خواجہ سرا برادری کیلئے بنایا گیا پہلا اولڈ ایج ہوم کمیونٹی کی عدم دلچسپی کے باعث بند
ابتدائی طورپر یہاں 60 خواجہ سراؤں نے رہائش کے لیے رجسٹریشن کروائی لیکن کورونا وبا کے دوران یہ اولڈایج ہوم خالی ہوگیا
لاہورمیں خواجہ سرا برادری کے لیے بنایا گیا پہلا اولڈ ایج ہوم کمیونٹی کی عدم دلچسپی کے باعث بند ہوگیا ہے۔ 2018 میں لاہورکی نامورخواجہ سراگرو عاشی بٹ نے اپنی تمام جمع پونجی خرچ کرکے بیماراورضعیف العمرخواجہ سراؤں کے لیے یہ اولڈایج ہوم بنایا تھا۔ ابتدائی طورپر یہاں 60 خواجہ سراؤں نے رہائش کے لیے رجسٹریشن کروائی لیکن کورونا وبا کے دوران یہ اولڈایج ہوم خالی ہوگیا دوسری طرف لاہورمیں موجود سرکاری اورغیرسرکاری اولڈایج ہومزمیں خواجہ سراؤں کورکھنے کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے۔
لاہورکے قریب رچنا ٹاؤن میں ایک کنال رقبے پرخواجہ سراؤں کے لئے اولڈایج ہوم بنایا گیا تھا جہاں ان کوتمام سہولتیں میسرتھیں۔ خواجہ سراگروعاشی بٹ نے بتایا کہ اولڈایج ہوم بنانے کا بنیادی مقصد ان خواجہ سراؤں کو چھت اور خوراک مہیا کرنا تھا جو زندگی بھر لوگوں کی خوشیوں میں ناچتے گاتے رہے یا پھر بھیک مانگ کرزندگی کے دن گزارتے ہیں مگر آج ان کی خوبصورتی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اب وہ لوگ ناچ گانا بھی نہیں کرسکتے اور زیادہ ترخواجہ سرا مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اوروہ بے سہاراہوچکے ہیں۔
عاشی بٹ کے مطابق اولڈایج ہوم میں 20 رہائشی کمرے بنائے گئے تھے جہاں خواجہ سراایک خاندان کی طرح رہتے اورایک دوسرے کے سکھ، دکھ میں شریک ہوتے۔ ابتدائی طورپر60 خواجہ سراؤں نے رجسٹریشن کروائی تھی لیکن کوروناوبا کے دوران خواجہ سرا اولڈایج ہوم کوچھوڑگئے۔ گروعاشی بٹ نے کہا چندایک خواجہ سراؤں کی علالت اورضعیف عمری کے باعث موت ہوگئی اورچار،پانچ خواجہ سراجوبیمارہیں انہیں اب وہ اندرون شہرمیں واقع اپنی رہائش گاہ پرلے آئی ہیں وہ ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
عاشی بٹ کا کہنا ہے خواجہ سرا عجیب کمیونٹی ہے انہوں نےاپنی اس کمیونٹی کے لئے اپنی زندگی بھرکی جمع پونجی خرچ کردی مگروہ اولڈایج ہوم چھوڑگئے۔ ان کا پروگرام ہے کہ اب وہ اولڈایج ہوم کو خواتین کے ووکیشن اورکمیونٹی سنٹرمیں تبدیل کردیں گی۔
لاہورمیں محکمہ سماجی بہبود سمیت مختلف این جی اوزکے زیرانتطام ایک درجن کے قریب اولڈایج ہوم ہیں جن میں کم وبیش 800 سے زیادہ بزرگ شہری مقیم ہیں تاہم ان اولڈایج ہومزمیں خواجہ سراؤں کورکھنے کاکوئی انتظام نہیں ہے۔ لاہورکے چند بڑے اولڈایج ہومزکی بات کی جائے توان میں پنجاب سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کے زیرانتظام اولڈایج ہوم عافیت سمیت اولڈایج ہیپی ہومزٹاؤن شپ، دارالکفالہ بھٹہ چوک،سینئرسٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان ڈی ایچ اے، ہیون ہومز فیروزپور روڈ ، بنت فاطمہ اولڈایج ہوم، دی سیکنڈ ہوم ،بلقیس ایدھی ہوم اور بحریہ ٹاؤن اوریوحنا آباد میں اقلیتی برادری کا اولڈایج ہوم شامل ہیں۔ان اولڈایج ہومزمیں اس وقت 800 کے قریب بزرگ شہری مقیم ہیں
اولڈایج ہوم میں مقیم بزرگ شہریوں کی خوراک، رہائش اوربیمارہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی اخرات مختلف طریقوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ہیون ہوم اولڈایج ہوم کے سربراہ ڈاکٹرجمیل کے مطابق سب سے بڑا ذریعہ مخیرحضرات کی طرف سے ملنے والی ڈونیشن، صدقات وعطیات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بزرگ شہری ایسے بھی ہوتے ہیں جو سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت سے ریٹائرڈہوتے ہیں ان کو ملنے والی پنشن میں سے وہ کچھ رقم ادارے کو دیتے ہیں جس سے ان کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض بزرگ ایسے ہیں جن کی اولاد انہیں اپنے ساتھ تونہیں رکھ سکتی لیکن وہ ان کی دیکھ بھال اورخوراک کے لئے ماہانہ معقول رقم اداکرتی ہے تاکہ ان کے بزرگوں کا بہترخیال رکھا جاسکے۔
ان اولڈایج ہومز میں 60 سال سے زائدعمرکے بزرگ شہریوں کو رہنے کی اجازت دی جاتی ہے ،اگرکوئی بزرگ شدیدبیماریاکسی مستقل بیماری اورمعذوری کاشکارہوتواسے بھی اولڈایج ہوم میں داخل نہیں کیاجاتا ہے۔اولڈایج ہوم میں رہنے کے لئے ایسے بزرگ شہریوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کی کوئی اولاد،رشتہ دار اوردیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا ہے۔
ڈائریکٹرجنرل سوشل ویلفیئرپنجاب مدثرریاض ملک کہتے ہیں بزرگوں کو محکمہ سوشل ویلفئیر کے زیرانتظام اولڈ ایج ہومز میں ضروری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھاپے میں گھر کے سوا کہیں اور بزرگوں کا قیام المیہ ہے۔ بزرگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ اولڈ ایج ہومز کا مشرقی معاشرے میں تصور افسوسناک ہے۔ پہلے ایسے ہومز صرف مغربی معاشرے میں ملتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کے احترام کیلئے نوجوانوں کی کونسلنگ کی جائے۔آخری عمر میں صرف اپنوں کے پاس قیام ہی سکون بخش ہوتا ہے تاہم بے آسرا بزرگوں کے لئے اولڈ ایج ہومز بہرحال ایک نعمت ہیں۔
لاہورکے قریب رچنا ٹاؤن میں ایک کنال رقبے پرخواجہ سراؤں کے لئے اولڈایج ہوم بنایا گیا تھا جہاں ان کوتمام سہولتیں میسرتھیں۔ خواجہ سراگروعاشی بٹ نے بتایا کہ اولڈایج ہوم بنانے کا بنیادی مقصد ان خواجہ سراؤں کو چھت اور خوراک مہیا کرنا تھا جو زندگی بھر لوگوں کی خوشیوں میں ناچتے گاتے رہے یا پھر بھیک مانگ کرزندگی کے دن گزارتے ہیں مگر آج ان کی خوبصورتی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اب وہ لوگ ناچ گانا بھی نہیں کرسکتے اور زیادہ ترخواجہ سرا مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اوروہ بے سہاراہوچکے ہیں۔
عاشی بٹ کے مطابق اولڈایج ہوم میں 20 رہائشی کمرے بنائے گئے تھے جہاں خواجہ سراایک خاندان کی طرح رہتے اورایک دوسرے کے سکھ، دکھ میں شریک ہوتے۔ ابتدائی طورپر60 خواجہ سراؤں نے رجسٹریشن کروائی تھی لیکن کوروناوبا کے دوران خواجہ سرا اولڈایج ہوم کوچھوڑگئے۔ گروعاشی بٹ نے کہا چندایک خواجہ سراؤں کی علالت اورضعیف عمری کے باعث موت ہوگئی اورچار،پانچ خواجہ سراجوبیمارہیں انہیں اب وہ اندرون شہرمیں واقع اپنی رہائش گاہ پرلے آئی ہیں وہ ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
