شوکیس ہی شوکیس
اس دنیا میں انسان نامی اس چیز کا وجود کب سے ہے لیکن یہ بات وثوق بلکہ حق الیقین کی حد تک کہی جاسکتی ہے
PESHAWAR:
یہ تو وثوق سے نہیں کہاجاسکتاکہ اس دنیا میں انسان نامی اس چیز کا وجود کب سے ہے لیکن یہ بات وثوق بلکہ حق الیقین کی حد تک کہی جاسکتی ہے کہ جب سے ہے تب سے اسے صرف ایک ہی شوق رہاہے، بننااوربنانا۔
خودبھی بنتا رہتاہے اوربہت کچھ بناتا بھی رہتا ہے، بہت کچھ بننے اوربنانے میں کامیاب بھی ہواہے لیکن جس چیز کے بنانے میں ابھی تک ناکام ہے، وہ ہے ''خودکو بندے کاپتر بنانا'' خود کو بادشاہ ،فقیر چور،ڈاکو، عابد، زاہد ،واعظ، ناصح سب کچھ بناتارہا ہے لیکن آخر میں ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے، ''بننا'' کچھ چاہتاہے اوربن جاتا ہے کچھ اور۔
دیکھا جوکوئی اورتھا ،سوچا توکوئی اور
چپ تھا تو کوئی اورتھا بولا تو کوئی اور
وہی بات کہ در ،در پھرا مسافر،گھر کارستہ بھول گیا، جانا چاہتاہے جاپان اورپہنچ جاتاہے چین۔ راستہ عربستان کا پکڑتا ہے اورپہنچ جاتا ہے ترکستان۔ سب کچھ بن جاتاہے،نہیں بنتاتو صرف انسان ۔
صدیوں سے یوں تو ہے یہاں انسان کا وجود
انسان ہم کو کم ہی ملا،کم بہت ہی کم
خیربننے بنانے کے اس چکر میں آج جس مقام پر پہنچاہے یا جو کچھ بنا ہے وہ ہے ''شوکیس'' صدیوں کی محنت کے بعد یہ خود کو ایک ایسا شوکیس بنانے میں کامیابہوا ہے جو باہرتو سب کچھ ''اچھا اچھا''دکھاتا ہے لیکن اس اچھے اچھے کے پیچھے سب''برا، برا'' چھپائے ہوئے رہتاہے ،ہمارے ایک بحرالعلوم قسم کے دانا دانشوردوست نے ایک روزفلسفے، سائنس اورنفسیات کے ساتھ ساتھ عمرانیات کی بھی ٹانگیں توڑتے ہوئے کہا کہ آخر یہ کیاوجہ ہے کہ محبت کی شادیاں اکثر ناکام ہوکر ''طلاق'' میں بدل جاتی ہیں؟
ویسے ہم نے یونہی اس کے لیے اتنے خطابات سوچے ہیں، بحرالعلوم، دانادانشوروغیرہ، اگر صرف ''پاکستانی'' کہہ دیں تو بھی کام چل جائے گا کیوں کہ آج کل ہرپاکستانی کے اندر وہ سارے پاکستانی بیٹھے ہوتے ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں، صرف خودکو نہیں جانتے۔
اس دانادانشور وبحرالعلوم نے بھی یہ سوال اٹھا کر اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت پیش کیا ،ہم نے جواب دینے کی کوشش کی تو پھر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں روک دیا کیوں کہ پاکستانیوں کی ایک خوبی (دس ہزارمیں سے) ایک یہ بھی ہے ۔
خود ہی سوال کیجئے تسلی کے واسطے
خود ہی جواب دینے کی عادت بھی خوب ہے
وہ بولا، محبت کی شادیاں دراصل انسانوں کے درمیان نہیں ہوتیں بلکہ ''شوکیسوں''کے درمیان ہوتی ہیں لیکن جب تنہائی میں دونوں شوکیس ایک دوسرپر کھلتے ہیں تو اچانک بیک وقت دونوں کے منہ سے نکلتاہے ، جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی۔ شوکیس کاتو کام ہی یہ ہے کہ وہ سب چھپائے جو ہوتا ہے اوروہ سب کچھ دکھائے جو نہیں ہوتا۔
