نئی حکومت اور خارجہ پالیسی کے خدوخال
ہمیں خارجہ پالیسی کے تناظر میں شارٹ ٹرم، مڈٹرم اور لانگ ٹرم فکر اور سوچ یا حکمت عملی کی ضرورت ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو جوابی خط میں لکھا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہش مند ہے لیکن اس کے لیے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے پرعزم ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہماری کوششوں کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے ، آیئے ! امن کو محفوظ بنائیں اور عوام کی ترقی وخوشحالی کے لیے کام کریں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد عالمی رہنماؤں کی جانب سے جس طرح مبارکباد اور تعلقات میں بہتری لانے کی توقعات کا اظہار سامنے آیا ہے اور حکومت کو تعاون کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے وہ اہمیت کا حامل معاملہ ہے خود وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پہلے ہی خطاب میں دنیا کے ممالک سے سفارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور معاملات میں اصلاح کے حوالے سے بات کرکے اپنی ترجیح واضح کر دی ہے۔
بھارت سے تعلقات نئی حکومت کے لیے اہم ترین معاملہ ہے، کیونکہ گزشتہ تین برس سے پاک بھارت تعلقات تعطل کا شکار ہیں، پاک بھارت تعلقات کی خارجہ سطح پر بحالی کے امکانات پیدا ہونے سے امید ہو چلی ہے کہ خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مسائل حل کرنے میں دونوں حکومتوں کو کافی مدد ملے گی۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد میاں شہباز شریف کو داخلی و خارجی معاملات سمیت کئی چیلنجز درپیش ہیں اور انھیں ہر چیلنج کا بردباری اور سیاسی بصیرت سے سامنا کرنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے حکومت کو گرانے کے لیے امریکی سازش کے الزامات کے بعد نئی حکومت کے لیے پاک امریکا تعلقات کو دوبارہ سے بحال کرنا بھی ایک چیلنج ہے، کیونکہ عمران خان کے غیر سیاسی رویے نے تلخیوں کو مزید بڑھایا ہے۔ عمران خان یورپ اور امریکا کے لیے سخت الفاظ استعمال کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چونکہ انھوں نے امریکا اور یورپ کو آنکھیں دکھائی ہیں۔
اس لیے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے ، جس کے پیچھے مبینہ طور پر امریکا اور یورپ ملوث ہیں۔ شاید وہ اس طرح کے الفاظ استعمال کرکے ملک کے ایک طبقے کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوجائیں مگر پاکستان کو اس کا شدید نقصان پہنچے گا جو ملکی مفاد میں نہیں۔
اس کے علاوہ نئی پاکستانی حکومت کو افغانستان کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے کا چیلنج بھی درپیش ہے جب کہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات بھی اہم ہیں، یہ وہ تمام بڑے چیلنجز ہیں، جن کا شہباز شریف اور ان کی حکومت کو سامنا کرنا ہے، نئی حکومت ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ملکی موجودہ سیاسی صورت حال بتاتی ہے کہ نئی حکومت کے لیے حالات بالکل بھی آسان نہیں ہیں۔
ہر نئی حکومت کے لیے خارجہ پالیسی کا تعین ایک چیلنج رہا ہے بین الاقوامی تعلقات اور حالات کے جس دور میں پاکستان میں حکومت تبدیل ہوئی ہے ، یہ نہایت نازک دور ہے یہاں تک کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی میں مبینہ طور پر بعض ممالک سے تعلقات اور اس حوالے سے ملک کی پالیسی کا بھی تذکرہ جاری ہے بہرحال اس سے قطع نظر اس وقت روس، یوکرین جنگ کے تناظر میں خاص طور پر خارجہ پالیسی اور دنیا کے ممالک سے پاکستان کے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔
یورپی یونین، پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ 7ارب ڈالر ہے جب کہ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری سہولت دے رکھی ہے جس سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں تقریباً سالانہ 3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح یورپی یونین سے پاکستان کو 2.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھی موصول ہوتی ہیں۔ سابق پی ٹی آئی حکومت کے دور میں یورپی یونین سے ہمارے تعلقات میں اس وقت کشیدگی دیکھنے میں آئی جب حکومت نے ایک مذہبی تنظیم کے ساتھ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور فرانس میں متعین پاکستانی سفیر کو واپس بلانے جیسا معاہدہ کیا جس کے ردعمل میں یورپی پارلیمنٹ کے تقریباً 300 سے زائد ارکان نے ایک قرارداد پیش کی جس میں پاکستان سے جی ایس پی پلس سہولت واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
