کراچی بدامنی کیس آئی ایس آئی اور وفاقی اداروں کو صوبے میں سرکاری اراضی الاٹ نہیں کی جاسکتی سپریم کورٹ

نصف کراچی پرمافیا کا قبضہ ہے، محکمہ ریونیونے شہریوں کی زندگی عذاب بناکررکھ دی ہے، ریمارکس


Staff Reporter February 27, 2014
وزیراعلیٰ سندھ بھی ذاتی حیثیت میں کسی کوسرکاری زمین نہیں دے سکتے،عدالت عظمیٰ۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ کسی پالیسی کے بغیرآئی ایس آئی سمیت کسی بھی وفاقی ادارے کو رہائشی مقاصدکیلیے صوبے کی سرکاری اراضی الاٹ نہیں کی جاسکتی۔

روزانہ پولیس اہلکارشہیدہوتے ہیں مگران کیلیے کسی بھی رہائشی اسکیم کااعلان نہیں کیاگیا، زمین پرپہلاحق صوبائی اداروں کاہے اس لیے جن اداروں کاحق ہے انھیں ترجیح دی جائے، آئی ایس آئی کو اپنے ملازمین کی رہائشی اسکیم کیلیے وفاقی حکومت سے رجوع کرناچاہیے یا پھرکنٹونمنٹ بورڈمیں جگہ حاصل کرناچاہیے کیونکہ وہ مسلح افواج کاحصہ ہے،عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کوہدایت کی کہ وزیراعلیٰ سے مشاورت کرکے سرکاری زمینوں کی وفاقی حکومت کے رہائشی منصوبوں کے بارے میں الاٹمنٹ کی پالیسی سے آگاہ کریں اوراس حوالے سے پنجاب کی تیار کردہ پالیسی کابھی جائزہ لیا جائے۔ جسٹس گلزاراحمدنے ریمارکس دیے کہ تقریباًنصف کراچی پر مافیاکاقبضہ ہے،محکمہ ریونیو نے شہریوں کی زندگی عذاب کردی ہے،محکمہ ریونیواورانسدادتجاوزات فورس خودقبضوں میں ملوث ہیں توایک دوسرے کیخلاف کیسے کارروائی کریں گے۔عدالت نے زمینوں پرقبضے اور واگزار کرائی گئی زمینوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے بدھ کوکراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی،بینچ کے دیگرارکان میں جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم ،جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیرعالم شامل تھے، دیہہ میندروضلع غربی کراچی میں آئی ایس آئی کو 10ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق آئی ایس آئی کی درخواست کی سماعت کے موقع پرآئی ایس آئی کے وکیل راجاارشاد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مندرومیں آئی ایس آئی کو Bکیٹگری میں 10 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی اوراس حوالے سے متعلقہ اتھارٹی نے29 جون 2012 کوسفارش بھیجی تھی تاہم الاٹمنٹ تاحال تعطل کاشکارہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے آبزرویشن دی کہ سندھ میں کسی بھی ادارے کو رہائشی مقاصدکیلیے سرکاری اراضی الاٹ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں،بتایا جائے کس قانون کے تحت یہ زمین آئی ایس آئی کودی جائیگی؟ وزیراعلیٰ بھی ذاتی حیثیت میں کسی کو یہ زمین نہیں دے سکتے۔آئی ایس آئی کے وکیل نے موقف اختیارکیاکہ یہ ہائوسنگ اسکیم نہیں،زمین کی ملکیت آئی ایس آئی کے پاس ہوگی۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کسی تنصیب یا دفاتر کے قیام کیلیے زمین کی الاٹمنٹ کا پھر بھی جوازہے مگررہائشی مقاصد کیلیے کس طرح براہ راست زمین حاصل کی جاسکتی ہے۔راجا ارشاد نے کہا کہ پاک فضایئہ کوبھی350ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے، کراچی کی جو صورتحال ہے ،آئی ایس آئی کے ملازمین کہاں جائیں؟۔جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ آپ وفاق کے پاس جائیں اور وفاق سے زمین حاصل کریں،جسٹس امیرہانی مسلم نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیاکہ کیا سندھ حکومت کی ایسی کوئی پالیسی ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کو رہائش کے لیے زمین فراہم کی جائے ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے انکار کرتے ہوئے بتایاکہ 2006میں اعلان کردہ پالیسی کے تحت سرکاری اراضی سرکاری اداروں کو کمرشیل مارکیٹ کی قیمتوں پرالاٹ کی جاسکتی ہے۔جسٹس سرمدجلال عثمانی نے کہاکہ یہا ں توآئی ایس آئی کو 50 فیصدرعایت پرزمین دی جارہی ہے۔جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ اگرپوری قیمت پرزمین آئی ایس آئی کوالاٹ کی جائے توعدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا،پولیس والوں کے آگے پیچھے کوئی نہیں ،وہی شہید ہوتے ہیںسرکاری زمینوں پر پہلا حق ان کاہے،اس موقع پر پاک فضائیہ کے افسر نے عدالت کو بتایاکہ پاک فضائیہ کو350ایکڑ اراضی2011میں الاٹ کی گئی تھی مگرعدالتی حکم امتناع کی آڑ میں چالان جاری نہیں کیاجارہا۔

بینچ نے انھیں ہدایت کی کہ عدالت میں زبانی معاملات نہیں ہوتے،ایئر فورس کو اس سلسلے میں علیحدہ سے درخواست دیناچاہیے پھراس کاجائزہ لیاجائے گا۔جسٹس سرمدجلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ پاک فضائیہ اورآئی ایس آئی کنٹونمنٹ سے زمین کیوں نہیں لیتی،ملیر کنٹونمنٹ کے پاس لاکھوں ایکڑاراضی موجود ہے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق پالیسی سے آگاہ کیا جائے اورپنجاب کی تیار کردہ پالیسی کا جائزہ لے کر آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کی جائے۔عدالت کے استفسار پر انچارج انسدادتجاوزات فورس ایس پی عارف عزیزنے بتایا کہ فورس نے اب تک 143 مقدمات درج کیے گئے ہیں، جسٹس امیرہانی مسلم نے ان کی تصیح کی کہ 143 نہیں 145 مقدمات درج ہوئے ہیں اوران میں سے63مقدمات ''اے'' کلاس کے تحت ختم کردیے گئے ہیں،آپ کے پاس مکمل معلومات بھی نہیں،عارف عزیزنے موقف اختیارکیا کہ ان کی تعیناتی کو ابھی3ماہ ہوئے ہیں اس لیے وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

عدالت نے آبزرویشن دی کہ کراچی میں8ہزار ایکڑ اراضی پرقبضہ ہے اورصرف2مقدمات درج کیے گئے؟بتایاجائے کتنی زمین واگزارکرائی گئی ہے؟عدالت نے استفسار کیاکہ ایکٹ کے تحت اس فورس کاپولیس سے تعلق نہیں ہوناچاہیے،اس فورس کے عملے کوپولیس یونیفارم استعمال کرنے کاحق نہیں،عدالت کو بتایا گیا کہ انسدادتجاوزات فورس کیلیے1300اہلکاروافسران بھرتی کیے گئے ہیں جوپولیس ٹریننگ سینٹرسعید آبادمیں8ماہ سے تربیت حاصل کررہے ہیں،عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پرکراچی میں زمینوں پر قبضہ،واگزار کرائی زمینوں اور قبضہ مافیاکیخلاف کارروائی سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے،یہ بھی بتایا جائے کہ اب تک کتنے مقدمات درج ہوئے،کتنے ختم کیے گئے اورکتنے ٹریبونل کوبھیجے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں