احمد علوی کے کلام کا سرسری مطالعہ

وہ سنجیدہ و مزاحیہ ڈرامانگاری کا بخوبی تجربہ کرچکے ہیں


وہ سنجیدہ و مزاحیہ ڈرامانگاری کا بخوبی تجربہ کرچکے ہیں ۔ فوٹو : فائل

لاہور: زندگی کی ہماہمی میں چاردانگِ عالم سے کانوں میں ٹکرانے والی، شاعری کی آوازیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان میں کوئی فرق رَوا رکھنا، امتیاز کرنا اور کسی ایک کو دوسرے سے بہتر ٹھہرانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

جب موضوعاتی یا کسی خاص جہت میں کی گئی شاعری کی بات ہو تو معاملہ یوں بھی گنجلک ہوجاتا ہے کہ ہمارے یہاں تقلید ِمحض اور ''کاتا ، لے دوڑی'' کی رَوِش بہت عام ہوچکی ہے۔ ہم جب کسی کے کلام پر کچھ لکھنے بیٹھیں تو نجی تعلق یا تعلقات ، نیز فرمائش کے ساتھ ساتھ ، پنجابی فقرے کے مطابق، ''ہاتھ ہلکا رکھنا'' بھی ہمارے فطری اظہارِخیال کی راہ میں بڑی رکاوٹ ڈالتا ہے۔

اس تمہید کے بعد آمدم برسرمطلب! احمد علوی اُن چند شعرائے کرام میں شامل ہیں جن سے WhatsAppکے توسط سے تعارف ہوا اور خوب ہوا۔ موصوف ہندوستان کے طنزومزاح گو شعراء میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ اُن کا اولین مجموعہ کلام 'صفر' 1992ء میں منصہ شہود پر آیا۔ یہ نمونہ کلام

اُسی کتاب سے یادگار ہے:

دل کو کسی کی یاد سے خالی نہ کیجئے
آسیب رہنے لگتے ہیں ، خالی مکان میں

٭

ایک پل نہ ٹھہریں گے، دوستی، وفا ، چاہت
تم یہ اوس کے قطرے ، آنچ پر اَگر رکھ دو

نامور شاعر (ابن شاعر ابن شاعر یعنی) افتخار اِمام صدیقی (ولد اعجاز صدیقی ولد علامہ سیماب اکبرآبادی) نے ہمارے ممدوح کی شان میں ارشاد فرمایا کہ ''احمد علوی نہایت سنجیدہ غزل کار ہیں۔ اور بشیر بدر کے رنگ میں شاعری کرتے تھے۔

شعری مجموعہ ''صفر'' کی بیشتر غزلیں بشیر رنگ میں اور کئی مصرعے بشیر بدر کے معلوم ہوتے ہیں۔ بشیر بدر کی سی شعری لفظیات، سادہ سلیس، عام فہم زبان، ندا ؔفاضلی کی طرح فارسی اضافتوں سے عاری اور دونوں جدید ترین غزل گویوں سے مملو ضرب المثل اشعار نے آج کی غزل کو صدیوں کی غزل بنا دیا ہے۔''

جدیداردو غزل کو مقبول خاص وعام کرنے والوں میں منفرد لہجے کے شاعر بشیر بدر یقیناً لائق ستائش ہیں۔ سنجیدہ سخن میں احمد علوی نے اُن کی شعوری اتباع کرتے ہوئے، بشیر بدر کی لفظیات، تراکیب اور استعاروں کو اپناتے ہوئے اُنھی جیسا بننے کی کوشش کی:

کہتے ہیں کس نے غم کا سمندر نہیں دیکھا
تم نے کبھی اپنوں سے بچھڑ کر نہیں دیکھا

سنجیدہ کلام پر مشتمل، مجموعہ غزلیات ''صفر'' اور پھرمجموعہ ظریفانہ کلام ''طمانچے'' کے بعد اُن کا قہقہہ بار مجموعہ ''بیوی وہی پیاری'' منظرعام پر آیا۔ بات کی بات ہے کہ ہمارے بہت سے اہل قلم کی طرح، وہ بھی طنزومزاح گوئی میں اپنی 'ذاتی' اہلیہ کو موضوع سخن بنانے سے باز نہیں آتے، خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ بہت بہادر آدمی ہیں۔ ویسے مذاق برطرف، وہ واقعی مردِ جَری ہیں، تبھی تو یہ کہنے سے نہیں چُوکتے:

شعر کہنے سے کچھ نہیں ہو گا
کچھ سیا سی مقام پیدا کر

چاہتا ہے وزیر بننا اگر
غنڈہ گردی میں نام پیدا کر

یعنی وہ بات اَب فرسودہ ہوگئی کہ ع کچھ نہ آئے گا تجھے قوم کا شاعر بن جا!

