’’سازش‘‘

خان صاحب جو بیانیہ لے کے چل نکلے تھے، یہ کالم چھپنے تک وہ کراچی بھی آچکے ہونگے


جاوید قاضی April 17, 2022
[email protected]

پاکستان میں اب کے بار بہت تیزی سے سیاسی منظر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے ہی شہباز شریف نے حلف لیا یوں لگتا تھا کہ خان صاحب بہت بڑا سیاسی بحران پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جب ان کی حکومت ختم ہوئی ، لوگ سڑکوں پر آگئے اور عوامی رابطے کی مہم کا آغازکیا۔

میرے لکھنے کے وقت وہ پشاور میں بظاہر بہت بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ دوسرے دن فوج کے ترجمان کی طرف سے یہ تردید کے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اعلانیہ میں کسی بھی بیرونی سازش کا ذکر نہیں ہے ، جس سے پورا بیانیہ جو بیرونی سازش کا گھڑا گیا تھا وہ وہیں گرکے بھسم ہوگیا۔ تو پھر کیا یہ '' زبردستی'' کے زمرے میں نہیں آتا کہ آپ نے عدم اعتماد والی اسمبلی میں پڑے پوائنٹ (تحریک عدم اعتماد ) کو کیوں غیر آئینی انداز میں فارغ کیا ، پھر آپ نے اسمبلی کو فارغ کیا ، خود نگران وزیر اعظم بن کے بیٹھ گئے۔ اس شب خون مارنے کا جو جواز بنایا گیا، وہ ٹوٹ چکا ہے۔

خان صاحب جو بیانیہ لے کے چل نکلے تھے، یہ کالم چھپنے تک وہ کراچی بھی آچکے ہونگے شاید اور بڑا جلسہ بھی کرگئے ہوں یا مگرکہنے کے لیے کب کیا رہا ، ان کے پاس۔ وہ بات جس پر پورا ڈرامہ رچایا گیا کہ سازش ہے اور اس کی تصدیق نیشنل سیکیورٹی کونسل میں بھی ہوچکی ہے، اس کی فوج کی طرف سے تو تردید آگئی ہے۔

جو چیز خان صاحب بھول جاتے ہیں کہ ہٹلر بننے کے لیے ہٹلر والا زمانہ بھی چاہیے، آپ پروپیگنڈا کرکے اب کے ان زمانوں میں جھوٹ کو سچ سے زیادہ طاقتور نہیں کرسکتے۔جو خط راجہ بازار میں بھٹو صاحب لے کے آئے تھے کہ ان کی اس بات کا امریکا نے نوٹس لیا ہے اورکہا ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کریں۔ دراصل بھٹو صاحب نے خود اس حقیقت کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کیا ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب کے خلاف یہ سب امریکنوں نے کیا تھا۔ اس کی وجہ تھی کہ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے کوئی بیرونی پریشر قبول نہیں کیا اور دوسرا ان کا سب سے بڑا کام تھا اسلامی سربراہی کانفرنس بلانا۔

لیکن وہ جو بھٹو صاحب نے دھاندلی کرکے جو دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی ، جو انھوں نے اپوزیشن کوکمزور کرنے کے لیے ان پر غداری کے مقدمے بنائے جس طرح، بلوچستان اور سرحد کی حکومت کو فارغ کیا تھا ، تو بھٹو صاحب سیاسی طور پر تنہا رہ گئے، اس دوران امریکن بھی متحرک ہو ئے تو ضیاالحق نے اپنا کام کردیا، یہ سازش صرف بھٹو کے خلاف نہیں بلکہ جنوبی امریکا کے ملک چلی میں منتخب صدر ایلندے کے خلاف بھی امریکا نے سازش کی تھی جس کا اعتراف تو سی آئی اے کے پبلک کے سامنے رکھے ڈاکیومنٹ بھی کرتے ہیں لیکن وہ سرد جنگ کے زمانے تھے، ہم نو آبادیاتی بیٹھک تھے ، جنرل ایوب خان نے شب مارا تھا ، ایوب خان نے خود اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کو اڈے دیے ہوئے تھے ، جنرل ایوب نے جو شب خون مارا تھا ، اس کی پوری بلیو پرنٹ کاپی بھی امریکی سفیرکے پاس موجود تھی۔

یہاں مگر الٹا ہوا خان صاحب خود ایک منصوبہ بندی کے تحت ابھارے گئے تھے۔ ان کی سیاست اور دھرنا سب کچھ پس پردہ کرداروں کا کمال تھا۔ میاں صاحب کی ضد تھی کہ جنرل مشرف پر ٹرائل چلا دیا ، جس کا ذکر مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی کیا کرتی تھیں تو رانا ثناء اللہ بھی اسی پروگرام میں موجود تھے اور کہا تھا کہ واقعی یہ ایک غلطی تھی ، جس کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہوئی اور خان صاحب آ کے دھرنے لگا کے بیٹھ گئے بمع طاہر القادری کے اور یہ بھی میاں صاحب کی بلنڈر تھی جب انھوں نے جنرل مشرف کو برطرف کیا تھا اور ملک میں مارشل لگ گیا۔

