ہم سب کے کچھ خواب ہیں
ہم ایسی زندگی کے خواہش مند ہیں جس میں ہم اپنے آپ سے پیارکریں، لیکن ہماری زندگی ہماری سوچی گئی زندگی سے بالکل الٹ ہے
LODHRAN:
ہم سب کے کچھ خواب ہیں جنھیں ہم روز دیکھتے ہیں جنھیں ہم روز سوچتے ہیں۔ ہم سب ایک خوشحال کامیاب ، خوشیوں سے بھری پر سکون تمام خوف تمام ڈر سے محفوظ زندگی کے خواہش مند ہیں۔
ہم ایسی زندگی کے خواہش مند ہیں ، جس میں ہم اپنے آپ سے پیارکریں ، لیکن ہماری زندگی ہماری سوچی گئی زندگی سے بالکل الٹ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ زندگی ہمیں صرف ایک بار جینے کو ملی ہے ہمیں اپنے خواب صرف ایک بار دیکھنے کو ملے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے خوابوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں یا ان کی عزت کرتے ہیں ، ہم انھیں حقیقت کا روپ دیتے ہیں یا پھر انھیں بھوتوں کا روپ دے دیتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی کے خود اکلوتے مالک ہیں اس کا کوئی حصہ دار نہیں ہے۔
شاید آپ Man of La Mancha نامی نغماتی ڈرامے سے واقف ہوں یہ قرون وسطیٰ کے ایک Knight کی خوبصورت کہانی ہے جس میں یہ نائٹ ایک بازاری عورت سے ملتا ہے ، سب ہی اس عورت کے شائق ہیں اور اس کی طرز زندگی کے متوالے ہیں اور یوں یہ سب لوگ اسے مستقل یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ بڑی اچھی زندگی گزار رہی ہے لیکن یہ شاعر نائٹ اس عورت میں کچھ اور ہی دیکھتا ہے کچھ بہت خوبصورت اور پیارا۔ وہ اس کی خوبیوں کو جان لیتا ہے اور وہ اس کے سامنے انھیں بار بار دہراتا ہے وہ اسے ایک نیا نام دے دیتا ہے Dulcineaایک نیا نام جو ایک نئے زاویہ نظرکی علامت ہے۔
شروع میں وہ یہ سب نہیں مانتی اس کے پرانے خیالات کی اس کے ذہن پر اتنی زبردست گرفت ہوتی ہے کہ وہ اس کی کسی بات پر کان نہیں دہرتی اور اسے ایک کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والا جنونی سمجھ کر نظر انداز کردیتی ہے لیکن وہ بڑا مستقبل مزاج ہے وہ مستقل غیر مشروط پیار کی بڑی بڑی رقمیں اس کے اکائونٹ میں جمع کر وا تا رہتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کے دل میں اترنے لگتا ہے وہ اس کی اصل فطرت میں اتر کر چھوتا ہے۔
اس کی صلاحیتوں کو ابھرتا ہے اور پھر وہ بھی جواب دینے لگتی ہے آہستہ آہستہ وہ اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے لگتی ہے وہ اس پر یقین کرنے لگتی ہے اور اب اپنے نئے زوایہ نظر کے مطابق عمل کرنے لگتی ہے جو کہ اس کے آس پاس گرد باقی تمام لوگوں کو اچھا نہیں لگتا اور وہ اس سے دور ہونے لگتے ہیں۔ بعد میں جب وہ اپنے پرانے زاویہ نظر کی طرف لوٹنے لگتی ہے تو وہ اس کو وہ اپنے بستر مر گ پر بلاتا ہے اور وہ ہی خوبصورت گانا گاتا ہے '' غیر ممکن خواب '' وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے '' کبھی نہ بھولنا کہ تم ڈل سینیا ہو '' عظیم شاعر گوئٹے نے کہا تھا '' کسی آدمی کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا کہ وہ ہے تو وہ ویسا ہی رہے گا اور کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا کہ وہ ہو سکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے تو وہ ویسا ہی بن جائے گا جیسا کہ وہ ہوسکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے ۔''
یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم اپنے ساتھ اتنا برا سلوک آخرکیوں کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوچکی ہے یا پھر ہم اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیں آخرکیوں ہم نے دنیا بھرکی گندگیوں میں رہنا پسند کر رکھا ہے۔ اس قدرگندگی کہ ایک سمجھ دار آدمی کا ذرا سی دیر کھڑا ہونا مشکل ہوجائے اور ہم ہیں کہ اپنے دن رات اسی گندگی میں گذار رہے ہیں بغیر چیخے بغیر چلائے چپ چاپ دنیا بھر کے عذاب پیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھرکے سماجوں کے ان بھوتوں کو جنھیں وہ جلا وطن کرچکے ہیں۔ انھیں اپنے گھروں میں کرایہ دار بنائے بیٹھے ہیں ، لگتا ہے ہم خود ترستی کے عذاب میں مبتلا ہوچکے ہیں یا پھر لاعلمی کے۔
ہاورڈ کے مشہور پروفیسر ولیم جیمز نے کہا تھا '' جو کچھ ہمیں بن جانا چاہیے وہ کچھ بننے کے لیے ہم پوری طرح بیدار نہیں ہیں ، ہم اپنے جسمانی اور ذہنی قوت کا بہت ہی قلیل حصہ استعمال کرتے ہیں'' اس بات کو پھیلا کر بیان کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ عام انسان نہایت ہی محدود دائرے میں زندگی بسرکرتا ہے وہ مختلف قسم کی قوتیں اپنے اندر رکھتا ہے جن کا استعمال کرنے سے وہ عادتا قاصر رہتا ہے۔ انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ غلط کار سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ہم سب اسے معاملے میں یکساں ہیں۔
کنفیوشس کہتا ہے '' جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کروکہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہے '' برائوننگ کا مقولہ ہے جب انسان خود اپنے نفس سے جنگ کرتا ہے تو اس کی قدروقیمت بڑھتی ہے ، اسی لیے ایمرسن نے کہا تھا خوبیاں قربانیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ آپ کی خوشی یا نا خوشی کا انحصار اس بات پر نہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے یا آپ کون ہیں یا آپ کہاں ہیں یا آپ کیا کر رہے ہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ آپ کیا سو چ رہے ہیں۔ دنیا میں خوشی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ اپنے خیالات پر قابو پانا۔ خوشی خارجی حالات پر ہر گز مبنی نہیں یہ تو آپ کے احساسات کا معاملہ ہے ، اسی لیے عظیم سابق امریکی صدر لنکن نے کہا تھا '' اکثر لوگ اتنے ہی خوش ہوتے ہیں جس حد تک ان کا خو ش ہونے کا ارادہ ہوتا ہے۔''
سرولیم آسلر نے اٹھارھویں صدی میں ہیل یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھ جیسا آدمی جو چار یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہ چکا ہو اور ایک مقبول کتاب کا مصنف ہوکے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص اوصاف کے دماغ کا مالک ہوگا۔ اس نے پر زور الفاظ میں اس کی تردید کی اور کہا کہ میرے عزیز اور قریبی دوست جانتے ہیں کہ میرا دماغ بالکل اوسط درجے کا ہے پھر اس کی کامیابی کا رازکیا تھا؟ اس نے خود ہی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دن روک کمروں میں رہتا ہوں۔ اس سے کیا مطلب تھا ؟ ہیل یونیورسٹی میں تقریرکرنے سے چند مہینے پیشتر سر ولیم آسلر نے ایک عظیم بحری جہاز پر اقیانوس عبورکیا تھا ، اس جہازکا کپتان عرشہ جہاز پر کھڑے ہوکر ایک بٹن دبا دیتا ، مشینری کھٹکھٹاتی اور آنا فانا جہازکے مختلف حصے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتے اور پن روک کمروں میں تبدیل ہوجاتے۔