معروف شاعر، ادیب اور منفرد تحقیقی کتاب ''اردو صحافت۔1858ء سے 1900ء تک جائزہ '' (مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، ہندوستان) کے مؤلف، ہمارے فیس بک دوست، محترم فاروق ارگلی نے بجا فرمایا کہ ''مزاحیہ شاعر کا بنیادی کام ہنسنا ہنسانا لیکن احمد علوی مزاح سے زیادہ طنز کے شاعر ہیں۔'' مجھے بھی اُن کے متعدد نمونہ ہائے کلام پڑھ کر یہی احساس ہوا کہ اگر ناقدین یا ادبی قارئین طنز گو اور مزاح گو کی درجہ بندی الگ الگ کردیں تو موصوف طنز گو ہندوستانی شعراء میں بہت نمایاں مقام پر فائز ہوں گے۔

محترم فاروق ارگلی صاحب نے احمد علوی کی طنز گوئی کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ ''برجستگی اور بے باکی احمد علوی کی خصوصیت ہے، وہ ایک ماہر نشانے باز کی طرح اپنے شکار پر جھپٹنے کی ہمت رکھتے ہیں، خواہ وہ کتنی ہی بڑی سیاسی شخصیت کیوں نہ ہو پولس ہو، عدلیہ ہو، اگر کچھ غلط نظر آتا ہے تو ضمیر کی تمام تر صداقتوں کے ساتھ ردّعمل کا اظہار فرضِ منصبی کی طرح ادا کرنے سے قیدوبند ہی کیا جان تک کا خطرہ انہیں باز نہیں رکھ سکتا۔'' محترم فاروق ارگلی صاحب نے بجا طور پر احمد علوی کی براہ راست، گجرات کے مسلم دشمن، وزیراعلیٰ (سابق) نریندرمودی پر نشانہ بازی کی نشان دہی کی ہے:

سرخ گجرات میں کیسر کی ہے رنگت یارو
کتنی مکروہ ہے ووٹوں کی سیاست یارو

کام یہ سیکھیے جا کر نریندر مودی سے
کس طرح ہوتی ہے لاشوں پہ حکومت یارو

اب اس اقتباس کے بعد، کسی کو اس بابت شک ہوہی نہیں سکتا کہ احمد علوی کس قدر جری اور بے باک شاعر ہیں۔ اس طرح کے برجستہ ، برمحل کلام کی تاریخ میں اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ سانحہ گجرات جیسے المیوں کا ذکر کرتے ہوئے احمد علوی اپنے ہی سیاست داں حضرات پر چوٹ کرنا بھی نہیں بھولتے:

ایک دن زندہ جلائے جائیں گے
جل گیا جس طرح بے بس جعفری

آج ہیں کرسی کی عیاشی میں گم
دیکھنا اک روز مسلم ایم پی (MP)

تقریباً تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے احمد علوی نے حمد میں بھی عجیب شوخی کی جسارت کی ہے، جو ماقبل کسی اور معاصر کے ظریفانہ کلام میں نظر سے نہیں گزری:

ہوئی خستہ، بیگم ِسیم تن، تری شان جل جلالہ
مجھے بخش دے کوئی گل بدن، تری شان جل جلالہ

میں اہل ہوں پھول کپاس کا، مرا وَزن Kg پچاس کا
مری اہلیہ مگر ایک ٹن(Ton) ، تری شان جل جلالہ

وہ عالمی سطح پر ہونے والے ناخوش گوار واقعات کی فوری عکس بندی یا عکاسی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر کیا خوب کہا ہے:

