ہوش مندی کا تقاضا
شہباز شریف نے بالآخر اچکن پہن ہی لی
ہفتہ رفتہ میں کئی اہم واقعات دیکھنے کو ملے۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی اور باہر بھی ساتھ ہی ساتھ قومی سلامتی سے منسلک کچھ واقعات اور بیانات بھی سامنے آئے۔ شہباز شریف نے بالآخر اچکن پہن ہی لی۔
قومی اسمبلی میں اسپیکر کا انتخاب ہو گیا ہے اور پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پرویز اشرف جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے پی ٹی آئی کے اسد قیصر کی جگہ اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں اور اپنا پہلا حکم انھوں نے پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کے استعفے ڈی سیل کرنے کا حکم دیا اور واضح کیا کہ مستعفی ہونے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا۔
استعفوں کے معاملے پر 2014 کا سین دوبارہ ری پلے ہو سکتا ہے جس طرح سابق اسپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے استعفے منظور نہیں کیے اور لٹکا کے رکھنے اور بعد ازاں پارلیمنٹ واپسی پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت تمام ممبران نے اپنی تنخواہیں بھی وصول کیں اور استحقاق بھی بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ پاکستانی جمہوریت پر ایک سیاہ دھبے کی طرح تمام عمر یاد رہے گا ۔
پارلیمنٹ کے باہر سیاسی فرنٹ پر عمران خان پھر سے ایک دفعہ کنٹینر پر ہیں۔ پشاور میں انھوں نے ایک بھرپور جلسہ کیا جس میں پورے خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے شرکت کی۔ پشاور میں عمران خان کے خطاب نے ان کے مستقبل کی سیاسی پالیسی واضح کر دی کہ وہ ہر صورت اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ عمران خان سیاسی مخالفین امریکا اور اب عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لتے لے رہے ہیں۔ اور جوش خطابت میں عمران خان اتنا آگے جا چکے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے معاملات اور سنگینی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے۔
پشاور کے جلسے میں ایٹم بم کے حوالے سے عمران خان کا بیان کسی صورت بھی حب الوطنی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ خود عمران خان امریکی سازش کی گردان کرتے کرتے اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے بانٹتے خود ہی سرخ لائن عبور کر گئے۔ دوسروں کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے عمران خان بھول گئے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام روز اول سے دشمنوں سے ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے 1998میں ایٹمی دھماکے کیے لیکن وقتاً فوقتاً ہمارے ایٹمی پروگرام کو لے کر امریکا سمیت کئی یورپی ممالک ہمیں تنگ کرتے رہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے جو مسلسل پاکستان کے ایٹمی سیکیورٹی کے حوالے سے الزامات عائد کرتا رہا ہے حالانکہ خود بھارت کو اپنے ہتھیاروں پر کنٹرول نہیں جس کا ثبوت ایک ماہ قبل پاکستان کی حدود میں آنے والا سپر سانک میزائل ہے جس کو بھارت نے اپنی غلطی تسلیم کر لیا ہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام خبروں کی زینت اس وقت بنا ہے جب عمران خان نے پشاور کے جلسے میں بیان دیا۔
عمران خان ایک ہفتے قبل تک پاکستان کے وزیراعظم تھے اور ان کا یہ بیان ایٹم بم چوروں کے حوالے کر دیا ہے کسی صورت بھی ان کے سابقہ عہدے اور موجودہ سیاسی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان کے سیاستدانوں اور سیکیورٹی سے منسلک اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کی مہم کئی روز سے جاری ہے اور شاید اتنا نقصان ہمیں بھارت کے ان جعلی اکاؤنٹس سے نہیں پہنچا جو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بنائے گئے جتنا آج کل جاری مہم پہنچا رہی ہے۔
سیاسی اختلافات میں ڈوب جانے کے بعد یہ لوگ اپنے ملکی مفاد کو بھول رہے ہیں۔ اتوار کی رات کراچی کے جلسے میں بھی عمران خان نے اپنے ہٹائے جانے کو امریکا ہی نہیں بلکہ ایک عالمی سازش قرار دیا۔ انھوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ان کے خلاف مقدمات قائم ہو سکتے ہیں خصوصاً انھوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا حوالہ دیا جس کے حوالے سے ہائی کورٹ پہلے ہی حکم دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن 30 دنوں کے اندر اس کا فیصلہ کرے۔
