مشکل ہے بہت مشکل
مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے اگر صرف دال روٹی سستی ملنے لگے تو ہم سُکھ کا سانس لیں گے
TOKYO:
دو دن پہلے اسلام آباد کے نواح میں ایک جاننے والے سے مل کر واپس آ رہا تھا تو ایک آدمی نے لفٹ لینے کا اشارہ کیا۔جب سے پاکستان کو دہشت گردی نے لپیٹ میں لیا ہے،کسی انجان کو گاڑی میں بٹھانا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے پہلو تہی میں ہی عافیت اور عقلمندی ہے لیکن تیز دھوپ،رمضان المبارک کا مہینہ اس لیے احتیاط کا دامن چھوڑ کر لفٹ مانگنے والے کو بٹھا لیا۔راستے میں وہ بتانے لگا کہ اس طرف کوئی بس یا ویگن نہیں آتی اور رمضان کے دنوں میں روزہ رکھ کر دھوپ میں پیدل چلنا بہت کٹھن ہے۔
اس نے کہا کہ وہ بیس بائیس کلو میٹر دور سبزی فروٹ کی دکان پر یومیہ اجرت پر کام کرنے کے لیے آتا ہے اور سات آٹھ سو روپے مل جاتے ہیں۔پاکستان میں چونکہ حالیہ دنوں میں حکومت تبدیل ہوئی ہے اس لیے مجھ سے پوچھنے لگا کہ صاحب کیا یہ نئی حکومت غریبوں کی طرف بھی کوئی توجہ دے گی۔پھر خود ہی کہنے لگا کہ مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے،اگر صرف دال روٹی سستی ملنے لگے تو ہم سُکھ کا سانس لیں گے۔
جناب شہباز شریف صاحب ایک ایسے وقت برسرِ اقتدار آئے ہیں جب پاکستان میں مہنگائی زوروں پر ہے۔جناب شہباز شریف کی حکومت ایک کولیشن حکومت ہے جس میں درجن بھر سیاسی پارٹیاں شامل ہیں، گویا آپ اسے بھان متی کا ایک کنبہ کہہ سکتے ہیں۔ان سب پارٹیوں کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔
سب نے مل کر اپنا پہلا مشترکہ ہدف یعنی جناب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ تو حاصل کر لیا ہے لیکن لگتاہے کہ اس سے آگے کوئی مشترکہ ایجنڈا نہیں ہے۔یہ بھی نظر آتا ہے کہ جناب آصف علی زردای صاحب اس سارے کھیل کے معمار ہیں۔
اس بات کا جناب زرداری نے برملا اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ہی جناب شہباز شریف کو راضی کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سردار اختر مینگل،جناب مگسی ،جناب شاہ زین بگتی اور دوسرے بلوچ رہنماؤں بشمول اے این پی کو انھوں نے ہی اپوزیشن کے ساتھ ایک لڑی میں پرویا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والی ہے۔تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی سے ان کا سیاسی قد کاٹھ خاصا بڑھا ہے لیکن کولیشن میں شامل دونوں پارٹیوں،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو علیحدہ دھاروں میں بہنے والے دریا ہیں۔
دونوں کے سیاسی نظریات میں بہت بُعد ہے حالانکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب پاکستان میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتی ہو۔ن لیگ اور پی پی پی دو علیحدہ دھارے ہوتے ہوئے باہم مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہ سکتے ہیں لیکن عملی سیاست میں ان کا اکٹھا رہنا بہت مشکل ہے۔مخلوط حکومت میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے۔ایم کیو ایم کے ماضی پر کئی سوالیہ نشانات ہیں۔
ایم کیو ایم نے عروس البلاد کراچی کے باسیوں کو بیشمار مسائل دیے۔ایم کیو ایم صرف اسی صورت میں نئی حکومت کے قدم بقدم چل سکتی ہے اگر یہ Exploitationکی سیاست کو خیرباد کہہ کر قومی دھارے میں شامل ہو جائے۔جناب اختر مینگل صاحب چاغی کے افسوسناک واقعے پر بہت خفا ہیں اور پی پی پی ابھی سے کچھ عہدوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔کیا نئی مخلوط حکومت ان تمام چیلنجز سے عہدہ برآ ہو پائے گی۔اتنی ساری مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کو متحد رکھنا جناب شہباز شریف کے لیے ممکن ہوگا،یہ بہت ہی مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔
موجودہ مخلوط حکومت ایک ایسے وقت میں برسرِ اقتدار آئی ہے جب روس،یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی عالمی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ تیل مہنگا ہونے سے مہنگائی کا ایک سیلاب آتا ہے۔ جناب عمران خان کی حکومت نے چند ہفتوں سے ایک سیاسی مصلحت کے طور پر تیل کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا۔موجودہ حکومت کے آتے ہی اوگرا نے تیل کی قیمتوں میں ایک ہی جست میں ہوشربا اضافے کے لیے سفارش کر دی۔
وزیرِ اعظم نے بہت سمجھداری سے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اتفاق نہیں کیا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ روس،یوکرین جنگ ابھی جاری ہے۔ایران کا یورپ اور امریکا سے نیوکلر معاہدہ ابھی تک ہوا نہیں۔لہٰذا روس اور ایران کا تیل منڈی میں نہ آنے سے تیل کی قیمتوں میںکمی اور ٹھہراؤ آنا مشکل ہے۔آج یا کل حکومت کوتیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا ناپسندیدہ اور مشکل فیصلہ کر نا پڑے گا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔عام آدمی کی زندگی مزید مشکل سے دوچار ہو گی اور نوزائیدہ حکومت عوام کی ناراضی سمیٹے گی۔
جناب عمران خان کی ذات میں ایک کشش ہے۔وہ پاکستان کے ایک مخصوص کلچر کے حامل خوشحال طبقے کے مرد وخواتین اور نوجوانوں کے بہت مقبول لیڈر ہیں۔ان کے مشکل اور ناپسندیدہ اقدامات کو ان کے چاہنے والے ہنس کر سہہ لیتے ہیں بلکہ بہت Agressiveمیڈیا کمپین کے ذریعے ان اقدامات کو جائز بھی ٹھہرا لیتے ہیں جب کہ نئی مخلوط حکومت کو یہ Advantageحاصل نہیں ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو کاروباری مڈل کلاس، نان گزٹیڈ سرکاری ملازمین ،درمیانے درجے کے کاشتکار اور مزدور طبقات کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ طبقات فوری ریلیف چاہتے ہیں اور مہنگائی میں کمی کے خواہش مند ہیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں ذرا سی مہنگائی کو جناب عمران خان کی انتہائی سرگرم میڈیا ٹیم بہت exploitکرے گی ، کیونکہ عمران خان کی حامی کلاس کو آٹے دال ، گھی ، سبزی وغیرہ کی مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن مزید مہنگائی عوام کو بہت گراں گزرے گی۔بجٹ سر پر ہے۔ وسائل بہت کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں۔آئی ایم ایف سے مذاکرات ابھی شروع ہوئے ہیں اور نہیں معلوم کہ مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
وزارتِ خزانہ نے بجٹ Exercise پہلے ہی مکمل کر لی ہو گی اور جو بھی آیندہ کے لیے تجاویز منظور ہوئی ہوں گی وہ پچھلی ایڈمنسٹریشن کی ترجیحات کی روشنی میں پروان چڑھی ہوں گی۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری قومی آمدن ہمارے اخراجات سے کہیں کم ہے ایسے میں ڈیٹ سروسنگDebt servicingاور ڈیفنس کی ضروریات پورا کرنے کے بعد عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ایک ایسا بجٹ جو ملک کی ترقی کا ضامن بھی ہواور عوام کو ریلیف دینے میں بھی کامیاب ہو ،ایک ایسا بجٹ جو پاکستانی عوام کے ہونٹوں پر تبسم بکھیر سکے،کیا ایسا بجٹ بنانا بہت مشکل نہیں ہو گا۔
جناب عمران خان کی میڈیا ٹیم بہت مضبوط اور سرگرم ہے۔وہ سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی بے پناہ مقبولیت بھی اسی میڈیا ٹیم کی بدولت ہے۔ان کے چاہنے والے ہر سوشل گروپ میں سرگرم ہیں۔ساڑھے تین سال کے عرصے میں ان کی حکومتی ٹیم بہت نا اہل افراد پر مشتمل رہی ہے۔
