نامور ادیب ڈاکٹر جمیل جالبی کی تیسری برسی
حکومتِ پاکستان نے ادبی و قومی خدمات کے اعتراف میں جمیل جالبی کو ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا
ملک کے معروف ادیب، دانشور اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر جمیل جالبی کی تیسری برسی آج منائی جارہی ہے، ان کی تصنیف "تاریخِ ادبِ اردو" کو اردو زبان کے لیے عظیم خدمت قرار دیا جاتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اردو زبان کے لیے بیش بہا کارنامے انجام دینے والے ڈاکٹر جمیل جالبی 12 جون 1929 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن تک ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد قیامِ پاکستان کے موقع پر ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ انہوں نے ایل ایل بی، ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کیا، بعد ازاں وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔
مرحوم نے تنقید، تحقیق اور ثقافت پر چالیس سے زائد کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف "تاریخِ ادبِ اردو" کو اردو زبان کے لیے عظیم خدمت قرار دیا جاتا ہے۔ جمیل جالبی کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے 12 سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈرامہ اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ ان کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔
جمیل جالبی کی قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی اہم تصنیفات ہیں۔ انہوں نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔
ان کی دیگر اہم تصانیف و تالیفات میں پاکستانی کلچر، قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے، تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی سمیت دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی سن 1983سےسن 1987 تک کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، بعدازاں انہیں مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین مقررکیا گیا، حکومت پاکستان نے ادبی و قومی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا، ڈاکٹر جمیل جالبی کی وفات 18 اپریل 2019 کو کراچی میں ہوئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اردو زبان کے لیے بیش بہا کارنامے انجام دینے والے ڈاکٹر جمیل جالبی 12 جون 1929 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن تک ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد قیامِ پاکستان کے موقع پر ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ انہوں نے ایل ایل بی، ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کیا، بعد ازاں وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔
مرحوم نے تنقید، تحقیق اور ثقافت پر چالیس سے زائد کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف "تاریخِ ادبِ اردو" کو اردو زبان کے لیے عظیم خدمت قرار دیا جاتا ہے۔ جمیل جالبی کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے 12 سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈرامہ اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ ان کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔
جمیل جالبی کی قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی اہم تصنیفات ہیں۔ انہوں نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔
ان کی دیگر اہم تصانیف و تالیفات میں پاکستانی کلچر، قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے، تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی سمیت دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی سن 1983سےسن 1987 تک کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، بعدازاں انہیں مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین مقررکیا گیا، حکومت پاکستان نے ادبی و قومی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا، ڈاکٹر جمیل جالبی کی وفات 18 اپریل 2019 کو کراچی میں ہوئی۔