لگتا ہے کہ عمران خان کو یہ کیس پریشان کیے ہوئے ہیں اسی لیے انھوں نے دھمکی دی کہ اگر انھیں دیوار سے لگایا گیا تو نقصان آپ کا ہو گا۔ عمران خان اور ان کے کارکنوں و رفقاء کو اقتدار سے بے دخلی کا غم اتنا شدید ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بیان کرنے کی بجائے مخالفین کو دھمکیوں پر اتر آئے ہیں اور اپنے کارکنوں کو اتنا مشتعل کر دیا ہے کہ لوگ اب ان سے خوف محسوس کرتے ہیں۔
دیر میں مسجد کا واقعہ ' اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں پیش آنے والا ماجرا ہو یا سوشل میڈیا پر غلاظت گالم گلوچ اور دھمکیاں ایسی چیزیں ہیں جس پر لوگ اب تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان کے پشاور جلسے کے بعد ایک اور اہم کام یہ ہوا کہ فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو کھل کر سوال پوچھنے کی اجازت دی اور کہا کہ آج جو آپ پوچھنا چاہتے ہیں۔
اس کا جواب دیا جائے گا۔ فوجی ترجمان نے حکومت تبدیلی میں امریکی سازش کے بیانیے کو رد کر دیا اور کہا کہ یہ معمول کی سفارت کاری تھی جس کا جواب پاکستان نے احتجاج کرکے دیا۔یہ بات بھی صاف کی کہ امریکا نے افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان سے اڈے مانگنے کی کوئی بات نہیں کی ۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بیان پر فوجی ترجمان نے تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ہر پاکستانی حکومت نے انتہائی ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ اس پروگرام کو آگے بڑھایا اور یہ واضح کیا کہ ایٹمی پروگرام کو سیاست سے دور رکھا جائے جو عمران خان کے لیے ایک واضح پیغام تھا ۔
فوجی ترجمان کی اس بریفنگ نے امریکی سازش کا بھانڈا تو پھوڑا ہی پھوڑا اس بات کی بھی تردید کر دی کہ 17 اپریل کی رات کوئی فوجی آفیسر وزیراعظم ہاؤس نہیں گیا اور یہ بھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کو کوئی پیشکش نہیں کی گئی بلکہ وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے ملاقات کی جس میں تین آپشنز پر غور ہوا۔ جلد الیکشن کرانے کی وزیراعظم کی پیشکش کو اپوزیشن تک پہنچایا گیا تاہم انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے یہ کردار بھی وزیراعظم کی خواہش پر ڈیڈلاک توڑنے کے لیے ادا کیا۔
پاک فوج کے ترجمان کی اس وضاحت کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے پھیلائی گئی کہانی کا اختتام ہونا چاہیے تھا لیکن دوسری جانب سے اتنی لمبی چوڑی وضاحت کے بعد بھی امریکا نہیں بلکہ عالمی سازش کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی عمران خان کو اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کے خلاف پہلا مضبوط سکینڈل توشہ خانے کے حوالے سے آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صحافیوں کو بتایا کہ سعودی عرب جیسے دوست ملک سے سعودی شہزادے کی جانب سے دی گئی گھڑی فروخت کرنے کی وجہ سے خراب ہوئے۔
اس کے بعد صحافیوں نے توشہ خانے کی مکمل تفصیلات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ صرف ایک گھڑی ہی نہیں بلکہ کئی اور قیمتی چیزیں بھی بیچی گئیں اور کچھ قیمتی تحفے تحائف غائب بھی ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ایسے کئی اور سکینڈل بھی سامنے آئیں گے شاید اسی لیے عمران خان نے اپنے خلاف مقدمات کی بات کی۔
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی لڑائی کے دوران پاکستان کی سیکیورٹی سے منسلک کئی واقعات رونما ہوئے ابھی دو روز قبل ہی شمالی وزیرستان کے اندر پاک فوج کے 7 اہلکار شہید ہوئے اس سے ایک روز قبل ایک میجر اور سپاہی نے جام شہادت نوش کیا اور تمام واقعات کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے جنھوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ اور وہ مسلسل سرحد پار سے پاکستان کے اندر حملے کر رہے ہیں اور پاک فوج خصوصاً ان کا نشانہ ہے۔
ہفتے کے دن افغان حکومت نے پاکستانی ناظم الامور کو طلب کرکے خوست میں ہونے والی بمباری پر احتجاج کیا۔ افغانستان نے پاکستان پر سرحدی علاقے میں بمباری کا الزام عائد کیا۔ خطے میںداعش مسلسل اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے اور پاکستان کو انھوں نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔
ایسے حالات میں جب آپ کی معیشت درست سمت میں نہ ہو آپ کی سرحدوں پر حملے ہو رہے ہوں آپ کے جوان شہید ہو رہے ہوں ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو اور جوان بے روزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہو۔ ایسے میں اپنے نوجوان کارکنوں کے جذبات اپنے اداروں کے خلاف کرنا کسی طور بھی دانشمندانہ اقدام نہیں۔ اس کا نقصان پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی ہو گا۔