ان کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن ان کی بے پناہ سرگرم میڈیا ٹیم اور ان کے لورز کی وجہ سے آج ان کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔جب ان کی حکومت جا رہی تھی تو انھوں نے اپنے خلاف سازش کا نعرہ لگایا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی میڈیا ٹیم نے یہ نعرہ کامیابی سے چار سُوپھیلا دیا حالانکہ ہر کوئی اپنے دل میں جانتا ہے کہ کوئی سازش نہیں بلکہ ایک سیدھی سادی عدم اعتماد کی تحریک تھی جو کامیاب ہوئی۔ نئی مخلوط حکومت کو یہ بہت بڑا Disadvantage ہوگا کہ حکومتی میڈیا ٹیم کو جناب عمران خان کی انتہائی متحرک اور charged میڈیا کا سامناہو گا۔پچھلے چند دنوں کو دیکھا جائے تو یہ بازی جناب عمران خان نے جیتی ہے۔حکومت کی مشکلات میں یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کی اصلی محرک پاکستان پیپلز پارٹی تھی لیکن پی پی پی نے جناب شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بنا کر آگے کر دیا۔پی پی پی اقتدار انجوائے کرے گی،بہت سی وزارتوں کے علاوہ کئی آئینی مناصب بھی لے گی لیکن کسی بھی ناکامی کی صورت میں سارا ملبہ شہباز شریف اور ن لیگ پر ڈال دیا جائے گا۔چاغی کے واقعے پر جناب اختر مینگل صاحب پہلے ہی سیخ پا ہیں۔انھوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کوئی بھی وزارت لینے سے پہلو تہی کی ہے۔
اس طرح کے بے شمار Irritants ابھرتے رہیں گے جو جناب شہباز شریف کا کافی وقت لیں گے اور یکسوئی سے کام نہیں کرنے دیں گے۔وفاق میں جناب شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد جناب حمزہ شہباز کا پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ کے طور پر آنا خاصا غیر مقبول فیصلہ ہے ۔وزیرِ اعظم کا منصب پی پی پی،جے یو آئی یا کسی اور پارٹی کے پلڑے میں ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔گویا نئی مخلوط حکومت کو مشکلات ہی مشکلات درپیش ہیں۔صرف اور صرف بہترین کارکردگی سے عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور یہ بہت مشکل ضرور ہے نا ممکن ہر گز نہیں۔
دو دن پہلے اسلام آباد کے نواح میں ایک جاننے والے سے مل کر واپس آ رہا تھا تو ایک آدمی نے لفٹ لینے کا اشارہ کیا۔جب سے پاکستان کو دہشت گردی نے لپیٹ میں لیا ہے،کسی انجان کو گاڑی میں بٹھانا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے پہلو تہی میں ہی عافیت اور عقلمندی ہے لیکن تیز دھوپ،رمضان المبارک کا مہینہ اس لیے احتیاط کا دامن چھوڑ کر لفٹ مانگنے والے کو بٹھا لیا۔راستے میں وہ بتانے لگا کہ اس طرف کوئی بس یا ویگن نہیں آتی اور رمضان کے دنوں میں روزہ رکھ کر دھوپ میں پیدل چلنا بہت کٹھن ہے۔
اس نے کہا کہ وہ بیس بائیس کلو میٹر دور سبزی فروٹ کی دکان پر یومیہ اجرت پر کام کرنے کے لیے آتا ہے اور سات آٹھ سو روپے مل جاتے ہیں۔پاکستان میں چونکہ حالیہ دنوں میں حکومت تبدیل ہوئی ہے اس لیے مجھ سے پوچھنے لگا کہ صاحب کیا یہ نئی حکومت غریبوں کی طرف بھی کوئی توجہ دے گی۔پھر خود ہی کہنے لگا کہ مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے،اگر صرف دال روٹی سستی ملنے لگے تو ہم سُکھ کا سانس لیں گے۔
جناب شہباز شریف صاحب ایک ایسے وقت برسرِ اقتدار آئے ہیں جب پاکستان میں مہنگائی زوروں پر ہے۔جناب شہباز شریف کی حکومت ایک کولیشن حکومت ہے جس میں درجن بھر سیاسی پارٹیاں شامل ہیں، گویا آپ اسے بھان متی کا ایک کنبہ کہہ سکتے ہیں۔ان سب پارٹیوں کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔
سب نے مل کر اپنا پہلا مشترکہ ہدف یعنی جناب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ تو حاصل کر لیا ہے لیکن لگتاہے کہ اس سے آگے کوئی مشترکہ ایجنڈا نہیں ہے۔یہ بھی نظر آتا ہے کہ جناب آصف علی زردای صاحب اس سارے کھیل کے معمار ہیں۔
