سائبیریا سے پاکستان ہجرت کرنے والے پرندوں کی واپسی شروع
223 اقسام کے پرندے انڈس فلائی زون روٹ نمبر4 کے راستے سے واپس جاتے ہیں،سندھ میں کئی رام سر سائیڈ ز موجود ہیں
موسم سرما کے اختتام کے ساتھ ہی سائبیریا سے پاکستان ہجرت کرکے آنیوالے223اقسام کے پرندوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ، یہ پرندے 15 مارچ تک پاکستان سے واپس چلے جائیں گے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق پرندے عالمی گرین روٹ ( انڈس فلائی زون روٹ نمبر 4 ) سے واپس جاتے ہیں، ان پرندوں کی واپسی سب سے پہلے سندھ کی رام سر سائیڈز سے شروع ہوتی ہے ، رام سر سائیڈز ایسے علاقوں کو کہتے ہیں جہاں 20 ہزار سے زائد پرندے اپنا قیام کرتے ہیں جس کے بعد یہ ملک کے دیگر آبی گزر گاہوں ، صحرائوں اور دیگر علاقوں سے واپسی کا سلسلہ شروع کرتے ہیں ، یہ ٹولیوں کی شکل میں اپنے مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں داخل ہوتے ہیں اور پھر عالمی گرین روٹ سے ہوتے ہوئے ڈیڑھ ماہ کا سفر طے کرتے ہوئے سائبیریا پہنچ جاتے ہیں، محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق رواں برس ساڑھے تین لاکھ سے زائد پرندے سائبیریا سے پاکستان آئے تھے اور بعض پرندوں نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران اپنی نسل کو آگے بڑھایا۔
ایک اندازے کے مطابق مختلف نسل کے پرندوں نے20 ہزار سے زائد بچے پیدا کیے، پاکستان میں قیام کے دوران خصوصاً سندھ کی آبی گزر گاہوں میں تمام تر حفاظتی انتظامات اور پابندی کے باوجود بعض پرندوںکا بے دریغ شکار کیا گیا اوربڑی تعداد میں مختلف عرب ممالک کے شیوخ پاکستان آئے اور انھوں نے شکار کیے، حکام کے مطابق ان پرندوں کی آمد کا سلسلہ پاکستان میں 15 اکتوبر سے شروع ہواتھا اور ان پرندوں نے فروری کے آخر تک پاکستان کی آبی گزر گاہوں،1976 رام سر کنونشن کے مطابق پاکستان میں20رام سر سائیڈ زہیں، سندھ میں ایسے علاقوں کی تعداد 10 ہے جبکہ سندھ بھر میں 33 سے زائدآبی گزر گاہیں ہیں۔
حکام نے بتایا کہ پاکستان میں اس سیزن میں 223اقسام کے پرندے آتے ہیں جن کو 4 گروپ میں تقسیم کیا جاتا ہے ، ان پرندوںکے مخصوص علاقوں میں قمبر شہداد کوٹ، سانگھڑ ، نواب شاہ ، دادو، بدین، ہالے جی، ٹھٹھہ اور کراچی کے ساحلی علاقے، آبی گزر گاہیں اور دیگر شامل ہیں، محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق سائبیریا سے آنے والے پرندوں میں سب سے قیمتی پرندہ ڈنلن (DUNLIN) ہوتا ہے تاہم رواں سیزن میں یہ پرندے انتہائی کم تعداد میں ہجرت کرکے پاکستان آئے ، ساحلی علاقوں میں بعض شکاریوں نے ان کے شکار کی کوشش کی جو محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے مختلف مواقع پر کارروائی کرکے ناکام بنادی، ڈنلن انتہائی نایاب نسل کا قیمتی پرندہ ہے اور اس پرندے کی عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات سیٹلائٹ کے ذریعے مانیٹرنگ کرتا ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق پرندے عالمی گرین روٹ ( انڈس فلائی زون روٹ نمبر 4 ) سے واپس جاتے ہیں، ان پرندوں کی واپسی سب سے پہلے سندھ کی رام سر سائیڈز سے شروع ہوتی ہے ، رام سر سائیڈز ایسے علاقوں کو کہتے ہیں جہاں 20 ہزار سے زائد پرندے اپنا قیام کرتے ہیں جس کے بعد یہ ملک کے دیگر آبی گزر گاہوں ، صحرائوں اور دیگر علاقوں سے واپسی کا سلسلہ شروع کرتے ہیں ، یہ ٹولیوں کی شکل میں اپنے مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں داخل ہوتے ہیں اور پھر عالمی گرین روٹ سے ہوتے ہوئے ڈیڑھ ماہ کا سفر طے کرتے ہوئے سائبیریا پہنچ جاتے ہیں، محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق رواں برس ساڑھے تین لاکھ سے زائد پرندے سائبیریا سے پاکستان آئے تھے اور بعض پرندوں نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران اپنی نسل کو آگے بڑھایا۔
ایک اندازے کے مطابق مختلف نسل کے پرندوں نے20 ہزار سے زائد بچے پیدا کیے، پاکستان میں قیام کے دوران خصوصاً سندھ کی آبی گزر گاہوں میں تمام تر حفاظتی انتظامات اور پابندی کے باوجود بعض پرندوںکا بے دریغ شکار کیا گیا اوربڑی تعداد میں مختلف عرب ممالک کے شیوخ پاکستان آئے اور انھوں نے شکار کیے، حکام کے مطابق ان پرندوں کی آمد کا سلسلہ پاکستان میں 15 اکتوبر سے شروع ہواتھا اور ان پرندوں نے فروری کے آخر تک پاکستان کی آبی گزر گاہوں،1976 رام سر کنونشن کے مطابق پاکستان میں20رام سر سائیڈ زہیں، سندھ میں ایسے علاقوں کی تعداد 10 ہے جبکہ سندھ بھر میں 33 سے زائدآبی گزر گاہیں ہیں۔
حکام نے بتایا کہ پاکستان میں اس سیزن میں 223اقسام کے پرندے آتے ہیں جن کو 4 گروپ میں تقسیم کیا جاتا ہے ، ان پرندوںکے مخصوص علاقوں میں قمبر شہداد کوٹ، سانگھڑ ، نواب شاہ ، دادو، بدین، ہالے جی، ٹھٹھہ اور کراچی کے ساحلی علاقے، آبی گزر گاہیں اور دیگر شامل ہیں، محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق سائبیریا سے آنے والے پرندوں میں سب سے قیمتی پرندہ ڈنلن (DUNLIN) ہوتا ہے تاہم رواں سیزن میں یہ پرندے انتہائی کم تعداد میں ہجرت کرکے پاکستان آئے ، ساحلی علاقوں میں بعض شکاریوں نے ان کے شکار کی کوشش کی جو محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے مختلف مواقع پر کارروائی کرکے ناکام بنادی، ڈنلن انتہائی نایاب نسل کا قیمتی پرندہ ہے اور اس پرندے کی عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات سیٹلائٹ کے ذریعے مانیٹرنگ کرتا ہے۔