قومی اسمبلی میں اسپیکر کا انتخاب ہو گیا ہے اور پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پرویز اشرف جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے پی ٹی آئی کے اسد قیصر کی جگہ اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں اور اپنا پہلا حکم انھوں نے پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کے استعفے ڈی سیل کرنے کا حکم دیا اور واضح کیا کہ مستعفی ہونے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا۔
استعفوں کے معاملے پر 2014 کا سین دوبارہ ری پلے ہو سکتا ہے جس طرح سابق اسپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے استعفے منظور نہیں کیے اور لٹکا کے رکھنے اور بعد ازاں پارلیمنٹ واپسی پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت تمام ممبران نے اپنی تنخواہیں بھی وصول کیں اور استحقاق بھی بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ پاکستانی جمہوریت پر ایک سیاہ دھبے کی طرح تمام عمر یاد رہے گا ۔
پارلیمنٹ کے باہر سیاسی فرنٹ پر عمران خان پھر سے ایک دفعہ کنٹینر پر ہیں۔ پشاور میں انھوں نے ایک بھرپور جلسہ کیا جس میں پورے خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے شرکت کی۔ پشاور میں عمران خان کے خطاب نے ان کے مستقبل کی سیاسی پالیسی واضح کر دی کہ وہ ہر صورت اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ عمران خان سیاسی مخالفین امریکا اور اب عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لتے لے رہے ہیں۔ اور جوش خطابت میں عمران خان اتنا آگے جا چکے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے معاملات اور سنگینی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے۔
پشاور کے جلسے میں ایٹم بم کے حوالے سے عمران خان کا بیان کسی صورت بھی حب الوطنی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ خود عمران خان امریکی سازش کی گردان کرتے کرتے اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے بانٹتے خود ہی سرخ لائن عبور کر گئے۔ دوسروں کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے عمران خان بھول گئے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام روز اول سے دشمنوں سے ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے 1998میں ایٹمی دھماکے کیے لیکن وقتاً فوقتاً ہمارے ایٹمی پروگرام کو لے کر امریکا سمیت کئی یورپی ممالک ہمیں تنگ کرتے رہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے جو مسلسل پاکستان کے ایٹمی سیکیورٹی کے حوالے سے الزامات عائد کرتا رہا ہے حالانکہ خود بھارت کو اپنے ہتھیاروں پر کنٹرول نہیں جس کا ثبوت ایک ماہ قبل پاکستان کی حدود میں آنے والا سپر سانک میزائل ہے جس کو بھارت نے اپنی غلطی تسلیم کر لیا ہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام خبروں کی زینت اس وقت بنا ہے جب عمران خان نے پشاور کے جلسے میں بیان دیا۔
عمران خان ایک ہفتے قبل تک پاکستان کے وزیراعظم تھے اور ان کا یہ بیان ایٹم بم چوروں کے حوالے کر دیا ہے کسی صورت بھی ان کے سابقہ عہدے اور موجودہ سیاسی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان کے سیاستدانوں اور سیکیورٹی سے منسلک اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کی مہم کئی روز سے جاری ہے اور شاید اتنا نقصان ہمیں بھارت کے ان جعلی اکاؤنٹس سے نہیں پہنچا جو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بنائے گئے جتنا آج کل جاری مہم پہنچا رہی ہے۔
سیاسی اختلافات میں ڈوب جانے کے بعد یہ لوگ اپنے ملکی مفاد کو بھول رہے ہیں۔ اتوار کی رات کراچی کے جلسے میں بھی عمران خان نے اپنے ہٹائے جانے کو امریکا ہی نہیں بلکہ ایک عالمی سازش قرار دیا۔ انھوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ان کے خلاف مقدمات قائم ہو سکتے ہیں خصوصاً انھوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا حوالہ دیا جس کے حوالے سے ہائی کورٹ پہلے ہی حکم دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن 30 دنوں کے اندر اس کا فیصلہ کرے۔
لگتا ہے کہ عمران خان کو یہ کیس پریشان کیے ہوئے ہیں اسی لیے انھوں نے دھمکی دی کہ اگر انھیں دیوار سے لگایا گیا تو نقصان آپ کا ہو گا۔ عمران خان اور ان کے کارکنوں و رفقاء کو اقتدار سے بے دخلی کا غم اتنا شدید ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بیان کرنے کی بجائے مخالفین کو دھمکیوں پر اتر آئے ہیں اور اپنے کارکنوں کو اتنا مشتعل کر دیا ہے کہ لوگ اب ان سے خوف محسوس کرتے ہیں۔