ابھی اس قرارداد کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے یورپی یونین کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرکے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدگی کا شکار کردیا جس سے پاکستان کو میسر جی ایس پی سہولت متاثر ہونے کا امکان ہے۔
سابقہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود امریکی صدر کا عمران خان کو فون نہ کرنا، روس یوکرین جنگ کے دوران سابق وزیراعظم کے دورہ روس کے موقعے پر امریکا کا پاکستان کے ایک بینک پر 55ملین ڈالر کا جرمانہ اور اِس بیان کہ امریکا، روس اور یوکرین جنگ میں روس کی اخلاقی و سفارتی مدد کرنے والوں سے سختی سے نمٹے گا، سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب امریکا کے دوست ممالک میں شامل نہیں۔ اسی طرح ایک اہم پیشرفت میں کچھ دن قبل امریکی کانگریس کے سینئر رکن نے امریکی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے، مالی امداد، دفاعی ساز و سامان کی برآمدات اور فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور کانگریس نے اس بل کو امریکی امور خارجہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے۔
یہ اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سب محض اتفاق نہیں اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بنا جارہا ہے۔ ہمارے خیال میں ہمیں امریکی اور یورپی اشاروں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور عمران خان کو سخت الفاظ سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ آج کل کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے میزائل یا بموں کی ضرورت نہیں بلکہ اگر اس ملک کی معیشت کو تباہ کردیا جائے تو وہ ملک تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے۔
FATF کی 27 میں سے 26 شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو دہشت گرد فنانسنگ روکنے میں ناکامی پر گرے لسٹ میں برقرار رکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اور امریکا کی مشترکہ کوشش ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے تاکہ ملکی معیشت مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہوجائے۔
نو منتخب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اپنے اولین خطاب میں چین کے حوالے سے جن گرم جوش جذبات کا اظہار کیا وہ پورے پاکستانی عوام کے جذبات کی عمدہ ترجمانی ہے۔
وزیراعظم نے پاک چین دوستی کو لازوال اور اٹوٹ قرار دیتے ہوئے چین کو اپنا ایک مخلص اور قابل اعتماد شراکت دار قرار دیا جو ہر آزمائش کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ رہا ہے۔ سی پیک کی تعمیر کے حوالے سے چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا واضح وژن اور ذاتی دلچسپی ہے اور دونوں ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان اور چین کے مفاد میں ہے بلکہ علاقائی مفادات کو آگے بڑھانے میں بھی نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
شہباز شریف نے اس منصوبے کو ''پاکستان اسپیڈ'' سے آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان بھر میں جاری منصوبوں کی انتہائی تیز رفتاری سے تکمیل کی جائے گی۔
پاکستان جو معاشی طور پر پہلے ہی کمزور ہے اور گزشتہ ساڑھے تین سال میں سیاسی طور پر آئسو لیٹ ہوچکا ہے، امریکی اور یورپی ممالک کی اقتصادی و معاشی پابندیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو دو حصوں میں تقسیم کرے۔ اول علاقائی اور دوئم عالمی سیاست۔ ان دونوں عوامل کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنی ضرورت کے تحت حکمت عملی کو ترتیب دینا ہوگا۔
پاکستان میں اچھے سابق سفارت کار اور سابق وزرائے خارجہ سمیت خارجہ پالیسی کو سمجھنے والے افراد کی کمی نہیں۔ حکومت کو ان افراد سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان کو عملی تھنک ٹینک کا حصہ بنا کر ان سے تسلسل کے ساتھ مشاورت کی جانی چاہیے کہ ہم کون سے مختلف آپشن اختیار کرسکتے ہیں۔
ہمیں خارجہ پالیسی کے تناظر میں شارٹ ٹرم، مڈٹرم اور لانگ ٹرم فکر اور سوچ یا حکمت عملی کی ضرورت ہے جو باہمی مشاورت یا تمام فریقوں کی مرضی سے طے ہونی چاہیے۔ یہ فیصلے کسی ایک فریق نے نہیں کرنے بلکہ تمام فریقوں کی مشاورت ہی ہماری پالیسی کی ساکھ اور اہمیت کو داخلی اور خارجہ دونوں سطح پر بڑھا سکتی ہے۔
حالیہ دنوں میں جو غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی نئی حکومت کے قیام کے بعد ان غلط فہمیوں کا دونوں جانب سے خاتمہ اور تدارک کے عزم کا اظہار سامنے آیا ہے۔ دنیا کے اہم ممالک کی جانب سے آنے والے پیغامات کے تناظر میں بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے بلکہ ان ممالک کے ساتھ مختلف معاشی و اقتصادی روابط میں بھی سرگرمی نظر آئے گی جو وقت کی ضرورت ہے۔