تعلیمی سفر میں فیڈبیک کی اہمیت

طلبا کی خراب کارکردگی میں صرف وہی نہیں بلکہ اساتذہ بھی برابر کے قصوروار ہوسکتے ہیں


زین الملوک April 22, 2022
فیڈبیک دینا اساتذہ پر فرض اور طلبا کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

کسی بھی چیز یا شخص کے بارے میں رائے دینا جتنا آسان کام ہے اُتنا ہی مشکل کام اُس کی وضاحت کرنا ہے۔ کیونکہ جب وضاحت دی جاتی ہے تو اس کے حُسن و قُبح، دونوں کو مدلل اور شائستہ انداز میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں کون سی چیز بہت اچھی ہے، کون سی چیز ایسی تھی جس کا ہونا ضروری تھا اور ایسی کون سی صورتیں ہیں جن میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔

اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ 'یہ بہت اچھا ہے' یا 'یہ بہت برا ہے' یا 'یہ بس صحیح ہے' تو کیا بات بن جائے گی؟ یقیناً نہیں۔ رائے یا فیڈ بیک دینا ہر معاملے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر تعلیمی میدان کی بات کی جائے تو اُس رائے پر ایک طالبِ علم کے پورے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر ایک طالب علم کا نتیجہ اُس کو یہ کہتے ہوئے دیا جائے کہ تم پاس ہوگئے تو اتنا کافی ہوگا؟ یا پھر اس بارے میں بات کی جائے کہ کیا خوبی تھی، کیا کمی تھی، کیا بہتری کی گنجائش ہے، وغیرہ، وغیرہ۔

فیڈ بیک دینا بہت اہم مگر حساس کام ہے۔ اساتذہ کی مثبت رائے طلبا کو صحیح سمت میں ڈال سکتی ہے اور اگر یہی رائے منفی انداز میں دی جائے تو اُنھیں توڑ کر اندر سے کھوکھلا بھی کرسکتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ طلبا یا اُن کے والدین کے سامنے بجائے کمزور پہلوؤں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور کاپی یا امتحانی پرچے پر صحیح یا غلط کی علامات لگانے کے، اُن کی اچھی صلاحیتوں پر بات کریں اور اُن صلاحیتوں کو مزید نکھارتے ہوئے نسبتاً کمزور پہلوؤں کو کیسے بہتر کرسکتے ہیں، ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔

فیڈبیک دینا اساتذہ پر فرض اور طلبا کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ طلبا ہر شعبے میں کمزور ہوں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ جب بھی طلبا یا اُن کے والدین سے بات کریں تو مثبت چیزوں سے گفتگو کا آغاز کریں۔ صاف تعمیم (sweeping generalisation) یعنی 'بہت اچھا طالبِ علم ہے'، 'قابل بچی ہے'، 'پورے نمبر لیے ہیں' جیسے کلمات سے گریز کرتے ہوئے یہ بتائیں کہ وہ کیوں 'اچھا بچہ' ہے، کون سی چیزیں اُسے 'قابل' بنانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں اور وہ کون سے اقدامات تھے جن سے اُس کے 'پورے نمبر' آئے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ طالب ِعلم کو اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہو اور وہ مزید بہتر کارکردگی دکھا سکے۔ اس کی مثال یوں دے سکتے ہیں کہ فُلاں سوال کے جواب میں مطلوبہ تمام تفاصیل ترتیب سے درج کی ہیں، اس لیے پورے نمبر حاصل کیے۔ دوسری مثال یہ ہوسکتی ہے: پچھلے ہفتے تقریری مقابلے میں انتہائی مدلل انداز میں اپنا پیغام حاضرین تک پہنچا کر خوب داد وصول کی۔