ہمارے ایک دوست کے ساتھ تو بہت برا ہوا، وہ شادی کے معاملے میں بہت ''چوزی''بنا پھرتا تھا، کوئی لڑکی اسے پسند نہیں آتی تھی۔ آخر کار بعد ازخرابی بیساراورانتظار کے بعد اسے ایک لڑکی پسند آگئی، بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی، ماڈرن شادی تھی، اس لیے دلہن اوردولہے دونوں نے بیوٹی پارلروں سے خودکوبنوایالیکن سہاگ رات ہی کو فیصلہ طلاق تک پہنچ گیا،دونوں نے ایک دوسرے پر الزام لگایاکہ ہمارے ساتھ دھوکا کیاگیا ہے ،دکھایاکچھ گیاتھا اورملاکچھ اور۔
پہلے زمانوں میں اکثر اس قسم کے دھوکے ہوتے تھے کہ لڑکا یا لڑکی کو تصویرکسی اورکی دکھائی جاتی تھی اورشادی کسی اورسے کرادی جاتی تھی۔لیکن آج شوکیسوں کے دورمیں اس تکلیف کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے، شوکیسوں کے رحجانات جب اترتے ہیں تو ''وہ ''ہوتے ہوئے بھی''وہ'' نہیں ہوتا۔
شوکیسوں کاسلسلہ اب صرف شادی بیاہ تک محدود نہیں رہاہے بلکہ ''شوکیسوپوشی'' اتنی بڑھ گئی ہے کہ صبح اٹھتے ہی ہرکوئی سب سے پہلا کام شوکیس پہننے کاکرتاہے، اس کے بعد کوئی اورکام کرتاہے،ایک پرانا اشتہاری گاناتھا۔پہلے ''بوٹ'' پھر اسکول ۔جب کہ آج کل پہلے شوکیس پھر جاگنا۔آدمی کپڑے بلکہ جانگیہ تک پہننا بھول جائے گا لیکن شوکیس پہننا ہرگز نہیں بھولتا اوریہ شوکیس جب آپس میں ملتے ہیں تو ظاہرہے کہ شوکیس بن کر ہی ملتے ہیں اورشوکیس کا تو کام ہی یہ ہے، اچھا اچھا دکھانا اوربرابرا چھپانا۔ہمارا دعویٰ ہے اوراس دعوے کی تردید کوئی نہیں کرسکتا، آدمی تو کیاکوئی شوکیس بھی اس کی تردید نہیں کر سکتا، کہ انسان نے بننے اوربنانے کی انتہا کرتے ہوئے خود کو شوکیس بناڈالا ہے، مولانا روم نے کہاتھاکہ ...
زدیوودد ملو کم وانسا نم آررزوست
میں ان دیوؤںاوربلاؤں سے دکھی ہوں اور انسان دیکھنے کی آرزورکھتا ہوں اورہم نے صرف اتنا کرنا ہے کہ دیواوردد کی جگہ شوکیس کہنا ہے کہ شوکیسوں سے تنگ آکر انسان دیکھنے کی آرزوکرتا ہے لیکن یہ چھوٹی سی آرزوبھی شائد پوری نہ ہوسکے کیوں کہ شوکیسو ںکے اس میلے میں انسان نہ جانے کہاںکھو گیاہے اورایسا کھوگیا ہے کہ شاید خود کو بھی کبھی نہ ڈھونڈپائے۔
ہرشخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے ہیں
انجانے میں کچھ اورتھا جاناتو کوئی اور
کسی خاص طبقے یاپیشے کی تخصیص نہیں رہی ہے، پہلے بہروپیے لوگ روپ بدلتے تھے یااداکار لوگ ایک خاص وقت پر اداکاری کرتے تھے لیکن اب یہ ایک مستقل کام اورپیشہ بن چکاہے، ہرانسان ہروقت ایک شوکیس پہنے ہوئے ہے، چاہے اس کاتعلق کسی بھی طبقے سے ہو۔مذہبی ،سیاسی، مجلسی، اقتصادی اورنہ جانے کیاکیا شوکیس ہمارے سامنے موجود ہیں اوریہی انسان کی ترقی کی معراج ہے، بننے بنانے کی انتہا۔
