باشگلی چترال کی ایک مشہورقوم اور زبان
چترال کی ایک مشہورقوم اور زبان
زبان صرف انسان کے مافی الضمیر کے اظہار کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ گردوپیش سے رابطے کا اہم ذریعہ بھی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نطق انسانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان۔
وجہ یہ ہے کہ انسان کے ارتقائی سفر کے ابتدائی مراحل میں جب کہ اس نے تحریر ایجاد نہیں کی تھی، وہ کوئی بولی بولتا تھا، اب وہ کون سی زبان تھی؟ جدید علم لسانیات کا بنیادی موضوع ومدعا یہی سوال ہے۔
دورجدید میں زبان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ عصرحاضر کے تمدن کی اساس قومیت کے تصور پر رکھی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان زبان کے معاملے میں کافی حساس ہے، اب وہ اجتماعی طور پر نہ صرف اپنی مادری زبان کے فروغ وتحفظ کے لیے ہر پل کوشاں رہتا ہے بلکہ اسے معدوم ہوتی زبانوں کے تحفظ کا بھی بھرپور احساس ہے جیسے دنیا بھر میں ہر سال اکیس فروری کو زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب ہم پرانے آثار کے حامل کسی مقام پر کھدائی کرتے ہیں تو دیگر کئی مطلوبہ امور کے علاوہ ہمارا مقصد اس دور کے زبان اور لکھائی کا سراغ لگانا بھی ہوتا ہے کیوں کہ کسی قدیم دور کے تحریر کا سراغ ملنے سے نہ صرف ہمیں اس دور کے ثقافتی ومذہبی رجحانات کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے بلکہ یہ امر اس دور کو موجودہ دورسے ملانے والی کڑیوں کو باہم جوڑنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
چترال ایک عجیب وغریب خطہ ہے کہ جہاں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، تمام اقوام کے لوگ اپنی اپنی طبیعت ومزاج، رسوم ورواج اور ثقافتی حیات کے ساتھ رہتے اور بستے ہیں، مجموعی طور پر چوں کہ چترال کی سرزمین ایک الگ تھلگ خطہ اور پرامن لوگوں کی آماج گاہ ہے، اس لیے سب اقوام کے لوگ آزادی کے ساتھ اپنی اپنی ثقافتی حد بندیوں کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔
چترال کی ایک مشہور قوم باشگلی ہے جو اپنی مقامی زبان باشگلی اختیار کیے ہوئے ہے اور چترال کی دیگر مقامی زبانوں میں باشگلی زبان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ باشگلی زبان باشگلی قوم ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔
اس زبان سے متعلق بھی مکمل تعارف اس قوم کے تعارف سے منسلک ہے اور جوں جوں باشگلی قوم کے بارے میں معلومات کا احاطہ ہوتا رہے گا، اس کی زبان کے بارے میں معلومات دست یاب ہوتی رہیں گی۔
تاہم زبان کے بارے میں چترال کے جو اہل قلم وادیب ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ باشگلی زبان لہجے کے لحاظ سے تو چترال کی کہوار زبان سے مشابہت رکھتی ہے مگر جہاںتک زبان کا تعلق ہے وہ چترال سے ایسے مختلف ہے جیسے کہ پشاور کے پشاوریوں کی ہندکو زبان سے سرائیکی، خالصہ اور دیگر ہندکو زبانوں کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح پشاور کی ہندکو کا ڈیرہ اسماعیل خان میں جاکر لہجوں کے لحاظ سے تو ان کی زبان کے معانی اور مفہوم کو سمجھا جاتاہے یا یہ کہ پنجاب کے کسی علاقے میں جاکر پنجابی زبان کے مفہوم پر تو گرفت رکھتا ہے، مگر بولنے کے اعتبار سے پشوری کو یہ دقت ضرور پیش آتی ہے کہ وہ سرائیکی یا پنجابی یا ہزاروی اور خالصہ زبان کو اسی روانی سے بولے جس طرح کہ وہاں کی مقامی آبادی کے لوگ بولتے ہیں۔