ڈاکٹر آسلر نے ہیل یونیورسٹی کے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا '' تم میں سے ہر ایک اسی عظیم دخانی جہاز سے کہیں بڑھ کر ایک عجیب وغریب مشین ہے اور زیادہ طویل سفر پرگامزن۔ جو بات میں تم پر واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم اپنی مشینری کو اپنے اختیار میں لانا سیکھو تاکہ '' دن روک ڈبوں '' میں رہ سکو جوکہ دوران سفر میں امن و سلامتی کے بہترین ضامن ہیں ، عرشہ جہاز پر چڑھ کر اتنا اطمینان ضرورکرلو کہ بڑی دیواریں تو مناسب کام کر رہی ہیں۔ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر بٹن دبا کر اطمینان کرلو کہ ماضی مرحوم کل کے آہنی دروازے بند ہوچکے ہیں اور ایک دوسرا بٹن دبا کر آنے والے کل یعنی مستقبل کے آہنی پر دے گرادو اور پھر تم صحیح سلامت ہو آج کے لیے صحیح سلامت۔ ماضی کو بند کردو ، گڑ ے مردوں کو دفن ہی رہنے دو۔
گزشتہ کل کو فراموش کردو جس نے بیوقوفوں کو عدم کے گرد آلود رستے پر لگا دیا ہے ، آیندہ کل کا بوجھ گزشتہ کل سے ملا کر اگر آج اٹھایا جائے تو مضبوط ترین انسان کے قدم بھی ڈگمگا جائیں گے ، مستقبل کو بھی اتنی ہی مضبوطی سے بند کردو جس قدر ماضی کو کیا تھا۔ مستقبل آج ہے فردا ایک خواب ہے نجات آدم کا دن امروز ہے جو شخص مستقبل کے لیے بے قرار ہو ذہنی تفکرات اور اعصابی پریشانیاں اس کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجائیں گی۔ چنانچہ مستقبل اور ماضی کی عظیم دیواروں کو بند کردو۔ مستقبل کے لیے تیار ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی ساری ذہانت ، قوت ، توانائی اور جوش وخروش کو آج کے کا م کو بہترین طریقے سے انجام دینے کے لیے صرف کر دینا چاہیے۔
اس لیے آئیں ! سب سے پہلے اپنے آپ کو معاف کردیں اور پھر دنیا کو۔ اپنے آپ اور اپنے خوابوں کی عزت کریں۔ اپنے آپ سے محبت کریں صرف آج میں جئیں۔ ہمیں صرف اور صرف ایک نئے زوایہ نظرکی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں دنیا بھرکی تمام خوبیاں آپ میں موجود ہیں بس ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
ہم سب کے کچھ خواب ہیں جنھیں ہم روز دیکھتے ہیں جنھیں ہم روز سوچتے ہیں۔ ہم سب ایک خوشحال کامیاب ، خوشیوں سے بھری پر سکون تمام خوف تمام ڈر سے محفوظ زندگی کے خواہش مند ہیں۔
ہم ایسی زندگی کے خواہش مند ہیں ، جس میں ہم اپنے آپ سے پیارکریں ، لیکن ہماری زندگی ہماری سوچی گئی زندگی سے بالکل الٹ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ زندگی ہمیں صرف ایک بار جینے کو ملی ہے ہمیں اپنے خواب صرف ایک بار دیکھنے کو ملے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے خوابوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں یا ان کی عزت کرتے ہیں ، ہم انھیں حقیقت کا روپ دیتے ہیں یا پھر انھیں بھوتوں کا روپ دے دیتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی کے خود اکلوتے مالک ہیں اس کا کوئی حصہ دار نہیں ہے۔
شاید آپ Man of La Mancha نامی نغماتی ڈرامے سے واقف ہوں یہ قرون وسطیٰ کے ایک Knight کی خوبصورت کہانی ہے جس میں یہ نائٹ ایک بازاری عورت سے ملتا ہے ، سب ہی اس عورت کے شائق ہیں اور اس کی طرز زندگی کے متوالے ہیں اور یوں یہ سب لوگ اسے مستقل یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ بڑی اچھی زندگی گزار رہی ہے لیکن یہ شاعر نائٹ اس عورت میں کچھ اور ہی دیکھتا ہے کچھ بہت خوبصورت اور پیارا۔ وہ اس کی خوبیوں کو جان لیتا ہے اور وہ اس کے سامنے انھیں بار بار دہراتا ہے وہ اسے ایک نیا نام دے دیتا ہے Dulcineaایک نیا نام جو ایک نئے زاویہ نظرکی علامت ہے۔