یہ تو وثوق سے نہیں کہاجاسکتاکہ اس دنیا میں انسان نامی اس چیز کا وجود کب سے ہے لیکن یہ بات وثوق بلکہ حق الیقین کی حد تک کہی جاسکتی ہے کہ جب سے ہے تب سے اسے صرف ایک ہی شوق رہاہے، بننااوربنانا۔
خودبھی بنتا رہتاہے اوربہت کچھ بناتا بھی رہتا ہے، بہت کچھ بننے اوربنانے میں کامیاب بھی ہواہے لیکن جس چیز کے بنانے میں ابھی تک ناکام ہے، وہ ہے ''خودکو بندے کاپتر بنانا'' خود کو بادشاہ ،فقیر چور،ڈاکو، عابد، زاہد ،واعظ، ناصح سب کچھ بناتارہا ہے لیکن آخر میں ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے، ''بننا'' کچھ چاہتاہے اوربن جاتا ہے کچھ اور۔
دیکھا جوکوئی اورتھا ،سوچا توکوئی اور
چپ تھا تو کوئی اورتھا بولا تو کوئی اور
وہی بات کہ در ،در پھرا مسافر،گھر کارستہ بھول گیا، جانا چاہتاہے جاپان اورپہنچ جاتاہے چین۔ راستہ عربستان کا پکڑتا ہے اورپہنچ جاتا ہے ترکستان۔ سب کچھ بن جاتاہے،نہیں بنتاتو صرف انسان ۔
صدیوں سے یوں تو ہے یہاں انسان کا وجود
انسان ہم کو کم ہی ملا،کم بہت ہی کم
خیربننے بنانے کے اس چکر میں آج جس مقام پر پہنچاہے یا جو کچھ بنا ہے وہ ہے ''شوکیس'' صدیوں کی محنت کے بعد یہ خود کو ایک ایسا شوکیس بنانے میں کامیابہوا ہے جو باہرتو سب کچھ ''اچھا اچھا''دکھاتا ہے لیکن اس اچھے اچھے کے پیچھے سب''برا، برا'' چھپائے ہوئے رہتاہے ،ہمارے ایک بحرالعلوم قسم کے دانا دانشوردوست نے ایک روزفلسفے، سائنس اورنفسیات کے ساتھ ساتھ عمرانیات کی بھی ٹانگیں توڑتے ہوئے کہا کہ آخر یہ کیاوجہ ہے کہ محبت کی شادیاں اکثر ناکام ہوکر ''طلاق'' میں بدل جاتی ہیں؟
ویسے ہم نے یونہی اس کے لیے اتنے خطابات سوچے ہیں، بحرالعلوم، دانادانشوروغیرہ، اگر صرف ''پاکستانی'' کہہ دیں تو بھی کام چل جائے گا کیوں کہ آج کل ہرپاکستانی کے اندر وہ سارے پاکستانی بیٹھے ہوتے ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں، صرف خودکو نہیں جانتے۔
اس دانادانشور وبحرالعلوم نے بھی یہ سوال اٹھا کر اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت پیش کیا ،ہم نے جواب دینے کی کوشش کی تو پھر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں روک دیا کیوں کہ پاکستانیوں کی ایک خوبی (دس ہزارمیں سے) ایک یہ بھی ہے ۔
خود ہی سوال کیجئے تسلی کے واسطے
خود ہی جواب دینے کی عادت بھی خوب ہے
وہ بولا، محبت کی شادیاں دراصل انسانوں کے درمیان نہیں ہوتیں بلکہ ''شوکیسوں''کے درمیان ہوتی ہیں لیکن جب تنہائی میں دونوں شوکیس ایک دوسرپر کھلتے ہیں تو اچانک بیک وقت دونوں کے منہ سے نکلتاہے ، جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی۔ شوکیس کاتو کام ہی یہ ہے کہ وہ سب چھپائے جو ہوتا ہے اوروہ سب کچھ دکھائے جو نہیں ہوتا۔