دیر میں مسجد کا واقعہ ' اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں پیش آنے والا ماجرا ہو یا سوشل میڈیا پر غلاظت گالم گلوچ اور دھمکیاں ایسی چیزیں ہیں جس پر لوگ اب تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان کے پشاور جلسے کے بعد ایک اور اہم کام یہ ہوا کہ فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو کھل کر سوال پوچھنے کی اجازت دی اور کہا کہ آج جو آپ پوچھنا چاہتے ہیں۔
اس کا جواب دیا جائے گا۔ فوجی ترجمان نے حکومت تبدیلی میں امریکی سازش کے بیانیے کو رد کر دیا اور کہا کہ یہ معمول کی سفارت کاری تھی جس کا جواب پاکستان نے احتجاج کرکے دیا۔یہ بات بھی صاف کی کہ امریکا نے افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان سے اڈے مانگنے کی کوئی بات نہیں کی ۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بیان پر فوجی ترجمان نے تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ہر پاکستانی حکومت نے انتہائی ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ اس پروگرام کو آگے بڑھایا اور یہ واضح کیا کہ ایٹمی پروگرام کو سیاست سے دور رکھا جائے جو عمران خان کے لیے ایک واضح پیغام تھا ۔
فوجی ترجمان کی اس بریفنگ نے امریکی سازش کا بھانڈا تو پھوڑا ہی پھوڑا اس بات کی بھی تردید کر دی کہ 17 اپریل کی رات کوئی فوجی آفیسر وزیراعظم ہاؤس نہیں گیا اور یہ بھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کو کوئی پیشکش نہیں کی گئی بلکہ وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے ملاقات کی جس میں تین آپشنز پر غور ہوا۔ جلد الیکشن کرانے کی وزیراعظم کی پیشکش کو اپوزیشن تک پہنچایا گیا تاہم انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے یہ کردار بھی وزیراعظم کی خواہش پر ڈیڈلاک توڑنے کے لیے ادا کیا۔
پاک فوج کے ترجمان کی اس وضاحت کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے پھیلائی گئی کہانی کا اختتام ہونا چاہیے تھا لیکن دوسری جانب سے اتنی لمبی چوڑی وضاحت کے بعد بھی امریکا نہیں بلکہ عالمی سازش کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی عمران خان کو اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کے خلاف پہلا مضبوط سکینڈل توشہ خانے کے حوالے سے آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صحافیوں کو بتایا کہ سعودی عرب جیسے دوست ملک سے سعودی شہزادے کی جانب سے دی گئی گھڑی فروخت کرنے کی وجہ سے خراب ہوئے۔
اس کے بعد صحافیوں نے توشہ خانے کی مکمل تفصیلات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ صرف ایک گھڑی ہی نہیں بلکہ کئی اور قیمتی چیزیں بھی بیچی گئیں اور کچھ قیمتی تحفے تحائف غائب بھی ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ایسے کئی اور سکینڈل بھی سامنے آئیں گے شاید اسی لیے عمران خان نے اپنے خلاف مقدمات کی بات کی۔
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی لڑائی کے دوران پاکستان کی سیکیورٹی سے منسلک کئی واقعات رونما ہوئے ابھی دو روز قبل ہی شمالی وزیرستان کے اندر پاک فوج کے 7 اہلکار شہید ہوئے اس سے ایک روز قبل ایک میجر اور سپاہی نے جام شہادت نوش کیا اور تمام واقعات کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے جنھوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ اور وہ مسلسل سرحد پار سے پاکستان کے اندر حملے کر رہے ہیں اور پاک فوج خصوصاً ان کا نشانہ ہے۔
ہفتے کے دن افغان حکومت نے پاکستانی ناظم الامور کو طلب کرکے خوست میں ہونے والی بمباری پر احتجاج کیا۔ افغانستان نے پاکستان پر سرحدی علاقے میں بمباری کا الزام عائد کیا۔ خطے میںداعش مسلسل اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے اور پاکستان کو انھوں نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔
ایسے حالات میں جب آپ کی معیشت درست سمت میں نہ ہو آپ کی سرحدوں پر حملے ہو رہے ہوں آپ کے جوان شہید ہو رہے ہوں ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو اور جوان بے روزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہو۔ ایسے میں اپنے نوجوان کارکنوں کے جذبات اپنے اداروں کے خلاف کرنا کسی طور بھی دانشمندانہ اقدام نہیں۔ اس کا نقصان پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی ہو گا۔