اس بات کا جناب زرداری نے برملا اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ہی جناب شہباز شریف کو راضی کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سردار اختر مینگل،جناب مگسی ،جناب شاہ زین بگتی اور دوسرے بلوچ رہنماؤں بشمول اے این پی کو انھوں نے ہی اپوزیشن کے ساتھ ایک لڑی میں پرویا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والی ہے۔تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی سے ان کا سیاسی قد کاٹھ خاصا بڑھا ہے لیکن کولیشن میں شامل دونوں پارٹیوں،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو علیحدہ دھاروں میں بہنے والے دریا ہیں۔
دونوں کے سیاسی نظریات میں بہت بُعد ہے حالانکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب پاکستان میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتی ہو۔ن لیگ اور پی پی پی دو علیحدہ دھارے ہوتے ہوئے باہم مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہ سکتے ہیں لیکن عملی سیاست میں ان کا اکٹھا رہنا بہت مشکل ہے۔مخلوط حکومت میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے۔ایم کیو ایم کے ماضی پر کئی سوالیہ نشانات ہیں۔
ایم کیو ایم نے عروس البلاد کراچی کے باسیوں کو بیشمار مسائل دیے۔ایم کیو ایم صرف اسی صورت میں نئی حکومت کے قدم بقدم چل سکتی ہے اگر یہ Exploitationکی سیاست کو خیرباد کہہ کر قومی دھارے میں شامل ہو جائے۔جناب اختر مینگل صاحب چاغی کے افسوسناک واقعے پر بہت خفا ہیں اور پی پی پی ابھی سے کچھ عہدوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔کیا نئی مخلوط حکومت ان تمام چیلنجز سے عہدہ برآ ہو پائے گی۔اتنی ساری مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کو متحد رکھنا جناب شہباز شریف کے لیے ممکن ہوگا،یہ بہت ہی مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔
موجودہ مخلوط حکومت ایک ایسے وقت میں برسرِ اقتدار آئی ہے جب روس،یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی عالمی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ تیل مہنگا ہونے سے مہنگائی کا ایک سیلاب آتا ہے۔ جناب عمران خان کی حکومت نے چند ہفتوں سے ایک سیاسی مصلحت کے طور پر تیل کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا۔موجودہ حکومت کے آتے ہی اوگرا نے تیل کی قیمتوں میں ایک ہی جست میں ہوشربا اضافے کے لیے سفارش کر دی۔
وزیرِ اعظم نے بہت سمجھداری سے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اتفاق نہیں کیا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ روس،یوکرین جنگ ابھی جاری ہے۔ایران کا یورپ اور امریکا سے نیوکلر معاہدہ ابھی تک ہوا نہیں۔لہٰذا روس اور ایران کا تیل منڈی میں نہ آنے سے تیل کی قیمتوں میںکمی اور ٹھہراؤ آنا مشکل ہے۔آج یا کل حکومت کوتیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا ناپسندیدہ اور مشکل فیصلہ کر نا پڑے گا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔عام آدمی کی زندگی مزید مشکل سے دوچار ہو گی اور نوزائیدہ حکومت عوام کی ناراضی سمیٹے گی۔
جناب عمران خان کی ذات میں ایک کشش ہے۔وہ پاکستان کے ایک مخصوص کلچر کے حامل خوشحال طبقے کے مرد وخواتین اور نوجوانوں کے بہت مقبول لیڈر ہیں۔ان کے مشکل اور ناپسندیدہ اقدامات کو ان کے چاہنے والے ہنس کر سہہ لیتے ہیں بلکہ بہت Agressiveمیڈیا کمپین کے ذریعے ان اقدامات کو جائز بھی ٹھہرا لیتے ہیں جب کہ نئی مخلوط حکومت کو یہ Advantageحاصل نہیں ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو کاروباری مڈل کلاس، نان گزٹیڈ سرکاری ملازمین ،درمیانے درجے کے کاشتکار اور مزدور طبقات کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ طبقات فوری ریلیف چاہتے ہیں اور مہنگائی میں کمی کے خواہش مند ہیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں ذرا سی مہنگائی کو جناب عمران خان کی انتہائی سرگرم میڈیا ٹیم بہت exploitکرے گی ، کیونکہ عمران خان کی حامی کلاس کو آٹے دال ، گھی ، سبزی وغیرہ کی مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن مزید مہنگائی عوام کو بہت گراں گزرے گی۔