کے علم میں لائے بغیر کشمیر پر لشکر کشی کی گئی اور ایو بی مارشل لا کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،کسے نہیں معلوم کہ قائد اعظم کی طبیعت کی خرابی پر ریاست کے غیر جمہوری ذہن کے حکمران ایک جدید ایمبولینس بھی فراہم نہ کر سکے اور ملک کے بانی کو اپنی راہ سے ہٹانے کا طریقہ استعمال کیا گیا۔

بات یہاں تک ہی نہ ٹہری بلکہ جب وطن کے بانی کی جانب سے کورٹ مارشل کی سزا دینے والے کو ملک کے اعلیٰ عہدے پر بٹھانے کے جتن ہونے لگے تو سامراج کی خوشنودی کے اس آمر نے ملک کے ہمسائے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے بجائے سات سمندر پار ڈالروں کی جھنکار میں اس ملک سے سمجھوتا کیا جو عوام کے استحصال کا سامراجی آقا سمجھا جاتا تھا،آمر ایوب نے سامراجی آقا کے عوام دشمن اقدامات پر پردہ ڈالنے کی نیت سے وطن کو معاشی ترقی کے نام پر سرمایہ داروں کو نوازنے کا وہ در کھولا جس نے اقتصای ترقی کے منجن میں عوام کے تمام طبقات کو اپنے استحصالی شکنجے میں جکڑ لیا،پھر جب اس پر میرے وطن کی مشرقی جنتا نے احتجاج بلند کیا تو اس آمر نے اپنے آقا کی خوشنودی اور اپنے طبقے کی خوشحالی کے لیے پیداوار سے لبریز اپنے مشرقی ہاتھ کو کاٹ ڈالنے کی منصوبہ بندی کی،مگر اس وقت تک عوام کی سیاسی جدوجہد کے پر کاٹ کر ملک کو جنگی جنون میں مبتلا کرکے قومی سلامتی کا بیانیہ لایا گیا اور اپنے ہی تراشے جمہوری بت کے ذریعے وطن کی حقیقی جمہوری سوشلسٹ تحریک میں چھرا گھونپا گیا،آمر کے تراشے بیٹے کو جمہوری چولا پہنا کر وطن کے مشرقی بازو کو جدا کرنے میں ملک کی سلامتی کو دائو پر لگایا جب کہ عوامی لیگ کی اکثریت اور مجیب کے 6 عوامی نکات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مشرقی حصے کو جدا ہونے پر مجبور کیا گیا۔

تاریخ کا یہ بھی سچ ہے کہ ملک کے باضابطہ آئین دینے کے جرم میں آئین و قانون کی پامالی کی گئی اور آئین کے خلاف اقدامات کرکے آمر ضیا کی صر صر کی ہوا کو صبح نوید قرار دیا گیا اور عوام کے جمہوری اور سیاسی آئین کے خالق کو تختہ دار پہ چڑھا کر قومی سلامتی کے بینڈ باجے میں عوام کو تاریخ کے حقائق سے دور رکھنے کی خاطر برادری،لسانی اور مذہبی تفریق کا بیج بویا،جس نے عوام کے حقوق پر بلا شرکت غیرے بندوق کی طاقت سے حکمرانی کی اور سماج کی تمام اقدار کو لسانیت اور مذہبی تنگ نظری میں دھکیل کر سماج کو سیاسی طور سے بانجھ کر دیا۔


ضیا نے مذہبی تنگ نظری کی آمیزش سے جہاں سماج کو سیاسی اور معاشی طور سے تباہ و برباد کیا وہیں ضیا ء الحق نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو دوام دینے کے لیے سردار، جاگیردار، خان، کے لبادے میں نہ صرف غیر جمہوری سوچ کے شریفوں اور سندھ کے شہری جاگیرداروں کی فوج ظفر موج بنائی بلکہ ان تمام کے ذریعے سماج کو سیاسی اور اخلاقی طور سے بے سمت کیا،یہ مارشل لاء کاوہ بھیانک دور تھا جب ضیا نے طالبان کی سوچ کے پودے لگانے کے لیے تبدیل پسندی کا بیانیہ بنانے کا بندوبست کیا،جب طاقت اور جبر کو اس کے اپنے ہی آنکھیں دکھانے لگے تو اقتدار کی باگ ڈور میں نہ بے نظیر بھٹو اور نہ ہی نوازشریف کو رہنے دیا۔

عوام میں سیاسی شعور کی جوت جگانے میں سوشلسٹ قوتوں کی جمہوری سوچ کو مکمل طرح ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر منتخب وزیراعظم کے اقتدار پر آمر مشرف کے ذریعے نقب لگوائی گئی اور اقتدار کے سنگھاسن پر وقت کے دھاروں کو دیکھتے ہوئے ''روشن خیال مشرف آمریت''تھوپی گئی اور جمہوری سیاست کے رہنمائوں بے نظیر اور نواز شریف کو جلا وطن کرکے مشرف کی مطلق العنانی کا ڈھول پیٹا گیا،جس میں تبدیلی کے حامی کو مشرف کے ریفرنڈم کا حمایتی بنا کر مشرف کی سامراجی پینگوں کا دھڑم تختہ کیا گیا اور جمہوریت کے راستے کو لگام دینے کی غرض سے جمہوری سیاسی پارٹیوں کے مقابل کھڑا کرکے طاقت کے ایوانوں کی ''گل پاشی''کی گئی اور آخر کار دو جمہوریتوں میں چار وزرائے اعظم لا کر عوام اور بطور خاص نوجوان نسل کو تبدیلی کے نعروں میں سیاسی اور اخلاقی رواداریوں سے دور رکھ کر سماج میں جذبات اور عدم برداشت کے سیاسی فلسفے کا جنازہ نکالا گیا،بعد کی سیاسی تاریخ میں سانپ کی مانند جب ''تبدیلی''اپنے ہی پالنہاروں کو ڈسنے لگی تو ''تبدیلی کی ہوشربانیوں'' سے نمٹنے کا واحد راستہ آئین اور قانون میں ہی تلاش کرنا پڑا،مگر اس وقت تک تبدیلی کی دروغ گو اور بے راہ رو نسل سیاسی اقدار اور اخلاقیات کا جنازہ نکال چکی تھی۔

یہ تاریخ کا جبر ہی ہے کہ عوام کے حقوق کی جمہوریت آج جبر کا وہ خوشکن نعرہ دکھائی دے رہی ہے جو شاید اپنی ساکھ از سر نو عوام میں جمہوری سوچ کے داعی کے طور پر رکھنا چاہتی ہے۔وطن میں سیاست کی ابتری کا یہ مرحلہ نہ صرف طاقت کو سرنگوں کرنے کی حقانیت دیکھنا چاہتا ہے بلکہ سیاست کی قدروں میں اس سنجیدہ سوچ کو بھی آزمانا چاہتا ہے جو کہ سیاست دانوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات میں گنوا دیا ہے۔یہ ملکی سیاست میں وہ اہم موڑ ہے جس میں جمہوری سیاسی قوتوں پر لازم ہے کہ وہ عوام کی جمہوری حاصلات کو عوام کی نچلی سطح تک پہنچائیں تاکہ جمہوریت کی یہ صبح آیندہ کی نسل کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا بن سکے اور شاید ساحر لدھیانوی کا یہ خواب سچا ہو سکے کہ۔

بیتیں گے کبھی تو دن آخر،یہ بھوک کے اور بیکاری کے

ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر،دولت کی اجارہ داری کے

جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی...
Load Next Story