یہی حال چترال میں کہوار زبان کے علاوہ چترال کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی دیگر زبانوں باشگلی، تانگیری وغیرہ کا بھی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ باشگلی زبان افہام وتفہیم کے لحاظ سے تو چترال کے تمام باشندوں کے لیے مقبول ہے مگر بولنے میں قدرے دقت محسوس ہوتی ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ باشگلی کے قدیم باشندوں کا تعلق افغانستان کے علاقے سے جوڑا جاتا ہے اور تاریخی لحاظ سے اس بات کو تواتر سے لکھا گیا ہے کہ یہ قدیم افغانی لوگ ہیں اور دسویں صدی عیسوی میں انہوں نے افغانستان کے علاقے سے نقل مکانی کی۔
تاریخ چترال کے مصنف مرزامحمد غفران کے مطابق باشگل کا علاقہ اس نام سے پہلے بازگل تھا جو ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام بدل گیا اور بازگل سے باشگل ہوگیا اور علاقے کی نسبت سے یہاں کے باشندے باشگلی ہوگئے اور پھر یہ جو زبان بولتے ہیں یہ اس قوم باشگلی کی نسبت سے باشگلی زبان سے متعارف ہوئی اور اب تک ہے اور ان کی زبان بھی باشگلی زبان ہے۔
ان باشگلیوں کی قومیت کے بارے میں تاریخ چترال کے مصنف نے جو کچھ لکھا ہے اس پر اکتفاء کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑتا ہے کہ جب اس قوم سے ان کا شجرہ نسب دریافت کیا جائے تو یہ اپنے آپ کو قریش بتاتے ہیں اور اپنا نسب نامہ عربوں سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے آباؤاجداد کا تعلق عربوں سے یوں ہے کہ ان کے بزرگ طلوع اسلام کے بعد خطۂ عرب سے ترک وطن کرکے خراساں گئے تھے اور پھر وہاں سے بدخشاں پہنچ گئے تھے۔
بدخشاں میں ان کی مدت اقامت کا عرصہ سو سال بنتا ہے اور پھر جب بدخشاں میں بھی تنویر اسلام پھیلی تو پھر انہوں نے بدخشاں سے نقل مکانی کی اور باشگل پہنچ گئے۔ چوں کہ ان کا اصلی اور نسلی وطن عرب تھا اس لیے یہ اپنے آپ کو قریشی بھی کہتے رہے، مگر یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عرب سے آئے تھے تو ظاہر ہے کہ اپنے ساتھ وہ عربی ثقافت وتہذیب بھی لے کر آئے ہوں گے جس میں زبان کا عنصر ثقافتی لحاظ سے بڑا غالب ہوتا ہے۔
اس لحاظ سے تو یہ بڑا عجیب معاملہ ہوا کہ وہ عرب سے نقل مکانی کرکے افغانستان کے خراساں میں آئے اور پھر آتے ہی انہوں نے اپنی زبان کو بھی بدل دیا، پھر دوسری بات یہ ہے کہ اگر افغانستان میں آئے تو وہاں کی خراسانی زبان کے ساتھ اپنی عربی زبان کی آمیزش کی ہوگی یا یہ کہ جب بدخشاں آئے تو پھر وہاں پر تو زیادہ اثر افغانی زبان کاہے جو کہ فارسی یا پشتو یا اس سے ملتی جلتی زبان ہے اور انہوں نے سو سال کا عرصہ بدخشاں میں گزارا۔ یہ مزید حیرانی کی بات ہوجاتی ہے کہ بدخشاں سے نقل مکانی کر کے جب باشگل پہنچتے ہیں تو یک دم یہ ایک نئی زبان کی طرح ڈال دیتے ہیں۔
ایسی زبان جواب تک اس علاقے یا قوم کی نسبت باشگلی زبان سے مشہور ہوئی اور اس زبان میں اتنی روانی پیدا ہوگئی کہ یہ زبان چترال کی زبان کہوار سے لہجے میں مشترک ہوگئی، چند ایسے سوالات ہیں کہ جو ان کی زبان وثقافت کے بارے میں مشکوک کرکے ان کے اس دعوے کو مبہم کردیتے ہیں کہ عرب سے آئے ہیں اور عرب سے آنے کی بنا پر عرب کے معززوشریف نسبی خاندان قریش سے منسلک ہوگئے۔
بہرحال واقعات جو بھی ہوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ باشگل علاقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر یہ لوگ باشگلی کہلاتے ہیں اور ان کی زبان بھی باشگلی زبان کے نام سے متعارف ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ باشگل کے شمالی حصے پندرہ سوتیس میں ریاست چترال کے زیر اثر ہوئے اور ان کو محمد بیگ نے فتح کیا تھا۔
یہ بھی تاریخی واقعات کا حصہ ہے کہ اٹھارہ سو انسٹھ میں جب انہوں نے خراج دینے سے انکار کیا تو ریاست چترال کی فوج ان پر حملہ آور ہوئی اور ان کی گوشمالی کی، اس فوج نے قلعہ برگہ مٹال کو فتح کرکے ان باشگلیوں کے سردار ''شٹالک'' کو گرفتار کرلیا۔ شٹالک کو اس کے ایک سو پچاس ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرکے چترال لایا گیا اورقلعہ کو نذرآتش کیا گیا۔
بعد میں شٹالک کو چترال سے بدخشاں بھیج دیا گیا جب کہ باقی باشگلیوں نے اطاعت قبول کرلی بعد میں جب باشگل پر امیرکابل نے قبضہ کرلیا تو امیرکابل نے اسلام کو ان میں پھیلانے کی کوشش کی، کچھ لوگ تو حلقہ بگوش اسلام ہوئے مگر جو لوگ حلقہ اسلام سے خارج رہے تو وہ وہاں سے بھاگ کر چترال چلے آئے تو ریاستی حکم رانوں نے انہیں چترال میں پناہ دی اور چترال کے علاقوں گبور، رمبور اور بمبوریٹ میں انہیں زمینیں دے کر یہاں بسایا، عقائد کے لحاظ سے یہ لوگ حق تعالیٰ کے وجود کے قائل تو تھے مگر اس کے ساتھ ہی دس خیالی اور وہمی قسم کے مزید معبود بھی رکھتے تھے جو کہ بتوں کی صورت میں تھے۔
ان میں سب سے بڑا بت گیش تھا، یہ بت سب سے بڑا اور ان کی حاجت روائی کے لیے تھا اور جب اس بت سے اپنی حاجات طلب کرتے تو جانوروں کی قربانی کرکے اس بت سے التجا کرتے۔ یہ اپنے مذہبی پیشوا کو ''دہلا'' کہتے تھے۔ اس دہلا کا مخصوص کام یہ تھا کہ وہ آئندہ کے انتظامات کے سلسلے میں پیش گوئی کرتا تھا، یہ طبعاً بڑے بے رحم اور مسلمانوں کے سخت دشمن لوگ تھے۔ یہ مسلمانوں کا مال لوٹ لیتے اور انہیں بے دریغ قتل کرتے تھے۔
ان کا مشغلہ لوٹ مار، ڈکیتی اور چوری چکاری تھا۔ ان کی جسمانی ساخت مضبوط ہوتی اور چہرے سرخ وسفید ہوتے، اس لیے انگریز انہیں لال کافر کہتے تھے۔ ان کی پوشاک میں کالا پوستین ان کا پسندیدہ لباس ہوتا تھا جس کی وجہ سے تیموری تاریخ میں انہیں سیاہ پوش کافر لکھا گیا ہے۔ یہ اپنی عورتوں کو نہایت ہی کم درجے پر رکھتے تھے۔ خانگی امور کے علاوہ یہ اپنی عورتوں سے زمینداری کا کام بھی کرواتے تھے۔
انیس سو اٹھارہ تک ان کی کافرانہ حالت رہی مگر انیس سو انیس میں چترال کے ان دروں اور وادیوں کے یہ باشگلی لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اسلام لانے کے بعد یہ لوگ ارکان اسلام کے سخت پابند ہوگئے۔ اپنے علاقوں میں انہوں نے عبادت کے لیے مساجد تعمیر کیں اور اسلامی درس وتدریس کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔
باشگل قوم کے قبولیت اسلام کے اسباب
تاریخی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب باشگل قوم کے سردار کو علاقہ بدر کرکے بدخشاں بھیج دیا گیا تو وہیں پر شٹالک اپنے ساتھیوں سمیت حلقہ بگوش اسلام ہوا جب کہ بمبوریت میں اس کا بیٹا ''جانا'' پہلے ہی مسلمان ہوچکا تھا کیوں کہ بمبوریت میں ان باشگلیوں کے آنے سے پہلے ہی مسلمان چھوٹی سی جماعت کے ساتھ آباد تھے۔ چناںچہ شٹالک بھی بیس سال کی مدت پوری کرکے جب دوبارہ بمبوریت آیا تو یہاں ان کی مسلمانوں کے ساتھ رشتے داریاں مضبوط ہوچکی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد باشگل قوم کے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہوئے اور اسلامی رسوم وعبادات میں نہایت پختہ اور پرعزم لوگ ثابت ہوئے۔
