ہفتے میں چھٹی ایک ہو یا دو
دو چھٹیوں کے فائدے اور نقصان پر ہر کوئی تبادلہ خیال کر رہا ہے
ISLAMABAD:
وزیراعظم شہباز شریف نے منصب سنبھالتے ہی جو پہلے احکامات جاری کیے ان میں ایک ہفتے کی دو چھٹیاں ختم کرکے ایک چھٹی کرنے کا ہے۔ان کے اس حکم پر عمل درآمد تو شروع ہو گیا ہے لیکن اس فیصلے کے بعد ہر طرف اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ دو کے بجائے ایک چھٹی کرنے سے وہ مقصد حاصل کیے جا سکیں گے جس کا اظہار وزیراعظم نے کیا ہے۔
اس پر اتفاق رائے نہیں کہ ملک بھر میں ہفتے میں، ایک چھٹی ہونی چاہیے یا دو۔دو چھٹیوں کے فائدے اور نقصان پر ہر کوئی تبادلہ خیال کر رہا ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ ہفتے میں چھٹیاں خواہ ایک ہو یا دو، اصل بات یہ ہے کہ سرکاری افسر و ملازمین اپنے ڈیوٹی اوقات میں دلجمعی ،لگن اور محنت سے کام کرتے ہیں یا نہیں۔
کام اور آرام کے درمیان توازن قائم کرنے کا ایک کامیاب فارمولہ ایک ایسے شخص نے بتایا کہ جس نے اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے مطابق اس نے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔اس شخص کو دنیا امریکی صنعتکار ہنری فورڈ "Henry Ford"اور انڈریو کارینج "Andrew Carneige"کی طرح کا بزنس مین قرار دیتی ہے، اس کا نام ہے این آر نارائنا مورتھی اور وہ بھارت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی محنت اور حکمت عملی کی بدولت بھارت جسے کبھی دنیا بھر میں بھکاریوںاورسپیروں کی سرزمین سمجھا جاتا تھا، اب اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز گردانا جاتا ہے ۔ نارائنا مورتھی کی کمپنی بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کا امتیازی نشان کہلاتی ہے۔ یہ بھارت کی پہلی کمپنی تھی جس کا ریونیو "Revenue" 2004ء میں ایک ارب ڈالر سے زائد ہو گیا۔
نارائنا مورتھی کا کہنا ہے کہ اس نے خود یا اپنی کمپنی کے کارکنوں کو کبھی اور ٹائم "Over Time"نہیں کرنے دیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ جو لوگ دن میں بارہ گھنٹے، ہفتے میں چھ یا سات دن کام کرتے ہیں، وہ دراصل ان اوقات میں کام نہیں کرتے بلکہ وہ صرف دفتر میں موجود رہتے ہیں۔ ایسے لوگ فی الحقیقت کام نہیں بلکہ کام کی جگہ پر رہنے کے عادی یا نشئی ہو چکے ہوتے ہیں۔ نارائنا کا کہنا ہے کہ مسلسل اور ٹائم پر کام کرنے والے افراد اپنی صحت اور کمپنی دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ دیر تک دفتر رہنے والے افراد زیادہ غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں ترو تازہ نہیں رہتیں۔
زیادہ وقت دینے اور دبائو میں کام کرنے والوں کی وجہ سے ہونے والی غلطیاں بعض اوقات کئی گھنٹے اور کئی دنوں کی محنت او ر وقت کے بعد ٹھیک ہوتی ہیں۔ایسے لوگ جو دیر تک دفتر میں رہتے ہوں وہ کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتے ، ایسے لوگ اکثر اپنے ساتھیوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں ، خوشامد کرتے رہتے ہیں یا ضرورت کے وقت نہیں ملتے نہیں ، جو کام کرتے ہیں، بے دلی اور سستی سے کرتے ہیں جب کہ اوور ٹائم پر کام کرنے والے لوگ اکثر و بیشتر ایک دوسرے سے ناراض یا جھنجلاہٹ کا شکار رہتے ہیں اور آپس میں حسد اور بغض رکھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملنے میں خوشی محسوس نہ کریں وہاں مجموعی کام متاثر ہوتا ہے۔
نارائنا کا کہنا ہے کہ میں نے ہمیشہ ان Managers کو پسند کیا اور حوصلہ افزائی کی جنھوں نے دفتر کے اوقات ختم ہونے کے بعد لوگوں کو گھر جانے کا حکم دیا۔اس اصول پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ وقت مقررہ پر دفتر سے خود چلے جائیں تا کہ دوسرے اس اصول پر عمل کرسکیں۔نارائنا نے اپنی کمپنی کی کامیابی کا دوسرا اصول یہ بتایا کہ کارکنوں کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ اپنی روز مرہ زندگی میں ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے اس نے اپنی ٹیم کو 5اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
1- صبح اٹھیں، اچھا ناشتہ کریں اور کام پر روانہ ہو جائیں۔ 2- پوری محنت اور تندہی سے آٹھ گھنٹے تک کام کریں۔ 3- کام سے فارغ ہوتے ہی گھر روانہ ہو جائیں۔ 4- تفریحی فلمیں دیکھیں، مزاحیہ کتابیں پڑھیں اور بچوں کے ساتھ کھیلیں۔ 5- دل پسند اور اچھا کھانا کھائیں اور مزے سے سوئیں۔
نارائنا کا کہنا ہے کہ میری زندگی کا یہ تجربہ ہے کہ اگر آپ تجاویز پر عمل درآمد کریں اورپوری محنت اور تندہی سے آٹھ گھنٹے تک کام کریں تو اس طرح کمپنی میں آپ کی شہرت ایک اچھے اور خوش اخلاق پروفیشنل کے طور پر نمایاں ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ دیر تک دفتر رہنے سے آپ سارے کام ختم کر کے گھر جاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے گھر جانے اور سوجانے کے با وجود بھی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، یہی زندگی کا اصول ہے۔اس لیے اگر آپ نے آرام نہ کیا یا وقفہ نہ دیا تو آپ نہ تو صحیح طور پر کام کر سکیں گے اور نہ ہی آپ مقبولیت حاصل کر سکیں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ری چارجRecharge ہونے کا موقع دیں جب آ پ کی انرجی آرام کے بعد ری چارج ہو جائے گی تو آپ رکے ہوئے کاموں کو جلد اور بہتر انداز میں انجام دے سکیں گے۔نارائنا نے اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے کہاکہ
''اپنے کام سے محبت کرو، اپنی کمپنی کی محبت میں گرفتار نہ ہونا کیونکہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ کمپنی کب آپ سے محبت کرنا ختم کر دے''۔
ان حقائق کی روشنی میں وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم خواہ ہفتے میں دو چھٹیاں کریں یا ایک لیکن ہمیں مقررہ دفتری اوقات میں اپنی ڈیوٹی ذمے داری سے ادا کرنے جاہئے۔ سرکاری افسروں اور ملازمین کی دیوٹی سائلین کی داد رسی کرنا ہوتاہے نہ کہ انھیں قانونی اور ضابطے کی پیچیدگیوں میں الجھا کر خوار کرنا، اگر ہم اس اصول پر عمل کریں تو ملکی ترقی اور خوشحالی کی منزل قریب آ جائے گی لیکن اگر ہم نے وقت مقررہ پر کام نہیں کرنا تو ہفتے میں سات دن میں بھی ہم کچھ نہ کر سکیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے منصب سنبھالتے ہی جو پہلے احکامات جاری کیے ان میں ایک ہفتے کی دو چھٹیاں ختم کرکے ایک چھٹی کرنے کا ہے۔ان کے اس حکم پر عمل درآمد تو شروع ہو گیا ہے لیکن اس فیصلے کے بعد ہر طرف اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ دو کے بجائے ایک چھٹی کرنے سے وہ مقصد حاصل کیے جا سکیں گے جس کا اظہار وزیراعظم نے کیا ہے۔
اس پر اتفاق رائے نہیں کہ ملک بھر میں ہفتے میں، ایک چھٹی ہونی چاہیے یا دو۔دو چھٹیوں کے فائدے اور نقصان پر ہر کوئی تبادلہ خیال کر رہا ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ ہفتے میں چھٹیاں خواہ ایک ہو یا دو، اصل بات یہ ہے کہ سرکاری افسر و ملازمین اپنے ڈیوٹی اوقات میں دلجمعی ،لگن اور محنت سے کام کرتے ہیں یا نہیں۔
کام اور آرام کے درمیان توازن قائم کرنے کا ایک کامیاب فارمولہ ایک ایسے شخص نے بتایا کہ جس نے اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے مطابق اس نے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔اس شخص کو دنیا امریکی صنعتکار ہنری فورڈ "Henry Ford"اور انڈریو کارینج "Andrew Carneige"کی طرح کا بزنس مین قرار دیتی ہے، اس کا نام ہے این آر نارائنا مورتھی اور وہ بھارت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی محنت اور حکمت عملی کی بدولت بھارت جسے کبھی دنیا بھر میں بھکاریوںاورسپیروں کی سرزمین سمجھا جاتا تھا، اب اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز گردانا جاتا ہے ۔ نارائنا مورتھی کی کمپنی بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کا امتیازی نشان کہلاتی ہے۔ یہ بھارت کی پہلی کمپنی تھی جس کا ریونیو "Revenue" 2004ء میں ایک ارب ڈالر سے زائد ہو گیا۔
