غلامی سے نجات کے لیے معاشی استحکام ضروری
ہمارے سیاستداں بھی عوام کی اس کمزوری کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں
ABBOTTABAD:
امریکا اوردیگر عالمی طاقتوں کی غلامی سے نجات کے دلفریب نعرے سننے والے کانوں کو ہمیشہ سے اچھے لگتے رہے ہیں۔یہ ایک ایسا سحر انگیز جذباتی نعرہ ہے جسے ہماری قوم بہت پسند کرتی رہی ہے۔
ہمارے سیاستداں بھی عوام کی اس کمزوری کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا نعرہ ہے جس پر ساری عوام چاہے اس کا تعلق معاشرے کی کسی طبقے سے ہو متحد و یکجا ہوکر اشتعال انگیزی پرفوراً اتر آتی ہے۔
آج کل امریکا کے خلاف نفرت انگیز سیاست نے ساری قوم کو ایک ہیجان میں مبتلاکردیاہے۔خان صاحب نے اپنی ساری سیاسی جدوجہد میں کبھی بھی امریکاکے خلاف بیانات نہیں دیے۔ بلکہ دیکھا یہی گیاہے کہ وہ مغربی دنیا سے بہت متاثر تھے اورہمیشہ پاکستانیوں کودرس دیتے ہوئے وہاں کی جمہوریت اورعدالتوں کی مثالیں دیاکرتے تھے۔
ہم نے کبھی بھی اُن سے ایک باربھی امریکا کوبرابھلاکہتے نہیں سنا۔زمانہ کرکٹ سے لے کر1996 میں سیاسی میدان کے شہسواربننے تک وہ امریکا اوربرطانیہ کی رنگینیوں میں اتنے کھو چکے تھے کہ اُنہیں ایک لمحہ کے لیے بھی غلامی سے نجات کاخیال تک نہیں آیا۔بلکہ یہ کہاجائے توبھی شاید غلط نہ ہوگا کہ اقتدار ملنے کے بعد بھی ساڑھے تین برس تک اُنہوں نے ایک بار بھی امریکا کی غلامی سے نجات کی کوئی بات کی اورنہ ہی کوئی کوشش کی۔
وہ توامریکا سے اپنے ذاتی تعلقات قائم کرنے کے اتنے خواہاں تھے کہ 2019 میں اپنے دورے امریکا سے واپسی پرجوش خطابت میں یہ تک کہہ دیاکہ ایسالگتاہے کہ میں نے ایک ورلڈ کپ اورجیت لیاہے۔
یہ تو امریکاکے نئے انتخابات اوروہاں جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد اُنہیں امریکاسے گلاشروع ہوا۔اُنہیں امید تھی کہ جوبائیڈن عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اُنہیں کوئی فون کریگااوراُن کے لیے خیر سگالی کے پیغامات بھیجے گا۔لیکن جب ایسا نہ ہواتو وہ اتنے مایوس ہوگئے کہ ساری قوم کو امریکا کے خلاف برسرپیکارکردیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے بہت سے نئے رفقاء کاتعلق آج بھی امریکاسے وابستہ ہے۔
وہ سارے کے سارے 2018 ء میں الیکشن جیت جانے کے بعد امریکاسے ہی آئے تھے اور موقعہ پانے پر وہ واپس بھی وہیں چلے جائیں گے۔اُن میں سے کوئی ایک بھی روس یاچین نہیں جائے گااور تو اور ہماری یہ جذباتی قوم بھی امریکی ویزے کی جتنی خواہشمند ہے کسی اورملک کی نہیں ۔جس شخص یا فیملی کو امریکا کاگرین کارڈ مل جاتا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا خوش نصیب تصور کرتی ہے جیسے اُسے جنت میں داخلے کا اجازت نامہ مل گیاہو۔اس کے برعکس ہماری قوم کاایک شخص بھی روس جانے کے لیے اتنا بے چین اورخواہشمند دکھائی نہیں دیتا۔
یہ درست ہے کہ غلامی اورغیر ملکی احتیاج کاپٹہ کسی کو اچھا نہیں لگتالیکن اس سے چھٹکارے کے لیے پہلے ہمیں اپنے آپ کو اس قابل بھی بنانا ہوگا۔ خود کفالت اورخود انحصاری کی منزلوں کو پانا ہوگا۔ہم جب تک اپنے روزمرہ کے اخراجات تک کے لیے دوسروں کے محتاج اورحاجت روا بنے رہیں گے آزادی کی نعمتوں سے بہرہ مند اور لطف اندوز نہیں ہوپائیں گے۔