وجہ یہ ہے کہ انسان کے ارتقائی سفر کے ابتدائی مراحل میں جب کہ اس نے تحریر ایجاد نہیں کی تھی، وہ کوئی بولی بولتا تھا، اب وہ کون سی زبان تھی؟ جدید علم لسانیات کا بنیادی موضوع ومدعا یہی سوال ہے۔
دورجدید میں زبان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ عصرحاضر کے تمدن کی اساس قومیت کے تصور پر رکھی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان زبان کے معاملے میں کافی حساس ہے، اب وہ اجتماعی طور پر نہ صرف اپنی مادری زبان کے فروغ وتحفظ کے لیے ہر پل کوشاں رہتا ہے بلکہ اسے معدوم ہوتی زبانوں کے تحفظ کا بھی بھرپور احساس ہے جیسے دنیا بھر میں ہر سال اکیس فروری کو زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب ہم پرانے آثار کے حامل کسی مقام پر کھدائی کرتے ہیں تو دیگر کئی مطلوبہ امور کے علاوہ ہمارا مقصد اس دور کے زبان اور لکھائی کا سراغ لگانا بھی ہوتا ہے کیوں کہ کسی قدیم دور کے تحریر کا سراغ ملنے سے نہ صرف ہمیں اس دور کے ثقافتی ومذہبی رجحانات کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے بلکہ یہ امر اس دور کو موجودہ دورسے ملانے والی کڑیوں کو باہم جوڑنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
چترال ایک عجیب وغریب خطہ ہے کہ جہاں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، تمام اقوام کے لوگ اپنی اپنی طبیعت ومزاج، رسوم ورواج اور ثقافتی حیات کے ساتھ رہتے اور بستے ہیں، مجموعی طور پر چوں کہ چترال کی سرزمین ایک الگ تھلگ خطہ اور پرامن لوگوں کی آماج گاہ ہے، اس لیے سب اقوام کے لوگ آزادی کے ساتھ اپنی اپنی ثقافتی حد بندیوں کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔
چترال کی ایک مشہور قوم باشگلی ہے جو اپنی مقامی زبان باشگلی اختیار کیے ہوئے ہے اور چترال کی دیگر مقامی زبانوں میں باشگلی زبان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ باشگلی زبان باشگلی قوم ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔
اس زبان سے متعلق بھی مکمل تعارف اس قوم کے تعارف سے منسلک ہے اور جوں جوں باشگلی قوم کے بارے میں معلومات کا احاطہ ہوتا رہے گا، اس کی زبان کے بارے میں معلومات دست یاب ہوتی رہیں گی۔
تاہم زبان کے بارے میں چترال کے جو اہل قلم وادیب ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ باشگلی زبان لہجے کے لحاظ سے تو چترال کی کہوار زبان سے مشابہت رکھتی ہے مگر جہاںتک زبان کا تعلق ہے وہ چترال سے ایسے مختلف ہے جیسے کہ پشاور کے پشاوریوں کی ہندکو زبان سے سرائیکی، خالصہ اور دیگر ہندکو زبانوں کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح پشاور کی ہندکو کا ڈیرہ اسماعیل خان میں جاکر لہجوں کے لحاظ سے تو ان کی زبان کے معانی اور مفہوم کو سمجھا جاتاہے یا یہ کہ پنجاب کے کسی علاقے میں جاکر پنجابی زبان کے مفہوم پر تو گرفت رکھتا ہے، مگر بولنے کے اعتبار سے پشوری کو یہ دقت ضرور پیش آتی ہے کہ وہ سرائیکی یا پنجابی یا ہزاروی اور خالصہ زبان کو اسی روانی سے بولے جس طرح کہ وہاں کی مقامی آبادی کے لوگ بولتے ہیں۔