شروع میں وہ یہ سب نہیں مانتی اس کے پرانے خیالات کی اس کے ذہن پر اتنی زبردست گرفت ہوتی ہے کہ وہ اس کی کسی بات پر کان نہیں دہرتی اور اسے ایک کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والا جنونی سمجھ کر نظر انداز کردیتی ہے لیکن وہ بڑا مستقبل مزاج ہے وہ مستقل غیر مشروط پیار کی بڑی بڑی رقمیں اس کے اکائونٹ میں جمع کر وا تا رہتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کے دل میں اترنے لگتا ہے وہ اس کی اصل فطرت میں اتر کر چھوتا ہے۔
اس کی صلاحیتوں کو ابھرتا ہے اور پھر وہ بھی جواب دینے لگتی ہے آہستہ آہستہ وہ اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے لگتی ہے وہ اس پر یقین کرنے لگتی ہے اور اب اپنے نئے زوایہ نظر کے مطابق عمل کرنے لگتی ہے جو کہ اس کے آس پاس گرد باقی تمام لوگوں کو اچھا نہیں لگتا اور وہ اس سے دور ہونے لگتے ہیں۔ بعد میں جب وہ اپنے پرانے زاویہ نظر کی طرف لوٹنے لگتی ہے تو وہ اس کو وہ اپنے بستر مر گ پر بلاتا ہے اور وہ ہی خوبصورت گانا گاتا ہے '' غیر ممکن خواب '' وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے '' کبھی نہ بھولنا کہ تم ڈل سینیا ہو '' عظیم شاعر گوئٹے نے کہا تھا '' کسی آدمی کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا کہ وہ ہے تو وہ ویسا ہی رہے گا اور کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا کہ وہ ہو سکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے تو وہ ویسا ہی بن جائے گا جیسا کہ وہ ہوسکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے ۔''
یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم اپنے ساتھ اتنا برا سلوک آخرکیوں کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوچکی ہے یا پھر ہم اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیں آخرکیوں ہم نے دنیا بھرکی گندگیوں میں رہنا پسند کر رکھا ہے۔ اس قدرگندگی کہ ایک سمجھ دار آدمی کا ذرا سی دیر کھڑا ہونا مشکل ہوجائے اور ہم ہیں کہ اپنے دن رات اسی گندگی میں گذار رہے ہیں بغیر چیخے بغیر چلائے چپ چاپ دنیا بھر کے عذاب پیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھرکے سماجوں کے ان بھوتوں کو جنھیں وہ جلا وطن کرچکے ہیں۔ انھیں اپنے گھروں میں کرایہ دار بنائے بیٹھے ہیں ، لگتا ہے ہم خود ترستی کے عذاب میں مبتلا ہوچکے ہیں یا پھر لاعلمی کے۔
ہاورڈ کے مشہور پروفیسر ولیم جیمز نے کہا تھا '' جو کچھ ہمیں بن جانا چاہیے وہ کچھ بننے کے لیے ہم پوری طرح بیدار نہیں ہیں ، ہم اپنے جسمانی اور ذہنی قوت کا بہت ہی قلیل حصہ استعمال کرتے ہیں'' اس بات کو پھیلا کر بیان کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ عام انسان نہایت ہی محدود دائرے میں زندگی بسرکرتا ہے وہ مختلف قسم کی قوتیں اپنے اندر رکھتا ہے جن کا استعمال کرنے سے وہ عادتا قاصر رہتا ہے۔ انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ غلط کار سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ہم سب اسے معاملے میں یکساں ہیں۔
کنفیوشس کہتا ہے '' جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کروکہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہے '' برائوننگ کا مقولہ ہے جب انسان خود اپنے نفس سے جنگ کرتا ہے تو اس کی قدروقیمت بڑھتی ہے ، اسی لیے ایمرسن نے کہا تھا خوبیاں قربانیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ آپ کی خوشی یا نا خوشی کا انحصار اس بات پر نہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے یا آپ کون ہیں یا آپ کہاں ہیں یا آپ کیا کر رہے ہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ آپ کیا سو چ رہے ہیں۔ دنیا میں خوشی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ اپنے خیالات پر قابو پانا۔ خوشی خارجی حالات پر ہر گز مبنی نہیں یہ تو آپ کے احساسات کا معاملہ ہے ، اسی لیے عظیم سابق امریکی صدر لنکن نے کہا تھا '' اکثر لوگ اتنے ہی خوش ہوتے ہیں جس حد تک ان کا خو ش ہونے کا ارادہ ہوتا ہے۔''