ہمارے ایک دوست کے ساتھ تو بہت برا ہوا، وہ شادی کے معاملے میں بہت ''چوزی''بنا پھرتا تھا، کوئی لڑکی اسے پسند نہیں آتی تھی۔ آخر کار بعد ازخرابی بیساراورانتظار کے بعد اسے ایک لڑکی پسند آگئی، بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی، ماڈرن شادی تھی، اس لیے دلہن اوردولہے دونوں نے بیوٹی پارلروں سے خودکوبنوایالیکن سہاگ رات ہی کو فیصلہ طلاق تک پہنچ گیا،دونوں نے ایک دوسرے پر الزام لگایاکہ ہمارے ساتھ دھوکا کیاگیا ہے ،دکھایاکچھ گیاتھا اورملاکچھ اور۔
پہلے زمانوں میں اکثر اس قسم کے دھوکے ہوتے تھے کہ لڑکا یا لڑکی کو تصویرکسی اورکی دکھائی جاتی تھی اورشادی کسی اورسے کرادی جاتی تھی۔لیکن آج شوکیسوں کے دورمیں اس تکلیف کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے، شوکیسوں کے رحجانات جب اترتے ہیں تو ''وہ ''ہوتے ہوئے بھی''وہ'' نہیں ہوتا۔
شوکیسوں کاسلسلہ اب صرف شادی بیاہ تک محدود نہیں رہاہے بلکہ ''شوکیسوپوشی'' اتنی بڑھ گئی ہے کہ صبح اٹھتے ہی ہرکوئی سب سے پہلا کام شوکیس پہننے کاکرتاہے، اس کے بعد کوئی اورکام کرتاہے،ایک پرانا اشتہاری گاناتھا۔پہلے ''بوٹ'' پھر اسکول ۔جب کہ آج کل پہلے شوکیس پھر جاگنا۔آدمی کپڑے بلکہ جانگیہ تک پہننا بھول جائے گا لیکن شوکیس پہننا ہرگز نہیں بھولتا اوریہ شوکیس جب آپس میں ملتے ہیں تو ظاہرہے کہ شوکیس بن کر ہی ملتے ہیں اورشوکیس کا تو کام ہی یہ ہے، اچھا اچھا دکھانا اوربرابرا چھپانا۔ہمارا دعویٰ ہے اوراس دعوے کی تردید کوئی نہیں کرسکتا، آدمی تو کیاکوئی شوکیس بھی اس کی تردید نہیں کر سکتا، کہ انسان نے بننے اوربنانے کی انتہا کرتے ہوئے خود کو شوکیس بناڈالا ہے، مولانا روم نے کہاتھاکہ ...
زدیوودد ملو کم وانسا نم آررزوست
میں ان دیوؤںاوربلاؤں سے دکھی ہوں اور انسان دیکھنے کی آرزورکھتا ہوں اورہم نے صرف اتنا کرنا ہے کہ دیواوردد کی جگہ شوکیس کہنا ہے کہ شوکیسوں سے تنگ آکر انسان دیکھنے کی آرزوکرتا ہے لیکن یہ چھوٹی سی آرزوبھی شائد پوری نہ ہوسکے کیوں کہ شوکیسو ںکے اس میلے میں انسان نہ جانے کہاںکھو گیاہے اورایسا کھوگیا ہے کہ شاید خود کو بھی کبھی نہ ڈھونڈپائے۔
ہرشخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے ہیں
انجانے میں کچھ اورتھا جاناتو کوئی اور
کسی خاص طبقے یاپیشے کی تخصیص نہیں رہی ہے، پہلے بہروپیے لوگ روپ بدلتے تھے یااداکار لوگ ایک خاص وقت پر اداکاری کرتے تھے لیکن اب یہ ایک مستقل کام اورپیشہ بن چکاہے، ہرانسان ہروقت ایک شوکیس پہنے ہوئے ہے، چاہے اس کاتعلق کسی بھی طبقے سے ہو۔مذہبی ،سیاسی، مجلسی، اقتصادی اورنہ جانے کیاکیا شوکیس ہمارے سامنے موجود ہیں اوریہی انسان کی ترقی کی معراج ہے، بننے بنانے کی انتہا۔