طلبا اکثر غلطیاں کرتے ہیں اور غلطیاں سیکھنے کے عمل کا لازمی حصہ ہیں۔ غلطیاں نہیں کریں گے تو سیکھیں گے کیسے؟ تاہم! غلطیوں پر صرف غلط کا نشان لگانے یا 'غلط لکھا ہے' یا 'جواب غلط ہے' کہنے یا لکھنے کے بجائے یہ واضح کیا جائے کہ وہ کیوں غلط ہے۔ مزید یہ کہ طلبا کو سوچنے اور فیصلہ کرنے کی درست سمت کا تعین کروانا انتہائی ضروری ہے تاکہ سیکھنے کے عمل میں آسانی سے آگے بڑھنے میں مدد ملے۔ مثلاً: طلبا نظامِ تنفس کے عمل کو بیان کرنے میں اگر پھیپھڑوں کے کردار کو درست انداز میں نہیں لکھ سکے ہیں تو اساتذہ اُن کی رہنمائی کرسکتے ہیں کہ پھیپھڑوں کا کیا کردار ہے، اُنھیں ضبطِ تحریر میں لانا کیوں ضروری ہے اور کیسے لا سکتے ہیں۔

اساتذہ جب طلبا کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کرتے ہیں تو وہ بچوں کے اذہان پر نقش ہوجاتا ہے اور اگر فیصلہ مثبت نہ ہو تو طلبا کی روح کو گھائل کردیتا ہے۔ نتیجتاً تعلم کا عمل بری طرح متأثر ہوتا ہے اور اکثر طلبا مستقبل میں اچھے شہری کی خصوصیات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اساتذہ کو چاہیے کہ طلبا اور اُن کے والدین کے سامنے دوستانہ ماحول میں سیکھنے کے عمل پر مثبت انداز میں بات چیت کریں۔ اس گفتگو کا محور طلبا کے سیکھنے کا عمل یا کارکردگی ہونا چاہیے نہ کہ ایک طالبِ علم کی شخصیت۔ اگر اساتذہ تعلم کے عمل کو چھوڑ کر طالبِ علم کی شخصیت پر تنقید کریں گے تو اس کا طالب علم کی شخصیت پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔

یاد رکھیے طلبا کی تعلیم میں خراب کارکردگی صرف ان کی اپنی وجہ سے نہیں بلکہ اساتذہ بھی برابر کے قصوروار ہوسکتے ہیں۔

اساتذہ کو یہ بھی چاہیے کہ وہ طلبا کو اپنی کارکردگی اور اساتذہ کے فیڈبیک پر سوالات کرنے اور مختلف امور پر غور و خوض کرنے کے مواقع اور حوصلہ افزائی بھی فرمائیں، تاکہ اچھی کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود بھی طلبا کا اعتماد متزلزل نہ ہو۔ نتیجتاً وہ اپنی بہتری کےلیے خود سے منصوبہ بندی کرنے اور دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل ہوجائیں۔

اگر طلبا کی کارکردگی کسی ٹیسٹ یا مضمون میں مطلوبہ توقع کے برعکس ہے تو اساتذہ کو چاہیے کہ ایسے طلبا کے ساتھ باقاعدہ شیڈول کے مطابق مسلسل رابطہ جاری رکھیں تاکہ طلبا کے تعلیمی سفر میں مطلوبہ اہداف کا حصول اچھے اور مسلسل انداز میں ممکن ہوسکے۔ صرف ایک بار بتانے سے شاید مثبت نتائج حاصل نہ ہوسکیں جو کہ اساتذہ اپنے طلبا سے توقع کرتے ہیں۔ اس لیے سیکھنے کے اس سفر میں طلبا کی مسلسل رہنمائی انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ عموماً طلبا خراب کارکردگی پر ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو تنہا سمجھنے لگتے ہیں۔ اُس تناؤ سے طلبا کو نکالنے کےلیے اساتذہ کا طلبا کے ساتھ مسلسل رابطہ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

فیڈبیک نہ دینا یا بہت دیر سے فیڈبیک دینا دونوں ہی بے سود ہیں۔ مثلاً کسی حریف سے بیت بازی کا مقابلہ جیتنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ طلبا کو فیڈبیک کی ضرورت نہیں ہے۔ بہتری کی گنجائش ہر جگہ ہوتی ہے اس لیے طلبا کو ان کی کارکردگی کے بارے میں مخلص رائے دینا ازحد ضروری ہے۔ اسی طرح اگر کسی ہوم ورک کو اساتذہ چیک ہی نہ کریں یا چیک کرکے صرف دستخط کرنے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ لہٰذا بروقت فیڈبیک دینا اور مثبت انداز میں طلبا کو تجاویز دینا طلبا اور معاشرے دونوں کےلیے انتہائی اہم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