یہی حال چترال میں کہوار زبان کے علاوہ چترال کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی دیگر زبانوں باشگلی، تانگیری وغیرہ کا بھی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ باشگلی زبان افہام وتفہیم کے لحاظ سے تو چترال کے تمام باشندوں کے لیے مقبول ہے مگر بولنے میں قدرے دقت محسوس ہوتی ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ باشگلی کے قدیم باشندوں کا تعلق افغانستان کے علاقے سے جوڑا جاتا ہے اور تاریخی لحاظ سے اس بات کو تواتر سے لکھا گیا ہے کہ یہ قدیم افغانی لوگ ہیں اور دسویں صدی عیسوی میں انہوں نے افغانستان کے علاقے سے نقل مکانی کی۔
تاریخ چترال کے مصنف مرزامحمد غفران کے مطابق باشگل کا علاقہ اس نام سے پہلے بازگل تھا جو ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام بدل گیا اور بازگل سے باشگل ہوگیا اور علاقے کی نسبت سے یہاں کے باشندے باشگلی ہوگئے اور پھر یہ جو زبان بولتے ہیں یہ اس قوم باشگلی کی نسبت سے باشگلی زبان سے متعارف ہوئی اور اب تک ہے اور ان کی زبان بھی باشگلی زبان ہے۔
ان باشگلیوں کی قومیت کے بارے میں تاریخ چترال کے مصنف نے جو کچھ لکھا ہے اس پر اکتفاء کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑتا ہے کہ جب اس قوم سے ان کا شجرہ نسب دریافت کیا جائے تو یہ اپنے آپ کو قریش بتاتے ہیں اور اپنا نسب نامہ عربوں سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے آباؤاجداد کا تعلق عربوں سے یوں ہے کہ ان کے بزرگ طلوع اسلام کے بعد خطۂ عرب سے ترک وطن کرکے خراساں گئے تھے اور پھر وہاں سے بدخشاں پہنچ گئے تھے۔
بدخشاں میں ان کی مدت اقامت کا عرصہ سو سال بنتا ہے اور پھر جب بدخشاں میں بھی تنویر اسلام پھیلی تو پھر انہوں نے بدخشاں سے نقل مکانی کی اور باشگل پہنچ گئے۔ چوں کہ ان کا اصلی اور نسلی وطن عرب تھا اس لیے یہ اپنے آپ کو قریشی بھی کہتے رہے، مگر یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عرب سے آئے تھے تو ظاہر ہے کہ اپنے ساتھ وہ عربی ثقافت وتہذیب بھی لے کر آئے ہوں گے جس میں زبان کا عنصر ثقافتی لحاظ سے بڑا غالب ہوتا ہے۔
اس لحاظ سے تو یہ بڑا عجیب معاملہ ہوا کہ وہ عرب سے نقل مکانی کرکے افغانستان کے خراساں میں آئے اور پھر آتے ہی انہوں نے اپنی زبان کو بھی بدل دیا، پھر دوسری بات یہ ہے کہ اگر افغانستان میں آئے تو وہاں کی خراسانی زبان کے ساتھ اپنی عربی زبان کی آمیزش کی ہوگی یا یہ کہ جب بدخشاں آئے تو پھر وہاں پر تو زیادہ اثر افغانی زبان کاہے جو کہ فارسی یا پشتو یا اس سے ملتی جلتی زبان ہے اور انہوں نے سو سال کا عرصہ بدخشاں میں گزارا۔ یہ مزید حیرانی کی بات ہوجاتی ہے کہ بدخشاں سے نقل مکانی کر کے جب باشگل پہنچتے ہیں تو یک دم یہ ایک نئی زبان کی طرح ڈال دیتے ہیں۔
ایسی زبان جواب تک اس علاقے یا قوم کی نسبت باشگلی زبان سے مشہور ہوئی اور اس زبان میں اتنی روانی پیدا ہوگئی کہ یہ زبان چترال کی زبان کہوار سے لہجے میں مشترک ہوگئی، چند ایسے سوالات ہیں کہ جو ان کی زبان وثقافت کے بارے میں مشکوک کرکے ان کے اس دعوے کو مبہم کردیتے ہیں کہ عرب سے آئے ہیں اور عرب سے آنے کی بنا پر عرب کے معززوشریف نسبی خاندان قریش سے منسلک ہوگئے۔
بہرحال واقعات جو بھی ہوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ باشگل علاقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر یہ لوگ باشگلی کہلاتے ہیں اور ان کی زبان بھی باشگلی زبان کے نام سے متعارف ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ باشگل کے شمالی حصے پندرہ سوتیس میں ریاست چترال کے زیر اثر ہوئے اور ان کو محمد بیگ نے فتح کیا تھا۔