عاشی بٹ کا کہنا ہے خواجہ سرا عجیب کمیونٹی ہے انہوں نےاپنی اس کمیونٹی کے لئے اپنی زندگی بھرکی جمع پونجی خرچ کردی مگروہ اولڈایج ہوم چھوڑگئے۔ ان کا پروگرام ہے کہ اب وہ اولڈایج ہوم کو خواتین کے ووکیشن اورکمیونٹی سنٹرمیں تبدیل کردیں گی۔
لاہورمیں محکمہ سماجی بہبود سمیت مختلف این جی اوزکے زیرانتطام ایک درجن کے قریب اولڈایج ہوم ہیں جن میں کم وبیش 800 سے زیادہ بزرگ شہری مقیم ہیں تاہم ان اولڈایج ہومزمیں خواجہ سراؤں کورکھنے کاکوئی انتظام نہیں ہے۔ لاہورکے چند بڑے اولڈایج ہومزکی بات کی جائے توان میں پنجاب سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کے زیرانتظام اولڈایج ہوم عافیت سمیت اولڈایج ہیپی ہومزٹاؤن شپ، دارالکفالہ بھٹہ چوک،سینئرسٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان ڈی ایچ اے، ہیون ہومز فیروزپور روڈ ، بنت فاطمہ اولڈایج ہوم، دی سیکنڈ ہوم ،بلقیس ایدھی ہوم اور بحریہ ٹاؤن اوریوحنا آباد میں اقلیتی برادری کا اولڈایج ہوم شامل ہیں۔ان اولڈایج ہومزمیں اس وقت 800 کے قریب بزرگ شہری مقیم ہیں
اولڈایج ہوم میں مقیم بزرگ شہریوں کی خوراک، رہائش اوربیمارہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی اخرات مختلف طریقوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ہیون ہوم اولڈایج ہوم کے سربراہ ڈاکٹرجمیل کے مطابق سب سے بڑا ذریعہ مخیرحضرات کی طرف سے ملنے والی ڈونیشن، صدقات وعطیات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بزرگ شہری ایسے بھی ہوتے ہیں جو سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت سے ریٹائرڈہوتے ہیں ان کو ملنے والی پنشن میں سے وہ کچھ رقم ادارے کو دیتے ہیں جس سے ان کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض بزرگ ایسے ہیں جن کی اولاد انہیں اپنے ساتھ تونہیں رکھ سکتی لیکن وہ ان کی دیکھ بھال اورخوراک کے لئے ماہانہ معقول رقم اداکرتی ہے تاکہ ان کے بزرگوں کا بہترخیال رکھا جاسکے۔
ان اولڈایج ہومز میں 60 سال سے زائدعمرکے بزرگ شہریوں کو رہنے کی اجازت دی جاتی ہے ،اگرکوئی بزرگ شدیدبیماریاکسی مستقل بیماری اورمعذوری کاشکارہوتواسے بھی اولڈایج ہوم میں داخل نہیں کیاجاتا ہے۔اولڈایج ہوم میں رہنے کے لئے ایسے بزرگ شہریوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کی کوئی اولاد،رشتہ دار اوردیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا ہے۔
ڈائریکٹرجنرل سوشل ویلفیئرپنجاب مدثرریاض ملک کہتے ہیں بزرگوں کو محکمہ سوشل ویلفئیر کے زیرانتظام اولڈ ایج ہومز میں ضروری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھاپے میں گھر کے سوا کہیں اور بزرگوں کا قیام المیہ ہے۔ بزرگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ اولڈ ایج ہومز کا مشرقی معاشرے میں تصور افسوسناک ہے۔ پہلے ایسے ہومز صرف مغربی معاشرے میں ملتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کے احترام کیلئے نوجوانوں کی کونسلنگ کی جائے۔آخری عمر میں صرف اپنوں کے پاس قیام ہی سکون بخش ہوتا ہے تاہم بے آسرا بزرگوں کے لئے اولڈ ایج ہومز بہرحال ایک نعمت ہیں۔