امریکا کے خلاف غیر ضروری نعرے بازی سے عوام کو بھڑکایا تو جاسکتاہے لیکن اسکی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کیاجاسکتاہے۔ خان صاحب نے اپنے دورحکومت میںامریکاکی غلامی سے نجات کے لیے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کے بعد ہم یہ اُمید لگا سکیں کہ واقعی علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کی عملی تصویر ہمیں مل گئی ہے۔قوم کو اگر صحیح معنوں میں ایک غیرت منداورخود مختار بنانا مقصود ہے تو پہلے اُنہیں اپنے پاؤں پر چلنا سکھانا ہوگا ۔
بھیک اورامداد کو معاشی پیکیج سمجھنے والے قوم کو کاسہ لیسی اوردریوزی گری سے کبھی بھی چھٹکارا دلانہیں سکتے۔لنگر خانوں اورشیلٹر ہومز بنا کے ہم اُنہیں اوربھی محتاج اورغلام زندگی گذارنے کاعادی بنارہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ اُنہیں اس قابل بنانا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے لنگر خانوں کی طرف نہ دیکھیں۔فیکٹریاں اور کارخانے بناکر بے روزگار نوجوانوں کو کام پہ لگانا ہے۔
آج ہمارا پڑھالکھا نوجوان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے چوری اورڈکیتی کی وارداتوں کی طرف مائل ہوتاجارہا ہے۔ ہماراحال کینیا اورایتھوپیااور صومالیہ سے بھی بد تر ہوتاجارہاہے۔ ہم جن زرعی اجناس میںپہلے خود کفیل ہوچکے تھے خان صاحب کے دور میں ایک بار پھر وہی اجناس امپورٹ کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ہمارا تجارتی خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ کوئی بھی ماہر معاش واقتصادیات اُسے سدھار نہیںسکتا۔ملکی معیشت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ خدانخواستہ سری لنکا کی طرح ڈی فالٹ اوردیوالیہ ہونے کو ہے۔
امریکا اوردیگر عالمی طاقتوں کی غلامی سے نجات کے دلفریب نعرے سننے والے کانوں کو ہمیشہ سے اچھے لگتے رہے ہیں۔یہ ایک ایسا سحر انگیز جذباتی نعرہ ہے جسے ہماری قوم بہت پسند کرتی رہی ہے۔
ہمارے سیاستداں بھی عوام کی اس کمزوری کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا نعرہ ہے جس پر ساری عوام چاہے اس کا تعلق معاشرے کی کسی طبقے سے ہو متحد و یکجا ہوکر اشتعال انگیزی پرفوراً اتر آتی ہے۔
آج کل امریکا کے خلاف نفرت انگیز سیاست نے ساری قوم کو ایک ہیجان میں مبتلاکردیاہے۔خان صاحب نے اپنی ساری سیاسی جدوجہد میں کبھی بھی امریکاکے خلاف بیانات نہیں دیے۔ بلکہ دیکھا یہی گیاہے کہ وہ مغربی دنیا سے بہت متاثر تھے اورہمیشہ پاکستانیوں کودرس دیتے ہوئے وہاں کی جمہوریت اورعدالتوں کی مثالیں دیاکرتے تھے۔
ہم نے کبھی بھی اُن سے ایک باربھی امریکا کوبرابھلاکہتے نہیں سنا۔زمانہ کرکٹ سے لے کر1996 میں سیاسی میدان کے شہسواربننے تک وہ امریکا اوربرطانیہ کی رنگینیوں میں اتنے کھو چکے تھے کہ اُنہیں ایک لمحہ کے لیے بھی غلامی سے نجات کاخیال تک نہیں آیا۔بلکہ یہ کہاجائے توبھی شاید غلط نہ ہوگا کہ اقتدار ملنے کے بعد بھی ساڑھے تین برس تک اُنہوں نے ایک بار بھی امریکا کی غلامی سے نجات کی کوئی بات کی اورنہ ہی کوئی کوشش کی۔
وہ توامریکا سے اپنے ذاتی تعلقات قائم کرنے کے اتنے خواہاں تھے کہ 2019 میں اپنے دورے امریکا سے واپسی پرجوش خطابت میں یہ تک کہہ دیاکہ ایسالگتاہے کہ میں نے ایک ورلڈ کپ اورجیت لیاہے۔