نارائنا مورتھی کا کہنا ہے کہ اس نے خود یا اپنی کمپنی کے کارکنوں کو کبھی اور ٹائم "Over Time"نہیں کرنے دیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ جو لوگ دن میں بارہ گھنٹے، ہفتے میں چھ یا سات دن کام کرتے ہیں، وہ دراصل ان اوقات میں کام نہیں کرتے بلکہ وہ صرف دفتر میں موجود رہتے ہیں۔ ایسے لوگ فی الحقیقت کام نہیں بلکہ کام کی جگہ پر رہنے کے عادی یا نشئی ہو چکے ہوتے ہیں۔ نارائنا کا کہنا ہے کہ مسلسل اور ٹائم پر کام کرنے والے افراد اپنی صحت اور کمپنی دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ دیر تک دفتر رہنے والے افراد زیادہ غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں ترو تازہ نہیں رہتیں۔
زیادہ وقت دینے اور دبائو میں کام کرنے والوں کی وجہ سے ہونے والی غلطیاں بعض اوقات کئی گھنٹے اور کئی دنوں کی محنت او ر وقت کے بعد ٹھیک ہوتی ہیں۔ایسے لوگ جو دیر تک دفتر میں رہتے ہوں وہ کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتے ، ایسے لوگ اکثر اپنے ساتھیوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں ، خوشامد کرتے رہتے ہیں یا ضرورت کے وقت نہیں ملتے نہیں ، جو کام کرتے ہیں، بے دلی اور سستی سے کرتے ہیں جب کہ اوور ٹائم پر کام کرنے والے لوگ اکثر و بیشتر ایک دوسرے سے ناراض یا جھنجلاہٹ کا شکار رہتے ہیں اور آپس میں حسد اور بغض رکھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملنے میں خوشی محسوس نہ کریں وہاں مجموعی کام متاثر ہوتا ہے۔
نارائنا کا کہنا ہے کہ میں نے ہمیشہ ان Managers کو پسند کیا اور حوصلہ افزائی کی جنھوں نے دفتر کے اوقات ختم ہونے کے بعد لوگوں کو گھر جانے کا حکم دیا۔اس اصول پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ وقت مقررہ پر دفتر سے خود چلے جائیں تا کہ دوسرے اس اصول پر عمل کرسکیں۔نارائنا نے اپنی کمپنی کی کامیابی کا دوسرا اصول یہ بتایا کہ کارکنوں کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ اپنی روز مرہ زندگی میں ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے اس نے اپنی ٹیم کو 5اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
1- صبح اٹھیں، اچھا ناشتہ کریں اور کام پر روانہ ہو جائیں۔ 2- پوری محنت اور تندہی سے آٹھ گھنٹے تک کام کریں۔ 3- کام سے فارغ ہوتے ہی گھر روانہ ہو جائیں۔ 4- تفریحی فلمیں دیکھیں، مزاحیہ کتابیں پڑھیں اور بچوں کے ساتھ کھیلیں۔ 5- دل پسند اور اچھا کھانا کھائیں اور مزے سے سوئیں۔
نارائنا کا کہنا ہے کہ میری زندگی کا یہ تجربہ ہے کہ اگر آپ تجاویز پر عمل درآمد کریں اورپوری محنت اور تندہی سے آٹھ گھنٹے تک کام کریں تو اس طرح کمپنی میں آپ کی شہرت ایک اچھے اور خوش اخلاق پروفیشنل کے طور پر نمایاں ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ دیر تک دفتر رہنے سے آپ سارے کام ختم کر کے گھر جاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے گھر جانے اور سوجانے کے با وجود بھی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، یہی زندگی کا اصول ہے۔اس لیے اگر آپ نے آرام نہ کیا یا وقفہ نہ دیا تو آپ نہ تو صحیح طور پر کام کر سکیں گے اور نہ ہی آپ مقبولیت حاصل کر سکیں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ری چارجRecharge ہونے کا موقع دیں جب آ پ کی انرجی آرام کے بعد ری چارج ہو جائے گی تو آپ رکے ہوئے کاموں کو جلد اور بہتر انداز میں انجام دے سکیں گے۔نارائنا نے اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے کہاکہ
''اپنے کام سے محبت کرو، اپنی کمپنی کی محبت میں گرفتار نہ ہونا کیونکہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ کمپنی کب آپ سے محبت کرنا ختم کر دے''۔
ان حقائق کی روشنی میں وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم خواہ ہفتے میں دو چھٹیاں کریں یا ایک لیکن ہمیں مقررہ دفتری اوقات میں اپنی ڈیوٹی ذمے داری سے ادا کرنے جاہئے۔ سرکاری افسروں اور ملازمین کی دیوٹی سائلین کی داد رسی کرنا ہوتاہے نہ کہ انھیں قانونی اور ضابطے کی پیچیدگیوں میں الجھا کر خوار کرنا، اگر ہم اس اصول پر عمل کریں تو ملکی ترقی اور خوشحالی کی منزل قریب آ جائے گی لیکن اگر ہم نے وقت مقررہ پر کام نہیں کرنا تو ہفتے میں سات دن میں بھی ہم کچھ نہ کر سکیں گے۔