عمران خان غلطی کا اقرار
عمران خان کا بیانیہ دو نکات پر مشتمل ہے، وہ یہ طے کر چکے تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے اقتدار نہیں چھوڑیں گے
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا میری غلطی تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی ایک غلطی کا اقرار کیا۔
عمران خان نے کہاکہ ان کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے انہیں گمراہ کیا تھا مگر اب فروغ نسیم کہتے ہیں کہ'' ریفرنس بنانے کی ہدایات خود وزیر اعظم نے دیں۔'' سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عمران خان کو بتایا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایماندار جج ہیں۔
اخبارات کی فائلوں کی خاک چھاننے والے ایک محقق کا کہنا ہے کہ جب اس ریفرنس کی سماعت ہورہی تھی تو سابق اٹارنی جنرل انور مقصود نے ایک منفی بیان جمع کرایا تھا، اس وقت کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اس وقت عدالت عظمیٰ میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے اٹارنی جنرل کے بیان کو ان کاذاتی مؤقف قرار دیا اور پھر انور منصور کے لیے اس عہدہ سے مستعفی ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
عمران خان نے اس وقت خالد جاوید کو اٹارنی جنرل مقرر کیا مگر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے واضح کیا تھا، وہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف اس ریفرنس کو غلط سمجھتے ہیں اور ریفرنس کی پیروی سے معذرت کی تھی، جس پر ڈاکٹر فروغ نسیم وزارت قانون سے مستعفی ہو کر ریفرنس کی پیروی میں لگ گئے تھے، معاملہ صرف عدالتی کارروائی تک محدود نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل نے بھی بھرپور منفی مہم چلائی ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر عارف علوی کے بارے میں منفی ریمارکس تحریر کیے تھے اور باقی افراد کے خلاف توہینِ عدالت کے بارے میں لکھا تھا۔
تحریک انصاف کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حقائق کے خلاف بیانیہ اور پھر پروپیگنڈاکا ایک سیلاب نظر آتا ہے جب 2013ء میں انتخابات ہوئے تو تحریک انصاف کو صرف خیبر پختون خوا میں اکثریت حاصل ہوئی ۔ عمران خان نے انتخابی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور 35 پنکچر کی تھیوری گھڑی۔ لاہور کے چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا ۔
عمران خان نے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر ان کے خلاف دھاندلی کی سازش کرنے کے الزامات عائد کیے اور پھر بغیر کسی ثبوت کے پورے ملک میں جلسے جلوس شروع کردئیے۔ علامہ طاہر القادری اچانک کینیڈا سے نمودار ہوئے اور اسلام آباد پر چڑھائی کر دی، سارا مطالبہ انتخابی دھاندلیوں کے خاتمہ کا تھا۔ طاہرالقادری نے کچھ عرصہ بعد کچھ معاملات طے کیے اور ان کا لشکر واپس لاہور چلا گیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور نجم سیٹھی نے ان جھوٹے الزامات کے ازالے کے لیے ہتک عزت کے مقدمات دائر کیے۔ عمران خان مسلسل ان مقدمات سے بچتے رہے اور ان مقدمات کو مسلسل التواء میں ڈالنے کی کوشش کی۔ عمران خان کے لشکر نے چھ ماہ تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس پر مشتمل کمیشن عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کرے گا۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملہ کے بعد ملک میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ہوئی اور عمران خان نے ڈی چوک کا دھرنا ختم کیا۔ اس دوران موصوف کبھی ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام، کبھی سول نافرمانی کی تحریک اور کبھی اوورسیز پاکستانیوں کو ہدایات دیتے رہے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل اس تحقیقاتی کمیشن نے فیصلہ دیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے تو پھر اس بات پر بحث شروع ہوئی کہ انتخابات کو زیادہ شفاف بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔
کمیشن نے 2018 کے انتخابات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور ضابطہ اخلاق کو نافذ کیا۔ آئی ٹی ٹیکنالوجی کے ذریعہ پریزائیڈنگ افسروں کے لیے RTS کا نظام واضح ہوا تاکہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نتائج مل سکیں، لیکن پراسرار طور پر یہ نظام بیٹھ گیا ۔ مخالف جماعتوں نے الزامات عائد کیے کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے نکال دیا گیا۔
مربوط طریقہ سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کے مطالبہ پر پارلیمنٹ کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی۔ ماضی میں اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے اس کمیٹی کو کام نہیں کرنے دیا گیا، یوں 2018 کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات نہیں ہوسکیں۔
الیکشن کمیشن نے بھارت اور دیگر جمہوری ممالک میں رائج ضابطہ اخلاق کے تحت وزیر اعظم، وزراء، وزراء اعلیٰ اور منتخب اراکین پر پابندی، انتخابی شیڈول ہونے کے بعد متعلقہ حلقہ میں نہیں جاسکتے نہ کوئی ترقیاتی اسکیم کا افتتاح کرسکتے ہیں۔
عمران خان نے گزشتہ دنوں بھارت کے انتخابی نظام کی مدح سرائی بھی کی کہ وہاں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل ہوتا ہے اور بھارت کا الیکشن کمیشن اس کی خلاف ورزی پر جرمانے کرتا ہے مگر عمران خان نے اس ضابطہ اخلاق کو اپنے خلاف سازش قرار دیا اور ایک آرڈیننس کے ذریعہ ضابطہ اخلاق میں ترمیم کی کوشش کی۔
پنجاب کے سرحدی شہر سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہوا۔ پنجاب کی انتظامیہ نے روایتی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئیپریزائیڈنگ افسروں کو اغواء کیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے ضمنی انتخاب کے نتائج کو منسوخ کیا۔
تادیبی کارروائی شروع ہوئی تو عمران خان اور ان کے وزراء نے الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا شروع کیے اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی باتیں ہوئیں۔ اب جب 8مارچ کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی، عمران خان نے سازش کا بیانیہ ترتیب دیا اور امریکا کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے۔
عمران خان کا بیانیہ دو نکات پر مشتمل ہے، وہ یہ طے کر چکے تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ حمایت نہ کرنے پر اب وہ عدلیہ اور فوج کے خلاف فضا ہموار کررہے ہیں۔ دوسرے وہ اپنے بیانیہ میں مذہبی کارڈ استعمال کریں گے اور امریکا مخالف جذبات کو کیش کرائیں گے۔ عمران خان نے گزشتہ ہفتہ کی رات کو کراچی کے جلسہ میں کہا کہ وہ اس بات کو نہ بھولیں گے کہ 10اپریل کی رات کو عدالتیں کھولی گئی تھیں، انہوں نے یہ بات کہہ کر لاکھوں کے مجمع کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔
انہوں نے اس بات کا اقرار کرکے اپنی سوچ ظاہر کردی کہ ان کا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کا کوئی ارادہ نہیں تھا،یہی وجہ ہے کہ ان کے اتحادی پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی میں وہی حربے استعمال کیے جو چوہدری برادران برسوں سے ضلع گجرات میں استعمال کرتے آرہے ہیں۔
عمران خان کا امریکا مخالف بیانیہ ملک کو خطرناک سمت کی طرف لے جائے گا، وہ امریکی سامراج کے خلاف نہیں ہیں۔ محض اپنے اقتدار کے لیے امریکا سے ناراضی کا اظہار کررہے ہیں، مگر پھر شاید عمران خان ایک اور غلطی کا اعتراف کریں، مگر بہت دیر ہوچکی ہوگی۔