بھر نہیں پائے گا کسی صورت
زخم یہ سالوں سال جوتے کا

پل میں ظالم کو کر دیا رسوا
سب نے دیکھا کمال جوتے کا

معروف ظرافت نگارو نقاّد یوسف ناظم نے برملا کہا کہ ''آج کل مزاح گوئی پر صحافیانہ رنگ چھایا ہوا ہے جب تک کسی بڑے آدمی یا پھر کسی بڑے واقعے کا ذکر مزاحیہ قطعے یا شعر میں نہ ہو سامعین میں ہلچل یا تہلکہ نمودار نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بدعت نہیں ضرورت ہے اور احمد علوی نے اس ضرورت کی تکمیل میں دل کھول کر حصہ لیا ہے''۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ''ان کی شاعری طمانچوں کی نہیں دبی دبی آنچوں کی شاعری ہے... ہنسی ہنسی میں علوی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔'' اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عصر ی واقعات و سانحات کسی فن پارے کا موضوع تو بن سکتے ہیں، مگر پائیدار نہیں ہوتے، انھیں چاہیے کہ اس خیال پر نظر ثانی فرمالیں، اس لیے کہ جب کبھی کسی اہم یا قابل ذکر واقعے کی بات ہوگی تو ایسے نمونہ ہائے کلام کو نظراَنداز کرنا بھی محال ہوگا۔ بشیر بدر سے معنوی اکتساب کرنے والے، احمد علوی درحقیقت ایک دوسرے شاعر عظمت کاظمی کے تربیت یافتہ ہیں، مگر اس سے قطع نظر، انھیں ''شہنشاہ ِ ظرافت'' دلاور فگار (مرحوم) سے ایک عجب التفات اور قدرتی وابستگی ایسی محسوس ہوئی کہ اُن کے ظریفانہ رنگ میں بھی شاعری کی:

بن گیا روپیہ اٹھنی، پان آدھا رہ گیا
قورمے کی ڈش ہے غائب نان آدھا رہ گیا

جب سے ہم اک نازنیں سے عشق فرمانے لگے
اپنے گھر کا دوستو سامان آدھا رہ گیا
(قطعہ بنام دلاور فگار)

یہاں وہ اپنا ہی تمسخر اُڑانے سے بھی نہیں چُوکے:

نوازے شاعر اعظم سے خود کو

نہیں آیا سلیقہ شاعری کا

عظیم المرتبت کچھ اس لیے ہے
کہ ہے شاگرد ''عظمت کاظمی'' کا

احمد علوی کے مجموعہ ظریفانہ کلام ''طمانچے'' سے یہ اقتباس دیکھیے :

جس وقت سترہ سال کی وہ نوجوان تھی
خاطر میں نہ آتا تھا کوئی لیکچرار بھی

چالیس پار کر کے بھی بیٹھی ہے کنواری
اب پوچھتا نہیں ہے کوئی چوکیدار بھی

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہندوستان ہی نہیں، پاکستان میں بھی کسی نہ کسی نوعیت کی ملازمت پیشہ خواتین کے مابین المیہ بن چکی ہے۔ خاکسار نے اپنے حلقے میں ایسی مثالیں دیکھی ہیں جن پر سوائے افسوس اور دکھ کے اظہار کے، کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

معاشرتی خرابیوں میں شامل ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ذہنی پس ماندہ یا بیمار لوگ ، مسجد سے ملحق بیت الخلاء سے لے کر، سفارت خانوں اور بڑے ہوٹلوں تک، اپنی یاوہ گوئی سے باز نہیں آتے اور دیواریں اپنی مغلظات سے رنگین یا سیاہ کرکے اُٹھتے ہیں۔ احمد علوی نے ایسے لوگوں کے لیے کہا ہے:

یہ انتقام اس نے لیا ہم سے شاندار
جب ڈاکٹر کا ہم نے چکایا نہیں ادھار

جلاب والی گولیاں اس نے کھلائیں چار
بیت الخلاء میں شعر یہ لکھ آئے میرے یار

''اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار''
'دیوار و درکو غور سے پہچان لیجئے''

تہذیبِ نَو کے مضر اَثرات میں شامل، خاندانی شیرازے کا بکھرنا بھی ہے۔ احمد علوی کے کلام میں ایک ایسی ہی عریاں حقیقت ملاحظہ فرمائیں:

نئے دور میں یہ ہوا چل رہی ہے
نہ ممی ہیں دوشی نہ پا پا ہیں پاپی

کرشمہ یہ اپنی سمجھ سے ہے باہر
جو بِٹیا پڑوسی کی ہے فوٹو کا پی

غزل کی ایک شکل ''ہزل'' زمانہ قدیم سے اپنی جگہ بناچکی ہے، مگر آج کے دور میں ہزل کہنے والے کم کم ہیں اور اس کے لیے پہلے کامیاب غزل گو ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ممدوح نے ہزل گوئی میں بھی اپنی شناخت قائم کی ہے۔ اُن کی ایک طرحی ہزل ملاحظہ فرمائیں:

منھ پہ ہر شخص کے تالے ہیں خدا خیر کرے
چپ سبھی بولنے والے ہیں خدا خیر کرے

کیا کہیں ساس سسر سالیاں کوئی بھی نہیں
ساری سسرالوں میں سالے ہیں خدا خیر کرے

مرغ اور مچھلی کو چھونے سے جنہیں پاپ لگے
ان کے ہاتھوں میں بھی بھالے ہیں خدا خیر کرے

خوبیوں پر ہی نظر جس کی رہی ہے اس نے
مجھ میں سو عیب نکالے ہیں خدا خیر کرے

آنکھ سے آنکھ ملانے کی ہے ہمت کس میں
پاؤں سب چاٹنے والے ہیں خدا خیر کرے

توڑ کے کھوپڑی نیتاؤں کی دیکھی ہم نے
بس گھوٹالے ہی گھوٹالے ہیں خدا خیر کرے

ڈاڑھی والے ہوں وہ شوہر یا ہوں مونچھو والے
سارے بیوی کے حوالے ہیں خدا خیر کرے

میچ بچوں کا، ملا لیتے تو اچھا ہوتا
اس کے گورے مرے کالے ہیں خدا خیر کرے

اعلیٰ درجے کی ملی ہم کو ظرافت ان میں
جتنے سنجیدہ مقالے ہیں خدا خیر کرے

آخر میں ہم اپنے نہایت معتبر، زود گو اور ہمہ وقت ، غریق ِسخن، بزرگ معاصر، ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی (دہلی) کا یہ منظوم خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس سے محترم احمد علوی کی شعری اہمیت کا اندازہ بھی بخوبی ہوجاتا ہے:

اک سخنور معتبر ہیں احمدعلوی میرٹھی
جن کے ہے طنز و ظرافت میں ادب کی چاشنی

دو کتابیں چھپ چکی ہیں تیسری آنے کو ہے
یہ خبر سن کر ہوئی ہے مجھ کو روحانی خوشی

دامن دل کھینچتا ہے ان کا معیاری کلام
وقت کی آواز ہے ان کا سرود سرمدی

ترجمان کوچہ و بازار ہے ان کا کلام
ان کی نظموں سے عیاں ہے ان کی عصری آگہی

ایک اک مصرعے میں پنہاں ہیں ظرافت کے نکات
آپ نے بخشی ظریفانہ ادب کو زندگی

قہقہے تخلیق کرنا بھی ہے اک کار ثواب
غمزدہ چہروں کو جو بخشے خوشی ہے جنتی

ان کے اعجاز ہنر سے ہوں بخوبی آشنا
قدر ِگوہر شاہ دانَد یا بیدَاند جوہری

احمد علوی کے متعلق یہ انکشاف یقیناً دل چسپ ہے کہ وہ بظاہر تو عمومی نثر نگاری سے دور ہیں، مگر وہ سنجیدہ و مزاحیہ ڈرامانگاری کا بخوبی تجربہ کرچکے ہیں۔ 1970ء اور 1980ء کی دہا ئی میں اُن کے لکھے ہوئے ڈرامے ''ٹماٹر کے چھینٹے'' کے تقریباً ایک سو شوز ہندوستان اور بیرون ملک میں ہو چکے ہیں۔ علاوہ اَزیں، وہ فیچر فلم ''بنگال کی انار کلی'' (کہانی مکالمے، اور نغمے) فیچر فلم ''کالی رات اماوس کی'' (نغمے) ٹی وی سیریل ''جاسوس عمران'' (اسکرین پلے، مکالمے) جیسی مساعی سے بھی خوب ممتاز ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