یہ بھی تاریخی واقعات کا حصہ ہے کہ اٹھارہ سو انسٹھ میں جب انہوں نے خراج دینے سے انکار کیا تو ریاست چترال کی فوج ان پر حملہ آور ہوئی اور ان کی گوشمالی کی، اس فوج نے قلعہ برگہ مٹال کو فتح کرکے ان باشگلیوں کے سردار ''شٹالک'' کو گرفتار کرلیا۔ شٹالک کو اس کے ایک سو پچاس ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرکے چترال لایا گیا اورقلعہ کو نذرآتش کیا گیا۔
بعد میں شٹالک کو چترال سے بدخشاں بھیج دیا گیا جب کہ باقی باشگلیوں نے اطاعت قبول کرلی بعد میں جب باشگل پر امیرکابل نے قبضہ کرلیا تو امیرکابل نے اسلام کو ان میں پھیلانے کی کوشش کی، کچھ لوگ تو حلقہ بگوش اسلام ہوئے مگر جو لوگ حلقہ اسلام سے خارج رہے تو وہ وہاں سے بھاگ کر چترال چلے آئے تو ریاستی حکم رانوں نے انہیں چترال میں پناہ دی اور چترال کے علاقوں گبور، رمبور اور بمبوریٹ میں انہیں زمینیں دے کر یہاں بسایا، عقائد کے لحاظ سے یہ لوگ حق تعالیٰ کے وجود کے قائل تو تھے مگر اس کے ساتھ ہی دس خیالی اور وہمی قسم کے مزید معبود بھی رکھتے تھے جو کہ بتوں کی صورت میں تھے۔
ان میں سب سے بڑا بت گیش تھا، یہ بت سب سے بڑا اور ان کی حاجت روائی کے لیے تھا اور جب اس بت سے اپنی حاجات طلب کرتے تو جانوروں کی قربانی کرکے اس بت سے التجا کرتے۔ یہ اپنے مذہبی پیشوا کو ''دہلا'' کہتے تھے۔ اس دہلا کا مخصوص کام یہ تھا کہ وہ آئندہ کے انتظامات کے سلسلے میں پیش گوئی کرتا تھا، یہ طبعاً بڑے بے رحم اور مسلمانوں کے سخت دشمن لوگ تھے۔ یہ مسلمانوں کا مال لوٹ لیتے اور انہیں بے دریغ قتل کرتے تھے۔
ان کا مشغلہ لوٹ مار، ڈکیتی اور چوری چکاری تھا۔ ان کی جسمانی ساخت مضبوط ہوتی اور چہرے سرخ وسفید ہوتے، اس لیے انگریز انہیں لال کافر کہتے تھے۔ ان کی پوشاک میں کالا پوستین ان کا پسندیدہ لباس ہوتا تھا جس کی وجہ سے تیموری تاریخ میں انہیں سیاہ پوش کافر لکھا گیا ہے۔ یہ اپنی عورتوں کو نہایت ہی کم درجے پر رکھتے تھے۔ خانگی امور کے علاوہ یہ اپنی عورتوں سے زمینداری کا کام بھی کرواتے تھے۔
انیس سو اٹھارہ تک ان کی کافرانہ حالت رہی مگر انیس سو انیس میں چترال کے ان دروں اور وادیوں کے یہ باشگلی لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اسلام لانے کے بعد یہ لوگ ارکان اسلام کے سخت پابند ہوگئے۔ اپنے علاقوں میں انہوں نے عبادت کے لیے مساجد تعمیر کیں اور اسلامی درس وتدریس کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔
باشگل قوم کے قبولیت اسلام کے اسباب
تاریخی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب باشگل قوم کے سردار کو علاقہ بدر کرکے بدخشاں بھیج دیا گیا تو وہیں پر شٹالک اپنے ساتھیوں سمیت حلقہ بگوش اسلام ہوا جب کہ بمبوریت میں اس کا بیٹا ''جانا'' پہلے ہی مسلمان ہوچکا تھا کیوں کہ بمبوریت میں ان باشگلیوں کے آنے سے پہلے ہی مسلمان چھوٹی سی جماعت کے ساتھ آباد تھے۔ چناںچہ شٹالک بھی بیس سال کی مدت پوری کرکے جب دوبارہ بمبوریت آیا تو یہاں ان کی مسلمانوں کے ساتھ رشتے داریاں مضبوط ہوچکی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد باشگل قوم کے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہوئے اور اسلامی رسوم وعبادات میں نہایت پختہ اور پرعزم لوگ ثابت ہوئے۔