یہ تو امریکاکے نئے انتخابات اوروہاں جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد اُنہیں امریکاسے گلاشروع ہوا۔اُنہیں امید تھی کہ جوبائیڈن عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اُنہیں کوئی فون کریگااوراُن کے لیے خیر سگالی کے پیغامات بھیجے گا۔لیکن جب ایسا نہ ہواتو وہ اتنے مایوس ہوگئے کہ ساری قوم کو امریکا کے خلاف برسرپیکارکردیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کے بہت سے نئے رفقاء کاتعلق آج بھی امریکاسے وابستہ ہے۔
وہ سارے کے سارے 2018 ء میں الیکشن جیت جانے کے بعد امریکاسے ہی آئے تھے اور موقعہ پانے پر وہ واپس بھی وہیں چلے جائیں گے۔اُن میں سے کوئی ایک بھی روس یاچین نہیں جائے گااور تو اور ہماری یہ جذباتی قوم بھی امریکی ویزے کی جتنی خواہشمند ہے کسی اورملک کی نہیں ۔جس شخص یا فیملی کو امریکا کاگرین کارڈ مل جاتا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا خوش نصیب تصور کرتی ہے جیسے اُسے جنت میں داخلے کا اجازت نامہ مل گیاہو۔اس کے برعکس ہماری قوم کاایک شخص بھی روس جانے کے لیے اتنا بے چین اورخواہشمند دکھائی نہیں دیتا۔
یہ درست ہے کہ غلامی اورغیر ملکی احتیاج کاپٹہ کسی کو اچھا نہیں لگتالیکن اس سے چھٹکارے کے لیے پہلے ہمیں اپنے آپ کو اس قابل بھی بنانا ہوگا۔ خود کفالت اورخود انحصاری کی منزلوں کو پانا ہوگا۔ہم جب تک اپنے روزمرہ کے اخراجات تک کے لیے دوسروں کے محتاج اورحاجت روا بنے رہیں گے آزادی کی نعمتوں سے بہرہ مند اور لطف اندوز نہیں ہوپائیں گے۔
امریکا کے خلاف غیر ضروری نعرے بازی سے عوام کو بھڑکایا تو جاسکتاہے لیکن اسکی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کیاجاسکتاہے۔ خان صاحب نے اپنے دورحکومت میںامریکاکی غلامی سے نجات کے لیے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کے بعد ہم یہ اُمید لگا سکیں کہ واقعی علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کی عملی تصویر ہمیں مل گئی ہے۔قوم کو اگر صحیح معنوں میں ایک غیرت منداورخود مختار بنانا مقصود ہے تو پہلے اُنہیں اپنے پاؤں پر چلنا سکھانا ہوگا ۔
بھیک اورامداد کو معاشی پیکیج سمجھنے والے قوم کو کاسہ لیسی اوردریوزی گری سے کبھی بھی چھٹکارا دلانہیں سکتے۔لنگر خانوں اورشیلٹر ہومز بنا کے ہم اُنہیں اوربھی محتاج اورغلام زندگی گذارنے کاعادی بنارہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ اُنہیں اس قابل بنانا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے لنگر خانوں کی طرف نہ دیکھیں۔فیکٹریاں اور کارخانے بناکر بے روزگار نوجوانوں کو کام پہ لگانا ہے۔
آج ہمارا پڑھالکھا نوجوان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے چوری اورڈکیتی کی وارداتوں کی طرف مائل ہوتاجارہا ہے۔ ہماراحال کینیا اورایتھوپیااور صومالیہ سے بھی بد تر ہوتاجارہاہے۔ ہم جن زرعی اجناس میںپہلے خود کفیل ہوچکے تھے خان صاحب کے دور میں ایک بار پھر وہی اجناس امپورٹ کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ہمارا تجارتی خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ کوئی بھی ماہر معاش واقتصادیات اُسے سدھار نہیںسکتا۔ملکی معیشت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ خدانخواستہ سری لنکا کی طرح ڈی فالٹ اوردیوالیہ ہونے کو ہے۔