بجٹ سر پر ہے۔ وسائل بہت کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں۔آئی ایم ایف سے مذاکرات ابھی شروع ہوئے ہیں اور نہیں معلوم کہ مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
وزارتِ خزانہ نے بجٹ Exercise پہلے ہی مکمل کر لی ہو گی اور جو بھی آیندہ کے لیے تجاویز منظور ہوئی ہوں گی وہ پچھلی ایڈمنسٹریشن کی ترجیحات کی روشنی میں پروان چڑھی ہوں گی۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری قومی آمدن ہمارے اخراجات سے کہیں کم ہے ایسے میں ڈیٹ سروسنگDebt servicingاور ڈیفنس کی ضروریات پورا کرنے کے بعد عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ایک ایسا بجٹ جو ملک کی ترقی کا ضامن بھی ہواور عوام کو ریلیف دینے میں بھی کامیاب ہو ،ایک ایسا بجٹ جو پاکستانی عوام کے ہونٹوں پر تبسم بکھیر سکے،کیا ایسا بجٹ بنانا بہت مشکل نہیں ہو گا۔
جناب عمران خان کی میڈیا ٹیم بہت مضبوط اور سرگرم ہے۔وہ سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی بے پناہ مقبولیت بھی اسی میڈیا ٹیم کی بدولت ہے۔ان کے چاہنے والے ہر سوشل گروپ میں سرگرم ہیں۔ساڑھے تین سال کے عرصے میں ان کی حکومتی ٹیم بہت نا اہل افراد پر مشتمل رہی ہے۔
ان کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن ان کی بے پناہ سرگرم میڈیا ٹیم اور ان کے لورز کی وجہ سے آج ان کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔جب ان کی حکومت جا رہی تھی تو انھوں نے اپنے خلاف سازش کا نعرہ لگایا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی میڈیا ٹیم نے یہ نعرہ کامیابی سے چار سُوپھیلا دیا حالانکہ ہر کوئی اپنے دل میں جانتا ہے کہ کوئی سازش نہیں بلکہ ایک سیدھی سادی عدم اعتماد کی تحریک تھی جو کامیاب ہوئی۔ نئی مخلوط حکومت کو یہ بہت بڑا Disadvantage ہوگا کہ حکومتی میڈیا ٹیم کو جناب عمران خان کی انتہائی متحرک اور charged میڈیا کا سامناہو گا۔پچھلے چند دنوں کو دیکھا جائے تو یہ بازی جناب عمران خان نے جیتی ہے۔حکومت کی مشکلات میں یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کی اصلی محرک پاکستان پیپلز پارٹی تھی لیکن پی پی پی نے جناب شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بنا کر آگے کر دیا۔پی پی پی اقتدار انجوائے کرے گی،بہت سی وزارتوں کے علاوہ کئی آئینی مناصب بھی لے گی لیکن کسی بھی ناکامی کی صورت میں سارا ملبہ شہباز شریف اور ن لیگ پر ڈال دیا جائے گا۔چاغی کے واقعے پر جناب اختر مینگل صاحب پہلے ہی سیخ پا ہیں۔انھوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کوئی بھی وزارت لینے سے پہلو تہی کی ہے۔
اس طرح کے بے شمار Irritants ابھرتے رہیں گے جو جناب شہباز شریف کا کافی وقت لیں گے اور یکسوئی سے کام نہیں کرنے دیں گے۔وفاق میں جناب شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد جناب حمزہ شہباز کا پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ کے طور پر آنا خاصا غیر مقبول فیصلہ ہے ۔وزیرِ اعظم کا منصب پی پی پی،جے یو آئی یا کسی اور پارٹی کے پلڑے میں ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔گویا نئی مخلوط حکومت کو مشکلات ہی مشکلات درپیش ہیں۔صرف اور صرف بہترین کارکردگی سے عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور یہ بہت مشکل ضرور ہے نا ممکن ہر گز نہیں۔