سرولیم آسلر نے اٹھارھویں صدی میں ہیل یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھ جیسا آدمی جو چار یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہ چکا ہو اور ایک مقبول کتاب کا مصنف ہوکے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص اوصاف کے دماغ کا مالک ہوگا۔ اس نے پر زور الفاظ میں اس کی تردید کی اور کہا کہ میرے عزیز اور قریبی دوست جانتے ہیں کہ میرا دماغ بالکل اوسط درجے کا ہے پھر اس کی کامیابی کا رازکیا تھا؟ اس نے خود ہی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دن روک کمروں میں رہتا ہوں۔ اس سے کیا مطلب تھا ؟ ہیل یونیورسٹی میں تقریرکرنے سے چند مہینے پیشتر سر ولیم آسلر نے ایک عظیم بحری جہاز پر اقیانوس عبورکیا تھا ، اس جہازکا کپتان عرشہ جہاز پر کھڑے ہوکر ایک بٹن دبا دیتا ، مشینری کھٹکھٹاتی اور آنا فانا جہازکے مختلف حصے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتے اور پن روک کمروں میں تبدیل ہوجاتے۔
ڈاکٹر آسلر نے ہیل یونیورسٹی کے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا '' تم میں سے ہر ایک اسی عظیم دخانی جہاز سے کہیں بڑھ کر ایک عجیب وغریب مشین ہے اور زیادہ طویل سفر پرگامزن۔ جو بات میں تم پر واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم اپنی مشینری کو اپنے اختیار میں لانا سیکھو تاکہ '' دن روک ڈبوں '' میں رہ سکو جوکہ دوران سفر میں امن و سلامتی کے بہترین ضامن ہیں ، عرشہ جہاز پر چڑھ کر اتنا اطمینان ضرورکرلو کہ بڑی دیواریں تو مناسب کام کر رہی ہیں۔ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر بٹن دبا کر اطمینان کرلو کہ ماضی مرحوم کل کے آہنی دروازے بند ہوچکے ہیں اور ایک دوسرا بٹن دبا کر آنے والے کل یعنی مستقبل کے آہنی پر دے گرادو اور پھر تم صحیح سلامت ہو آج کے لیے صحیح سلامت۔ ماضی کو بند کردو ، گڑ ے مردوں کو دفن ہی رہنے دو۔
گزشتہ کل کو فراموش کردو جس نے بیوقوفوں کو عدم کے گرد آلود رستے پر لگا دیا ہے ، آیندہ کل کا بوجھ گزشتہ کل سے ملا کر اگر آج اٹھایا جائے تو مضبوط ترین انسان کے قدم بھی ڈگمگا جائیں گے ، مستقبل کو بھی اتنی ہی مضبوطی سے بند کردو جس قدر ماضی کو کیا تھا۔ مستقبل آج ہے فردا ایک خواب ہے نجات آدم کا دن امروز ہے جو شخص مستقبل کے لیے بے قرار ہو ذہنی تفکرات اور اعصابی پریشانیاں اس کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجائیں گی۔ چنانچہ مستقبل اور ماضی کی عظیم دیواروں کو بند کردو۔ مستقبل کے لیے تیار ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی ساری ذہانت ، قوت ، توانائی اور جوش وخروش کو آج کے کا م کو بہترین طریقے سے انجام دینے کے لیے صرف کر دینا چاہیے۔
اس لیے آئیں ! سب سے پہلے اپنے آپ کو معاف کردیں اور پھر دنیا کو۔ اپنے آپ اور اپنے خوابوں کی عزت کریں۔ اپنے آپ سے محبت کریں صرف آج میں جئیں۔ ہمیں صرف اور صرف ایک نئے زوایہ نظرکی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں دنیا بھرکی تمام خوبیاں آپ میں موجود ہیں بس ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