سیاست زمینی حقائق کا دوسرا نام ہے، خواہشات الگ ہوتی ہیں، اور اس حقیقت کا ادارک زرداری صاحب کو خوب ہے۔ ان کے زمانوں میں بہت کچھ ہوا، حقانی والا میموگیٹ خود میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ خان صاحب اس منصوبے کی پیداوار ہیں جس کو ہائبرڈ جمہوریت کہا جاتا ہے کہ جب شب خون مارنا ممکن نہ ہو تو ایک ایسا وزیر اعظم دھاندلیاں کرکے لایا جائے جو اقتدار کا بھوکا ہو۔

اور یہ جو فارن فنڈنگ کا کیس ہے اس سے بھی یہ راز کھلنے کو ہے کہ خان صاحب کے پیسے کہاں سے آتے تھے۔ دراصل خان صاحب کو جو موقع ملا وہ انھوں نے خود ضایع کردیا۔ پہلے اسد عمر کو وزیر خزانہ بنا کے بیٹھ گئے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں دانستہ اور بیوقوفانہ انداز میں تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے معیشت ڈانواڈول ہوئی ، ڈالرکی قیمت چڑھتی گئی ، پھر چینی کا بحران ، پھر آٹے کا بحران ، پٹرول کا بحران ،گیس کا بحران ، بیروزگاری اور مہنگائی۔

اب تو جو ان کے زمانوں کی کرپشن سے جب پردے ہٹیں گے بڑے بڑے حیران ہونگے۔ خان صاحب کی ناقص کارکردگی دراصل ان کی دشمن ٹہری اور پھر جب رعونیت سے ، نرگسیت میں وہ ڈوبے ہوئے تھے انھوں نے اپنے گرد چمچوں کا انبار لگایا ، سوشل میڈیا کو خوب استعمال کیا ، صحافیوں کو یرغمال کرایا ، جھوٹے مقدمے بنائے، این آر او کو بار بار رونا پیٹتے رہے، کوئی بھی کیس عدالت میں ثابت نہیں کرسکے جب کہ لوگوں کو فاقے آگئے اور یہ لگے رہے بالآخر روس بھی پہنچ گئے آزاد خارجہ پالیسی کا بہانہ کر کے۔ یہ دراصل اس ملک کو بہت بڑے معاشی بحران کے حوالے کر رہے تھے۔ جتنے داخلی اور بیرونی قرضے لیے گئے ، ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ، ہم آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے پے مجبور ہوئے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹکتی رہی۔

ہم نے نہیں کہا تھا کہ آپ پنجاب میں بے نامی وزیر اعلیٰ رکھیں اور اس کو ڈوریوں سے پیچھے سے چلائیں۔ آپ نے جو ایڈوائزر رکھے وہ بہت بڑے بھڑک باز تھے۔ ابھی تک توشہ خانہ کا اسکینڈل ہے جو یقینا ثابت ہونے جا رہا ہے۔ کرپشن کے الزامات تو نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری پر بھی ہیں، لیکن ثابت نہیں ہوئے ۔

خان صاحب اپنے مداحوں کو چاہے بیوقوف بنا کے اپنے سحر میں رکھیں ، بھلے بڑے بڑے جلسے کریں ، سوشل میڈیا پے پروپیگنڈا کریں لیکن آیندہ جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ 2018 کی طرح نہیں ہوں گے۔ پاکستان صرف لاہور، کراچی کی مڈل کلاس نہیں، بہت وسیع اورگونا گوں ہے۔ شفاف انتخابات ہوں تو خان صاحب اسمبلی میں اتنے سیٹیں جیت کے آسکتے ہیں جتنی ان کو 2013 انتخابات میں ملی تھیں۔

ہاں اگر شہباز شریف جو معاشی بحران عمران خان چھوڑ گیا ہے اس پر قابو نہ پاسکے یا یہ بحران اور بڑھ گیا تو عمران خان صاحب اس پر خوب کھیلیں گے ، لیکن شہباز شریف کی تاریخ بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب بہت شاندار ہے، وہ ہوم ورک کر کے آیا تھا جس کی جھلک اس کی اسمبلی میں کی ہوئی تقریر سے مل رہی تھی۔خان صاحب اب آپ کی باری ہے ، اس عتاب سے گزرنے کی جس سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) گزری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب آپ برداشت کرسکیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں